احساس زیاں جاتا رہا

مسئلہ فلسطین اقوام متحدہ کے فورم پر حل کے لیے پیش کیا جانے والا قدیم ترین قضیہ ہے۔

S_afarooqi@yahoo.com

ISLAMABAD:
14 مئی 2018 کو فلسطین پر اسرائیل کے غاصبانہ تسلط کو 70 سال پورے ہو رہے ہیں، لیکن ستر سالہ مظالم سہنے کے باوجود جاں باز فلسطینی غاصب اسرائیل کے خلاف آج بھی سر سے کفن باندھے ہوئے کوہ گراں بن کر ڈٹے ہوئے ہیں ۔

فلسطین پر اسرائیلی قبضے کی تاریخ 19 ویں صدی کے آخر سے شروع ہوتی ہے اور 14 مئی 1948 کو اس طرح پایہ تکمیل کو پہنچتی ہے کہ ستر فیصد فلسطینی سرزمین اسرائیل کے یہودیوں کے حوالے کر دی جاتی ہے۔ اس منحوس دن ساڑھے سات لاکھ سے زائد مظلوم فلسطینیوں کو اجاڑ کر ان کے گھروں سے نکالا گیا ۔ چنانچہ فلسطینی ہر سال 14 مئی کو یہ المناک دن اسرائیل کے خلاف اپنے عزم آزادی کو تازہ کرنے کے لیے مناتے ہیں جب کہ دنیا بھر کے یہودی اس دن خوشیاں مناتے ہیں ۔ رواں سال اسرائیل کی جانب سے 14 مئی کو یادگار کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال ماہ دسمبر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے القدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کرنے کے بعد امریکی سفارت خانے کو القدس منتقل کرنے کا جو وعدہ کیا تھا، اسے 14 مئی کو عملی جامہ پہنانے کی توقع کی جا رہی ہے۔ اس موقعے پر اسرائیل میں موجود دنیا کے 40 ممالک کے سفیروں کو اسرائیل نے ایک سرکاری تقریب میں شرکت کے لیے مدعو بھی کر رکھا ہے۔

اسرائیلی ذرایع کے مطابق اس دن ان ملکوں کے یہ سفیر امریکا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے سفارت خانوں کی القدس منتقلی کا اعلان کریں گے۔ اسرائیلی حکام نے 14 مئی کے حوالے سے اسرائیل میں آباد یہودیوں کے اعداد و شمار بھی شایع کیے ہیں۔ ان اعدادوشمار کے مطابق صہیونی ریاست کی کل آبادی 88 لاکھ 40 ہزار ہے، جس میں یہودیوں کی تعداد 65 لاکھ 89 ہزار دکھائی گئی ہے۔ ان میں سے 18 لاکھ 49 ہزار یہودی اندرون فلسطین میں آباد ہیں، جن میں عرب باشندے بھی شامل ہیں جب کہ دیگر اقوام کے باشندوں کی تعداد 4 لاکھ 40 ہزار بتائی گئی ہے۔

انھی اعداد و شمار کے مطابق 2017 میں اسرائیل میں ایک لاکھ 77 ہزار بچے پیدا ہوئے، جب کہ 41 ہزار فوت ہوئے۔ بیرونی ممالک سے لاکر اسرائیل میں بسائے گئے یہودیوں کی تعداد 28 ہزار ہے۔

مسئلہ فلسطین اقوام متحدہ کے فورم پر حل کے لیے پیش کیا جانے والا قدیم ترین قضیہ ہے۔ یہ مسئلہ گزشتہ پون صدی سے مسلسل سلگ رہا ہے۔ سچ پوچھیے تو یہ ایک رستا ہوا ناسور بن چکا ہے۔ یہ مسئلہ فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کے ناجائز قیام سے شروع ہوا اور اس کی وجہ سے اسرائیل کی پڑوسی عرب ممالک سے تین باقاعدہ جنگیں لڑی جاچکی ہیں جب کہ بین الاقوامی نوعیت کی لاتعداد خون ریز جھڑپیں اس کے علاوہ ہیں۔

ادھر فلسطین کے اندر آئے دن ہونے والا فتنہ وفساد اور مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کا سفاکانہ قتل عام ایک الگ معمول بن چکا ہے۔ پچھلے چند برسوں کے دوران اسرائیلی فورسز نے اوسطاً سالانہ 285 فلسطینیوں کو شہید کیا۔ 9 دسمبر 1987 سے 28 ستمبر 2000 تک 1378 فلسطینی شہید کیے گئے۔ 29 ستمبر 2000 ، 31 اکتوبر 2007 کے دوران 4304 فلسطینیوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بناکر شہید کیا گیا۔ اس عرصے میں 1144 بچے بھی نہایت بے دردی سے شہید کیے گئے۔

گزشتہ 7 برسوں میں ظالم و جابر اسرائیل کے ہاتھوں 863 معصوم بچے شہید ہوئے ۔ اسرائیل میں کام کرنے والے انسانی حقوق کے مرکز (Tselemb) کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 7برسوں میں اسرائیل کے ہاتھوں 367 فلسطینی بچوں کو براہ راست فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ فلسطینی ادارہ برائے شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق فلسطین میں 2005 تک 13 لاکھ افراد غربت کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ یہ تعداد 2006 تک 21 لاکھ سے بھی تجاوز کرگئی۔ اکتوبر 2007 تک اسرائیل کی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی تعداد 8596 تک جا پہنچی۔ اسرائیلی فوج نے اکتوبر 2001 سے جنوری 2005 تک فلسطینیوں کے 663 گھر منہدم کر دیے جس کے نتیجے میں 4182 افراد بے گھر ہوگئے۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی ہٹ دھرمی کی وجہ سے 15 لاکھ فلسطینی انتہائی کسمپرسی کا شکار ہیں۔ جون 2001 تک 426 فلسطینی بچے اسرائیلی جیلوں میں قید تھے۔ 1995 سے 2005 تک اسرائیل نے 63فلسطینیوں کو سزائے موت سنائی جب کہ انسانی حقوق کے عالمی علم بردار مکمل چپ سادھے رہے اور سزائے موت کے خلاف کسی کے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکلا۔

اسرائیل دنیا کا وہ انوکھا ملک ہے جس کی کوئی حدود متعین نہیں ہیں۔ پون صدی قبل دنیا بھر کے یہودیوں کو نسل اور مذہب کی بنیاد پر یہاں لاکر بسایا گیا جو آج فلسطین کے 85 فیصد رقبے پر اپنا غاصبانہ قبضہ جما چکے ہیں اور اب اسرائیل بقیہ 15 فیصد فلسطینی رقبے کو بھی ہڑپ کرنا چاہتا ہے۔ غزہ جوکہ فلسطین کا سب سے بڑا ساحلی علاقہ ہے اسرائیل نے اس کا بھی تین اطراف سے محاصرہ کر رکھا ہے اور اس طرح بے چارے فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔

چار و ناچار غزہ کے شہریوں نے گزشتہ 30 مارچ 2018 سے ''واپسی مارچ'' کے عنوان سے ایک احتجاجی پر امن تحریک چلائی لیکن اسرائیل نے اس کے خلاف بھی پرشدت ردعمل کا اظہار کیا جس پر دنیا بھر کے امن و انسانی حقوق کے ٹھیکیداروں کو ایک بار پھر سانپ سونگھ گیا۔


برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ مارچ 1970 میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینی قصبے الجلیل کو غصب کرنے کے دوران مزاحمتی تحریک میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی یاد میں اہل فلسطین ہر سال مارچ کے مہینے میں ''یوم الارض'' مناتے ہیں جس کا مقصد اسرائیل اور اس کے حمایتیوں کو یہ پیغام دینا ہوتا ہے کہ فلسطین کے عوام اپنی تمام تربے بسی اور ناتوانی کے باوجود اپنی آزادی کی جدوجہد کو جاری رکھنے کے لیے غاصب اسرائیل کے خلاف آج بھی پرعزم اور سینہ سپر ہیں۔ یہ دراصل اس امید کا اظہار ہے کہ وہ ایک نہ ایک دن ضرور اپنے وطن کو آزاد کراکے وہاں سکھ کا سانس لیں گے۔ بقول ساحر:

رات بھر کا ہے مہماں اندھیرا

کس کے رو کے رُکے گا سویرا

اس میں کوئی شک نہیں کہ حریت پسند کشمیریوں کی طرح فلسطینیوں کی دوسری اور تیسری نسل نے اپنی جواں مردی اور بے دریغ قربانیوں کے ذریعے اپنے عزم صمیم کو قائم رکھا ہوا ہے۔

اقوام متحدہ میں اسرائیل کے بارے میں گزشتہ ستر برسوں کے دوران 225 سے زائد قراردادیں پیش کی جاچکی ہیں لیکن اسرائیل نے اپنے حمایتیوں کی شے پر جن میں امریکا پیش پیش رہا ہے، ہمیشہ انھیں اپنے پیروں تلے روندا ہے، مگر سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ فلسطین پر اسرائیلی قبضے کی راہ ہموارکرنے والوں میں غیروں سے زیادہ اپنوں کا بھی کردار شامل رہا ہے۔بقول شاعر:

اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں

افسوس کہ بعض اپنوں نے مصلحت کے تقاضوں اور منافقت سے کام لیتے ہوئے یہودی لابی کا ساتھ دیا:

ہے ادب شرط منہ نہ کھلوائیں

دوسری مثال مصر اور اسرائیل کے درمیان 1978 میں طے پانے والے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی ہے جس کے ذریعے مصر نے عالم اسلام کو نظرانداز کرکے اسرائیل کو فلسطین پر قبضہ کرنے کا موقعہ فراہم کردیا۔ عرب لیگ نے اپنے باقاعدہ اجلاسوں میں اس معاہدے کے خلاف قراردادیں پاس کیں لیکن 4 سال بعد 1982 میں مصر اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والے معاہدوں کو تسلیم کرکے اسرائیل کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرنے کی نئی روایت ڈالی گئی جو اب مزید تقویت حاصل کر رہی ہے۔ نوبت اب یہاں تک آ پہنچی ہے کہ خلیجی ممالک سمیت کئی اسلامی ممالک اسرائیل کے ساتھ باقاعدہ تعلقات قائم کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں جسے امریکا اور اسرائیل موجودہ ''صدی کی سب سے بڑی ڈیل'' قرار دے رہے ہیں۔ بقول اقبال:

وائے ناکامی متاعِ کاررواں جاتا رہا

کاررواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

افسوس صد افسوس کہ مسلمان یہ بات بھول گئے کہ القدس امت مسلمہ کا وہ مقدس مقام ہے جہاں سے سرکار دو عالمؐ اپنے رب سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے تھے۔
Load Next Story