جسٹس قاضی فائز کا بینچ سے علیحدہ کرنے کے طریقہ کار پر اعتراض

 اس طرح نظام کی سالمیت کو مجروح کرنے کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں، 2  صفحات پر مشتمل نوٹ


 اس طرح نظام کی سالمیت کو مجروح کرنے کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں، 2  صفحات پر مشتمل نوٹ فوٹو : فائل

سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے پشاور میں اسپتالوں کا فضلہ ٹھکانے لگانے کے نوٹس کی سماعت کیلیے ازسر نو بینچ کی تشکیل اور انھیں اس سے خارج کرنے کے عمل کو غیرمعمولی قرار دیتے ہوئے اپنے تحفظات پر مبنی نوٹ جاری کردیا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے دو صفحات پر مشتمل نوٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں گزشتہ بدھ کو 3رکنی بینچ کے پشاور میں اسپتالوں کے فضلے کو ٹھکانے لگانے کے حوالے سے کی گئی سماعت کے دوران پیش آنیوالی صورتحال کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے اپنے تحریری نوٹ میں کہا ہے کہ میں نے کے پی ایڈووکیٹ جنرل کو آئین کے آرٹیکل 184 تھری پڑھنے کو کہا کیونکہ وہ وضاحت کرنا چاہتے تھے کہ آیا یہ آرٹیکل مذکورہ کیس میں متعلقہ مواد فائل سے غائب ہونے پر معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ آرٹیکل عدالت کو بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے نوٹس لینے کی اجازت دیتا ہے اور سپریم کورٹ کو دونوں صورتوں میں خود کو مطمئن کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ معاملہ عوامی دلچسپی کا ہے اور اس سے بنیادی حقوق منسلک ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایچ آر سی کے ڈائریکٹر اس سے قبل بھی مقدمات میں اس طرح کے نوٹس تحریر کرچکے تھے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا ہے کہ میں نے روسٹرم پر موجود آئین کا آرٹیکل 184 تھری پڑھنے کو کہا تو محترم چیف جسٹس نے مداخلت کی اور کہا کہ وہ بینچ کی تشکیل نو کررہے ہیں اور اچانک کھڑے ہوگئے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد شاید بینچ کی تشکیل نو کی گئی، میں شائد اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ مجھے اس حوالے سے کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے تاہم بعد میں 2رکنی بینچ نے سماعت کی اور مجھے اس بنچ سے خارج کردیا گیا تھا۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ یہ معاملہ ان کیلیے بہت اہم تھا کیونکہ اس بینچ کی تشکیل غیرروایتی اور اس کی کوئی مثال نہیں وہ بھی اس انداز میں کہ جب عدالت معاملہ سن رہی ہو۔ انھوں نے اپنے نوٹ میں کہا ہے کہ اس طرح نظام کی سالمیت کو مجروح کرنے کے نتائج سنگین ہوسکتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز نے آخر میں یہ تحریر کیا ہے کہ میں یہ نوٹ لکھنے پر مجبور ہوں تاکہ میرے ضمیر پر بوجھ نہیں اور بطور جج میں اپنی ذمے داری پوری کروںگا۔ اپنے نوٹ میں جسٹس قاضی نے عوامی مفاد کےمقدمے میں ہیومن رائٹس سیل کے ڈائریکٹر کی جانب سے عدالتی اختیار استعمال کرنے پر سوال اٹھایا ہے اور لکھا ہے کہ چیف جسٹس کی منظوری بھی سپریم کورٹ کے حکم یا فیصلے کا متبادل نہیں ہو سکتی، عدالت نے آئین کے تقاضوں کے مطابق یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ معاملہ مفاد عامہ اور بنیادی حقو ق کا ہے۔ فاضل جج نے لکھا ہے کہ اگر وہ یہ نوٹ نہ لکھتے تو ان کے ضمیر پر بوجھ ہوتا اور بطور جج فرائض سے روگردانی ہوتا۔ واضح رہے کہ گذشتہ بدھ کے روز چیف جسٹس ثاقب نثار پشاور میں مقدمات کی سماعت کے دوران اچانک بنچ سے اٹھ گئے تھے اور بعد ازاں اس بینچ میں جسٹس فائز کو شامل نہ کیا تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں