ردائے اردو
’’ردائے اردو‘‘ میں ڈاکٹر ہارون الرشید نے اردو اصناف، صنایع بدایع اور ادبی اصطلاحات سے نسل نوکو روشناس کرایا ہے۔
ISLAMABAD:
ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم ادیب ہیں، شاعر ہیں اور اس سے بڑھ کر معلم ہیں ۔ تحقیق وجستجو ان کا میدان عمل ہے۔ وہ صرف پڑھتے پڑھاتے نہیں، پڑھنے والوں کے لیے کتابیں بھی لکھتے ہیں ۔ محبت کرتے ہیں اردو سے اور اقبال سے۔ انھیں شکایت ہے کہ قومی زبان اور قومی شناخت کی آئینہ دار ہونے کے باوجود اردوکو پاکستان میں عزت و وقار حاصل نہیں ہوسکا۔ تعلیمی اداروں میں اردو پڑھانے کا انداز نصاب کی حد تک رہ گیا ہے۔ طالب علم نصاب سے ہٹ کر اردو کے رموز سیکھنے کی طرف توجہ نہیں دیتے۔
ڈاکٹر ہارون الرشید اس صورتحال سے بے چین ہی نہیں ہیں، انھوں نے اس کی اصلاح کرنے کی کوششیں بھی کی ہیں۔ ابھی ان کی ایک کتاب ''ردائے اردو'' جہلم سے بک کارنر نے شایع کی ہے۔ اس کے بارے میں وہ لکھتے ہیں۔ ''یہ کتاب جہاں اردو زبان کے رموز و اوقاف سے آگہی فراہم کرتی ہے وہاں وہ جملے کی درستی، محاورات کا برمحل استعمال، ادبی اصطلاحات سے واقفیت، ادبی اصناف نظم و نظر سے روشناس بھی کراتی ہے۔
تنقید اور تنقیدی دبستانوں سے آگاہی کے ساتھ مغربی و مشرقی ناقدین کے نظریات و افکار سے آگاہی بھی عطا کرتی ہے ۔ اس کتاب میں معروف شعرا اور ادبا کا مختصر تعارف اور ان کے اسلوب پر بحث بھی شامل ہے۔ اس لیے یہ کتاب اساتذہ، طلبا اور تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے یکساں مفید ہے۔ اس کی مدد سے کوئی بھی محقق کسی شاعر اور نثرنگار کی فکر وفن کا جائزہ لے سکتا ہے کیونکہ اس میں تشبیہ، استعارہ، تلمیح، صفت تضاد، صفت سہل ممتنع اور دوسری صفتوں کے بارے میں مکمل آگاہی فراہم کی گئی ہے۔''
''ردائے اردو'' کی ابتدا اس سوال سے ہوتی ہے کہ ادب کیا ہے؟ ڈاکٹر تبسم لکھتے ہیں ''مفکرین اور دانشوروں کے خیالات کا مطالعہ کرنے سے جو اہم بات سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ ادب زندگی کا پیرہن ہے۔ ادب اپنے دامن میں بہت سے معنی رکھتا ہے۔ تہذیب، شائستگی، تمیز، قاعدہ، دستور، سلیقہ، قرینہ، لحاظ، حفظ مراتب، آداب، عزت و احترام، علم زبان، نحو، لغت، عروض، انشا، فرہنگ، تحریری سرمایہ، لٹریچر، تمدن اور حسن و رعنائی۔''
ڈاکٹر صاحب ایک مغربی دانشور، میتھیو آرنلڈ کی اس رائے کا حوالہ دیتے ہیں کہ ''وہ تمام علم جو کتابوں کے ذریعے ہم تک پہنچتا ہے ادب کہلاتا ہے'' اور ایک مشرقی دانشور، ڈاکٹر سید محمد عبداللہ کے یہ الفاظ نقل کرتے ہیں کہ ''ادب وہ فن لطیف ہے جس کے ذریعے ادیب جذبات و افکار کو اپنے خاص نفسیاتی و شخصیاتی خصائص کے مطابق نہ صرف ظاہر کرتا ہے بلکہ الفاظ کے ذریعے زندگی کے داخلی اور خارجی حقائق کی روشنی میں ان کی ترجمانی اور تنقید بھی کرتا ہے اور اپنے تخیل اور قوت اختراع سے کام لے کر اظہار بیان کے ایسے پیرائے اختیار کرتا ہے جن سے سامع اور قاری کا جذبہ تخیل بھی تقریباً اسی طرح متاثر ہوتا ہے جس طرح خود ادیب کا تخیل اور جذبہ متاثر ہوتا ہے۔''
ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم لکھتے ہیں ''اردو زبان نے اپنی لاتعداد خوبیوں سے لسانیات کی تعریف میں اپنا اہم مقام بنالیا ہے۔ اردو ادب کا پودا نثر اور شاعری کے گلستان سجائے ہوئے ہے۔ شاعری میں حمد و نعت، منقبت، غزل، نظم، ریختی، قصیدہ، مرثیہ، واسوخت، شہرآشوب، گیت، مثنوی، رباعی وغیرہ شامل ہیں۔ جب کہ گلستان نثر داستان، ناول، افسانہ، ڈرامہ، مضمون، مقالہ، انشائیہ، خاکہ نگاری، رپورتاژ، ڈائری، انٹرویو، سوانح نگاری، آپ بیتی، تنقید، تحقیق، صحافت، کالم نویسی، خطوط نویسی، تبصرہ نگاری، ترجمہ نگاری، تلخیص نگاری سے مزین ہے۔ تخلیق کار اپنے تجربات و مشاہدات کو تخلیقی حسن سے صفحہ قرطاس پر منتقل کرتا ہے۔ یہ عمل خون جگر کی نمو سے ہی ممکن ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں:
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر
اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ادب زندگی کے گرد اس طرح گردش کرتا ہے، جیسے سیارے آسمان کے گرد گھومتے ہیں۔ ادب اپنے دامن میں مقصدیت رکھتا ہے جو انسانی زندگی کو بہتر بناتا ہے۔''
ڈاکٹر ہارون الرشید نے اپنی کتاب میں '' گلستان نثر '' کے جن پھولوں کا ذکر کیا ہے ان میں ایک تنقید ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''تنقید دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک نظری تنقید اور دوسری عملی تنقید ۔ نظری تنقید میں تنقید کے اصول و قواعد کا ذکر کیا جاتا ہے جب کہ عملی تنقید میں کلی یا جزوی طور پر اصول و قواعد کی روشنی میں کسی ادب پارے کو پرکھا جاتا ہے اور اس کی قدر و قیمت متعین کی جاتی ہے۔''
ڈاکٹر صاحب نے اردو زبان میں تنقید کے چار دور بتائے ہیں۔ پہلا دور ان تذکروں کا ہے جن میں محض اردو شعرا کے مختصر حالات زندگی، نمونۂ کلام اور ان کی شاعری کے بارے میں عمومی تاثرات کا ذکر ملتا ہے۔ اردو تنقید کا دوسرا دور سرسید کی تحریک سے شروع ہوتا ہے۔ تنقید کے تیسرے دور کا آغاز ترقی پسند تحریک سے ہوتا ہے۔ اس تحریک نے پہلی مرتبہ اردو تنقید میں مارکسی اور اشتراکی نقطۂ نظرکو روشناس کرایا۔ اردو تنقید کا چوتھا دور برصغیر کی تقسیم کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اس دور کے بیشتر نقاد وہی ہیں جو تیسرے دور میں نمایاں ہوچکے تھے۔''
اردو میں خاکہ نگاری اور سوانح عمری کی روایت کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر ہارون الرشید لکھتے ہیں۔ ''یادیں انسان کی زندگی کا بہت بڑا سرمایہ ہیں۔ ماضی کے جھروکوں میں جھانکنا ایک کڑا امتحان ہے، اگر ماضی دشواریوں میں گزرا تو حالات کی تلخیاں دامن گیر ہوجاتی ہیں۔ اگر ماضی حسین و جمیل یادوں میں لپٹا نظر آئے تو واپس لوٹنے کی خواہشیں مچلنے لگتی ہیں۔ سوانح نگار کسی اور شخصیت کے حالات زندگی بیان کرتا ہے۔ آپ بیتی شخصی تخلیق ہے۔ یہ آئینے کے سامنے بیٹھ کر لکھی جاتی ہے۔''
ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ خاکہ بھی ایک طرح کا سوانحی مضمون ہے۔ خاکہ ایک جیتے جاگتے انسان کی چلتی پھرتی تصویر کا دوسرا نام ہے۔ خاکہ نویس اسی شخص کا خاکہ بہتر انداز سے لکھ سکتا ہے جسے وہ بہت قریب سے جانتا ہو۔ جس کے ساتھ خاکہ نویس نے چاروں موسم گزارے ہوں۔ سفر کیا ہو، لین دین کے مراحل سے گزرا ہو، قیام و طعام کے لمحات گزارے ہوں، اس کی نفسیاتی کیفیت کو سمجھتا ہو۔ غیر جانبداری سے بیان کرسکتا ہو۔''
''ردائے اردو'' میں ڈاکٹر ہارون الرشید نے اردو اصناف، صنایع بدایع اور ادبی اصطلاحات سے نسل نوکو روشناس کرایا ہے اور روزمرہ، محاورہ اور ان دونوں کے درمیان فرق کی وضاحت کی ہے۔ محاورے میں الفاظ مجازی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ روزمرہ میں حقیقی معنوں میں ۔ محاورہ کلام کی تزئین کے لیے آتا ہے لیکن روزمرہ کی پابندی وضاحت کا نشان ہے۔ اسی طرح لفظوں کو درست انداز میں لکھنے اور بولنے کے لیے علم ہجا کو جاننا ضروری ہے کہ زبان کی وضاحت علم ہجا سے ہوتی ہے۔
تلمیح یعنی ایسے الفاظ جوکسی خاص واقعہ، کہانی یا اصطلاح کی طرف اشارہ کریں حسن بیان سمجھی جاتی ہے۔ اس کی وضاحت کے لیے مشہور تلمیحات بھی کتاب میں درج ہیں جیسے آب حیات، جام جمشید، آئینہ سکندر، سامری، ید بیضا، دجلہ، آتش نمرود وغیرہ۔
''ردائے اردو'' میں جو اور مضمون ہیں ان میں اردو ادب پر انگریزی کا اثر، کلاسیکی مغربی تنقید، یونانی فلاسفر، افلاطون اور ارسطو۔ انگریزی ادب کے معروف شعرا، ٹی ایس ایلیٹ، ولیم ورڈز ورتھ، کولرج، دانش ور میتھیو آرنلڈ، کروچے اور ہوریس کا مختصر تعارف شامل ہیں۔
ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کی کتاب کا ایک اہم حصہ وہ ہے جس میں طالب علموں کی سہولت کے لیے چند ممتاز شعرائے کرام اور ادبا کا مختصر تعارف ان کے اسلوب کا بیان ہے۔
ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم ادیب ہیں، شاعر ہیں اور اس سے بڑھ کر معلم ہیں ۔ تحقیق وجستجو ان کا میدان عمل ہے۔ وہ صرف پڑھتے پڑھاتے نہیں، پڑھنے والوں کے لیے کتابیں بھی لکھتے ہیں ۔ محبت کرتے ہیں اردو سے اور اقبال سے۔ انھیں شکایت ہے کہ قومی زبان اور قومی شناخت کی آئینہ دار ہونے کے باوجود اردوکو پاکستان میں عزت و وقار حاصل نہیں ہوسکا۔ تعلیمی اداروں میں اردو پڑھانے کا انداز نصاب کی حد تک رہ گیا ہے۔ طالب علم نصاب سے ہٹ کر اردو کے رموز سیکھنے کی طرف توجہ نہیں دیتے۔
ڈاکٹر ہارون الرشید اس صورتحال سے بے چین ہی نہیں ہیں، انھوں نے اس کی اصلاح کرنے کی کوششیں بھی کی ہیں۔ ابھی ان کی ایک کتاب ''ردائے اردو'' جہلم سے بک کارنر نے شایع کی ہے۔ اس کے بارے میں وہ لکھتے ہیں۔ ''یہ کتاب جہاں اردو زبان کے رموز و اوقاف سے آگہی فراہم کرتی ہے وہاں وہ جملے کی درستی، محاورات کا برمحل استعمال، ادبی اصطلاحات سے واقفیت، ادبی اصناف نظم و نظر سے روشناس بھی کراتی ہے۔
تنقید اور تنقیدی دبستانوں سے آگاہی کے ساتھ مغربی و مشرقی ناقدین کے نظریات و افکار سے آگاہی بھی عطا کرتی ہے ۔ اس کتاب میں معروف شعرا اور ادبا کا مختصر تعارف اور ان کے اسلوب پر بحث بھی شامل ہے۔ اس لیے یہ کتاب اساتذہ، طلبا اور تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے یکساں مفید ہے۔ اس کی مدد سے کوئی بھی محقق کسی شاعر اور نثرنگار کی فکر وفن کا جائزہ لے سکتا ہے کیونکہ اس میں تشبیہ، استعارہ، تلمیح، صفت تضاد، صفت سہل ممتنع اور دوسری صفتوں کے بارے میں مکمل آگاہی فراہم کی گئی ہے۔''
''ردائے اردو'' کی ابتدا اس سوال سے ہوتی ہے کہ ادب کیا ہے؟ ڈاکٹر تبسم لکھتے ہیں ''مفکرین اور دانشوروں کے خیالات کا مطالعہ کرنے سے جو اہم بات سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ ادب زندگی کا پیرہن ہے۔ ادب اپنے دامن میں بہت سے معنی رکھتا ہے۔ تہذیب، شائستگی، تمیز، قاعدہ، دستور، سلیقہ، قرینہ، لحاظ، حفظ مراتب، آداب، عزت و احترام، علم زبان، نحو، لغت، عروض، انشا، فرہنگ، تحریری سرمایہ، لٹریچر، تمدن اور حسن و رعنائی۔''
ڈاکٹر صاحب ایک مغربی دانشور، میتھیو آرنلڈ کی اس رائے کا حوالہ دیتے ہیں کہ ''وہ تمام علم جو کتابوں کے ذریعے ہم تک پہنچتا ہے ادب کہلاتا ہے'' اور ایک مشرقی دانشور، ڈاکٹر سید محمد عبداللہ کے یہ الفاظ نقل کرتے ہیں کہ ''ادب وہ فن لطیف ہے جس کے ذریعے ادیب جذبات و افکار کو اپنے خاص نفسیاتی و شخصیاتی خصائص کے مطابق نہ صرف ظاہر کرتا ہے بلکہ الفاظ کے ذریعے زندگی کے داخلی اور خارجی حقائق کی روشنی میں ان کی ترجمانی اور تنقید بھی کرتا ہے اور اپنے تخیل اور قوت اختراع سے کام لے کر اظہار بیان کے ایسے پیرائے اختیار کرتا ہے جن سے سامع اور قاری کا جذبہ تخیل بھی تقریباً اسی طرح متاثر ہوتا ہے جس طرح خود ادیب کا تخیل اور جذبہ متاثر ہوتا ہے۔''
ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم لکھتے ہیں ''اردو زبان نے اپنی لاتعداد خوبیوں سے لسانیات کی تعریف میں اپنا اہم مقام بنالیا ہے۔ اردو ادب کا پودا نثر اور شاعری کے گلستان سجائے ہوئے ہے۔ شاعری میں حمد و نعت، منقبت، غزل، نظم، ریختی، قصیدہ، مرثیہ، واسوخت، شہرآشوب، گیت، مثنوی، رباعی وغیرہ شامل ہیں۔ جب کہ گلستان نثر داستان، ناول، افسانہ، ڈرامہ، مضمون، مقالہ، انشائیہ، خاکہ نگاری، رپورتاژ، ڈائری، انٹرویو، سوانح نگاری، آپ بیتی، تنقید، تحقیق، صحافت، کالم نویسی، خطوط نویسی، تبصرہ نگاری، ترجمہ نگاری، تلخیص نگاری سے مزین ہے۔ تخلیق کار اپنے تجربات و مشاہدات کو تخلیقی حسن سے صفحہ قرطاس پر منتقل کرتا ہے۔ یہ عمل خون جگر کی نمو سے ہی ممکن ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں:
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر
اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ادب زندگی کے گرد اس طرح گردش کرتا ہے، جیسے سیارے آسمان کے گرد گھومتے ہیں۔ ادب اپنے دامن میں مقصدیت رکھتا ہے جو انسانی زندگی کو بہتر بناتا ہے۔''
ڈاکٹر ہارون الرشید نے اپنی کتاب میں '' گلستان نثر '' کے جن پھولوں کا ذکر کیا ہے ان میں ایک تنقید ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''تنقید دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک نظری تنقید اور دوسری عملی تنقید ۔ نظری تنقید میں تنقید کے اصول و قواعد کا ذکر کیا جاتا ہے جب کہ عملی تنقید میں کلی یا جزوی طور پر اصول و قواعد کی روشنی میں کسی ادب پارے کو پرکھا جاتا ہے اور اس کی قدر و قیمت متعین کی جاتی ہے۔''
ڈاکٹر صاحب نے اردو زبان میں تنقید کے چار دور بتائے ہیں۔ پہلا دور ان تذکروں کا ہے جن میں محض اردو شعرا کے مختصر حالات زندگی، نمونۂ کلام اور ان کی شاعری کے بارے میں عمومی تاثرات کا ذکر ملتا ہے۔ اردو تنقید کا دوسرا دور سرسید کی تحریک سے شروع ہوتا ہے۔ تنقید کے تیسرے دور کا آغاز ترقی پسند تحریک سے ہوتا ہے۔ اس تحریک نے پہلی مرتبہ اردو تنقید میں مارکسی اور اشتراکی نقطۂ نظرکو روشناس کرایا۔ اردو تنقید کا چوتھا دور برصغیر کی تقسیم کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اس دور کے بیشتر نقاد وہی ہیں جو تیسرے دور میں نمایاں ہوچکے تھے۔''
اردو میں خاکہ نگاری اور سوانح عمری کی روایت کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر ہارون الرشید لکھتے ہیں۔ ''یادیں انسان کی زندگی کا بہت بڑا سرمایہ ہیں۔ ماضی کے جھروکوں میں جھانکنا ایک کڑا امتحان ہے، اگر ماضی دشواریوں میں گزرا تو حالات کی تلخیاں دامن گیر ہوجاتی ہیں۔ اگر ماضی حسین و جمیل یادوں میں لپٹا نظر آئے تو واپس لوٹنے کی خواہشیں مچلنے لگتی ہیں۔ سوانح نگار کسی اور شخصیت کے حالات زندگی بیان کرتا ہے۔ آپ بیتی شخصی تخلیق ہے۔ یہ آئینے کے سامنے بیٹھ کر لکھی جاتی ہے۔''
ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ خاکہ بھی ایک طرح کا سوانحی مضمون ہے۔ خاکہ ایک جیتے جاگتے انسان کی چلتی پھرتی تصویر کا دوسرا نام ہے۔ خاکہ نویس اسی شخص کا خاکہ بہتر انداز سے لکھ سکتا ہے جسے وہ بہت قریب سے جانتا ہو۔ جس کے ساتھ خاکہ نویس نے چاروں موسم گزارے ہوں۔ سفر کیا ہو، لین دین کے مراحل سے گزرا ہو، قیام و طعام کے لمحات گزارے ہوں، اس کی نفسیاتی کیفیت کو سمجھتا ہو۔ غیر جانبداری سے بیان کرسکتا ہو۔''
''ردائے اردو'' میں ڈاکٹر ہارون الرشید نے اردو اصناف، صنایع بدایع اور ادبی اصطلاحات سے نسل نوکو روشناس کرایا ہے اور روزمرہ، محاورہ اور ان دونوں کے درمیان فرق کی وضاحت کی ہے۔ محاورے میں الفاظ مجازی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ روزمرہ میں حقیقی معنوں میں ۔ محاورہ کلام کی تزئین کے لیے آتا ہے لیکن روزمرہ کی پابندی وضاحت کا نشان ہے۔ اسی طرح لفظوں کو درست انداز میں لکھنے اور بولنے کے لیے علم ہجا کو جاننا ضروری ہے کہ زبان کی وضاحت علم ہجا سے ہوتی ہے۔
تلمیح یعنی ایسے الفاظ جوکسی خاص واقعہ، کہانی یا اصطلاح کی طرف اشارہ کریں حسن بیان سمجھی جاتی ہے۔ اس کی وضاحت کے لیے مشہور تلمیحات بھی کتاب میں درج ہیں جیسے آب حیات، جام جمشید، آئینہ سکندر، سامری، ید بیضا، دجلہ، آتش نمرود وغیرہ۔
''ردائے اردو'' میں جو اور مضمون ہیں ان میں اردو ادب پر انگریزی کا اثر، کلاسیکی مغربی تنقید، یونانی فلاسفر، افلاطون اور ارسطو۔ انگریزی ادب کے معروف شعرا، ٹی ایس ایلیٹ، ولیم ورڈز ورتھ، کولرج، دانش ور میتھیو آرنلڈ، کروچے اور ہوریس کا مختصر تعارف شامل ہیں۔
ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کی کتاب کا ایک اہم حصہ وہ ہے جس میں طالب علموں کی سہولت کے لیے چند ممتاز شعرائے کرام اور ادبا کا مختصر تعارف ان کے اسلوب کا بیان ہے۔