’’قومی ادارہ برائے امراض قلب کراچی‘‘

بلا معاوضہ علاج کے باعث اسپتال مایوس اور غریب مریضوں کے لیے امید کی کرن بن گیا.

پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسپتال میں 3 مریضوں کی مکینیکل ہارٹ لگانے کے لیے رجسٹریشن کی گئی ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

کہتے ہیں ''جان ہے تو جہان ہے'' اور اس جان کو صحت کے ساتھ برقرار رکھنا سب اہم ہے۔

پاکستان میں ترقی یافتہ ممالک کی نسبت صحت کی سہولیات کا فقدان ہے جبکہ سرکاری اسپتالوں میں علاج کے حوالے سے خاصہ منفی رجحان پایا جاتا ہے اور اس کی بڑی وجہ وہاں صفائی سھترائی کے ناقص انتظامات ، مریض اور تیمارداروں سے عملے کا سلوک، دوائیں نہ ملنا اور دیگر بہت سے عوامل ہیں ۔ جبکہ نجی اسپتالوں میں علاج اس قدر مہنگا ہے کہ عام آدمی کی دسترس ہی باہر ہے خاص طور پر پاکستان میں امراض قلب کے مریضوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

امراض قلب کا علاج بہت مہنگا ہے ایسے میں جب ایک طرف مایوسی اور ناامیدی تھی سندھ حکومت کے ماتحت کام کرنے والے امراض قلب کے بڑے اسپتال'' قومی ادارہ برائے امراض قلب'' نے ملک بھر سے آنے والے غریب مریضوں کو پھر سے جینے کا حوصلہ بخشا ہے یقیناً یہ صوبائی حکومت کا قابل ستائش اقدام ہے۔ اس قومی ادارے میں دل کی تمام بیماروں کا مفت علاج کیا جارہا ہے اور اسی وجہ سے ملک میں امراض قلب کے علاج کا سب سے بڑا مرکز بن چکا ہے۔

اسپتال کو جلد ہی ایک اعزاز حاصل ہونے والا ہے اور وہ ہے یہاں ملک کی تاریخ میں پہلی بار مصنوعی دل(میکینکل ہارٹ) لگانے کی تیاری کی جارہی ہے ۔ اس سے قبل اس طرح کے آپریشن کے لیے پڑوسی ملک بھارت جانا پڑتا تھا جبکہ اخراجات بھی بہت زیادہ ہونے کے ساتھ دیگر مسائل بھی حائل تھے جبکہ کراچی کے قومی ادارہ امراض قلب میں مستقبل میں دل کی پیوندکاری( ہارٹ ٹرانسپلانٹ) کا منصوبہ بھی شروع کیا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں بغیر سینہ کھولے بائی پاس آپریشن بھی کیے جارہے ہیں۔ ایکسپریس نے اس سلسلے میں یہاں خدمات انجام دینے والے نامور طبی ماہرین کے ساتھ ایک فورم کا اہتمام کیا جس کی تفصیل قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔

پروفیسر ندیم قمر (ایگزیکٹوڈائریکٹر قومی ادارہ برائے امراض قلب )


فروری 2015ء میں جب حکومت سندھ نے ادارے کی ذمے داریاں دی تو اس ادارے کووفاق کی جانب سے400 ملین کی گرانٹ فراہم کی جاتی تھی جو کہ مریضوں کی تعداد کے حوالے سے بہت کم تھی ۔ میں نے چارچ سنبھالنے کے بعد ادارے میں مریضوں اورامراض قلب کے علاج کی تمام جدید ترین سہولتوں کی فراہمی کے لیے حکومت سندھ سے رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ ہمیں اسپتال کو بہتر اور جدید بنانے کے لیے وسائل کی کمی کا سامنا ہے لہٰذا حکومت اس سلسلے میں ہماری مدد کرے جس پر حکومت سندھ نے اسپتال کوگرانٹ کی مد میں 4.36بلین روپے فراہم کرنا شروع کردیے ۔ فنڈز کے ملنے کے بعد ادارے کی سینئر فیکلٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ اسپتال میں آنے والے دل کے تمام مریضوںکوبلا معاوضہ علاج کی سہولتیں فراہم کی جائیں اورقومی ادارہ برائے امراض قلب کو دنیا کا سب سے بہترین اسپتال بنایا جائے گا ۔ سینئرکارڈیک سرجنز، ڈاکٹروں ، پیرا میڈیکل عملے اورنرسنگ عملے کی انتھک کوششوںکے نتیجے میں ادارے میں دل کے مریضوں کے لیے پہلی بار پرائمری انجیوپلاسٹی متعارف کرائی گئی یعنی انجائناکے دردکے میں آنے والے مریضوںکی بلا معاوضہ فوری انجیوپلاسٹی کرکے دل کی بند شریانوں کو کھولنے کا عمل شروع کیاگیا تاکہ مریضوںکومستبقل میں دل کے دورے (ہارٹ اٹیک) سے بچایا جاسکے۔ یہ طریقہ علاج دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں جاری ہے،2017میں 5ہزار857امراض قلب کے مریضوں کی انجیوپلاسٹی کی گئی جس میں فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (FDA ) سے منظور شدہ اسٹنٹ ڈالے گئے اس کے علاوہ 3ہزار مریضوں کی بائی پاس (اوپن ہارٹ سرجری) بھی کی گئی ۔ اسپتال میں دل کی بیماریوں کا تمام علاج مفت ہونے کی وجہ سے مریضوں کی تعداد میں غیر معمولی دباؤ ہوگیا۔ صورتحال کو کنٹرول میں رکھنے اور سہولتوں کی فراہمی میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آنے دینے کے لیے اسپتال میں50 وینٹی لیٹر بھی لگائے گئے ہیں جس سے مریضوں کی زندگیوں کو بچانے میں بہت مدد ملی ہے۔ قومی ادارہ امراض قلب کی موجودہ عمارت ملک بھر سے آنے والے مریضوں کی تعداد میں بے پناہ اضافے کے باعث چھوٹی پڑ رہی ہے اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اسپتال کی حدود میں ایک نئی7منزلہ عمارت بھی تعمیرکرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اس حوالے سے حکومت سندھ نے اسپتال میں توسیعی منصوبے کی اجازت بھی دے دی ہے اس کے علاوہ اسپتال کی حدود میں ہی250بستروں پر مشتمل بچوں کے دل کی سرجری اور علاج ومعالجے کیلیے پیڈیاٹرکس کارڈیک یونٹ علیحدہ سے تعمیرکیا جارہا ہے جہاں دل کے عارضے میں مبتلا بچوں کے علاج کے لیے جدید ترین سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ اسپتال میں مریضوں کی سہولتوں کے پیش نظر موجودہ ایمرجنسی(شعبہ حادثات) میں مزید توسیعی کی جارہی ہے جس کے بعد امراض قلب کے شعبہ حادثات میں بستروں کی تعداد 100 ہوجائے کی۔اس وقت شعبہ حادثات میں 60بستر مختص ہیں۔ اس کے علاوہ جو اہم ترین کامیابی ہے وہ یہ ہے کہ یہاںدل کے امراض کی سرجری کے لیے نئی تیکنیکس بھی متعارف کرادی گئی ہیں والو کی تبدیلی بھی اسی تیکنیک کے ذریعے کی جارہی ہیں۔ دل کی سرجری (اوپن ہارٹ) اب مریض کا سینہ کھولے بغیر کی جارہی ہے جبکہ مصنوعی دل (مکینیکل ہارٹ) لگانے کے ماہرین بھی یہاں موجود ہیں ۔ امریکا میں مقیم پاکستانی ڈاکٹر جو دل کی پیوندکاری (ہارٹ ٹرانسپلانٹ) کے ماہر ہیں وہ اور ان کی وری ٹیم بھی اسپتال میں موجود ہے۔ اب تک3 مریضوں کومصنوعی دل لگانے کے لیے رجسٹرڈ بھی کیاجاچکا ہے ۔ سب اہم بات یہ ہے کہ مریضوں کو مصنوعی دل بھی مفت لگایا جائے گا جبکہ مستبقل میں دل کی پیوندکاری (ہارٹ ٹرانسپلانٹ) کی تمام تیاریاں بھی کرلی گئی ہیں ۔ مصنوعی دل لگانے کا تجربہ انتہائی کامیاب ہے اس مصنوعی دل کامریض مزید10سال زندگی گزار سکے گا ۔ مصنوعی دل (مکینیکل ہارٹ) لگانے کے منصوبے پر عملدرآمد جون (آئندہ ماہ) سے شروع کیاجائے گا اس سلسلے میں پہلا مریض قومی ہاکی ٹیم کے سابق گول کیپر منصور احمد کو ہونا تھا جو اسپتال میں زیر علاج تھے تاہم ان کے انتقال کے بعد یہ مصنوعی دل اب ان مریضوں کو لگائے جائیں گے جنھوں نے اپنی رجسٹریشن کرائی ہے ، منصور کو مصنوعی دل لگانے کے لیے امریکی فرم کو آڈر بھی دے دیا گیا تھا، جو جون کے وسط تک پاکستان پہنچ جائے گا ، اس منصوبے کا نام ہارٹ فیلیر علاج پروگرام ہے جو پاکستان کے سب سے بڑے اسپتال قومی ادارہ برائے امراض قلب میں شروع کیاجارہا ہے۔ ، یہ منصوبہ دل کی پیوندکاری کرنے والے ڈاکٹر پرویزچوہدری اور ڈاکٹر ندیم رضوی کی سربراہی میں شروع کیاجارہا ہے ۔

پروفیسرسید ندیم حسن رضوی ( ڈائریکٹر کیتھ لیب اینڈ ڈائریکٹر سیٹلائٹ سینٹرز،قومی ادارہ برائے امراض قلب)

قومی ادارہ امراض قلب کو بلاشبہ اس وقت علاج کی سہولتوں کے حوالے سے ممتاز مقام حاصل ہوچکا ہے یہاں بغیر سینہ کھولے بائی پاس اور انجیو گرافی پروسیجر ( ٹرانس کیتھٹرایوٹک والو امپلانٹیشن) TAVI کی مدد سے علاج کیا جارہا ہے اس تیکنیک کے ذریعے مریض کے سینے میں2 سوراخ کرکے کیمرے کی مدد سے سرجری کی جاتی ہے جبکہ اس سے قبل دل کے والو تبدیل کرنے کے لیے سرجری کی جاتی تھی تاہم اب ایسا نہیں نئی تیکنیک کی مدد سے اب تک50 سے زائد مریضوں کا کامیاب علاج کیا جاچکا ہے اور وہ صحت مند زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ بات نہایت اہم ہے کہ پاکستان میں یہ تیکنیک صرف قومی ادارہ امراض قلب میں استعمال کی جارہی ہے ۔ اگر آپ یہ ہی علاج امریکا یا یورپ کے کسی ملک میں کرائیں تو اس پر کروڑوں روپے کے اخراجات آنا معمول کی بات ہے۔ لیکن پاکستان جیسے ملک میں قومی ادارہ امراض قلب میں علاج کے لیے آنے والے مریضوں کو یہ بلا معاوضہ یہ سہولت مریضوں کو فراہم کی جارہی ہے۔ اور ماہر ڈاکٹر جدید سے جدید طریقہ علاج کو فراہم کرنے کے لیے مسلسل سرگرداں ہیں۔ یہ نئی اور جدید تیکنیک ادارے کے سربراہ پروفیسر ندیم قمرکی کوششوںکا ثمر ہے۔ مصنوعی دل (مکینیکل ہارٹ) امریکی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (FDA) سے منظور شدہ ہے اور اب اسپتال میں جلد ہی ہارٹ فیلیر مریضوںکو مشینی دل بھی لگانے کا عمل شروع کیاجارہا ہے اس کے لیے امریکا سے آئے ہوئے معروف ہارٹ ٹرانسپلانٹ کرنے والے پاکستانی ڈاکٹر پرویز چوہدری اوران کی ٹیم موجود ہے ۔ دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں اوپن ہارٹ سرجری کی شرح میں کم ہوتی جارہی ہے اور جدید ریسرچ اور تینکیک کو استعمال کرکے اب بغیر آپریشن امراض قلب کے مریضوں کا علاج کیا جارہا ہے۔ قومی ادارہ امراض قلب میں ایک اور نئی تیکینک( Minimal invasive procedure MiP ) بھی متعارف کرادی گئی ہے اس تیکنیک میں متاثرہ مریض کے سینے کو اوپن(کھولا) نہیں کیاجاتا اورسینے پر2 سوراخ کرکے کیمرے کی مدد سے بائی پاس کیاجارہا ہے۔ عالمی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے 2010ء میں مکینکل ہارٹ کوانسانی جسم میں لگائے جانے کی منظوری دی تھی جس کے بعد امریکا میں نئی تیکنیک کے ذریعے متعدد متاثرہ افرادکے مکینکل ہارٹ لگائے جاچکے ہیں ۔ مکینکل ہارٹ ڈیوائس دل میں لگانے کے بعد10سال تک کام کرتی ہے اور متاثرہ مریض نارمل زندگی گزارسکتے ہیں۔ پاکستان میں بھی اب مشینی دل متاثرہ مریضوںکولگائے جائیںگے جو پاکستان جیسے ملک میں شعبہ طب میں یقیناً ایک بہت بڑا انقلاب ہوگا۔ دنیا بھر میں اوپن ہارٹ سرجری کرانے والے مریضوںکی شرح بتدریج کم ہورہی ہے 1991سے شروع کی جانے والی انجیوپلاسٹی کامیابی سے جارہی ،قومی ادارے امراض قلب میں سالانہ ڈھائی ہزار بائی پاس جبکہ12ہزارمریضوں کی سالانہ انجیوپلاسٹی کی جاتی ہے ۔

ڈاکٹرحمید اللہ ملک (کارڈیالوجسٹ ، ایڈمنسٹریٹر ایگزیکٹو، قومی ادارہ برائے امراض قلب )

دل کی بائیوایپسی پاکستان کے کسی بھی اسپتال میں نہیںکی جاتی تاہم پروفیسر ندیم قمرکوششوں سے قومی امراض قلب اسپتال اب دنیاکے دیگر اسپتالوں کے مقابلے میں نمایاں ہوکر ابھر رہا ہے، دل کی بائیوایپسی مریض کے لیے دل کی پیوندکاری کے بعد کرانا ضروری ہوتی ہے اور یہ ہر سال کرائی جاتی ہے ۔ قومی ادارے میں دل کی بائیواپیسی بھی بلامعاوضہ کی جائے گی ۔ بھارت سے دل کی پیوندکاری کرانے والے کراچی کے رہائشی فیصل کی بھی دل کی بائیوایپسی آئندہ ماہ کی جائے گی اس کے لیے تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں ۔ اس وقت قومی ادارہ امراض قلب میں ترقی یافتہ ممالک کے مساوی علاج کی جدید ترین اور مفت سہولیات فراہم کی جارہی ہیں جس کا سہرا ادارے کے سربراہ کو جاتا ہے۔ کراچی سمیت صوبے میں دل کی بیماریوں میں مبتلا مریضوںکے لیے7 سیٹلائٹ مراکزاورکراچی میں6چیسٹ پین کلینکس قائم کیے ہیں جبکہ کراچی میں مزید14 چیسٹ پین کلینکس بھی قائم کیے جارہے ہیں اس کامقصد ابتدائی طورپر متاثرہ مریض کوان ہی کے علاقوں میں دل کی بیماریوں کا فوری اور مفت علاج فراہم کرنا ہے۔ مریضوں کو مکینکل ہارٹ کے لیے قومی ادارہ برائے امراض قلب میں انتظامات کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ اس اہم اور پیچیدہ خصوصی آپریشن کوکرنے کے لیے امریکا سے آئے ہوئے ماہر امراض قلب ڈاکٹر پرویز چوہدری اوران کی ٹیم نے اسپتال میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ اگر کسی مریض کو بیرون ملک جاکر مصنوعی دل لگوانا پڑے پر تو اس پر کم ازکم جو اخراجات آئیں گے وہ ڈیڑکروڑ روپے پاکستانی بنتے ہیں لیکن این آئی سی وی ڈی میں یہ بالکل مفت کیا جائے گا۔ قومی ہاکی ٹیم کے سابق گول کیپراور ہیرو منصور احمد کوبھی مکینیکل ہارٹ لگانے کی تیاریاں کی جارہی تھیں تاہم قدرت نے انھیں موقع فراہم نہیں کیا اور وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔ان کے لیے یہ اطلاعات بھی آرہی تھیں کہ انھیں مصنوعی دل لگانے کے لیے پڑوسی ملک بھارت بھیجا جارہا ہے لیکن حقیقت میں ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں تھی۔اگر منصوراحمد کی زندگی ان سے وفا کرتی تو پاکستان میں پہلے مریض ہوتے جنہیں یہ میکنیکل دل لگایا جاتا۔ انھیں دوسال قبل کارڈیک ڈیوائس لگائی گئی تھی مگر انھیں دوبارہ دل کی تکلیف کا سامناہوا، مصنوعی دل لگانے کے لیے ایل وے اے ڈی یعنی لیفٹ وینٹریکیولراسسٹ ڈیوائس کے لیے امریکی فرم کوآرڈربھی دے دیاگیاتھا۔ جس پرسابق اولمپئن نے مکمل اطمینان کا اظہارکیاتھا۔
Load Next Story