افسری اور جی حضوری

دیکھا جائے تو سیاستدان ہمارے ملک میں کافی بدنام ہوئے ہیں لیکن اس صورتحال کا دوسرا پہلو زیادہ اجاگر نہیں کیا جاتا۔


Hameed Ahmed Sethi May 13, 2018
[email protected]

اگر آپ سرکاری ملازمت کے کسی اعلیٰ عہدے پر یا ریٹائرمنٹ کی عمر کے قریب پہنچے کسی مرکزی سیکریٹری، فارن سیکریٹری، سفیر، آئی جی پولیس، کسٹم یا انکم ٹیکس کے سینئر افسر یا پھر حال ہی میں ریٹائر ہوئے سول سرونٹ کے تعلیمی سفر کے بارے میں ڈیٹا اکٹھا کریں تو معلوم ہوگا کہ کم و بیش سبھی نے گورنمنٹ کے ٹاٹ اسکول میں تعلیم حاصل کی تھی اور اگر آپ ان ہی سے پوچھ لیں تو وہ سچ بتانے میں قطعی ندامت محسوس نہیں کرینگے بلکہ کئی ایک تو فخریہ اقرار کرتے پائینگے لیکن آج کل نوجوان افسر سے پوچھیں گے یا کسی نو دولتئے کی اولاد سے تعلیمی سفر کا استفسار کریں گے تو وہ برطانیہ، امریکا کے ذکر سے ابتدا کرے گا اور وہیں ختم کردے گا اور وہ اس لیے کہ موجودہ گورنمنٹ اسکولوں کی عمارات، ان کے اساتذہ، ان کا نظام تعلیم کا سلیبس اور گورنمنٹ کے اسکولوں کا وجود ہی بدحالی، گمنامی اور عدم توجہی کا شکار ہے۔

ان اسکولوں میں زیر تعلیم بچے بھی مفلسی کے مارے ان گھرانوں کے افراد ہیں جو خانہ پری کے لیے شکستہ عمارتوں میں وقت گزاری کے لیے جاتے ہیں جہاں نہ بیٹھنے کے لیے ڈیسک ہیں نہ پینے کے لیے پانی ہے نہ چھت پر پنکھا اور نہ رفع حاجت کے لیے ٹائیلٹ کی سہولت۔

زمانۂ ماضی کے گورنمنٹ ہائی اسکولوں میں استاد طلباء کی حاضری لگانے کے لیے ان کا نام پکارتے تھے تو طالب علم جواب میں ''حاضر جناب'' کی آواز سے اپنی موجودگی بتاتا تھا اور اگر جواب نہ آتا تو اگلے روز اسے سرزنش یا سزا ہوتی تھی۔ اس لیے عموماً کلاس میں غیر حاضری کم ہی دیکھنے سننے میں آتی۔ استاد اپنے شاگردوں سے کبھی بے تکلف نہ ہوتے تھے بلکہ ہمیشہ سنجیدہ پائے جاتے۔

سبق یاد نہ کرنے پر سزا بہرحال ہوتی جو قابل برداشت ہوتی نہ کہ ایسی حیوانگی والی جس کا علم آج کل اکثر اخبار یا ٹیلیوژن کے ذریعے ہوتا ہے اور بات پولیس تک پہنچتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اب ''حاضر جناب'' کے بجائے Yes Sir کہہ کر حاضری لگوائی جاتی ہے اور ٹیچر شاگرد کی غیر حاضری کا نوٹس لینے کے بجائے اسے Ignore کرتے پائے جاتے ہیں۔ ان سے دوستانہ انداز میں بے تکلف ہونے میں عار محسوس نہیں کرتے بلکہ سگریٹ چائے تک شیئر کرلیتے ہیں۔

وقت گزرتا ہے اور بچہ نوجوان ہوکر تعلیم مکمل کرکے کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہوجاتا ہے۔ وہ ''حاضر جناب'' یا ''یس سر'' والے مقام سے آگے نکل کر اپنے کسی ماتحت کو حاضر ہونے کے لیے بلاتا ہے اور وہ ماتحت بات کرتے ہوئے افسر مجاز کو جناب سر اور یس سر کہہ کر مخاطب کرتا، اگر افسر اجازت دے تو سامنے والی کرسی پر بیٹھ جاتا، بصورت دیگر کھڑے کھڑے سوال کا جواب دیتا اور پھر اجازت لے کر کمرے سے نکل جاتا ہے۔

پھر اگر اسی افسر کو سینئر افسر اپنے کمرے میں طلب کرے تو سلام کرکے پیش ہوتا اور ہر فقرے کے ساتھ سر سر کہتے ہوئے افسر اعلیٰ کو پیش نظر معاملے پر اپنی رائے دے کر سر کو تعظیمی جنبش دے اپنے دفتر کو لوٹ جاتا ہے۔ یہ سلسلہ اور کاروبار ملازمت ہر روز ہر سرکاری و پرائیویٹ دفتر میں چلتا رہتا ہے۔انگریز کی چھوڑی ہوئی بیورو کریسی کی اپنی ہی شان تھی۔

قریباً چالیس سال تک انھوں نے رولز ریگولیشنز قوانین ضوابط کے مطابق فیلڈ اور سیکریٹریٹ میں اصولوں کی عملداری کو یقینی بنائے رکھا اور محکمے خوش اسلوبی سے فرائض کی انجام دہی میں مصروف رہے اور خلاف ضابطہ کاموں کے رستے میں رکاوٹ بنے رہے لیکن پھر سیاسی حکمرانوں نے من مرضی کے فیصلے کرانے کے لیے اہم اور Lucrative پوسٹوں پر Yes Men افسروں کو تعینات کرنے اور بااصول افسروں کو کھڈے لائن لگانے سے ناجائز اور خلاف ضابطہ کام کرانے کا طریق اپنانا شروع کردیا۔ اگر کوئی افسر حکمرانوں کی منشا کے مطابق دس کام کرے گا تو بلاشبہ ایک دو اپنے کام بھی کر جائے گا۔

ہر ناجائز کام منافع رساں ہوتا ہے اور بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آگیا کہ بیورو کریٹ حکمرانوں کو ناجائز کاموں کا رستہ اور طریقہ بتانے میں مہارت دکھانے لگے۔ یہ ملی بھگت کا دور آج تک چل رہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جائز اور ناجائز کے درمیان فرق مٹ گیا ہے اور اس روش نے اداروں اور معاشرے کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کرپشن اور بدعنوانی روکنے والے محکموں پر سب سے زیادہ انگلیاں اٹھتی ہیں یعنی

گر ہمی مکتب و ہمی ملّا

کار طفلاں تمام خواہد شد

دیکھا جائے تو سیاستدان ہمارے ملک میں کافی بدنام ہوئے ہیں لیکن اس صورتحال کا دوسرا پہلو زیادہ اجاگر نہیں کیا جاتا۔ یہ فائلوں اور دستاویزات پر موجود نوٹنگ ڈرافٹنگ اور فیصلے یا احکامات ہیں جو کسی جائز و ناجائز کام کی بنیاد ہوتے ہیں۔ زبانی کلامی دیے گئے غلط احکامات جن کا نتیجہ کرپشن، بدانتظامی، نقصان وغیرہ پر نکلتا ہو عموماً ریکارڈ نہیں ہوتے البتہ محتاط افسر زبانی احکام کو بھی ضبط تحریر میں لاکر مجاز اتھارٹی سے ان کی Approval لے لیتے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے لیکن کافی عرصہ سے مجاز اتھارٹی یا حکمران اپنے ملی بھگت والے افسر کو زبانی احکام پر چلاتے ہیں اور متعلقہ افسر یا تو ریکارڈ ضائع کردیتا ہے یا سمجھتا ہے کہ حکمران دینے والا ہمیشہ اقتدار میں رہیگا یا گرفت کا وقت آہی گیا تو وہ ملک سے نکل بھاگے گا۔

مروجہ کرپشن بدانتظامی اور لاقانونیت کی فضا بیورو کریٹ پارٹنرز کے بغیر ممکن نہیں۔ اگر آج سرکاری افسر غلط کاری کے آگے دیوار بن جائے تو اس کی ٹرانسفر تو یقینا ہوجائے گی لیکن ملکی نظام راہ راست پر آجائے گا۔اسکول ٹیچر کو حاضری لگوانے کے لیے ''حاضر جناب'' کہنے والا آج ''جی حضور'' کہنے سے انکار کردے تو کل سے کرپشن اور لاقانونیت کا گراف گرنا شروع ہوجائے گا۔ سرکاری افسر یا بیورو کریٹ گزشتہ دو تین یا چار دہائیوں سے فخریہ ایک شعر پڑھ رہا ہے؎

غیر ممکن کو میں ممکن میں بدل سکتا ہوں

سائلو آؤ مرا زور قلم دیکھو تو

اگر سامنے سائل ہو تو وہ سائلو کہتا ہے اگر حاکم ہو تو دل میں حاکمو کہتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں