امریکی سفارت خانہ مقبوضہ القدس منتقل

امریکی سفارت خانہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پراسرائیل کے دارلحکومت تل ابیب سے مقبوضہ القدس منتقل ہوا ہے۔


Editorial May 14, 2018
امریکی سفارت خانہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پراسرائیل کے دارلحکومت تل ابیب سے مقبوضہ القدس منتقل ہوا ہے۔ فوٹو: فائل

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے امریکی سفارت خانے کی القدس یعنی یروشلم منتقلی کے اعلان پر دنیا بھر میں احتجاجی آوازیں بلند ہوئی تھیں جس سے توقع کی جا رہی تھی کہ شاید صدر ٹرمپ اپنے اس دل آزار بیان یا فیصلے پر نظرثانی کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے اپنے اس ارادے سے باز رہنے کی کوشش کریں گے مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ انھوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اپنے اس اعلان پر عمل درآمد بھی کر دیا اور مقبوضہ بیت المقدس میں کھلنے والے نئے امریکی سفارت خانے میں ابتدائی طور پر کم ازکم 50 اہل کاروں کا عملہ تعینات کر دیا۔

صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے اعلیٰ اہلکاروں نے سفارت خانے کے انتظامات کا جائزہ لیا۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق سفارت خانے کا با قاعدہ افتتاح آج (بروز پیر) ہو جائے گا۔ امریکی سفارت خانہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پراسرائیل کے دارلحکومت تل ابیب سے مقبوضہ القدس منتقل ہوا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق افتتاحی تقریب میں 800 مہمانوں کی شرکت متوقع ہے۔

حکام کا کہنا تھا کہ دورے کے دوران، امریکی وفد کسی فلسطینی اہل کار سے ملاقات نہیں کرے گا۔ سفارت خانے کے ابتدائی عملے میں سفیر ڈیوڈ فرائڈمین کے مشیر اور قونصل خانے کے اہل کار شامل ہیں جو پہلے ہی اسی مقام پر کام کر رہے ہیں۔ سفارت خانے کا آغاز امریکا کی موجودہ ویزا اور پاسپورٹ کے اجرا کی تنصیب کے عملے سے ہو گا، جو اسرائیل میں موجود امریکی اہل کاروں میں سے مختصر ارکان پر مشتمل ہے۔ اہلکاروں کی شناخت ظاہر کرنے کی اجازت نہیں تھی۔

دریں اثناء امریکی سفارت خانہ منتقلی کے خلاف دنیا کے مختلف ممالک میں مظاہرے کیے جا رہے ہیں جب کہ انڈونیشی دارالحکومت جکارتہ میں بھی احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں ہزاروں شہری شریک ہوئے۔ شرکاء نے فلسطینی جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے۔ انڈونیشیا کے صدر جوکو وِدودو نے بھی فلسطینی عوام کی حمایت کا اعلان کیا۔

صدر ٹرمپ نے الیکشن مہم کے دوران جو کچھ کہا تھا ،وہ اس پر بتدریج عمل کررہے ہیں۔ ان کے اہداف واضح ہیں اور وہ کسی ابہام کا بھی شکار نہیں ہیں۔ شمالی کوریا اور ایران کے بارے میں ان کے اقدامات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ پاکستان کے بارے میں بھی ان کے خیالات مثبت نہیں ہیں۔وہ جب سے برسراقتدار آئے ہیں پاکستان اور امریکا درمیان تعلقات میں سرد مہری بڑھی ہے۔

مسلم ممالک خصوصاً عرب لیگ کی حالت سب کے سامنے ہے، مشرق وسطیٰ کے ممالک ایک دوسرے کے خلاف بر سرپیکار ہیں اور ان کے درمیان ہم آہنگی کا امکان بھی نہیں ہے۔مصرتو ویسے ہی اسرائیل کو تسلیم کرچکا ہے جب کہ ترکی نے بھی اسرائیل کو تسلیم کررکھا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ ممالک اپنے سفارتخانے یروشلم منتقل کرتے ہیں یا نہیں۔اس وقت دنیا امریکا کے فیصلے کو درست قرار نہیں دے رہی لیکن مسلم ممالک کی حالت کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں یورپی ممالک بھی امریکا کی تقلید کرسکتے ہیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں