ٹیسٹ کرکٹ میں آئرلینڈ کا اولین معرکہ

بادلوں کی آنکھ مچولی میں پاکستان کے امتحان کا آغاز


Abbas Raza May 13, 2018
بادلوں کی آنکھ مچولی میں پاکستان کے امتحان کا آغاز۔ فوٹو: سوشل میڈیا

کرکٹ ورلڈ کپ1992 میں پاکستان اور انگلینڈ کی ٹیمیں ایڈیلیڈ کے میدان میں آمنے سامنے ہیں۔

انگلینڈ نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کو ترجیح دی،کپتان کا یہ فیصلہ اس وقت درست ثابت ہوا جب پاکستانی بیٹسمین ایک، ایک کر کے پویلین کی راہ دیکھنا شروع ہو گئے اور پوری ٹیم چالیسویں اوورز میں صرف 74 رنز پر ہمت ہار گئی، سات کھلاڑی ڈبل فیگرز میں بھی داخل نہ ہو سکے، انگلینڈ نے8 اوورز میں ایک وکٹ پر 24 رنز بنا کر اپنی پوزیشن مستحکم بنا لی تھی، عین ممکن تھا کہ ناکامی گرین شرٹس کا مقدر بن جاتی کہ بارش شروع ہوگئی اور مقررہ وقت تک جاری رہی، یوں پاکستانی ٹیم ہارا ہوا یہ میچ برابرکرنے میں کامیاب ہو گئی۔

اسی میچ کی وجہ سے ملنے والے ایک پوائنٹ نے نہ صرف گرین شرٹس کی سیمی فائنل تک رسائی کا راستہ ہموار کیا بلکہ عمران خان کی قیادت میں پاکستان فائنل میں انگلینڈ کو ہی ہرا کر پہلی بار کرکٹ کا عالمی چیمپئن بھی بن گیا، اسی ورلڈ کپ میں 22 مارچ کوجنوبی افریقہ کی ٹیم دوسرے سیمی فائنل میں سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں انگلینڈکے خلاف فتح کے قریب تھی کہ بارش کے وجہ سے میچ روک دیا گیا اور جب میچ دوبارہ شروع ہوا تو جنوبی افریقہ کو آخری گیند پر21رنز کا ہدف ملا، جو یقینی طور پر ناممکن سی بات تھی اور 19 رنز سے شکست کے بعد پروٹیز فائنل کی دوڑ سے باہر ہو گئے۔

صرف دو ہی نہیں بلکہ کرکٹ کی تاریخی میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جب خراب موسم اور موسلا دھار بارش میچ کے نتائج پر بری طرح اثر انداز ہوئی، مقابلوں کے دوران اس طرح کی صورت حال بن جانے کے بعد ہر بار ڈک ورتھ لوئیس فارمولا کا استعمال ہوا جس میں پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم زیادہ متاثر ہوئی اورجیتی ہوئی ٹیم ہار گئی اور ہارنے والے ٹیم فتح کی مستحق قرار پائی۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جس میں اربوں ڈالر کا معاملہ ہوتا ہے، بھارتی کرکٹ بورڈ میں تو دولت کی ریل پیل ہے، آئی سی سی کے پاس بھی پیسوں کی کمی نہیں تو کسی کرکٹ بورڈ یا کھیل کی عالمی باڈی نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے ابھی تک ایسے انتظامات کیوں نہ کئے؟ کیوں ہر بار ٹیموں کو ڈک ورتھ لوئیس فارمولا کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے، اس وقت صرف آسٹریلیا میں ہی ڈوکلینڈ نام سے ایک سٹیڈیم موجود ہے جو مکمل طور پر ڈھکا ہوا ہے اور واٹر پروف ہونے کی وجہ سے بارش بھی یہاں کھیل کو متاثر نہیں کرتی، دنیا بھر میں اسی طرز کے سٹیڈیمز بنا کر اس کھیل کی ساکھ کو مزید خراب ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔

اگر آئرلینڈ اور پاکستان کے درمیان 11 مئی سے شروع ہونے والے ٹیسٹ میچ کی بات کی جائے تو تاریخ کا پہلا میچ کھیلنے کی وجہ سے آئرلینڈ میں بہت زیادہ جوش وخروش تھا، شائقین یہ مقابلہ دیکھنے کے لئے بے تاب تھے اس لئے پرستاروں نے مہنگے داموں ٹکٹس پہلے ہی خرید لئے تھے، لیکن بارش نے اس میچ میں بھی بھنگ ڈال دی، ڈبلن میں صبح سے بارش کا سلسلہ جاری رہا جس کے سبب دونوں ٹیموں کے کپتان ٹاس کے لیے بھی میدان میں نہیں اترے، اس دوران امپائرز کئی مرتبہ معائنے کے لئے آئے لیکن خراب موسم اور تیز بارش کے سبب انہیں مایوس واپس لوٹنا پڑا، جب دوپہر میں بارش نے دوبارہ میدان کا رخ کیا تو امپائرز نے میدان میں جمع پانی کو دیکھتے ہوئے دونوں ٹیموں کے قائدین کی باہمی مشاورت سے میچ کے پہلے دن کا کھیل ختم کرنے کا اعلان کردیا۔

اس صورت حال کی وجہ سے نہ صرف شائقین کو مایوسی ہوئی بلکہ ایک اندازے کے مطابق آئرش کرکٹ بورڈکو بھی 75 ہزاریوروکا نقصان برداشت کرنا پڑا، جغرافیائی اعتبار سے دیکھا جائے تو آئرلینڈ یورپ کا چھوٹا سا ملک ہے، 84 ہزار کلومیٹر رقبہ پر موجود اس ملک کی آبادی صرف 65لاکھ ہے لیکن یہاں کے باسیوں کو بڑے بڑے کارنامے سرانجام دینے کا اعزاز حاصل ہے، شہریوں کو برطانیہ سے آزادی کے حصول کی طویل جنگ بھی لڑنا پڑی،کھیل کے میدانوں میں بہت زیادہ دور جانے کی ضرورت اس لئے بھی نہیں کیونکہ اسی ملک کی ٹیم نے ورلڈ کپ 2007میں اپ سیٹ شکست دے کر پاکستان کو ورلڈ کپ کے پہلے ہی مرحلے سے باہر کر دیا تھا۔

12مئی کو میچ شیڈول کے مطابق شروع ہوا تو آئرلینڈ کی ٹیم میں تین چار چہرے وہی تھے جو مئی 2007 کی اس شام بھی آئرش ڈریسنگ روم کا حصہ تھے۔ وہ تلخ شام، جب آئرلینڈ نے گرین ٹاپ وکٹ پہ پاکستان کو ورلڈکپ سے ناک آؤٹ کر دیا۔انگلینڈ کی نمائندگی کرنے والے بولر بوائیڈ رینکن آئرلینڈ کے سکواڈ میں شامل ہیں، اسی طرح انہوں نے 25 سال کے بعد دونوں ملکوں کے لیے کھیلنے والے پہلے کھلاڑی کا اعزاز بھی حاصل کر لیا ہے، سینیئر بلے باز ایڈ جوائس جنھوں نے انگلینڈ کی جانب سے 2006 سے 2007 کے دوران 17 ایک روزہ میچز کھیلے تھے بھی ڈبلن میں اپنا پہلا ٹیسٹ میچ کھیل رہے ہیں۔آئرلینڈ کی ویمن کرکٹ ٹیم کو ٹیسٹ سٹیٹس 2000 میں ملا تھا۔

حسن اتفاق کہیے کہ تب بھی آئرلینڈ کے ٹیسٹ ڈیبیو کے لیے قرعہ پاکستان کے نام ہی نکلا تھا۔ پاکستان کی ویمن کرکٹ ٹیم ڈبلن میں اتری تو چار روزہ میچ کے لیے تھی لیکن معاملہ دوسری شام سے پہلے ہی نمٹ گیا۔ سیمنگ وکٹ کی تاب نہ لاتے ہوئے پاکستان وہ میچ ایک اننگز اور 54 رنز سے ہار گیا۔یہ آئرش کرکٹ کی تاریخ میں بہت بڑا موقع تھا کیونکہ اس سے پہلے ٹیسٹ کرکٹ میں صرف ایک ہی بار ایسا ہوا تھا کہ کوئی ٹیم اپنا ڈیبیو ٹیسٹ میچ جیتی ہو۔ آسٹریلیا کی مینز ٹیم کے بعد یہ اعزاز آئرلینڈ کی ویمن ٹیسٹ ٹیم کو ہی نصیب ہوا، اس لئے آئرلینڈ کی مردوں کی ٹیم بھی پاکستان کے خلاف اپنا پہلا ٹیسٹ جیت کر نئی تاریخ رقم کرنے کی کوشش کرے گی۔

آئرلینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ میں پاکستان کے حوالے سے بات کی جائے تو کرکٹ میں نوآموز ٹیموں سے مقابلوں کی بھی الگ ہی الجھنیں ہوتی ہیں۔ جیت پر کوئی شاباش دینے کے لئے تیار نہیں ہوتا اور ہار کی صورت میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پاکستان کی اضافی الجھن بھی یہ ہے کہ دو سال پہلے یہی ٹیم جب انگلینڈ کے دورے پہ گئی تھی تو رینکنگ میں دوسرے نمبر پہ تھی اور اسی دورے کے نتائج نے پاکستان کو ٹیسٹ چیمپیئن بنایا تھا۔لیکن اس وقت پاکستان عالمی رینکنگ میں ساتویں نمبر پہ کھڑا ہے۔ پچھلے دس میں سے آٹھ ٹیسٹ ہار چکا ہے۔ یاسر شاہ دستیاب نہیں ہیں اور ان سب سے زیادہ پریشان کن امر یہ کہ گذشتہ بارہ ماہ میں پاکستان نے صرف دو ٹیسٹ میچ کھیلے ہیں۔

پچھلے دو سال میں پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم کچھ ایسے بحران سے گزری ہے کہ بھلے کوئی بھی آئرلینڈ کو فیورٹ قرار نہیں دے رہا لیکن آئرش کنڈیشنز میں پاکستان کو بھی واضح فیورٹ نہیں کہا جا سکتا۔ ٹیسٹ کے دوران امام الحق اور فہیم اشرف کو ٹیسٹ ڈبیو کرنے کا موقع ضرور میسر آیا ہے تاہم پریکٹس میچوں میں عمدہ کارکردگی دکھانے کے بعد امام الحق اپنی پہلی ٹیسٹ آزمائش میں ناکام رہے ہیں اور انہوں نے صرف7 رنز پر اپنی وکٹ گنوائی ہے، اوپنر دوسری اننگز میں بھی کوئی قابل ذکر پرفارمنس نہ دکھا سکے تو نہ صرف امام الحق کی سلیکشن پر سوالات اٹھیں گے بلکہ ان کے چچا اور چیف سلیکٹر انضمام الحق پر بھی مزید دباؤ بڑھے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں