نئے صوبوں کا شور

پاکستان میں اس وقت موجود پانچ صوبے اور فاٹا و آزاد کشمیر کے الحاقی علاقے شامل ہیں۔



ملک میں نئے صوبوں کا قیام ایک انتہائی حساس اور اشتعال انگیز بحث کا موضوع بنتا جا رہا ہے۔ سیاستدانوں کے لیے نئے صوبے بنانے کی لفظی حمایت کرنا آسان ہے لیکن درحقیقت پاکستان میں نئے صوبے بنانا انتہائی کٹھن اور ناممکن معاملات میں شامل ہے۔

ایک مرتبہ اگر یہ جن نکل آیا تو پھر اسے دوبارہ بوتل میں بند کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ اب تک دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ الیکشن قریب آتے ہی کچھ سیاستدانوںکی جانب سے اس موضوع کو اچھالا جاتا ہے اور پھر عوام کے سینٹی منٹس سے کھیل کر ووٹ حاصل کیے جاتے ہیں اور پھر انتخابات کے بعد کوئی نیا اشو اُٹھا کر اس معاملے کو دبا دیا جاتا ہے۔ لیکن گروہی مفادات رکھنے والے ان کم اندیش سیاستدانوں کی لگائی ہوئی آگ ملک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے جسکے شعلے ملک بھر کو جھلسا رہے ہیں جو عوام کے درمیان نفرتوں کا باعث اور ملک کے استحکام کو دن بہ دن کمزور کیے جارہے ہیں۔

وقتی طور پر پھیلائے گئے اس حساس ایشو کے نتیجے میں ملک صوبائیت، لسانیت کے ساتھ ساتھ مذہبی و فرقہ وارانہ بنیادوں میں تقسیم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ یہ معاملہ اچانک پھر اس شدت سے کیوں موضوع ِ گردش ہے۔ اس کے لیے خطے کی تاریخ اور معاشرت و جغرافیائی ترتیب کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے جب کہ نئے صوبے بنانے کے لیے جذبات کی آندھی پر سوار ہوکر حل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ خدانخواستہ دنیا کے نقشے پر نجانے کتنی نئی لکیریں کھنچ جانے کا اندیشہ ہے۔

گزشتہ 2 صدیوں کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ان سرحدی لکیروں کے اثرات اکثر و بیشتر منفی ہی مرتب ہوئے ہیں اور نسل انسانی کے آپس میں تنازعوں پر محیط رہے ہیں۔ صرف 70سال میں ہم اس طرح کی لکیروں کے دو مرتبہ شکار ہوئے ہیں۔ پہلی بار 1947ء میں جب لاکھوں لوگوں کو اپنی دھرتی اور گھر بار کو چھوڑکر دربدری کا منہ دیکھنا پڑا تو دوسری بار 1970-71ء میں لاکھوں لوگوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ شاید ہم نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا اس لیے روز نت نئے المیوں کو دعوتیں دیتے رہتے ہیں اور نئے محاذوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔

پاکستان میں اس وقت موجود پانچ صوبے اور فاٹا و آزاد کشمیر کے الحاقی علاقے شامل ہیں، جن میں سے آزاد کشمیر خوش نصیب ہے کہ وہ مکمل طور پر آزاد ریاست کے طور پر پاکستان کے ساتھ الحاقی کے طور پر تمام ثمرات سے بہرہ مند ہے جب کہ فاٹا کی قسمت کے فیصلے بھی ہونے کو ہیں۔ اب ہم موجودہ پانچ صوبوں اور ماضی کی آزاد و خود مختار ریاستوں کا جائزہ لیتے ہیں۔

1۔ پنجاب: پوٹھو ہار علاقے سے صادق آباد تک پھیلے اس علاقے کو اس میں سے بہتے ہوئے پانچ دریاؤں کی وجہ سے ''پنج آب'' (پنجاب) کہا جاتا ہے۔ انگریز کے زمانے تک یہ ایک خودمختار آزاد ریاست کے طور پر برقرار رہا اور پھر پاکستان میں شامل ہوگیا۔ اس میں پنجابی کے کچھ مختلف لہجوں کے علاوہ ہندکو ہزارہ، سرائیکی اور رانگڑی وغیرہ زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی زبان صوبے کی سرکاری زبان نہیں ہے اور نہ ہی ان زبانوں میں تعلیم و تشہیر کا بندوبست ہے۔

2۔ کے پی کے: ماضی میں یہ خیبر، ہزارہ ریجن اور لک و دیگر حصوں میں بٹا ہوا اور اس کا کچھ حصہ افغانستان سے ملا ہوا تھا جسے انگریز نے اپنے راج کو مستحکم کرنے کے لیے انتظامی سہولت کے لیے ان حصوں کو ملا کر ایک کوڈ ورڈ کی طرز کا نام دیا یعنی NWFP (نارتھ ، ویسٹ فرنٹیئرپروونس)،جسے عام طور پر سرحد صوبہ بھی کہا جاتا تھا۔ پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی یہاں کے لوگوں کی جانب سے مطالبہ سامنے آیا کہ انھیںاپنی تاریخی شناخت کے لحاظ سے پختونستان کا نام دیا جائے جو 2010ء میں 18ویں ترمیم کے تحت کسی حد تک پورا ہوا اور اس خطے کو خیبر پختون خوا کا نام دیا گیا۔ یہاں پشتو کے علاوہ، ہندکو، ہزاروی، گوجری،کوہستانی کھوار زیان، کالامی، توروالی، شینا، سرائیکی، گوج زیان، مائیا، کالکوٹی، گوار باٹی، کرگیز واکھی زبانیں عام طور پر بولی جاتی ہیں لیکن یہاں بھی ان میں سے کوئی بھی زبان صوبے کی سرکاری زبان نہیں ہے۔

3۔ گلگت بلتستان: تاریخی طور پر یہ تین ریاستوں: ہنزہ، گلگت اور بلتستان پر مشتمل خطہ ہے۔ اس خطے پر 1848ء میں کشمیر کے راجہ ڈوگرہ سکھ نے زبردستی قبضہ کیا اور قیام پاکستان کے وقت یہ علاقہ کشمیر کے زیر ِ نگیں تھا۔ 1948ء میں یہاں کے لوگوں نے خود لڑ کر آزادی حاصل کی اور پھر اپنی مرضی سے پاکستان میں شمولیت اختیار کی۔ جو پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے نام سے جانا جاتا تھا ۔ 2009ء میں اس خطے کو صوبہ کا درجہ دیکر دو اہم ریاستوں کے نام سے گلگت بلتستان کا نام دیا گیا۔ یہاں عام طور پر یہاں بلتی، وخی، بروشسکی اور شینا زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن یہاں بھی ان میں سے کوئی زبان صوبے کی سرکاری زبان نہیں ہے۔

4۔ بلوچستان : تاریخی طور پر یہ ریاست ِ قلات کے نام سے مشہور خطہ ہے۔ اس میں قلات، تربت اور مکران کے علاقے شامل رہے ہیں۔ پاکستان کے قیام کے وقت یہ خطہ آزاد ریاست کا درجہ رکھتا تھا اور قیام ِ پاکستان کے بعد خان آف قلات اور قائد اعظم کے طویل مذاکرات کی بنیاد پر یہ پاکستان میں شامل ہو ا۔ ایوب خان کی مارشل لا کے دوران ون یونٹ لاگو کرنے سے دیگر صوبوں کی طرح اس صوبے کی حیثیت بھی ختم کردی گئی۔ جب کہ 1970ء میں جنرل یحیٰ کی طرف سے اعلان کیے گئے لیگل فریم ورک (LFO) کے تحت سندھ و سرحد کے کچھ حصوں کو توڑ کر قلات و مکران کے ساتھ ملاکر نئے موجودہ صوبے کا قیام عمل میںلایا گیا۔ یہاں بلوچی، بروہی، سندھی، پشتواور بزارگی زبانیں عام ہیں۔ یہاں بھی ان میں سے کوئی صوبے کی سرکاری زبان نہیں ہے لیکن یہاں گزشتہ کچھ سال سے پشتو، سندھی اور بلوچی زبانوں میں تعلیم کا بندو بست کیا گیا ہے ۔جب کہ قیام پاکستان سے قبل انگریز کے دور میں یہاں کا تعلیمی نظام سندھی اور انگریزی میں چلتا تھا۔

5۔ سندھ : موجودہ پاکستان سمیت کابل اور گجرات کے علاقہ جات پر مبنی خطے کو تاریخی طور پر سندھ کہا جاتا رہا ہے۔جس کی انڈس سولائیزیشن والی تہذیب سے متعلق دنیا میں سب سے زیادہ لکھا اور پڑھا گیا ہے۔ ہندوؤں کے بنیادی دھرمی کتب رامائن ، مہابھارت، بھگوت گیتا اور رگ ویدسے لے کر دیگر مذاہب اور اسلامی مذہبی کتب ِ احادیث و تاریخ کی روگردانی سے پتہ چلتا ہے کہ موہن جو دڑو سے لے کر یہ ملک دنیا کی تقریباً سبھی قوموں کی غلامی میں رہ چکا ہے، اسے کبھی سندھو سبھیتا، سندھ، ہند کے ناموں سے پکارا گیا تو کبھی مہران و انڈ یا انڈس کا نام دیا گیا۔ باوجود اس کے وہ اپنی شناخت اور اپنی تہذیب کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔انگریز کے زمانے میں اس کی تاریخی ریاست والی حیثیت ختم کرکے اسے بمبئی پریزیڈنسی میں شامل کر کے اسے صرف ایک ڈویژن کا درجہ دیا گیا جس کے خلاف جدوجہد کرکے 1935ء میں اس کی ریاست کی حیثیت بحال کرائی گئی۔ قیام پاکستان کے اسی خود مختار ریاست (صوبہ) نے قانونی و آئینی بنیاد فراہم کیے ۔سندھی کے کچھ مختلف لہجوں کے علاوہ یہاں بلوچی، بروہی،سرائیکی، اردو، پنجابی، پشتو، گجراتی ،اور ہندی زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔ پاکستان میں یہ واحد صوبہ ہے جہاں اس خطے کی زبان یعنی سندھی ذریعہ ٔ تعلیم ہے۔ گزشتہ 150سال سے سندھی یہاں کی سرکاری زبان رہی ہے جسے قیام پاکستان کے بعد تین سرکاری زبانوں (سندھی، اردواور انگریزی) والا صوبہ قرار دیا گیاہے۔

صوبوں کا جائزہ لینے کے بعدجب پاکستان کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ قائد اعظم کی جانب سے اور بعد میں ملک کے1973ء کے متفقہ آئین میں بھی پاکستان کو ایک فیڈریشن یعنی وفاقی طرز کی ریاست قرار دیا گیا ہے۔ فیڈریشن یا وفاقی طرز ریاست کی تعریف دنیا کے دیگر خطوں میں یہ ہے کہ وفاق میں شامل یونٹس یعنی خودمختار ریاستیں یا صوبے اگر مساوات، مکمل خودمختاری اور مستحکم وسائل کے حامل مضبوط یونٹس ہوں گے تو وہ مضبوط وفاق کی علامت ہوں گے، لیکن اس کے برعکس پاکستان میں صوبوں کی خودمختاری اور وسائل پر اُن کے حق کو پس پشت ڈالکر انھیں کمزور کرکے وفاق کی مضبوطی کی امید رکھی جارہی ہے۔

ان پالیسیوں کی بدولت ملک اپنے قیام کے صرف 25 سال کے اندر دو لخت ہوگیا مگر اس ہولناک سانحے سے بھی ہم نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا بلکہ اس گورکھ دھندے کو مزید تقویت دی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ ملک بنانے والے ان یونٹس (صوبوں) کی خودمختاری کو زیر بحث لانے کے بجائے ملک میں لسانی بنیادوں پر نئے صوبے بنانے کی بحث شروع کر دی گئی ہے۔

قائد اعظم کے 14نکات سے لے کر عوام کے دیرینہ مطالبے پر وسائل پر صوبوں کو اختیار دینے کے لیے لائی گئی 18 ویں ترمیم کے آنے کے بعد ملک میں نئے صوبے بنانے کی آوازیں زیادہ اُٹھ رہی ہیں۔ حالانکہ 18ویں ترمیم پر اس کی روح کے مطابق عمل ہی نہیں ہو سکا ہے تو مقتدر قوتیں اس کے خاتمے کی تگ ودو میں لگ گئی ہیں۔ جب کہ نئے صوبوں کے لیے اُٹھنے والی ان آوازوں کے پیچھے جو محرکات نظر آتے ہیں اُن میں کوٹہ سسٹم کو سب سے بڑا محرک گردانا جارہا ہے۔ جس کی وجہ سے کے پی کے میں ہندکو ہزارہ ریجن اور دیگر غیر پشتو زبانوں کے لوگوں، پنجاب میں سرائیکی بولنے والوں، بلوچستان میں پشتوبولنے والوں اور سندھ میں اردو بولنے والوں کو شکایت رہتی ہے کہ سرکاری نوکریوں میں انھیں مناسب حصہ نہیں ملتا اور وہ دیگر متعلقہ قوموں پر کوٹہ سسٹم رائج کر کے ظلم ڈھانے کا الزام لگاتے نظر آتے ہیں۔

بہرحال اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ صوبوں کو وسائل پر مکمل خودمختاری دیکر میرٹ کا نظام قائم کیا جائے تو یہ شور خود بخود تھم جائے گا۔ ہاں البتہ ترقیاتی فنڈز میں مساوات نہ ہونے کی وجہ سے اُٹھنے والی ان آوازوں کی طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے جس سے گروہی سیاست کرنے والے گروپوں کا منہ بند کیا جاسکتا ہے جوکہ فنڈز کی کمی کی بنیاد پرتعصب کی سیاست کو ہوا دے رہے ہیں اور شاید مرکز بھی ان کی پشت پر کھڑا ہے۔ جس کا ثبوت حال ہی میں بجٹ کے لیے بلائے گئے قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس ہے جس میں سندھ، کے پی کے اور بلوچستان تینوں صوبوں کے وزراء اعلیٰ نے فنڈ میں مرکز کے پنجاب کی طرف جانبدارانہ رویے کے خلاف واک آؤٹ کیا کیونکہ وفاق کی جانب سے پنجاب کو زیادہ فنڈز دینے کی ضد تھی اور چھوٹے صوبوں کا خیال نہیں رکھاگیا۔

ایسی صورتحال میں متحد ہوکر مرکز سے حق حاصل کرنے کے بجائے صوبے کے عوام کے درمیان الزام تراشی سمجھ سے بالا تر ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک کا جائزہ لینے سے نظر آتا ہے کہ انڈیا 28، ترکی 81اور چین 34صوبوںاور امریکا 50یونٹس کے ساتھ دنیا کے زیادہ صوبے رکھنے والے ممالک ہیں۔لیکن اگر دیکھا جائے تو ماضی قریب میں ترکی میں اقتدار پلٹنے کے لیے کی گئی بغاوت جیسے واقعات رونماہوچکے ہیں اور جہاں تک بات ہے چین و انڈیا کی تو وہ اراضی و آبادی کے لحاظ سے جتنے بڑے ملک ہیں ان کے حساب سے وہ صوبوں کی تعداد کم ہے، جب کہ وہاں وسائل کی کمی کے باوجود گڈ گورننس کی بنیاد پر داخلی طور پر اچھا ریاستی کنٹرول نظرآتا ہے۔

ہاں ان میں سے امریکا ہی واحد ملک ہے جو زیادہ صوبوں کا حامل داخلی و خارجی طور پر انتہائی مستحکم و مضبوط ریاست کا درجہ رکھتا ہے لیکن اس کے پیچھے بھی دو وجوہات کارفرما ہیں ان میں ایک تو یہ کہ اس کے صوبے (Province) کی حیثیت نہیں بلکہ آزاد و خودمختار ریاستوں (States) کا درجہ رکھتے ہیں، اسی لیے اس کا نام یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکا (USA) ہے۔ جب کہ دوسری وجہ وہاں پر موجود مثالی گڈ گورننس کی حامل جمہوری حکومت ہے جوعوامی حقوق کی فراہمی میں مساوی اور غیرجانبدارانہ رویوں کی حامل ہے۔

اس جائزہ سے واضح طور پر نظر آتا ہے کہ اگر لسانی طور پر یہاں صوبے بنانے کی کوشش کی گئی تو ملک میں بسنے والی قوموں کے اندربھی جتنی زبانیںاور لہجے بولے جاتے ہیں اتنے صوبے بنانے کا شور طوفان بن کر اُٹھے گا اور ملک پہلے لسانی ٹکڑوں میں بٹ جائے گااور پھر ملک سے علیحدگی کی منزل کی طرف کا سفر نہ شروع ہوجائے کیونکہ قیام پاکستان سے قبل اس خطے میںتاریخی طور پر آزاد و خودمختار ریاستوں کا درجہ رکھنے والے موجودہ صوبوں کے درمیان ایک تو پہلے ہی معاشی، سیاسی و معاشرتی مفادات کی بنیاد پر تنازعات موجود ہیں اوپر سے نئے صوبوں کا یہ نیا شوشہ ان یونٹس اور ان میں باہر سے آکر آباد ہونے والے دیگر لوگوں کے درمیان کشیدگی میں اضافے کا باعث بن رہا ہے اور ملک اس وقت کسی بھی قسم کی کشیدگی کا نہیں بلکہ ہم آہنگی اور اتحاد کا متلاشی ہے۔

عوام کو چاہیے کہ ان موسمی مینڈکوں کی ٹراں ٹراں پر توجہ نہ دیں بلکہ آپس میں متحد ہوکر ہر آنیوالی آندھی و بارش میں اپنے گھر کی حفاظت کرنے کی کوشش کریں، یعنی اس ملک کو مضبوط کرنے میں اپنا اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ جب ہم مختلف قوموں کے افراد متحد ہوکر اس ملک کے حقیقی و بنیادی مسائل جیسے غربت، بیروزگاری اور کرپشن کے خاتمے، ملک میں عوام کے حق حکمرانی، وسائل پر اختیار اور بنیادی سہولیات کے حامل انسانی حقوق کی مساوی فراہمی کے لیے یک مشت و یک آواز ہو کر اُٹھ کھڑے ہوں گے اور اپنا ووٹ بھی ملک میں گڈ گورننس کے لیے استعمال کریں گے توملک سے ہر قسم کی سیاسی، معاشی اور معاشرتی محرومیوں کا خاتمہ ممکن ہوگا اور پھر نہ نئے صوبوں کی ضرورت ہوگی اور نہ ہی ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنا پڑے گی۔

ویسے ملک میں انتظامی سطح پر یونٹس یعنی صوبے بنانا غلط نہیں ہوگا لیکن ملک کی جو موجودہ صورتحال ہے، جس طرح مختلف قوموں اور گروہوں کے درمیان کشیدگی پھیلی ہوئی ہے اس میں صوبے بنانا انتظامی سے زیادہ لسانی رنگ اختیار کرجانے کی وجہ سے اس معاملے کو چھیڑنا ملک میں انتشار کا باعث ہوگا۔ رہی بات اختیارات اور انتظامی اُمور کی تو قائد اعظم کے وعدے کے مطابق موجودہ صوبوں کو خودمختار ریاستیں قرار دیکر انھیں وسائل پر اختیار فراہم کرکے وہاں ڈویژن سطح کے انتظامی یونٹس کی تعدا کو بڑھایا جائے بلکہ ملک بھر میں موجودہ اضلاع کو ڈویژن کا درجہ دیکر انتظامی اُمور میں بہتری لائی جاسکتی ہے جب کہ اچھی طرز ِ حکمرانی، ملکی اُمور و پالیسیوں، ترقیاتی فنڈز میں مساوات اور ملک میں حقیقی میرٹ کے نظام سے ملک میں ہم آہنگی کا ماحول پیدا کیا جاسکتا ہے جوکہ ملک کے مجموعی استحکام اور مضبوطی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں