رمضان قریب آتے ہی کھجور بازار میں کاروبار عروج پر پہنچ گیا

طلب پوری کرنے کیلیے50فیصدکھجورایران اورعراق سے درآمدکی جاتی ہے،150خوردہ اسٹال اور200تھوک دکانوں پرفروخت جاری


Kashif Hussain May 14, 2018
ٹھیلوں پرفروخت کرنیوالے بھی اسی بازار سے کھجورلے جاتے ہیں،مخیرافرادبھی بڑی مقدارمیںکھجورکی خریداری کیلیے آرہے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

MANSEHRA: کراچی کے خریدار کھجور کی خریداری کے لیے لی مارکیٹ کا رخ کررہے ہیں جہاں رمضان کے لیے کھجور کی بڑے پیمانے پر فروخت جاری ہے۔

پاکستان کے سب سے بڑا کھجور بازار لیاری کے قریب لی مارکیٹ میں واقع ہے جہاں عام دنوں میں 100کے لگ بھگ دکانوں پر کھجور فروخت کی جاتی ہے تاہم رمضان المبارک کے مہینے میں ملک بھر کی کھجور کی طلب پوری کرنے کے لیے کھجور کی فروخت کے تھوک مراکز کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوجاتا ہے رمضان سے قبل شعبان کے مہینے سے ہی کھجور کی فروخت عروج پر پہنچ جاتی ہے۔

ملکی طلب پوری کرنے کے لیے 50فیصد کھجور ایران سے درآمد کی جاتی ہے اس کے علاوہ عراق سے بھی کھجور درآمد کی جاتی ہے، لی مارکیٹ کی کھجور مارکیٹ میں اس وقت 150سے زائد خوردہ اسٹالز اور 200تھوک دکانوں پر کھجور کی بڑے پیمانے پر فروخت جاری ہے۔

شہر بھر سے ریڑھیوں پر کھجور فروخت کرنے والے خوردہ فروش بھی اسی مارکیٹ سے کھجور لے کر شہر میں جگہ جگہ فروخت کرتے ہیں رمضان میں کھانے پینے کی اشیا اور راشن تقسیم کرنے والے مخیر ادارے اور افراد بھی وافر مقدار میں کھجور کی خریداری کے لیے لی مارکیٹ کی کھجور بازار کا رخ کرتے ہیں۔

بازار کے دکانداروں کے مطابق کھجور بازار قیام پاکستان سے قبل ہی قائم تھا جہاں ایران، گوادر، بلوچستان اور خلیج کے دیگر ملکوں سے لائی جانے والی کھجور فروخت کی جاتی تھی اور کراچی کی بندرگاہ کے راستے دنیا کے دیگر ملکوں کو بھی بھیجی جاتی تھی رمضان کی آمد کی وجہ سے کھجور بازار میں پیر رکھنے کی جگہ نہیں ہے لوڈنگ گاڑیوں کے علاوہ کھجور کی ترسیل اور مال برداری کے لیے رکشے بھی استعمال کیے جارہے ہیں۔

کھجور کے گوداموں سے دکانوں تک ترسیل کے لیے ہاتھ گاڑیاں استعمال کی جاتی ہیں جن سے یومیہ اجرت کمانے والوں کو روزگار ملتا ہے دکانداروں کا کہنا ہے کہ لیاری میں آپریشن کے بعد سے شہر کے دیگر علاقوں اور دوسرے شہروں کے خریداروں کی آمد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اس سے قبل بڑے تاجر کھجور بازار آنے اور اپنے ہمراہ رقم لانے سے ڈرتے تھے جس سے تاجروں کو نقصان کا سامنا تھا تاہم گزشتہ 2 سال سے حالات پرامن ہیں جس سے تجارتی سرگرمیوں کو فروغ مل رہا ہے۔

ایران سے کھجور کی درآمدمیں مشکلات درپیش ہیں،تاجررہنما

کھجور بازار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری حاجی محمد حنیف بلوچ کے مطابق ایران سے کھجور کی زمینی راستے سے درآمد پر سخت پابندیوں اور امپورٹ پرمٹ کے اطلاق کی وجہ سے ایران سے کھجور کی درآمد میں مشکلات کا سامنا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ قرنطینہ ڈپارٹمنٹ پنجگور کے راستے کھجور کی درآمد کے لیے امپورٹ پرمٹ جاری نہیں کررہی اور تفتان سے کھجور درآمد کرنے پر زور دیا جارہا ہے پنجگور سے کراچی کا راستہ 600کلومیٹر ہے جبکہ تفتان کا فاصلہ 1500کلو میٹر ہے، کھجور کے بیوپاری وافر مقدار میں پنجگور کے راستے ایرانی کھجور درآمد کرچکے ہیں تاہم امپورٹ پرمٹ کی مشکلات کی وجہ سے کھجور کسٹم حکام کلیئر نہیں کررہے پنجگور سے کراچی تک فاصلہ کم ہونے کی وجہ سے ٹرک کا کرایہ 70سے 80ہزار روپے بنتا ہے لیکن تفتان سے کراچی تک کرایہ ڈیڑھ لاکھ روپے وصول کیا جاتا ہے۔

پنجگور کے علاوہ گوادر کے نزدیک دو ہزار پچاس نامی راستے سے بھی کھجور لائی جاسکتی ہے لیکن ان راستوں کے لیے امپورٹ پرمٹ جاری نہیں کیا جارہا پنجگور اور گوادر کی سڑکیں اچھی ہونے کی وجہ سے کم وقت میں مال کراچی پہنچتا ہے اور فاصلہ کم ہونے کی وجہ سے کرایہ بھی کم لگتا ہے دوسری جانب تفتان سے کرایہ زیادہ، راستہ دشوار ہونے کے ساتھ سخت گرمی کی وجہ سے مال خراب بھی بہت ہوتا ہے جس سے لاگت بڑھتی ہے۔

محمد حنیف بلوچ کے مطابق قرنطینہ ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ پنجگور کے لیے عملہ دستیاب نہیں ہے اور صرف عملہ کی کمی کو جواز بناکر قومی خزانے کو نقصان پہنچایا جارہا ہے انھوں نے کہا کہ پنجگور سے کھجور کی درآمد کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے کھجور کی سپلائی میں رکاوٹ کا سامنا ہے اور نتیجہ قیمت میں اضافہ کی شکل میں عام صارف کو بھگتنا پڑرہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ کھجور کے درآمد کنندگان 200 سال سے اسی راستے سے کھجور درآمد کرتے ہیں تاہم مخصوص افراد کے علاوہ کسی کو پنجگور کا پرمٹ جاری نہیں کیا جارہا اور غیرقانونی طریقے سے تجارت کو فروغ مل رہا ہے جس سے قومی خزانے کو کسٹم ڈیوٹی کی مد میں نقصان کا سامنا ہے۔

دوسری جانب جن بااثر افراد کو تفتان اور پنجگور سے درآمد کے پرمٹ جاری کیے گئے ہیں انہوں نے اپنی مناپلی قائم کرلی ہے اور فی ٹرک 40سے 45ہزار روپے زائد وصول کیے جارہے ہیں جس سے کھجور مہنگی پڑرہی ہے۔

محمد حنیف بلوچ کے مطابق پاکستان کی اپنی سندھ کی فصل مارکیٹ میں نہ ہونے کی وجہ سے درآمدی کھجور پر انحصار بڑھ گیا ہے مارکیٹ میں درآمد شدہ ایرانی کھجور 6 ہزار سے 8 ہزار روپے من فروخت کی جارہی ہے10کلو کھجور کا ڈبہ 1500سے 1800روپے تک فروخت کیا جارہا ہے سندھ کی مقامی کھجور 70سے 80روپے کلو تک فروخت کی جارہی ہے۔

امسال گرمی کی شدت کے باعث کھجور کی طلب کم رہے گی

کھجور کے تاجروں کے مطابق رواں سال شدید گرمی کی وجہ سے کھجور کی طلب کم رہنے کی توقع ہے جس سے کھجور کی طلب قدرے کم اور قیمتیں گزشتہ سال کی سطح پر مستحکم رہنے کی امید ہے تاجروں کے مطابق تھوک سطح پر 150روپے کلو فروخت ہونے والی کھجورشہر میں ٹھیلوں پر 200روپے کلو تک فروخت کی جاتی ہے اسی طرح نصف کلو کا پیکٹ جو تھوک سطح پر 80 سے 90 روپے میں فروخت ہوتا ہے شہر میں 120سے 150روپے تک فروخت کیا جاتا ہے۔

کراچی میں کھلنے والے بڑے ڈپارٹمنٹل اسٹورز نے بھی رمضان کے لیے کھجور کاؤنٹر مخصوص کردیے ہیں جہاں عام کھجوروں کے علاوہ عرب ممالک سے درآمد کی جانے والی مہنگی کھجوریں فروخت کی جارہی ہیں جن کی قیمت 2000سے 3000روپے کلو وصول کی جاتی ہے، رمضان میں بیشتر گھرانوں میں کھجور بطور تحفتاًبھی بھجوائی جاتی ہے۔

کھجور حیرت انگیز طبی فوائد کی حامل اور توانائی بحال کرتی ہے،ماہرین طب

کھجور حیرت انگیز طبی فوائد کی حامل ہے،غذائی ماہرین کے مطابق کھجور کا استعمال پیٹ کے امراض، امراض قلب، آنتوں کے مسائل ، ہیضہ کے تدارک کے لیے مفید ہے، کھجور میں موجود فائبر، معدنیات اور وٹامن اسے ایک مکمل غذا بناتے ہیں جس میں غذائی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ شفا بھی موجود ہے۔

کھجور میں قدرتی چکنائی، سلفر، آئرن اور پوٹاشیم ، فاسفورس اور میگنیشم پایا جاتا ہے جو صحت کے لیے مفید ہیں کھجور کا متوازن اور مسلسل استعمال وزن میں اضافہ، بچوں کی نشونما اور عمر رسیدہ افراد کو توانائی کی فراہمی کا بہترین ذریعہ ہے ماہرین کے مطابق کھجور کااستعمال معمول بنانے والوں کو آنتوں کے کینسر کا خدشہ کم ہوتا ہے کھجور سے روزہ افطار کرنے سے توانائی کی کمی فوری دور ہوتی ہے۔

کھجور کے غذائی اجزا بھوک کے احساس کو کم کرتے ہیں کھجور میں پایا جانے والا پوٹاشیم اور دیگر اہم معدنیات اعصابی نظام کو تقویت فراہم کرتے ہیں اور روزے کی وجہ سے نقاہت محسوس کرنے والے افراد کی طبعیت فوری بحال ہوجاتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں