عوام کو ڈیلیور کیجیے
ہمارے قابل احترام سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار جو فیصلے کررہے ہیں قوم انھیں سلام کرتی ہے۔
راقم عمرے کی ادائیگی کے حوالے سے کالم نہ لکھ سکا اور اس پندرہ دن میں جو سیاسی منفی بیانات میں وہاں دیکھا کرتا تھا تو مجھے بہت افسوس ہوتا تھا، پاکستان کی سمت تو بالکل صحیح ہے مگر چند سیاست دانوں نے اس کو بدلنے کی پوری کوشش کی ہے اور یہ سیاست دان ہی ہیں جنھوں نے اس قوم کے اداروں کو نئے نئے نام دیے۔
کوئی خلائی مخلوق کہتا ہے، کوئی آمر اور ڈکٹیٹر کہتا ہے مگر آج میں جمہوریت میں ہونے والے کارناموں پر مختصر روشنی ضرور ڈالوںگا۔ اہل سیاست صرف اپنی بقا کے لیے 1988 سے قوم کو صبر کی تلقین کررہے ہیں اور بنیادی سہولتوں سے عوام کو محروم کرکے اپنے ذاتی ایجنڈے پر کام کررہے ہیں، جس سے عوامی صورتحال ابتر سے ابتر ہوتی جارہی ہے۔ ان میں کھ لوگ مکافات عمل کا شکار بھی ہوئے ہیں۔
نواز شریف جب ماضی میں 1997 میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے تو جو انھوں نے پہلا کام کیا وہ جمعہ کی چھٹی ختم کرنا تھا، جس کو عوام نے بہت محسوس کیا تھا۔ اس زمانے کے سینئر صحافی حضرات نے باور بھی کرایا کہ جمعہ کی چھٹی ختم نہ کی جائے اس سے جمعہ کے اہتمام میں فرق پڑے گا اور آج یہ حال ہے کہ نوکری، کاروباری طبقہ صرف ایک گھنٹہ نکال پاتا ہے، اس میں انھوں نے دوپہر کا کھانا اور جمعہ کی نماز بھی پڑھنی ہوتی ہے۔
یہ سیاست دان بے مقصد تصادم کے سمندر میں اتنے اتر چکے ہیں کہ یہ کسی بات پر توجہ دینے کو تیار نہیں، ہر پارٹی میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار موجود ہیں۔ یہ جمعہ نواز شریف کو بہت مہنگا پڑا، بھاری اکثریت ہونے کے باوجود 1999 میں گھر روانہ کردیا گیا، اس کے بعد کا حساب بھی دیکھ لیں۔ (1) نواز شریف جب پہلی بار نااہل ہوئے وہ جمعہ کا دن تھا۔ (2) دوسری بار نااہل ہوئے وہ جمعہ کا دن تھا۔ (3) تیسری بار نااہل ہوئے تو وہ جمعہ کا دن تھا۔ (4) اور جب تاحیات نااہل ہوئے تب بھی جمعہ کا دن تھا۔ اسلامی روایات کی جو لوگ پاسداری نہیں کرتے وہ مسائل کی چکی میں بری طرح پس جاتے ہیں۔
پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا مگر گوروں کی خوشنودی کے لیے آپ نے اس ملک کے عوام کو ملیامیٹ کیا۔ عوام تو بے چارے کولہو کا بیل ہیں، مفلوک الحال اور بے سرو ساماں ہیں، مگر خداوند کریم اپنا حساب لینا جانتا ہے۔ وہ دنیا میں دکھا دیتا ہے کہ جو لوگ اس کی راہ سے ہٹ جاتے ہیں وہ اس کے غیظ و غضب کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس پر زندگی اتنی آسان نہیں ہوتی جتنا وہ سمجھتا ہے۔ انسان کی امارات زمین پر ہے، آسمانوں پر نہیں۔ سیاسی صورتحال بہت خراب ہے، کبھی اداروں پر باتیں کی جاتی ہیں، کبھی انھیں خلائی مخلوق کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
یہ سیاسی لوگ کبھی آمر کہتے ہیں، کبھی ڈکٹیٹر کہتے ہیں۔ حالانکہ اکثر ان ہی افراد کی گود میں پل کر سیاسی قد اونچا کرتے رہے۔ سفر کا آغاز کچھ یوں ہوا کہ بھٹو صاحب ایوب خان کی کابینہ میں وفاقی وزیر تھے، جب خود وزیراعظم بنے تو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی رہے، انھی سیاست دانوں کے اختلافات کی وجہ سے بھٹو اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے اور جنرل ضیا الحق نے اقتدار سنبھال لیا۔
نواز شریف ان کی کابینہ میں وزیر بھی رہے اور پھر وزیراعلیٰ پنجاب بنے اور اس کے بعد پاکستان کے وزیراعظم بنے، اس کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف پر پرویز مشرف کے طیارے کو ہائی جیک کرنے کا الزام لگا اور وہ اقتدار سے فارغ کردیے گئے۔
اور اب آپ کو مارشل لا اور جمہوریت کا فرق بھی بتاتا چلوں، یہ سیاست دان جمہوریت کو واجب الاحترام کہتے ہیں مگر اس جمہوریت نے عوام کے کس بل نکال دیے، مہنگائی نے غریبوں کی اس جمہوریت میں کھل کر انسانیت سوز تذلیل کی اور خود یہ سیاست دان قوم کے لیے گراں قدر اثاثہ بن گئے۔ اب جمہوریت اور مارشل لا کا فرق دیکھیے۔ فرق دیکھنے کے بعد قارئین فیصلہ کریں کہ اس جمہوریت نے کیا کچھ کیا اور اس خلائی مخلوق نے کیا کیا، اسے بھی غور سے دیکھ لیں۔
گزشتہ دور آمریت اور حالیہ دور جمہوریت میں مہنگائی کا میزانیہ ہوشربا طور پر بڑھا ہے، اشیائے صرف کی قیمتیں تین گنا ہوچکی ہیں، ڈالر 51 روپے سے آج کی جمہوریت میں 110 روپے کا ہوگیا ہے۔ اس کا اثر زیادہ تر غریب پر پڑا، مگر اس بے چارے کو پتا نہیں کہ اس کے برے اثرات کا شکار وہ بھی ہوگیا ہے۔ اب تحصیل اور ضلع میں رہنے والے غیر تعلیم یافتہ حضرات کو کچھ پتا نہیں کہ اس مہنگائی کا ذمے دار کون ہے۔ یہ سب جمہوریت کے چیمپئن ہیں مگر خدارا جمہوریت کا فائدہ عوام کو ہونا چاہیے، مگر یہاں نظام نرالا ہے۔
جمہوریت قوم کے لیے اور آئین سیاست دانوں کے لیے ہے، ان چند سیاست دانوں نے عوام کو نیست و نابود کرکے رکھ دیا ہے، جس کا زندہ ثبوت یہ ہے کہ یہاں کے اسپتال ناکارہ، سست روی کا شکار، گندگی اور غلاظت سے بھرپور۔ اگر یہ تمام باتیں یہاں کے اسپتالوں میں نہیں ہیں (جو جمہوریت کی پیداوار ہیں) تو پھر یہاں کے سیاست دان کمر کے درد، نزلہ، کھانسی، ہارٹ اٹیک، کینسر کا علاج کرانے لندن اور امریکا کیوں جاتے ہیں۔ تو پھر اس بات پر صبر کرلیں کہ جمہوریت عوام کے لیے اور آئین سیاست دانوں کے لیے۔
آج کل سیاست دانوں پر الیکشن کا بھوت سوار ہے اور اقتدار کا نشہ حاصل کرنے کے لیے جو 30 سال سے حکومتیں کررہی ہیں، وہ مظلوم بنے اپنے لیے منصفانہ فیصلے تلاش کرتے پھررہے ہیں اور آبرومندانہ راستہ قوم کو دکھاتے پھررہے ہیں۔ شہروں میں رہنے والے تعلیم یافتہ لوگ ان مداریوں کو خوب جانتے ہیں اور ان سیاست دانوں نے شاطرانہ چال سے آج کل روحانی دکانیں کھول لی ہیں۔ اگر یہ خلائی مخلوق اور عدالتیں نہ ہوتیں تو یہ قوم کب کی مرچکی ہوتی۔
ہمارے قابل احترام سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار جو فیصلے کررہے ہیں قوم انھیں سلام کرتی ہے۔ میرٹ کی دھجیاں بکھیر کر اسے گھر کے لونڈی بنالیا ہے، اب ان سب کا فیصلہ سامنے آرہا ہے۔ عدالتیں قابل ستائش اقدام کرکے آبرومندانہ فیصلے کررہی ہیں اور عدالتوں پر کام کا اتنا بوجھ ہے کہ مثال کچھ یوں ہے کہ ایک انار ہے اور سو بیمار ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اب منصفانہ تقسیم شروع ہورہی ہے اور مزے کی بات یہ دیکھیں کہ سوشل میڈیا نے سب کو جگا دیا ہے۔
وزیر داخلہ احسان اقبال کو گزشتہ دنوں فائرنگ کرکے زخمی کردیا، قوم کی اور راقم کی پوری ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں کہ جو کچھ ہوا غلط ہوا، جب وزیر داخلہ محفوظ نہیں تو قوم کا اﷲ حافظ ہے۔ کبھی حکومتی کرتا دھرتاؤں نے یہ سوچا ہے کہ بے قصور لوگوں کو فائرنگ کرکے صرف ایک موبائل کے لیے مار دیا جاتا ہے اور ایسے قاتلوں کا تو پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ کون لوگ تھے۔ ہاں یہ ضرور پتا چلتا ہے کہ ایک گھر کا چراغ بجھ گیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اﷲ نے حساب کتاب کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔
کوئی خلائی مخلوق کہتا ہے، کوئی آمر اور ڈکٹیٹر کہتا ہے مگر آج میں جمہوریت میں ہونے والے کارناموں پر مختصر روشنی ضرور ڈالوںگا۔ اہل سیاست صرف اپنی بقا کے لیے 1988 سے قوم کو صبر کی تلقین کررہے ہیں اور بنیادی سہولتوں سے عوام کو محروم کرکے اپنے ذاتی ایجنڈے پر کام کررہے ہیں، جس سے عوامی صورتحال ابتر سے ابتر ہوتی جارہی ہے۔ ان میں کھ لوگ مکافات عمل کا شکار بھی ہوئے ہیں۔
نواز شریف جب ماضی میں 1997 میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے تو جو انھوں نے پہلا کام کیا وہ جمعہ کی چھٹی ختم کرنا تھا، جس کو عوام نے بہت محسوس کیا تھا۔ اس زمانے کے سینئر صحافی حضرات نے باور بھی کرایا کہ جمعہ کی چھٹی ختم نہ کی جائے اس سے جمعہ کے اہتمام میں فرق پڑے گا اور آج یہ حال ہے کہ نوکری، کاروباری طبقہ صرف ایک گھنٹہ نکال پاتا ہے، اس میں انھوں نے دوپہر کا کھانا اور جمعہ کی نماز بھی پڑھنی ہوتی ہے۔
یہ سیاست دان بے مقصد تصادم کے سمندر میں اتنے اتر چکے ہیں کہ یہ کسی بات پر توجہ دینے کو تیار نہیں، ہر پارٹی میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار موجود ہیں۔ یہ جمعہ نواز شریف کو بہت مہنگا پڑا، بھاری اکثریت ہونے کے باوجود 1999 میں گھر روانہ کردیا گیا، اس کے بعد کا حساب بھی دیکھ لیں۔ (1) نواز شریف جب پہلی بار نااہل ہوئے وہ جمعہ کا دن تھا۔ (2) دوسری بار نااہل ہوئے وہ جمعہ کا دن تھا۔ (3) تیسری بار نااہل ہوئے تو وہ جمعہ کا دن تھا۔ (4) اور جب تاحیات نااہل ہوئے تب بھی جمعہ کا دن تھا۔ اسلامی روایات کی جو لوگ پاسداری نہیں کرتے وہ مسائل کی چکی میں بری طرح پس جاتے ہیں۔
پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا مگر گوروں کی خوشنودی کے لیے آپ نے اس ملک کے عوام کو ملیامیٹ کیا۔ عوام تو بے چارے کولہو کا بیل ہیں، مفلوک الحال اور بے سرو ساماں ہیں، مگر خداوند کریم اپنا حساب لینا جانتا ہے۔ وہ دنیا میں دکھا دیتا ہے کہ جو لوگ اس کی راہ سے ہٹ جاتے ہیں وہ اس کے غیظ و غضب کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس پر زندگی اتنی آسان نہیں ہوتی جتنا وہ سمجھتا ہے۔ انسان کی امارات زمین پر ہے، آسمانوں پر نہیں۔ سیاسی صورتحال بہت خراب ہے، کبھی اداروں پر باتیں کی جاتی ہیں، کبھی انھیں خلائی مخلوق کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
یہ سیاسی لوگ کبھی آمر کہتے ہیں، کبھی ڈکٹیٹر کہتے ہیں۔ حالانکہ اکثر ان ہی افراد کی گود میں پل کر سیاسی قد اونچا کرتے رہے۔ سفر کا آغاز کچھ یوں ہوا کہ بھٹو صاحب ایوب خان کی کابینہ میں وفاقی وزیر تھے، جب خود وزیراعظم بنے تو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی رہے، انھی سیاست دانوں کے اختلافات کی وجہ سے بھٹو اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے اور جنرل ضیا الحق نے اقتدار سنبھال لیا۔
نواز شریف ان کی کابینہ میں وزیر بھی رہے اور پھر وزیراعلیٰ پنجاب بنے اور اس کے بعد پاکستان کے وزیراعظم بنے، اس کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف پر پرویز مشرف کے طیارے کو ہائی جیک کرنے کا الزام لگا اور وہ اقتدار سے فارغ کردیے گئے۔
اور اب آپ کو مارشل لا اور جمہوریت کا فرق بھی بتاتا چلوں، یہ سیاست دان جمہوریت کو واجب الاحترام کہتے ہیں مگر اس جمہوریت نے عوام کے کس بل نکال دیے، مہنگائی نے غریبوں کی اس جمہوریت میں کھل کر انسانیت سوز تذلیل کی اور خود یہ سیاست دان قوم کے لیے گراں قدر اثاثہ بن گئے۔ اب جمہوریت اور مارشل لا کا فرق دیکھیے۔ فرق دیکھنے کے بعد قارئین فیصلہ کریں کہ اس جمہوریت نے کیا کچھ کیا اور اس خلائی مخلوق نے کیا کیا، اسے بھی غور سے دیکھ لیں۔
گزشتہ دور آمریت اور حالیہ دور جمہوریت میں مہنگائی کا میزانیہ ہوشربا طور پر بڑھا ہے، اشیائے صرف کی قیمتیں تین گنا ہوچکی ہیں، ڈالر 51 روپے سے آج کی جمہوریت میں 110 روپے کا ہوگیا ہے۔ اس کا اثر زیادہ تر غریب پر پڑا، مگر اس بے چارے کو پتا نہیں کہ اس کے برے اثرات کا شکار وہ بھی ہوگیا ہے۔ اب تحصیل اور ضلع میں رہنے والے غیر تعلیم یافتہ حضرات کو کچھ پتا نہیں کہ اس مہنگائی کا ذمے دار کون ہے۔ یہ سب جمہوریت کے چیمپئن ہیں مگر خدارا جمہوریت کا فائدہ عوام کو ہونا چاہیے، مگر یہاں نظام نرالا ہے۔
جمہوریت قوم کے لیے اور آئین سیاست دانوں کے لیے ہے، ان چند سیاست دانوں نے عوام کو نیست و نابود کرکے رکھ دیا ہے، جس کا زندہ ثبوت یہ ہے کہ یہاں کے اسپتال ناکارہ، سست روی کا شکار، گندگی اور غلاظت سے بھرپور۔ اگر یہ تمام باتیں یہاں کے اسپتالوں میں نہیں ہیں (جو جمہوریت کی پیداوار ہیں) تو پھر یہاں کے سیاست دان کمر کے درد، نزلہ، کھانسی، ہارٹ اٹیک، کینسر کا علاج کرانے لندن اور امریکا کیوں جاتے ہیں۔ تو پھر اس بات پر صبر کرلیں کہ جمہوریت عوام کے لیے اور آئین سیاست دانوں کے لیے۔
آج کل سیاست دانوں پر الیکشن کا بھوت سوار ہے اور اقتدار کا نشہ حاصل کرنے کے لیے جو 30 سال سے حکومتیں کررہی ہیں، وہ مظلوم بنے اپنے لیے منصفانہ فیصلے تلاش کرتے پھررہے ہیں اور آبرومندانہ راستہ قوم کو دکھاتے پھررہے ہیں۔ شہروں میں رہنے والے تعلیم یافتہ لوگ ان مداریوں کو خوب جانتے ہیں اور ان سیاست دانوں نے شاطرانہ چال سے آج کل روحانی دکانیں کھول لی ہیں۔ اگر یہ خلائی مخلوق اور عدالتیں نہ ہوتیں تو یہ قوم کب کی مرچکی ہوتی۔
ہمارے قابل احترام سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار جو فیصلے کررہے ہیں قوم انھیں سلام کرتی ہے۔ میرٹ کی دھجیاں بکھیر کر اسے گھر کے لونڈی بنالیا ہے، اب ان سب کا فیصلہ سامنے آرہا ہے۔ عدالتیں قابل ستائش اقدام کرکے آبرومندانہ فیصلے کررہی ہیں اور عدالتوں پر کام کا اتنا بوجھ ہے کہ مثال کچھ یوں ہے کہ ایک انار ہے اور سو بیمار ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اب منصفانہ تقسیم شروع ہورہی ہے اور مزے کی بات یہ دیکھیں کہ سوشل میڈیا نے سب کو جگا دیا ہے۔
وزیر داخلہ احسان اقبال کو گزشتہ دنوں فائرنگ کرکے زخمی کردیا، قوم کی اور راقم کی پوری ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں کہ جو کچھ ہوا غلط ہوا، جب وزیر داخلہ محفوظ نہیں تو قوم کا اﷲ حافظ ہے۔ کبھی حکومتی کرتا دھرتاؤں نے یہ سوچا ہے کہ بے قصور لوگوں کو فائرنگ کرکے صرف ایک موبائل کے لیے مار دیا جاتا ہے اور ایسے قاتلوں کا تو پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ کون لوگ تھے۔ ہاں یہ ضرور پتا چلتا ہے کہ ایک گھر کا چراغ بجھ گیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اﷲ نے حساب کتاب کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔