شعبہ صحت سے متعلق چند معروضات

ڈاکٹر کا مریض کے ساتھ رویہ انتہائی عاجزی وانکساری کا ہوتا ہے۔ وہ خود کو دیگر انسانوں جیسا انسان سمجھتا ہے۔

ibhinder@yahoo.co.uk

ISLAMABAD:
اسپتال کی زندگی بھی عجیب و غریب ہی ہوتی ہے۔ اس کا صحیح اندازہ تواسی وقت لگایا جاسکتا ہے، جب انسان خود اسپتال میں داخل ہو یا اپنے کسی قریبی عزیزکے اسپتال داخلے کے دوران میں اس کے علاج سے متعلق تمام معاملات کا گہرائی سے مشاہدہ کر رہا ہو ۔

برطانیہ، مغرب، امریکا یا دیگر ''ترقی یافتہ'' ممالک میں اگرکوئی شخص بیمار پڑجائے، یا کسی بھی طرح کے حادثے کا شکار ہوجائے تو اسپتال میں اسے بے پناہ محبت دی جاتی ہے، اس کی دیکھ بھال کی جاتی ہے، رشتہ داروں کی ذمے داری اسپتال کے احاطے میں داخل ہوتے ہی ختم ہو جاتی ہے۔ نہ کسی کی سفارش چلتی ہے نہ رشوت! محمود و ایاز ایک ہی صف میں اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں ۔ نہ مذہب دیکھا جاتا ہے، نہ فرقہ پوچھا جاتا ہے، نہ علاقہ، نہ زبان نہ ملک کا ہی سراغ لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اولین ترجیح مریض کی بیماری کی درست تشخیص اور اس کے بعد ان تمام ضروری وسائل کو استعمال کرنا ہوتا ہے جو مریض کی صحت یابی کے لیے معاون ہوسکتے ہیں۔ اسپتالوں میں بلا امتیاز مریض کے علاج کیا جاتا ہے۔ اسپتال کے عملے میں بھی تقریباََ ہر مذہب، ہر علاقے، ہر رنگ، ہر نسل کے لوگ کام کرتے ہیں، لیکن تعصب کہیں دور دور تک نظر نہیں آتا ۔ ڈاکٹر اور صفائی کرنے والے دونوں کا ہی یکساں احترام کیا جاتا ہے۔

کوئی کسی پر رعب نہیں جھاڑتا، نہ کوئی کسی سے مرعوب ہی ہوتا ہے۔ سب کو اپنے اپنے کام کا علم ہونا چاہیے اور اس کام کو سرانجام دینے میں ان کی اولین ترجیح ، ان کے شعبے کے ساتھ ان کا اخلاص ہوتا ہے۔یہاں اپنے شعبے، اپنی ذمے داریوں جوکہ مریض کے گرد گردش کرتی ہیں، ان سے آگاہی اور ان کی انجام دہی ہی عزت واحترام کا اعلیٰ پیمانہ سمجھا جاتا ہے۔

اگر کمرے میں نرس داخل ہوئی ہے اور مریض کے رشتے دار بیٹھے ہیں اور وہ نرس اگر محسوس کرتی ہے کہ وہ جو کام کرنے آئی ہے اس میں اس کو تھوڑی مشکل پیش آرہی ہے تو وہ پاس بیٹھے ہوئے رشتے دار سے کبھی نہیں کہے گی کہ ذرا مریض کا بازو پکڑیں، اس کوکندھے سے سہارا دیں ۔ وہ ایسا کبھی نہیں کہے گی کہ یہ دوائیاں رکھی ہیں، اور فلاں فلاں وقت پرمریض کو دیتے رہیں۔ اسپتال میں موجود نرسیں ایک جتھے کی صورت میں کہیں بھی کھڑی ہوئی دکھائی نہیں دیں گی، اگر ایک نرس کو کسی صورتحال کو سمجھنے میں مشکل پیش آرہی ہے تو وہ کوئی بھی عمل اٹھانے سے پہلے کسی سینئر نرس سے مشورہ کرے گی۔

نرسیں اپنے شعبہ سے ہٹ کرکبھی بھی کسی موضوع پر گفتگو کرتی دکھائی نہیں دیں گی، وہ کبھی ہاتھ پر ہاتھ مار کر قہقہے لگاتی ہوئی نظر نہیں آئیں گی۔ ان کی ذات میں موجود عاجزی و انکساری واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔ بالکل ایسی ہی صورتحال ڈاکٹرزکی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر جب وارڈ میں آتا ہے تو وارڈ میں موجود کسی صفائی کرنے والے کے سر پر جوں تک نہیں رینگتی۔

اسے کسی بھی طرح کے ''وزیرِ اعظم'' جیسا پروٹوکول نہیں دیا جاتا۔ ڈاکٹر اور صفائی کرنے والے کے یونیفارم کا معیار ایک ہی جیسا ہوتا ہے، اگر ڈاکٹر وارڈ یا کمرے میں داخل ہوا ہے اور اس کمرے میں صفائی کرنے والا پہلے سے اپنے کام کررہا ہے تو اس کی صحت پرکوئی اثر نہیں ہوتا۔ مریضوں کوکھانا، چائے وغیرہ مقررہ وقت پر پیش کیے جاتے ہیں، اگر ڈاکٹر کمرے میں داخل ہوا ہے اور مریض کھانا کھا رہا ہے تو ڈاکٹر کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مریض کو کھانا کیوں دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر کے وارڈ یا کمرے میں آنے سے پہلے کوئی ہیجان برپا نہیں ہوتا، حتیٰ کہ صفائی والے کو بھی نہیں علم نہیں ہوتا کہ ڈاکٹر اس کے سامنے کھڑا ہے۔

رواں ماہ کی چھ تاریخ کو میں برطانیہ کے شہر برمنگھم کے ایک اسپتال میں داخل تھا۔ میرے کمرے میں صفائی والا صفائی کر رہا تھا۔ میں نے اس سے دریافت کیا کہ کیا ڈاکٹر وارڈ میں داخل ہوچکا ہے ؟ ڈاکٹر اس وقت میرے کمرے کے باہر کھڑا تھا، اس شخص نے جواب دیا کہ ''سامنے چند لوگ تو کھڑے ہیں، شاید ان میں سے کوئی ڈاکٹر ہو۔'' باہرکھڑی نرس نے سن لیا اور کمرے میں آکر بتانے لگی کی ''ڈاکٹر یہیں ہے۔''


اگر کمرے میں صفائی نہیں ہوئی تو ڈاکٹر یہ کبھی نہیں کہے گا کہ یہاں صفائی نہیں ہوئی، کیونکہ یہ ڈاکٹرکا کام نہیں ہے۔ ڈاکٹرکو صرف اپنے فرائض میں دلچسپی ہوتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ صفائی کا جائزہ لینا ڈاکٹرکی ذمے داری میں شامل نہیں ہے اور نہ ہی وارڈ میں صفائی کا جائزہ لینے آیا ہے، بلکہ وہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران میں تیارکی گئی، رپورٹوں کے مطابق مریض کی صحت کے حوالے سے پیش آنے والے اتارچڑھاؤ کا جائزہ لینے کے لیے آیا ہے۔

ڈاکٹر کا مریض کے ساتھ رویہ انتہائی عاجزی وانکساری کا ہوتا ہے۔ وہ خود کو دیگر انسانوں جیسا انسان سمجھتا ہے، جو کہ اسے سمجھنا چاہیے، اس کی گردن میں سریے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کمرے میں داخل ہونے سے پہلے ہی اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ مغربی ممالک کے مریضوں کے لیے بھی ڈاکٹر ان جیسا عام انسان ہی ہوتا ہے، مریض کو جو خود اعتمادی اس معاشرے نے دے رکھی ہے اس کے تحت وہ کبھی بھی ڈاکٹر سے مرعوب نہیں ہوتا ہے ۔

یہ ایسا اعتماد ہے جو برطانیہ، مغربی معاشروں وغیرہ نے اپنے شہریوں کی سرشت میں راسخ کر دیا ہے۔ ان معاشروں نے جہاں عام انسان کے اعتماد کو بلند کیا ہے تو وہاں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں جیسا کہ ڈاکٹرز، وکیل، استاد ، پولیس آفیسر وغیرہ کے نام نہاد برتری کے احساس کو اس قدر کم کردیا ہے کہ دونوں ہی ایک دوسرے کے سامنے آنے سے ایک ہی سطح کی خود اعتمادی محسوس کرتے ہیں۔

جب یہ سارے مظاہر دیکھنے کے بعد ہم اسی ذہن کے ساتھ پاکستان کے مختلف اسپتالوں میں موجود ڈاکٹروں، نرسوں، صفائی کرنے والوں اور مریضوں وغیرہ کے درمیان تعلق کا جائزہ لیتے ہیں، تو بلاشبہ نوعِ انسانی بھی شرم سے سر اٹھانے کے قابل نہیں رہتی۔ پاکستان کے اسپتالوں میں ہی نہیں بلکہ ہر شعبہ حیات میںمعاملہ قطعی طور پر مختلف ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہاں انسان اور انسان کے درمیان امتیازوتفاوت کو ازلی و ابدی بنیادوں پرکسی ماورائی حکم کا حصہ سمجھ کر قبول کر لیا گیا ہے۔

ہر شعبے میں ہی ایک متکبر، مغرور، ظالم، جابر، یوں کہیں کہ انسان کے روپ میں ایک غیر انسان ظہورکرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ انسان کو انسان کے سامنے بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ اندھی عقیدت نے انسان سے انسان کے تمام انسانی اوصاف کو چھین لیا ہے۔ بظاہر تو انسان ہی دکھائی دیتا ہے، مگر اپنی حرکات و سکنات میں عہد وحوش سے تعلق رکھنے والی کوئی ایسی مخلوق بن چکا ہے جسے ازسرِ نو کوئی نام دیا جانا چاہیے۔

بہت سے دوست یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اس سارے عمل میں سرمایہ داری نظام ذمے دار ہے، یعنی انفرادی سطح پرکسی کی کوئی ذمے داری نہیں ہے، کوئی احساسِ فرض نہیں ہے، بس نظام کو ذمے دار ٹھہرا کر سبھی بری الذمہ ہوجانا چاہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ یا تو نظام بدلا جائے یا پھر اس قسم کے غیر انسانی حرکات کرنے والے لوگوں کے وحشیانہ رویوں کو نظام کی عدم تبدیلی کا جواز فراہم کردیا جائے۔

بالکل ویسے ہی جیسے سیاستدان دلیل دیتے ہیں کہ ''جمہوریت کو بلوغت کے مرحلے'' طے کرنے دیں اور یہی سیاستدان جب اپنے اعمال کی وجہ سے قانون کے شکنجے میں آتے ہیں تو مغربی ممالک کی جمہوریت کی مثالیں پیش کرتے ہیں، جس سے کم از کم یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ جمہوریت کی ''بلوغت '' کا انھیں مکمل علم ہے، بس اپنی بدعنوانی، اقربا پروری، جبر، استحصال، ظلم اور دیگر عوامی حقوق کے غصب ہونے کے عمل کو التوا میں رکھنا چاہتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ پاکستان میں چونکہ ابھی تک سرمایہ داروں کے دماغوں سے جاگیرداری کا کلی احساس محو نہیں ہوسکا اس لیے انسان اورانسان کے درمیان گہری تفریق وامتیاز کی وجہ بھی یہی ہے، اگر اس سارے عمل کو نظام کے ساتھ جوڑ کر پیش کرنا ہے تو یقیناََ یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ عاجزی، انکساری، احترامِ آدمیت، فرائض کی ادائیگی سمیت کئی ایسی اعلیٰ اقدار ہیں جو ترقی یافتہ سرمایہ داری میں پروان چڑھی ہیں، جن کا میں نے اوپر ذکرکیا ہے اور ان اقدار پر حتی الوسع عمل کیا جاتا ہے۔ اور اداروں میں جو احترام عام انسان چاہتا ہے کہ اسے ملے وہ بہت حد تک ترقی یافتہ مغربی ممالک میں اس کو مل رہا ہے۔

پاکستان کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو چند بنیادی اخلاقی اقدار کے احترام کے اکتساب کی ضرورت ہے، وہ اپنے شعبہ جاتی فرائض کو پہچانیں، دوسروںکو اخلاقیات کے درس دینے کی بجائے اپنے اخلاق کو درست کریں۔ ہر شعبے میں مرکزیت ان کی ذاتی انا نہیں بلکہ احترام انسانیت جیسی اقدارکو ہونا چاہیے۔
Load Next Story