چیف جسٹس نے سابق دور میں سیاستدانوں کو جاری47ارب کے فنڈ روک دیے
بھاشاڈیم،ایچ ای سی،قومی بچت اسکیم سے15ارب نکال لیے گئے،وزیراعظم کوئی مغل شہنشاہ نہیںکہ جو مرضی کریں،سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم راجاپرویز اشرف کی جانب سے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے47ارب کے فنڈز سابق ارکان اسمبلی کے حلقوںمیں ترقیاتی منصوبوںکیلیے دینے کے مقدمے میں رقوم کے اجراپر حکم امتناع جاری کرتے ہوئے اکائونٹنٹ جنرل آف پاکستان ریونیوکو فنڈز روکنے کی ہدایت کی ہے اور منصوبوں کا تمام ریکارڈ طلب کرلیا ہے۔
چیف جسٹس افتخارچوہدری کی سربراہی میں3رکنی بینچ نے سماعت کی۔وفاقی حکومت نے اعتراف کیاکہ ارکان اسمبلی کو فنڈزدینے اور ان کی نگرانی کا کوئی نظام نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ وزیراعظم عوام کا منتخب نمائندہ ہوتاہے کوئی مغل شہنشاہ نہیں جو اپنی مرضی سے اقدامات کرتاپھرے ۔ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ نے جون 2012 کے بعدسابق وزیراعظم راجاپرویز اشرف کی جانب سے جاری کردہ فنڈزکی فہرست جمع کرائی۔عدالت نے انہیں زبانی طورپرہدایت کی کہ اگر اس رقم کے اجراکوفی الفورنہ رکوایا تووہ ذمے دار ہوںگے۔ وفاقی سیکریٹری کابینہ ڈویژن نرگس سیٹھی نے بتایا کہ جون سے اب تک47ارب کے ترقیاتی فنڈجاری ہوئے تاہم فنڈزریلیزکامعاملہ کابینہ میں پیش نہیںکیاگیا نہ اسے اعتمادمیں لیاگیا،4ارب روپے کے فنڈز ابھی پڑے ہیں، انھوں نے بتایا بجٹ میں سے22 ارب روپے پبلک ورکس پروگرام کو دیے گئے۔
پروگرام کے تحت، وزیراعظم ارکان اسمبلی اور مختلف اسکیموںکو فنڈ فراہم کر سکتے ہیں۔عدالت کے استفسارپرانھوں نے کہا کہ حکومت کے پاس فنڈزکی مانیٹرنگ کاکوئی طریقہ نہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہاں لکھاہوا ہے کہ وزیر اعظم فنڈز اس طریقے سے جاری کریںگے،یہ قوم کا پیسہ ہے اس کی پائی پائی کا حساب رکھنا ہوتاہے، اگر وزیر اعظم نے خود ہی47ارب روپے خرچ کرنے ہیں تو پھر اسمبلی اورکابینہ کی کیاضرورت ہے؟چیف جسٹس نے کہا کہ بہت سارے ارکان پنجاب اسمبلی اورایسی شخصیات کو بھی رقوم دی گئیں جومنتخب نمائندے نہیں تھے۔
15ارب روپے مختص بجٹ سے منتقل کیے گئے، یہ رقم پہلے لواری ٹنل، بھاشا ڈیم، ہائرایجوکیشن کمیشن اور قومی بچت اسکیم کیلیے مختص تھی۔ بھاشا ڈیم جیسے اہم منصوبے کے فنڈزکوبھی سیاستدانوں میں تقسیم کرنے کیلیے نکال دیا گیا اورحکومت کا کوئی ادارہ یا قانون رکاوٹ نہیں بنا۔بعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل عرفان قادر،وزیراعظم کے اسپیشل سیکریٹری اور سیکریٹری پلاننگ ڈویژن کونوٹس جاری کرتے ہوئے اے جی پی آرکویہ فنڈز روکنے کی ہدایت کی۔ عدالت نے اے جی پی آرکوہدایت کی کہ تمام اسکیموںکو فراہم کردہ فنڈز سے متعلق تفصیلات بھی جمع کرائیں، عدالت نے اپنے حکم میںکہا فنڈز اجرا کا طریقہ کار واضح ہوناچاہیے تھا ۔
منصوبوںکی منظوری صرف ارکان اسمبلی کی تجویز پر ہی دی جا سکتی ہے، وزیراعظم حکومت اور شہریوںکا نمائندہ ہے، فنڈز مختص کرتے وقت اسے شفافیت کااعلیٰ ترین معیار ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے، راجاپرویز اشرف نے9 منصوبوں کیلیے اربوں روپے اپنے حلقہ انتخاب کیلیے مختص کیے ہیں۔چیف جسٹس نے ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ کو زبانی طور پر ہدایت کی کہ اگراس رقم کے اجراکوفی الفور نہ رکوایا گیا تو وہ ذمے دار ہونگے۔آئی این پی کے مطابق عدالت نے 47 ارب روپے میں سے صرف 14 ارب کا ریکارڈ پیش کرنے پر شدید برہمی کا اظہارکیا۔ چیف جسٹس نے کہااعلیٰ افسران کو احکامات پر عملدرآمد سے قبل دیکھ لینا چاہیے کہ احکامات قواعد و ضوابط کے مطابق ہیں یا نہیں، بیوروکریسی کو بہت سپورٹ کیا ، پہلے بھی کہا تھا کہ خلاف قانون دیے جانے والے احکامات پر عملدرآمدنہ کریں۔عدالت نے سماعت 30اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے حکم دیاکہ 3 روز میں جامع رپورٹ جمع کرائی جائے کہ فنڈزکہاںکہاں استعمال کیے گئے ہیں۔
چیف جسٹس افتخارچوہدری کی سربراہی میں3رکنی بینچ نے سماعت کی۔وفاقی حکومت نے اعتراف کیاکہ ارکان اسمبلی کو فنڈزدینے اور ان کی نگرانی کا کوئی نظام نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ وزیراعظم عوام کا منتخب نمائندہ ہوتاہے کوئی مغل شہنشاہ نہیں جو اپنی مرضی سے اقدامات کرتاپھرے ۔ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ نے جون 2012 کے بعدسابق وزیراعظم راجاپرویز اشرف کی جانب سے جاری کردہ فنڈزکی فہرست جمع کرائی۔عدالت نے انہیں زبانی طورپرہدایت کی کہ اگر اس رقم کے اجراکوفی الفورنہ رکوایا تووہ ذمے دار ہوںگے۔ وفاقی سیکریٹری کابینہ ڈویژن نرگس سیٹھی نے بتایا کہ جون سے اب تک47ارب کے ترقیاتی فنڈجاری ہوئے تاہم فنڈزریلیزکامعاملہ کابینہ میں پیش نہیںکیاگیا نہ اسے اعتمادمیں لیاگیا،4ارب روپے کے فنڈز ابھی پڑے ہیں، انھوں نے بتایا بجٹ میں سے22 ارب روپے پبلک ورکس پروگرام کو دیے گئے۔
پروگرام کے تحت، وزیراعظم ارکان اسمبلی اور مختلف اسکیموںکو فنڈ فراہم کر سکتے ہیں۔عدالت کے استفسارپرانھوں نے کہا کہ حکومت کے پاس فنڈزکی مانیٹرنگ کاکوئی طریقہ نہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہاں لکھاہوا ہے کہ وزیر اعظم فنڈز اس طریقے سے جاری کریںگے،یہ قوم کا پیسہ ہے اس کی پائی پائی کا حساب رکھنا ہوتاہے، اگر وزیر اعظم نے خود ہی47ارب روپے خرچ کرنے ہیں تو پھر اسمبلی اورکابینہ کی کیاضرورت ہے؟چیف جسٹس نے کہا کہ بہت سارے ارکان پنجاب اسمبلی اورایسی شخصیات کو بھی رقوم دی گئیں جومنتخب نمائندے نہیں تھے۔
15ارب روپے مختص بجٹ سے منتقل کیے گئے، یہ رقم پہلے لواری ٹنل، بھاشا ڈیم، ہائرایجوکیشن کمیشن اور قومی بچت اسکیم کیلیے مختص تھی۔ بھاشا ڈیم جیسے اہم منصوبے کے فنڈزکوبھی سیاستدانوں میں تقسیم کرنے کیلیے نکال دیا گیا اورحکومت کا کوئی ادارہ یا قانون رکاوٹ نہیں بنا۔بعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل عرفان قادر،وزیراعظم کے اسپیشل سیکریٹری اور سیکریٹری پلاننگ ڈویژن کونوٹس جاری کرتے ہوئے اے جی پی آرکویہ فنڈز روکنے کی ہدایت کی۔ عدالت نے اے جی پی آرکوہدایت کی کہ تمام اسکیموںکو فراہم کردہ فنڈز سے متعلق تفصیلات بھی جمع کرائیں، عدالت نے اپنے حکم میںکہا فنڈز اجرا کا طریقہ کار واضح ہوناچاہیے تھا ۔
منصوبوںکی منظوری صرف ارکان اسمبلی کی تجویز پر ہی دی جا سکتی ہے، وزیراعظم حکومت اور شہریوںکا نمائندہ ہے، فنڈز مختص کرتے وقت اسے شفافیت کااعلیٰ ترین معیار ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے، راجاپرویز اشرف نے9 منصوبوں کیلیے اربوں روپے اپنے حلقہ انتخاب کیلیے مختص کیے ہیں۔چیف جسٹس نے ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ کو زبانی طور پر ہدایت کی کہ اگراس رقم کے اجراکوفی الفور نہ رکوایا گیا تو وہ ذمے دار ہونگے۔آئی این پی کے مطابق عدالت نے 47 ارب روپے میں سے صرف 14 ارب کا ریکارڈ پیش کرنے پر شدید برہمی کا اظہارکیا۔ چیف جسٹس نے کہااعلیٰ افسران کو احکامات پر عملدرآمد سے قبل دیکھ لینا چاہیے کہ احکامات قواعد و ضوابط کے مطابق ہیں یا نہیں، بیوروکریسی کو بہت سپورٹ کیا ، پہلے بھی کہا تھا کہ خلاف قانون دیے جانے والے احکامات پر عملدرآمدنہ کریں۔عدالت نے سماعت 30اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے حکم دیاکہ 3 روز میں جامع رپورٹ جمع کرائی جائے کہ فنڈزکہاںکہاں استعمال کیے گئے ہیں۔