ہمارے پہلے منصف اعلیٰ
زندگی بھی وہ جو پہلے ہی ان گنت مشکلات کا شکار ہے اور طوہاً و کراہاً ہی گزر رہی ہے۔
گرمیوں کے آغاز کے ساتھ ہی بجلی کی آنکھ مچولی بھی شروع ہو چکی ہے، حکومتی دعوے ہوا میں اُڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ عوام کو یہ بتایا جارہا ہے کہ بجلی موجود ہے اسی لیے آ جا رہی ہے، عوام حکمرانوں کی یہ انوکھی منطق سن اور سہہ رہے ہیں بلکہ اس پر ہنس بھی رہے ہیں اوروہ کر بھی کیا سکتے ہیں، ان کے مقدر میں ایسے ہی حکمران لکھ دیے گئے ہیں اور یہ مقدر ہے کہ بدلنے کو تیار نہیں بلکہ صبر کی تلقین اور اسی مقدر کے ساتھ زندگی گزارنے کو بھی کہا جاتاہے۔
زندگی بھی وہ جو پہلے ہی ان گنت مشکلات کا شکار ہے اور طوہاً و کراہاً ہی گزر رہی ہے، اس پہ حکمرانوں کی ایسی طنزیہ گفتگو سونے پہ سہاگے کاکام کرتی ہے لیکن عوام کیا کریں، وہ یہ سب کچھ سننے اور برداشت کرنے کے لیے ہی پیدا ہوئے ہیں، کبھی کبھار کسی حکمران کو اگر ان بے کس اور بے بس عوام پر رحم آجائے تو وہ عوام کے لیے اتنی ہی آسانی پیدا کرتا ہے کہ ان کے سانسوں کی ڈوری برقرار رہے اور وہ حکومت کی تابعداری کرتے رہیں۔
حال ہی میں متنارعہ سالانہ بجٹ ایک غیر منتخب وزیر خزانہ نے پیش کیا لیکن سنتے ہیں کہ اس میں عوام کے لیے کچھ نہ کچھ آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش بھی کی گئی خاص طور پر ملک کے تنخواہ دار طبقے سے وصول ہونے والی ٹیکسوں میں کسی حد تک کمی کی گئی ہے جس سے ان کو ماہانہ کی بنیاد پر کافی بچت ہو گی۔
تنخواہ دارواحد طبقہ ہے جس سے حکومت زبردستی اس کی منشا اور مرضی کے بغیر ٹیکس وصول کرتی ہے یعنی ان کی تنخواہ کی ادائیگی ٹیکس منہا کر کے کی جاتی ہے اور باقی ماندہ رقم سے وہ اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں نے بھی زندگی بھر اخباری ملازمت کی اور ٹیکس کی ادائیگی بھی کی۔اس کے بعد جو کچھ بچا اس میں اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالا۔
تنخواہ دار طبقہ جس کی آمدنی محدود اور مقرر ہوتی ہے، اس کے اخراجات کبھی بھی آمدنی سے پورے نہیں ہوتے بس زندگی جوں توں کر کے گزر رہی ہوتی ہے، مجھے یہ تو علم نہیں کہ تنخواہ دار کے پاس سال بھر میں کتنا کچھ بچ جاتا ہے کہ وہ زکوۃ کی ادائیگی بھی کر سکے لیکن میں حکومت وقت سے یہ سوال کر سکتا ہوں کہ جو ٹیکس تنخواہ دار کی تنخواہ سے حکومت وصول کرتی ہے کیا اسے زکوۃ میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔
زکوۃ سالانہ خاص بچت کی ایک مقرر حدپر ادا کی جاتی ہے لیکن تنخواہ دار طبقہ جس کا گز بسر پہلے ہی بڑی مشکل سے ہو رہا ہوتا ہے، اس کے پاس بچت کا کوئی طریقہ نہیں ہوتا۔ ریاست جب ٹیکس کی صورت میں اس کی تنخواہ سے ٹیکس وصول کرتی ہے تو اس ٹیکس کو اس کی زکوۃ ہی شمار کر لینا چاہیے تا کہ وہ زکوۃ کی ادائیگی کے فرض کا ثواب بھی کما سکے۔ حکومت کو ٹیکس ادائیگی ایک بوجھ سمجھی جاتی ہے لیکن بادل نخواستہ اس کی ادائیگی بھی کی جاتی ہے ۔
حساب کتاب کے معاملے میں میں بالکل اناڑی ہوں، مجھے حکومتی گورکھ دھندوں سے کوئی سرو کار نہیں اور نہ ہی میں نے کبھی حکومتی معیشت کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ میں تو بس صرف اتناہی جانتا ہوں کہ میری جیب پر حکومت کس طرح ڈاکہ ڈالتی ہے، اس کے لیے حکومتی معیشت دانوں نے طرح طرح کے جال بچھا رکھے ہیں جس میں وہ عام آدمی کو پھنسا کر اس کا خون نچوڑ رہے ہیں عوام کو ٹیکس پر ٹیکس لگا کر ان سے ادائیگی کرائی جارہی ہے مہینہ بھر کے بعد جب ہمت پیداکر کے بجلی کا بل دیکھتا ہوں تو اس میں بجلی کی قیمت کے برابر ٹیکس بھی درج ہوتے ہیں۔
بجلی کے محکمے نے عقل مندی کی ہوئی ہے کہ انھوں نے بجلی کی اصل قیمت الگ اور ٹیکس الگ کر دیے ہیں تا کہ عوام کو یہ معلوم ہو کہ حکومت کتنا ٹیکس وصول کر رہی ہے۔ بینک میں چیک بھیج کر اپنی ہی بچتوں کی رقم جب نکالتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس پر بھی حکومت کا ٹیکس ہے، گاڑی میں پٹرول پر بھی ٹیکس دیتا ہوں، موبائل ٹیلی فون پر بھی دہرا ٹیکس ادا کر رہا ہوں۔میں نے عمر بھر کی کمائی سے گزشتہ برس ایک گھر خریدا تو معلوم ہوا کہ ٹیکس کی شرح اتنی ہے کہ جس سے کوئی چھوٹا موٹاہی پلاٹ خریدا جا سکتا ہے۔
حکومت عوام کو لوٹ رہی ہے اور براہ راست لوٹ رہی ہے عوام لٹتے جا رہے ہیں کیونکہ ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں، ان کی دار رسی کا کوئی ذریعہ نہیں اور جو ذرایع ہیں وہ گھوم پھر کر حکومت تک پہنچ جاتے ہیں، اس لیے عوام ٹیکس پر ٹیکس ادا کیے جا رہے ہیں اور حکمران ان ٹیکسوں پر اپنی عیاشیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
بڑے بڑے محل نما بنگلوں میں رہنے والے اور سرکاری خرچے پر بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومنے والے کئی دیگر مراعات کے ناجائز حقدار عوام کا خون نچوڑ کر عیاشیاں کر رہے ہیں، یہ آپ اور ہم سب کا پیسہ ہے جس سے وہ ہٹو بچو کی صدائیں لگاتے ہمیں روند کر گزر جاتے ہیں ،ان کوکوئی پوچھنے والا نہیں ۔ ان کا اپنا ضمیر تو مردہ ہو چکا ہے اور اسی مردہ ضمیر کے ساتھ یہ ناجائز دولت کے باوجود عوام کے پیسوں سے اپنے اخراجات پورے کرتے ہیں ان کے اندر سے خدا کا خوف ختم ہو چکا ہے کیونکہ ان کے دلوں پر واقعی مہریں لگ چکی ہیں اور جو کوئی ان کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو کار سرکار میں مداخلت قرار دے دیا جاتا ہے جس کے اپنے الگ ضابطے اور قوانین ہیں ۔
ملک کی اعلیٰ عدالت کے منصف اعلیٰ نے عوام کو مسائل سے نکالنے اور ان کی مشکلات میں کمی کے لیے عوامی مفاد میںازخود فیصلے شروع کر رکھے ہیں۔ چنانچہ عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے والوںسے پوچھ گچھ شروع ہو چکی ہے لیکن ساتھ ہی مسائل اس قدر پیدا کیے جا چکے ہیں کہ ان کے حل کے لیے ایک طویل مدت درکار ہے مگر اس مدت کا آغاز توکسی نے کرنا ہی تھا اور یہ آغاز منصف اعلیٰ نے کر دیا ہے، وہ ہفتے کے ساتوں دن عدالت لگا رہے ہیں،عوامی فلاح کے کیس سن رہے ہیں۔
حکومت کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ جو کام حکومت کے ذمے تھے وہ عدلیہ کر رہی ہے کیونکہ اگر حکومت کام نہیں کرے گی تو ملک کا نظام درہم برہم ہو جائے گا اور ہمارے ساتھ یہی ہوا ہے کئی برسوں سے درہم برہم نظام کو درست کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ نظام درست ہوگا تو عوام کی حالت خود بخود بدل جائے گی، قوم اچھے دنوں کی امید کے لیے صبر کرے، اچھے دنوں کی امید کے لیے صبر کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔