وزیراعظم کو پھانسی ہوسکتی ہے تو جرنیل کوکیوں نہیں شیریں مزاری
ملک میں فیصلہ ہونے جارہا ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے،مشاہداللہ خان
تحریک انصاف کی رہنما شیریں مزاری نے کہا ہے کہ یہ تاریخی لمحات ہیں کہ اگرسابق وزیراعظم کو پھانسی ہوسکتی ہے تو پھر سابق جرنیل کوکیوں نہیں ؟انھوں نے ایکسپریس نیو زکے پروگرام لائیو ود طلعت میں طلعت حسین سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ یہ کون سا نظام ہے ۔
پہلے خود ڈکٹیٹر شپ کی ،پھر جمہوریت میں حصہ ڈالنے آگئے،یہ قابل قبول نہیں کہ وہ سابق آرمی چیف ہیں تو ہاتھ ہولا رکھا جائے ۔سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ ملک میں فیصلہ ہونے جارہا ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے آج پاکستان اس لیے پیچھے ہے کہ عالمی سطح پر ہمارا مورال خراب ہوا ہے۔معیشت تباہ ہوگئی،امن وامان خراب ہے اور اس کی ذمے داری آمریت پر عائد ہوتی ہے۔ہماری نسلوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ انھوں نے بناناری پبلک میں رہنا ہے یا کسی ایسے ملک میں جہاں آئین اور قانون کی پاسداری ہو ۔مشرف سچے ہیں توبتا دیں بگٹی کوانھوں نے نہیں فلاں نے قتل کرایا۔
چیف جسٹس کوانھوں نے نہیں فلاں نے معزول کیا۔کیا مشرف نے اپنی کتاب میں نہیں لکھا کہ میں نے پاکستان کے لوگوں کو امریکا کے حوالے کیا ۔سیاسی فیصلوں کی معذرت ہوجاتی ہے لیکن جرائم کی معافی نہیں ہوتی۔ آگے کیا ہوگا ہمیں یہ بات نہیں کرنی چاہئے،ہمیں یہ بات عدالت پر چھوڑنا چاہئے کیونکہ وہ ہم سے بہتر سوچ رکھتی ہے ۔مکافات عمل حقیقت ہے، پارلیمنٹ کو تومشرف مسلز دکھاتے تھے آج وہ الیکشن کیوں لڑنا چاہتے ہیں؟سیکریٹری جنرل آل پاکستان مسلم لیگ ڈاکٹرامجد نے کہاکہ مشرف کی واپسی کا مقصد الیکشن لڑنا تھا ۔
وہ اس نظام کوواپس نہیں لانا چاہتے تھے جس کا وہ حصہ تھے،عدالتیں آزاد ہیں لیکن موجودہ حالات میں ہمیں شفاف اور آزاد ٹرائل ہوتا نظر نہیں آتا ۔بات صرف مشرف کی نہیں ہے،وہ سابق آرمی چیف ہیں ،جس نے ملک کیلیے زندگی وقف کی ہے۔ جب ہم عدالت میں پیش ہوئے تو ہم نے سوچا تھاکہ مشرف کو گرفتارکیا جاسکتا ہے لیکن ہم نے یہ نہیں سوچاکہ عدالت دہشت گردی کی دفعات شامل کرنے کاکہے گی ۔انھوں نے کہاکہ جن ججوں کے نظربند رکھنے کی بات کی جارہی ہے ان میں سے توکوئی باہر نہیں نکلا ۔ جب مشرف پاکستان نہیں آئے تھے تو سارے لوگ تسلی سے بیٹھے تھے لیکن جب وہ آگئے تو سب نے ان کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا شروع کردی ہے۔
پہلے خود ڈکٹیٹر شپ کی ،پھر جمہوریت میں حصہ ڈالنے آگئے،یہ قابل قبول نہیں کہ وہ سابق آرمی چیف ہیں تو ہاتھ ہولا رکھا جائے ۔سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ ملک میں فیصلہ ہونے جارہا ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہے آج پاکستان اس لیے پیچھے ہے کہ عالمی سطح پر ہمارا مورال خراب ہوا ہے۔معیشت تباہ ہوگئی،امن وامان خراب ہے اور اس کی ذمے داری آمریت پر عائد ہوتی ہے۔ہماری نسلوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ انھوں نے بناناری پبلک میں رہنا ہے یا کسی ایسے ملک میں جہاں آئین اور قانون کی پاسداری ہو ۔مشرف سچے ہیں توبتا دیں بگٹی کوانھوں نے نہیں فلاں نے قتل کرایا۔
چیف جسٹس کوانھوں نے نہیں فلاں نے معزول کیا۔کیا مشرف نے اپنی کتاب میں نہیں لکھا کہ میں نے پاکستان کے لوگوں کو امریکا کے حوالے کیا ۔سیاسی فیصلوں کی معذرت ہوجاتی ہے لیکن جرائم کی معافی نہیں ہوتی۔ آگے کیا ہوگا ہمیں یہ بات نہیں کرنی چاہئے،ہمیں یہ بات عدالت پر چھوڑنا چاہئے کیونکہ وہ ہم سے بہتر سوچ رکھتی ہے ۔مکافات عمل حقیقت ہے، پارلیمنٹ کو تومشرف مسلز دکھاتے تھے آج وہ الیکشن کیوں لڑنا چاہتے ہیں؟سیکریٹری جنرل آل پاکستان مسلم لیگ ڈاکٹرامجد نے کہاکہ مشرف کی واپسی کا مقصد الیکشن لڑنا تھا ۔
وہ اس نظام کوواپس نہیں لانا چاہتے تھے جس کا وہ حصہ تھے،عدالتیں آزاد ہیں لیکن موجودہ حالات میں ہمیں شفاف اور آزاد ٹرائل ہوتا نظر نہیں آتا ۔بات صرف مشرف کی نہیں ہے،وہ سابق آرمی چیف ہیں ،جس نے ملک کیلیے زندگی وقف کی ہے۔ جب ہم عدالت میں پیش ہوئے تو ہم نے سوچا تھاکہ مشرف کو گرفتارکیا جاسکتا ہے لیکن ہم نے یہ نہیں سوچاکہ عدالت دہشت گردی کی دفعات شامل کرنے کاکہے گی ۔انھوں نے کہاکہ جن ججوں کے نظربند رکھنے کی بات کی جارہی ہے ان میں سے توکوئی باہر نہیں نکلا ۔ جب مشرف پاکستان نہیں آئے تھے تو سارے لوگ تسلی سے بیٹھے تھے لیکن جب وہ آگئے تو سب نے ان کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا شروع کردی ہے۔