دباؤ کی سیاست
پاکستان کی تاریخ میں کبھی ملک میں عوامی جمہوریت رہی ہی نہیں بلکہ ہمیشہ اشرافیائی جمہوریت رہی۔
پاکستان میں ملک کے اہم اداروں کے درمیان کشیدگی خدانخواستہ اب تصادم کی طرف نہ لے جائے، پاکستان میں یہ صورتحال اگرچہ نئی نہیں ہے چار بار اسی قسم کے حالات میں مارشل لا کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن ان چاروں بار سول حکومتوں کی طرف سے مزاحمت نہیں کی گئی ۔ اس بار سول حکومت کے خلاف سخت اقدامات کیے گئے ہیں۔
وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کو نااہل قرار دے دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے کشیدگی کا گراف بہت اوپر چلا گیا ہے، دونوں مذکورہ حضرات کی نااہلی کا فیصلہ اگرچہ سپریم کورٹ نے کیا ہے لیکن نہ صرف عدلیہ کے خلاف زبان استعمال کی جا رہی ہے بلکہ پہلی بارکسی برسر اقتدار حکومت کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بھی یہ سب باالواسطہ اور اشاروں کنایوں میں ہو رہا ہے۔
پاکستان میں منتخب حکومتیں خواہ فوج کی طرف سے برخواست کی گئی ہوں یا سول صدور کی طرف سے الزام ہر دو صورتوں میں کرپشن ہی کے لگائے جاتے رہے۔ اس بار بھی حکومت کے اہم ستونوں پر کرپشن ہی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں، فرق یہ ہے کہ اس بار پاناما لیکس کے حوالوں کے ساتھ حکمرانوں پر یہ الزام لگائے جا رہے ہیں۔ شریف فیملی کے خلاف کرپشن منی لانڈرنگ کے الزامات میں ریفرنس داخل ہیں اور عدلیہ انھی ریفرنسوں کے حوالے سے کارروائی کر رہی ہے۔ سابق وزیر اعظم اور وزیر خارجہ پر اسی حوالے سے کارروائی کی جا رہی ہے۔
سابق وزیر اعظم یہ شکوہ کر رہے ہیں کہ انھیں نااہل قرار دینے کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہیں لی۔ یہ استدلال اپنی جگہ اہم ہے لیکن کیا یہ سیاسی اخلاقیات کے زمرے میں آتا ہے کہ ملک کا وزیر اعظم اپنے بیٹے کی ایک غیر ملکی کمپنی میں ملازمت کرے؟یہ بڑی عجیب روایت کے ساتھ ساتھ ملک کی بہت بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ ملک کا سابق وزیر خارجہ بھی ایک غیر ملکی کمپنی میں پارٹ ٹائم جاب کرتا رہا اور مبینہ طور پر اس کا معاوضہ اٹھارہ لاکھ روپے لیتا رہا۔
قانون کے حوالے سے یہ نوکری جرم ہے یا نہیں لیکن یہ ایک ایسا افسوس ناک اخلاقی جرم ضرور ہے جس کی مثال نہیں مل سکتی کہ ایک شخص ملک کا وزیر خارجہ رہتے ہوئے ایک غیر ملکی کمپنی میں پارٹ ٹائم جاب کرے۔ملک کے دانشورانہ حلقوں کی جانب سے منتخب حکومتوں کی برخواستگی کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھائی اور مارشل لاؤں کی ہمیشہ مذمت کی گئی لیکن اس المیے کو کیا کہیں کہ جمہوریت کے علم برداروں نے ہر مارشل لائی حکومت میں شمولیت اختیار کرکے جمہوریت کا منہ کالا کیا۔
اس بار صورتحال بڑی مختلف اور عجیب ہے کہ ملک کے وزیر اعظم کو نااہل قرار دے کر منصب وزارت عظمیٰ سے الگ تو کردیا گیا ہے لیکن حکومت فنکشنل بھی ہے اور حکمران پارٹی کی طرف سے نیا وزیر اعظم بھی مقرر کردیا گیا ہے اور پوری حکومت کام کر رہی ہے اور 2018 کے الیکشن کی تیاری بھی کر رہی ہے۔ملک میں اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی کو اہل دانش نے کبھی پسند کیا نہ اس کی حمایت کی لیکن ٹریک ریکارڈ یہی بتاتا ہے کہ منتخب حکومتوں نے ہمیشہ جمہوریت کا منہ کالا کیا۔
ایک طرف مارشل لا حکومتوں کی مذمت کی جاتی رہی اور دوسری طرف مارشل لا حکومتوں میں بے شرمانہ طریقوں سے شمولیت بھی اختیار کی جاتی رہی۔ اس حوالے سے جمہوریت نوازوں کی کارکردگی اور اصول پسندی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1977 میں پنجاب کی چند سیٹوں پر دھاندلی کے خلاف چلنے والی تاریخی تحریک کے نتیجے میں ضیا الحق نے مارشل لا لگا کر بھٹو حکومت کو برخواست کردیا لیکن اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ جمہوریت کی حمایت میں چلائی جانے والی اس تحریک کے نتیجے میں جب ضیا الحق نے مارشل لا لگادیا تو جمہوریت کے علمبرداروں نے ضیا الحق کی مارشل لائی حکومت میں شمولیت اختیار کی، اقتدار کی وہ ہوس جو 1977 میں دیکھی گئی اس کا نظارہ ہم آج بھی کر رہے ہیں اگرچہ مختلف صورت میں۔عدلیہ کے فیصلوں کے خلاف باغیانہ رویوں کی وجہ عدلیہ کا وقار متاثر ہو رہا ہے۔
اس بغاوت کی حمایت کی جاتی جب بغاوت آئین اور اخلاق کے حدود میں ہوتی لیکن وہ کیا وجہ ہے کہ ہمارے سیاستدان اس قدر باغیانہ روش کا مظاہرہ کر رہے ہیں؟ اس حوالے سے اصل بات یہ ہے کہ حکمران طبقات نے سیاست کے مرکز پنجاب کو قابو کیا ہوا ہے۔ عدالتی فیصلے متنازعہ بھی ہوتے ہیں لیکن عوامی طاقت کے نام پر عدالتی فیصلوں سے بغاوت ایک انتہائی غیر جمہوری طریقہ کار ہے جو بظاہر جمہوری نظر آتا ہے اگر اس روایت کو پروان چڑھایا جاتا رہا تو ملک میں قانون اور انصاف کا سارا نظام درہم برہم ہوکر رہ جائے گا۔
اس امکان یا اندازے کو غلط نہیں کہا جاسکتا کہ سابق حکمرانوں اور ان کے حامیوں کی عدلیہ سے بغاوت اور سیاسی بہادری کی اصل وجہ یہ ہے کہ حکمران طبقے کے پاس پنجاب کارڈ موجود ہے اور یہ کوئی اتفاقی بات نہیں کہ پنجاب کارڈ کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ ملک کے عاقل سیاستدانوں نے بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ سرکاری خزانے سے اربوں کھربوں روپے لے کر پنجاب خصوصاً لاہور میں ترقیاتی کام کرائے اور اس کا بھرپور پروپیگنڈا کیا جس کا لازمی اور فطری نتیجہ پنجاب کے عوام کی حمایت کی شکل میں دیکھا جا رہا ہے۔
پنجاب کی آبادی ملک کی مجموعی آبادی کا 60 فیصد سے زیادہ حصہ ہے جس کی وجہ سے سیاسی طاقت پنجاب کے عوام کے ہاتھوں میں آگئی ہے، بلاشبہ پنجاب خصوصاً لاہور میں بہت ترقیاتی کام ہوئے ہیں لیکن یہ کام بے غرضانہ نہیں سمجھے جاتے بلکہ کہا جاتا ہے کہ ان ترقیاتی کاموں کا اصل مقصد پنجاب کے عوام کو اپنے ہاتھوں میں رکھنا رہا ہے اور اس طاقت کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جانا بتایا جاتا ہے۔یہ سارے سیاسی مفاد کے کاموں کو جمہوریت کی بالادستی کا نام دیا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی ملک میں عوامی جمہوریت رہی ہی نہیں بلکہ ہمیشہ اشرافیائی جمہوریت رہی اور اشرافیہ کے مفاد میں استعمال ہوتی رہی ، آج ہم ملک میں جو بحران دیکھ رہے ہیں، اس کا جمہوریت سے یا عوامی مفادات سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ سارا کھڑاگ اقتدار کا ہے اشرافیہ ہر قیمت پر اقتدار پر قابض رہنا چاہتی ہے اور یہ ساری اکھاڑ پچھاڑ اسی لیے کی جا رہی ہے عوامی مفاد یا جمہوریت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔