پولیس شکایات میں مسلسل اضافہ

سندھ پولیس میں پی پی حکومت جو تبدیلیاں لانا چاہ رہی ہے اس میں بھی آئی جی کے اختیارات کم کیے جانے کی خبریں ہیں۔

KARACHI:
وزیر داخلہ سندھ نے آئی جی پولیس اے ڈی خواجہ کو ہٹانے کے معاملے میں سندھ حکومت کے مکمل ناکام رہنے کے بعد اب 28 مئی کو ختم ہونے والی سندھ حکومت کی طرف سے کہا ہے کہ آئی جی پولیس کو نہیں ہٹایا جائے گا۔ انھوں نے یہ بھی کہاکہ گریڈ 17 تک کے افسران کے تقرر و تبادلے کا اختیار آئی جی کے پاس اور اوپر والوں کو ہٹانے، رکھنے اور جے آئی ٹی بنانے کا اختیار محکمہ داخلہ کے پاس رہے گا۔

سندھ پولیس کے معاملے میں پی پی حکومت جو تبدیلیاں لانا چاہ رہی ہے اس میں بھی آئی جی کے اختیارات کم کیے جانے کی خبریں ہیں اور سندھ حکومت کو سو فی صد یقین ہے کہ وہ آیندہ بھی منتخب ہوگی اور پولیس میں مرضی کی پالیسی بنوالے گی اور آیندہ بھی پولیس اس کے مکمل کنٹرول میں ہوگی۔

آئی جی سندھ، سندھ کے واحد اعلیٰ پولیس افسر ہیں جنھیں پی پی حکومت نے خود آئی جی بنایا مگر بعد میں ناجائز احکامات نہ ماننے پر پی پی قیادت ناراض ہوگئی اور ایک سال سے زائد عرصے کی بھرپور کوششوں کے بعد بھی سندھ حکومت اس لیے ناراض رہی کہ سپریم کورٹ آڑے آگئی اور کابینہ سے دو بار منظوری کے بعد بھی آئی جی کو نہ ہٹایا جاسکا تو اب جاتی حکومت نے ہتھیار ڈال دیے کہ اب آئی جی کو نہیں ہٹایاجائے گا۔

آئی جی اے ڈی خواجہ شاید اصول پرست ہوں مگر یہ حقیقت ہے کہ سندھ حکومت نے انھیں کھل کر کام کرنے نہیں دیا بار بار انھیں ہٹانا چاہا مگر عدلیہ آڑے آگئی۔ البتہ ایک ایسا ایس پی سندھ پولیس کے ضرور ریکارڈ پر ہے جسے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے احکامات بھی ملیر ضلع سے مکمل نہ ہٹواسکے کیونکہ سابق صدر آصف زرداری کے قریب وہ '' بہادر بچہ'' ہے جو سیاسی آشیر واد کے باعث آئی جی اور اپنے افسران کو انگوٹھے پر رکھتا تھا۔

روزنامہ ایکسپریس کی ایک خبر کے مطابق آئی جی پولیس سندھ اے ڈی خواجہ نے دہشت گردوں کا سہولت کار ثابت ہونے پر برطرف کیے جانے والے سی ٹی ڈی کے ایک انسپکٹر کو اس کے رینک پر حیران کن طور پر ملازمت پر بحال کردیا ہے اور مذکورہ برطرف انسپکٹر کے خلاف دوبارہ انکوائری اے آئی جی کرائم سے کرانے کا حکم دیا ہے۔ ایکسپریس ہی کے استفسار پر پولیس معاملات کے ایک قانونی ماہر نے بتایاکہ آئی جی کو اس کا اختیار ہے۔


آئی جی کا یہ اختیار ناجائز اپنی جگہ میں، انسپکٹر کے خلاف رپورٹ آئی جی خواجہ کے قریبی دوست اور ان ہی کی طرح اچھی شہرت کے حامل ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اﷲ عباسی نے دی تھی جس پر انسپکٹر کو برطرف کردیا گیا تھا۔ مگر بعد میں آئی جی خواجہ نے اپنے ہی جیسے سینئر افسر اور قریبی دوست کی رپورٹ پر دوبارہ انکوائری شروع کرنے کا حکم دیا۔ جس پر کئی سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں کیونکہ ایکسپریس کے مطابق ثنا اﷲ عباسی نے انسپکٹر کے علاوہ بھی متعدد انکوائریاں کی تھیں۔ آئی جی خواجہ کے اقدام سے وہ بھی مشکوک ہوسکتی ہیں۔

گرفتار سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار جو آئی جی خواجہ کے احکامات نہیں مانا کرتا تھا وہ وی وی آئی پی حراست میں ہے اور ڈیل کی کوشش میں ہے جو آصف زرداری کے بقول بہادر بچہ ہے اور جس پولیس کا سربراہ اے ڈی خواجہ ہے اسی پولیس کی حراست میں وہ قیدی نہیں خصوصی مہمان کے طور پر زیر تفتیش بھی ہے اور نقیب اﷲ کے قتل سے انکاری ہے ۔ پولیس اس سے یہ بھی نہیں پوچھ پائی کہ وہ سپریم کورٹ کے حکم پر کیوں پیش نہیں ہوا اور اتنا عرصہ کہاں روپوش رہا۔ آئی جی سندھ پولیس ، اے ڈی خواجہ نے ایک طرف انسپکٹر کو بحال کرکے دوبارہ انکوائری کا حکم دے کر ثنا اﷲ عباسی جیسے اچھے شہرت کے حامل پولیس افسر کی رپورٹ پر عدم اعتماد کردیا تو عوام یہ کیسے یقین کریںگے کہ نقیب اﷲ کے ورثا کو انصاف ملے گا ۔

سندھ تو در کنار صرف کراچی پولیس سے متعلق شکایات کی ایک ہی روز میں روزنامہ ایکسپریس میں جو شکایات شایع ہوئی ہیں ان کے مطابق سی آئی اے صدر کے ایس ایچ او کے خلاف ایک شہری کو حراست میں لے کر رشوت طلب کرنے پر تحقیقات کا حکم ایڈیشنل سیشن جج جنوبی نے دیا ہے۔ اسی انسپکٹر کے کہنے پر سی آئی اے اہلکاروں نے عدالتی بیلف کو 3 گھنٹے تک تھانے میں گھسنے نہیں دیا تھا اور عدالت کے حکم پر بیلف جس شخص کو بازیاب کرانے آیا تھا اس کو پچھلے دروازے سے کہیں اور منتقل کیے جانے کے بعد بیلف کو تھانے آنے دیا گیا جس سے پولیس کے نزدیک عدالت کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

کراچی پولیس چیف نے ایس ایس پی ملیر کی سفارش پر تعینات کیے جانے والے دو تھانیداروں کو جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی پر معطل کردیا ہے یہاں تو برطرف پولیس انسپکٹر بحال ہوجاتا ہے تو دو معطل تھانیداروں کو بحال ہوکر مزید اچھی پوسٹنگ لینے سے کون روک سکے گا۔

حقیقت ہے کہ سندھ میں پولیس افسروں کو سیاسی سرپرستی کے ساتھ حکومت سندھ کی سرپرستی بھی حاصل ہے تو پولیس کے خلاف شکایات کیوں نہیں بڑھیںگی۔ پولیس میں معطلی کی تو اہمیت ہے ہی نہیں اور اے ڈی خواجہ بھی جہاں برطرف کی بحالی پر مجبور ہوجائے اور ثنا اﷲ عباسی کی رپورٹ نظر انداز کردی جائے تو پولیس میں شکایات کبھی کم نہیں ہوسکیںگی۔
Load Next Story