موبائل فون سیلز ٹیکس ایف بی آر اور ڈیلرز کے مذاکرات بے نتیجہ
چیئرمین ایف بی آر کی وطن واپسی پر ایک اور اجلاس کے بعد کوئی فیصلہ ہو گا، ڈیلرز
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور ڈیلرز کے درمیان موبائل فون کی درآمد پر سیلزٹیکس کے معاملے پر مذاکرات بے نتیجہ رہے تاہم ممبر ان لینڈ ریونیو اور چیف سیلز ٹیکس نے تسلیم کیا کہ موبائل فون سیٹ کی درآمد پرسیلز ٹیکس لگانے کیلیے متعلقہ اسٹیک ہولڈرزکو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
اس مقصد کے لیے جاری کردہ ایس آر او میں بھی متعدد خامیاں ہے، ایس آراو ریونیو شارٹ فال کے باعث عجلت میں جاری کیا گیا مگر فوری طور پر واپس نہیں لیاجا سکتا۔ ذرائع نے بتایا کہ مذاکرات میں کراچی الیکٹرانکس ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر ادریس میمن، انجمن تاجراں ہال روڈ لاہور کے چیئرمین بابر محمود، عبدالرشید نورانی، حنان آصف، محمد امین میمن، عبدالحفیظ، اصغر شنواری، یوسف ہالائی کے علاوہ آل حیدر آباد موبائل فون ایسوسی ایشن، انجمن تاجران موبائل فون راولپنڈی اور موبائل فون امپورٹرزکے نمائندے شامل تھے جبکہ ایف بی آر کی ٹیم کی سربراہی ممبر ان لینڈ ریونیو آپریشنز مصطفی اشرف نے کی۔ اجلاس میں ایف بی آر کی طرف سے اسمارٹ و سیٹلاٹ فون کی درآمدپر 1ہزار روپے اور عام موبائل فون کی درآمد پر لگائے گئے 500 روپے فی یونٹ سیلز ٹیکس کا جائزہ لیا گیا۔
موبائل فون ایسوسی ایشن اور الیکٹرانکس ڈیلرز ایسوسی ایشن کے حکام نے دعویٰ کیا کہ مذاکرات کے دوران ممبر ان لینڈ ریونیو اور چیف سیلز ٹیکس نے اعتراف کیاکہ موبائل فون سیٹ کی درآمد پر سیلز ٹیکس کے نفاذ کے لیے جاری ہونے والے ایس آر او میں بہت سی خامیاں اور ابہام پائے جاتے ہیں، انہوں نے یہ بھی اعتراف کیاکہ ریونیو شارٹ فال کے باعث یہ ایس آر او عجلت میں جاری کیا گیا۔
ایسوسی ایشن حکام نے دعویٰ کیا کہ ممبر ان لینڈ ریونیو نے یقین دہانی کرائی ہے کہ چیئرمین ایف بی آر عنصر جاوید کی آئی ایم ایف کے اجلاس سے شرکت کے بعد وطن واپسی پر 22 اپریل کے بعد اس بارے کوئی فیصلہ کیا جائیگا اور اس کے لیے ایسوسی ایشن کے نمائندوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو دوبارہ بلایا جائیگا اور ان کی چیئرمین ایف بی آر کی سربراہی میں ٹیم کے ساتھ ملاقات ہوگی جس میں چیئرمین ایف بی آر کو بتایا جائیگا کہ درآمدی سطح پر مذکورہ ٹیکس کے نفاذ سے موبائل فون کا کاروبار متاثر ہورہا ہے اور موبائل فون سیٹ پر ڈبل ٹیکسیشن ہورہی ہے۔
اس کے بعد کوئی فیصلہ ہوگا جبکہ اس بارے میں ایف بی آر حکام نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ممبر ان لینڈ ریونیو آپریشنز نے حال ہی میں اپنے عہدے کا چارج سنبھالا ہے، ایف بی آر نے اسٹیک ہولڈرز کا موقف سنا ہے تاہم ابھی اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوا کیونکہ ایف بی آر کے مذکورہ اقدام سے 5 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہونا ہے اور ریونیو کی موجودہ صورتحال میں یہ ٹیکس واپس لینا مشکل ہوگا تاہم جو قانونی اور تکنیکی خامیاں پائی جاتی ہیں انہیں دور کیا جائیگا۔
اس مقصد کے لیے جاری کردہ ایس آر او میں بھی متعدد خامیاں ہے، ایس آراو ریونیو شارٹ فال کے باعث عجلت میں جاری کیا گیا مگر فوری طور پر واپس نہیں لیاجا سکتا۔ ذرائع نے بتایا کہ مذاکرات میں کراچی الیکٹرانکس ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر ادریس میمن، انجمن تاجراں ہال روڈ لاہور کے چیئرمین بابر محمود، عبدالرشید نورانی، حنان آصف، محمد امین میمن، عبدالحفیظ، اصغر شنواری، یوسف ہالائی کے علاوہ آل حیدر آباد موبائل فون ایسوسی ایشن، انجمن تاجران موبائل فون راولپنڈی اور موبائل فون امپورٹرزکے نمائندے شامل تھے جبکہ ایف بی آر کی ٹیم کی سربراہی ممبر ان لینڈ ریونیو آپریشنز مصطفی اشرف نے کی۔ اجلاس میں ایف بی آر کی طرف سے اسمارٹ و سیٹلاٹ فون کی درآمدپر 1ہزار روپے اور عام موبائل فون کی درآمد پر لگائے گئے 500 روپے فی یونٹ سیلز ٹیکس کا جائزہ لیا گیا۔
موبائل فون ایسوسی ایشن اور الیکٹرانکس ڈیلرز ایسوسی ایشن کے حکام نے دعویٰ کیا کہ مذاکرات کے دوران ممبر ان لینڈ ریونیو اور چیف سیلز ٹیکس نے اعتراف کیاکہ موبائل فون سیٹ کی درآمد پر سیلز ٹیکس کے نفاذ کے لیے جاری ہونے والے ایس آر او میں بہت سی خامیاں اور ابہام پائے جاتے ہیں، انہوں نے یہ بھی اعتراف کیاکہ ریونیو شارٹ فال کے باعث یہ ایس آر او عجلت میں جاری کیا گیا۔
ایسوسی ایشن حکام نے دعویٰ کیا کہ ممبر ان لینڈ ریونیو نے یقین دہانی کرائی ہے کہ چیئرمین ایف بی آر عنصر جاوید کی آئی ایم ایف کے اجلاس سے شرکت کے بعد وطن واپسی پر 22 اپریل کے بعد اس بارے کوئی فیصلہ کیا جائیگا اور اس کے لیے ایسوسی ایشن کے نمائندوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو دوبارہ بلایا جائیگا اور ان کی چیئرمین ایف بی آر کی سربراہی میں ٹیم کے ساتھ ملاقات ہوگی جس میں چیئرمین ایف بی آر کو بتایا جائیگا کہ درآمدی سطح پر مذکورہ ٹیکس کے نفاذ سے موبائل فون کا کاروبار متاثر ہورہا ہے اور موبائل فون سیٹ پر ڈبل ٹیکسیشن ہورہی ہے۔
اس کے بعد کوئی فیصلہ ہوگا جبکہ اس بارے میں ایف بی آر حکام نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ممبر ان لینڈ ریونیو آپریشنز نے حال ہی میں اپنے عہدے کا چارج سنبھالا ہے، ایف بی آر نے اسٹیک ہولڈرز کا موقف سنا ہے تاہم ابھی اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہوا کیونکہ ایف بی آر کے مذکورہ اقدام سے 5 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہونا ہے اور ریونیو کی موجودہ صورتحال میں یہ ٹیکس واپس لینا مشکل ہوگا تاہم جو قانونی اور تکنیکی خامیاں پائی جاتی ہیں انہیں دور کیا جائیگا۔