فرخ محمود کی شاعری اور مقولے

فرخ محمود اپنے گھرانے کے پہلے فرد ہیں جو شاعری کی طرف آئے۔


Saeed Parvez May 14, 2018

فروری 2018 میں لاہور جانا ہوا۔ اکادمی ادبیات لاہور نے مشاعرے کا اہتمام کیا، اس کے منتظم ممتاز راشد لاہوری تھے۔ ممتاز راشد لاہوری شاعر ہیں، افسانے بھی لکھتے ہیں اور ادبی پروگرام آرگنائز کرنے کے ماہر ہیں۔ یہ مہارت انھیں اس مقام تک لے آئی ہے کہ اپنے ادبی پروگرام ترتیب دینے کی سنچری بنا چکے ہیں۔ اس سنچری پر ان کے اعزاز میں ایک بڑا فنکشن منعقد کیا گیا، جس میں ادیبوں و شاعروں نے ممتاز راشد لاہوری کے لیے محبتوں کے نذرانے پیش کیے۔

میری لاہور آمد کا پتا چلا تو ممتاز راشد لاہوری نے مجھے مشاعرے میں مدعو کرلیا۔ شاعر پروفیسر ناصر بشیر مشاعرے کے مہمان خصوصی تھے اور صدارت مجھے بخشی گئی۔ اکادمی ادبیات لاہور کے چھوٹے سے ہال میں مشاعرے کا اہتمام تھا۔ لگ بھگ بیس شعرا و شاعرات شریک مشاعرہ تھے۔ اسی مشاعرے میں پروفیسر فرخ محمود سے ملاقات ہوگئی۔ فرخ محمود پینتالیس پچاس سال کے ہیں اور ایک کالج میں پڑھاتے ہیں۔

مشاعرے میں فرخ محمود کے شعر سنے، مگر جب انھوں نے اپنے مقولے سنانا شروع کیے ، اور سامعین کا ذوق و شوق سے سننا دیکھا تو کم ازکم میرے لیے یہ حیران کردینے والی بات تھی۔ پتا چلا کہ فرخ محمود جہاں بھی مشاعرے میں مدعو کیے جاتے ہیں تو شاعری کے ساتھ ساتھ وہ اپنے مقولے (آپ اقوال کہہ لیں، انگریزی میں کوٹیشنز (Quotations) کہہ لیں) بھی سناتے ہیں۔ یہ لاہور کے واحد شاعر ہیں جو مشاعروں میں اس انداز سے شریک ہوتے ہیں۔ ان کا شعر سن لیجیے، زندگی کے بارے میں کیا خوب اظہار ہے:

ہم سے کیا زندگی کا پوچھتے ہو!

اک دیے کی ہوا سے دوستی ہے

یہ شعر ہی شاعر کا اعتبار قائم کردیتا ہے، اور قاری کی توجہ حاصل کرلیتا ہے۔

پروفیسر فرخ محمود کا شعری مجموعہ ''تیشۂ سخن'' میرے سامنے ہے۔

''درد حیاتی دا'' کے عنوان سے اپنے بارے میں وہ لکھتے ہوئے اپنے اس مقولے کو بنیاد بناتے ہیں ''پہل کرنا ہی جیت کا آغاز ہوتا ہے'' شاعری ان کے خاندان میں دور دور تک کہیں نظر نہیں آتی، والد محمد یار کھوکھر سرکاری افسر تھے۔ شاعر نے اپنے والد کو ''اجلی روح'' سے تعبیر کیا ہے، ویسے والدین سارے ہی اولاد کے لیے اجلی روح ہوتے ہیں۔

فرخ محمود اپنے گھرانے کے پہلے فرد ہیں جو شاعری کی طرف آئے اور اپنے مقولے کو سچ ثابت کردیا کہ ''پہل کرنا ہی جیت کا آغاز ہوتا ہے۔''

فرخ محمود نے شاعری کے میدان میں پہل کی اور یوں ادبی میدان مارا کہ لاہور سے نکل کر ان کی پہچان ادبی دنیا میں ہوچکی ہے۔ ادب کے موقر رسائل میں چھپتے ہیں اور پسند کیے جاتے ہیں۔ فرخ کا ایک چھوٹی بحر کا بیکراں شعر سنیے:

مری رگوں میں دوڑتا

خیال ہی خیال ہے

موسیقی کے سات سُر ہیں اور دیکھیں یہ سات سُر بے انت ہیں، کیسی کیسی دھنیں، کیسے کیسے مدھر گیت، نغمے، نظمیں، غزلیں محض ان سات سُروں سے وجود میں آئے۔ یہی حال شاعری کا ہے۔ شاعری کا بھی کوئی انت نہیں ہے۔ دنیا بھر کے شاعروں نے کروڑوں صفحے لکھ ڈالے اور ابھی سفر جاری ہے۔ فرخ محمود بھی اسی سفر کا مسافر ہے۔ تیشۂ سخن سے چند شعر دیکھیے:

جو نکالے گا جوئے صدق و صفا

وہ سرا تیشۂ سخن ہوگا

٭٭

اک زمانے کا میرے شانوں پر

بوجھ اپنا کوئی اتار گیا

٭٭

جتنے چراغ تھے تری یادوں کے جل بجھے

بجھنے لگے ہیں ہم بھی کسی شام کی طرح

٭٭

زندگی کی عجب کہانی ہے

بار ہے غم کا ہار یار عجیب

٭٭

اس جہاں میں جہاں جہاں دیکھا

شر رگ زیست میں رواں دیکھا

اور اب شاعر فرخ محمود کے چند مقولے:

''بڑا انسان، انسانی فطرت کا نباض اور اپنی فطرت میں فیاض ہوتا ہے۔''

''بادشاہ معاف نہیں کرتا، جو معاف کرتا ہے وہ بادشاہ ہوتا ہے۔''

''نفس کی غلامی، غلام کی غلامی ہے۔''

''ساس کہتی ہے، اپنے بیٹے کے لیے چاند سی دلہن لاؤں گی، اور پھر اسے دن میں تارے دکھاؤں گی۔''

''تن کی دنیا نفسانفسی، من کی دنیا کسرِ نفسی۔''

''ٹیڑھے معاشرے میں، ٹیڑھے منہ سے انگریزی بولنے والوں کے ٹیڑھے کام بھی سیدھے ہوجاتے ہیں۔''

''عظیم لوگوں کی موت، عظمت کی موت۔''

''اپنے آپ سے ناراض رہنے والے کو کوئی خوش نہیں کرسکتا، جب کہ خود سے خوش رہنے والے کو کوئی ناراض نہیں کرسکتا۔''

مشاعرے میں پروفیسر فرخ محمود کے مقولوں پر یوں داد ملتی ہے جیسے اچھے اشعار پر داد ملتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں