فیصلہ کُن حالات
پاکستان کسی بھی ایسے بلاک کا حصہ بننے کا متحمل نہیں ہوسکتا، جس سے کسی دوسرے اسلامی ملک کو خطرات لاحق ہوں۔
امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے خاتمے اور دوبارہ پابندیاں عائد کرنے کا اعلان، خطے میں جاری تنازعات کو ڈرامائی انداز میں انگیخت کرنے کا باعث بنے گا۔ ایک وقت تھا کہ خلیج میں ایران کو امریکا کا ''پولیس مین'' کہا جاتا تھا، اس کے بعد صورت حال یکسر بدل گئی اور وہی ایران آج امریکا اور اسرائیل کا ہدف ہے، نام نہاد ''سنّی اتحاد'' بھی ایران کے خلاف ان قوتوں کو اکساتا ہے۔
ایران کی اتحادی حزب اﷲ کو لبنان کے انتخابات میں کام یابی ملی ہے، اسی طرح شیعہ قیادت رکھنے والی جماعتیں عراق میں بھی مستحکم ہورہی ہیں، سوال یہ نہیں کہ اسرائیل اب کوئی قدم اٹھائے گا یا نہیں، سوال تو یہ ہے کہ ایسا کب ہوگا؟واضح رہے کہ ٹرمپ کے نیٹو اتحادی اس کی رائے سے اتفاق نہیں رکھتے، یورپی یونین نے بھی خود کو دور ہی رکھا ہے۔ ایران کے مشتبہ جوہری سائٹس پر اسرائیلی حملوں کا خدشہ بھی پیدا ہوچکا ہے، کیا بھارت اس کارروائی میں اپنے نئے دفاعی اتحادی کا ساتھ دے گا؟
ترکی اور امریکا کے مابین تعلقات میں نمایاں طور پر سرد مہری آچکی ہے، حال ہی میں اس نیٹو اتحادی کو امریکی فوجی ہارڈویئر کی فراہمی ممکنہ طور پر روکی جاسکتی ہے۔ افواج پاکستان نے عسکریت پسندوں کی بیخ کنی کرکے دنیا میں انسداد دہشت گردی کی حالیہ کامیاب ترین کارروائیاں کی ہیں۔ ان کارروائیوں میں 6ہزار اہل کار شہید اور 25ہزار زخمی ہوئے، اس کے باوجود پاکستان کی کاوشیں ناکافی قرار دی جاتی ہیں۔ جب قومی مفاد سامنے ہو تو تاریخ سے بھی متعلقہ حوالے پیش نظر ہوتے ہیں۔ 1962میں جب بھارت چین کے ہاتھوں رسوا ہوا، امریکا نے اسے فوجی امداد فراہم کی لیکن اس کے باجود بھارت سرد جنگ کے دوران سوویت کیمپ ہی میں رہا۔
سوویت یونین کے سقوط کے بعد بھی بھارت نے روس کے ساتھ اپنے ''تزویراتی تعلقات'' بنائے رکھے، اور ساتھ ہی یہ کرشمہ بھی دکھایا کہ خطے میں ''شاہِ ایران'' کی جانشینی پر بھی نظر رکھی۔ سیٹو کا معاہدہ تیل کی دولت سے مالا مال بادشاہتوں کے لیے ایک ڈھال تھا، اب متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب زور بازو سے یمن میں ''ہادی حکومت'' کی مدد کررہے ہیں اور یمن کی خانہ جنگی میں ایران کے حمایت یافتہ ''حوثیوں'' کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
پاکستان کبھی ایران کی غیر نصابی سرگرمیوں کی حمایت نہیں کرے گا، کیا ہم اپنے پڑوسی کے خلاف ہونے والی کسی جنگ میں معاونت فراہم کرنے کے متحمل ہوسکتے ہیں؟ ایسٹ ویسٹ انسٹی ٹیوٹ کی 2018اسپرنگ میٹنگ اس ہفتے عمان میں منعقد ہوئی، اس دوران مجھے یاد آرہا تھا کہ ہمارے فوجی 1970میں پی ایل او کی بغاوت ناکام بنانے کے لیے کس طرح اُردنی فوج کے شانہ بہ شانہ لڑے تھے اور شاہ حسین(اور اُردن) کی حفاظت کی تھی، ہم اتفاقا اسی ملک کے صدرمقام کے ہوٹل انٹرنیشنل عمان میں موجود تھے۔
ہمارے سپاہیوں کی قربانیاں رائیگاں گئیں، اُردن میں چند ہی ایسے ہوں گے جنھیں یاد ہوگا کہ صرف ہماری فوج ان کے ملک کے لیے جان ہتھیلی پر رکھے سامنے آئی، آج وہ ہمیں اپنے ''قریبی دوستوں'' میں بھی شمار نہیں کرتے۔جذبات کو فیصلہ سازی پر حاوی نہیں ہونا چاہیے۔ پہلے عرب بادشاہتوں سے یمن فوجی بھیجنے کا وعدہ کرنے کے بعد سابق وزیر اعظم کو اس سے پیچھے ہٹنا پڑا۔پاکستان میں پیدا ہونے والے عوامی ردعمل نے قومی اسمبلی کو اس فیصلے کے خلاف قرارداد منظور کرنے پر مجبور کردیا۔ یمن میں فوج بھیجنے سے انکار کے باعث سعودی اور یو اے ای ہم پر غضب ناک ہوگئے۔
''دولت اسلامیہ'' کی باقیات کا پاکستان اور کسی حد تک عراق اور شام سے صفایا ہوگیا لیکن ''داعش'' افغانستان میں ایک حقیقت بن چکی ہے۔ نیٹو اور امریکی فوج نے میدان میں بھاری نقصان اٹھا کر جو پیش قدمی کی تھی،افغان فوج محاذ جنگ میں اپنی مایوس کُن کارکردگی کے بعد انھیں بھی ہاتھ سے گنوا چکی ہے۔ افغان فوج میں غالب تعداد تاجکوں کی ہے جو نوگیارہ سے کچھ ہی دن قبل اپنے لیڈر احمد شاہ مسعود کے قتل کا ذمے دار پاکستان کو گرادنتے ہیں اور اپنی نااہلی چھپانے کے لیے ہمیشہ پاکستان کو ہدف بناتے ہیں۔
افغان فوج کی تعداد میں تیزی سے کمی آرہی ہے، صرف ایک سال میں 3لاکھ 30ہزار فوجیوں میں سے 35ہزار فوج کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔ خانہ جنگی میں آنے والی شدت افغان فوجیوں کو ملازمت چھوڑنے پر مجبور کررہی ہے۔ اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغان ری کنسٹرکشن(سگار) کی رپورٹ کے مطابق 2005سے اب تک امریکا افغان افواج پر 72.85ارب ڈالر خرچ کرچکا ہے۔
سگار کے سربراہ جون ایف سوپکو نے سی این این کو بتایا:'' طالبان جانتے ہیں کہ افغانستان میں کیا ہورہا ہے۔ افغان حکومت بھی حالات سے باخبر ہے۔ صرف امریکی ٹیکس دہندگان ہی ہیں جو بھاری اخراجات ادا کرتے ہیں لیکن صورت حال کے بارے میں یکسر بے خبر ہیں۔''افغان ممکن ہے اس صورت حال کے لیے بھی پاکستان کو ذمے دار ٹھہرائیں۔ طالبان کو یہ بات سمجھ میں آگئی کہ داعش افغان حکومت اور ان کے لیے یکساں خطرہ ہے، اسی لیے جنگ ختم کرکے مذاکرات کی میز پر آگئے۔ سیاسی اور معاشی اسباب ہی مسئلے کا حل ہیں جنگ و جدل نہیں۔
عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ خطے میں صورت حال کو یکسر بدلنے والا ''گیم چینجر'' معاشی ہوگا، سیاسی یا فوجی نہیں۔ اپنے تجارتی راستے کھلے رکھنے کے لیے چین نے باقاعدہ ''وون بیلٹ وون روڈ'' کا تصور دیا جس کا اجرا صدر ژی نے کیا تھا۔ سی پیک کا منصوبہ چین کی قومی سلامتی کے لیے بھی اہمیت کا حامل ہے، ساتھ ہی یہ پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے بھی گیم چینجر ثابت ہوگا۔ سب سے پہلے تو پاکستان میں رسل و رسائل اور توانائی کے شعبے کو سہارا ملے گا، دوسرے نمبر پر پاکستان میں براہ راست سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) آئے گی جس کے نتیجے میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
تیسرا اہم کام یہ ہوگا کہ پاکستان کے مفلوک الحال علاقوں میں ترقیاتی کام ہوں گے۔ اس منصوبے کے وہی نتائج برآمد ہوں گے جو 70اور 80کی دہائی میں تیل نکلنے کے بعد اس دولت سے مالامال ممالک میں ہوئے تھے۔ بھارت کو جنوبی ایشیا کی تقدیر بدل دینے والے منصوبے کی مخالفت کرنے کے بجائے ، اس کا حصہ بننا چاہیے۔ معدنیات سے مالامال افغانستان کو گوادر کے ذریعے غیر معمولی رسائی حاصل ہوگی۔
روس اور چین کی حمایت سے ترکی، ایران اور پاکستان پر مشتمل بلاک بن سکتا ہے اور اس میں وہی خطرات ہیں جو ''اعلان بغداد'' کے بعد لاحق تھے، حالات اس وقت سے مختلف بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ تینوں غیر عرب ممالک انتہائی طاقت ور فوج رکھتے ہیں۔کیا پاکستان کو کسی ایسی صف بندی میں دھکیلنا دانش مندی ہوگی؟ پاکستان کو ان حالات تک لے جایا جاسکتا ہے جہاں وہ جانا نہیں چاہتا، ایسا ہوتا ہے تو کیا ہم چین کی اقتتصادی بالادستی سے مطمئن رہ سکیں گے؟
بھارتی ایما پر پاکستان کو ہدف بنانے والوں کو اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیے کہ ایک غیر عرب جنرل، پاکستان کے سابق آرمی چیف راحیل شریف کو ولی عہد محمد بن سلمان کے تشکیل کردہ ''انسداد دہشت گردی کے خلاف اسلامی فوجی اتحاد'' کا سربراہ کیوں بنایا گیا؟ کیا یہ ممکن تھا اگر سعودی عرب کو پاکستانی فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور دہشت گردی کے خلاف اس کی کامیابیوں پر اعتماد نہ ہوتا؟ مودی، اس کے دوست اور ان کے اہل خانہ، پاکستان پر اندرون و بیرون ملک دہشت گردی کی مدد کا الزام لگاتے ہیں، اگر یہ درست ہوتا تو کیا محمد بن سلمان کا فیصلہ تب بھی یہی ہوتا؟
پاکستان کسی بھی ایسے بلاک کا حصہ بننے کا متحمل نہیں ہوسکتا، جس سے کسی دوسرے اسلامی ملک کو خطرات لاحق ہوں۔کیا ہم اپنا ''غیر جانب'' کردار برقرار رکھ سکیں گے اور بھارتی ایما پر ہمیں کسی خاص کیمپ میں دھکیلنے کے لیے ہونے والی کوششوں کی مزاحمت کر پائیں گے؟ بدقسمتی سے پاکستان اس وقت انتہائی غیر واضح کردار ادا کررہا ہے۔ کوئی بھی بڑا دھچکا، ہمیں واضح پوزیشن کی جانب دھکیل دے گا۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار ہیں، یہ کالم پاک امریکا تعلقات پران کے سلسلۂ مضامین کا تیسرا حصہ ہے)