ماں جی

فرزند کا اپنی والدہ کو منفرد خراج عقیدت۔

فرزند کا اپنی والدہ کو منفرد خراج عقیدت۔ فوٹو: سوشل میڈیا

HAIFA:
''بیٹا، آپ کھڑے ہوجائو آنٹی کو بیٹھنے دو۔''

یہ پہلا حکم تھا جو سن شعور کی ابتدائی یادوں میں آج بھی زندہ ہے اور ماں جی کے اس حکم نے ذہن پر کچھ ایسی مہر ثبت کی کہ آخر دم تک تابعداری نہ گئی۔ پلٹ کر جواب دینا کیونکہ اس زمانے کا رواج نہ تھا اس لیے ہر بات پر سر تسلیم خم کیے رکھا یہاں تک کہ بچوں نے چھیڑ بنالی کہ پاپا تو مما جان سے زیادہ دادی اماں سے ڈرتے ہیں... بات بہ بات بلیک میل بھی کرتے... اپنی ضد منوانے کے لیے دھمکی بھی ڈالتے...اچھا تو پھر بتائیں دادی اماں کو میں چھپ چھپ کر سگریٹ پیتا ہوں۔

بات اس وقت کی ہے جب لاہور کی تنگ سڑکوں پر ڈبل ڈیکر بس دوڑتی تھی۔ میں اور ماں جی خواتین کی جالی دار حصے میں سوار تھے۔ میں کھڑکی کی طرف بیٹھا بھاگتے درختوں کا نظارہ کررہا تھا کہ ماں جی کی پیار بھری آواز کانوں سے ٹکرائی۔ منہ پھیر کر دیکھا تو ایک خاتون کھڑی میری ہی طرف دیکھ رہی تھیں۔ میں اٹھا، پلٹا اور ماں جی کی سیٹ کے برابر جم کر کھڑا ہوگیا۔ خاتون شکریہ کہہ کر بیٹھ گئیں لیکن ماں جی کی آنکھیں میری سعادت مندی کے باعث چمک اٹھیں۔ میں نے جب تک بس یا ویگن میں سفر کیا، اس چمک نے کسی خاتون یا بزرگ مسافر کی موجودگی میں مجھے سیٹ پر ٹک کر نہیں بیٹھنے دیا۔ لڑکپن، جوانی اور پھر 55 برس کی اس ادھیڑ عمری میں ماں جی کی چمکتی آنکھیں آج بھی میرا طواف کرتی رہتی ہیں۔

شہر لاہور کے سرسبز و شاداب علاقے مسلم ٹائون میں پیدا ہونیوالی سرور بیگم بس پانچویں جماعت تک ہی پڑھ سکیں۔ دفعدار اللہ بخش کی بہو بنیں تو سسرال کے آنگن میں اترتے ہی ملکہ کہلائیں اور پھر زندگی بھر ملکہ بن کر ہی راج کیا۔ ساس، سسر اور سات نندوں پر مشتمل خاندان کے ہر فرد کی آنکھ کا تارا بن گئیں۔ خدمت گزاری کو ایمان کا درجہ دیا تو بچہ کیا جو ان سب نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ساس وارے نیارے جاتیں تو نندیں صدقہ نہارتیں۔ اس وقت ساس بھی کبھی بہو تھی کی سیریل ابھی عام نہیں ہوئی تھی۔ گھروں کی دیواریں پردہ داری کے لیے تعمیر کی جاتی تھیں بٹوارے کے لیے نہیں۔ زندگی اس ڈھب پر چل نکلی تو پھر رکی نہیں تا وقتیکہ گائوں سے شہر لاہور آنے والا دیہاتی جوان اور ملکہ کا ہیرو شہری بابو بن گیا۔

میکے سے گھر گرہستی کا سبق پڑھ کر آنے والی سرور بیگم کے لیے چودھری صلاح الدین ہی سب کچھ تھے۔ ماں جی نے تو شاید مجازی خدا کا تصور ہی بدل ڈالا۔ خدمت کو کچھ یوں اوڑھنا بچھونا بنایا کہ کولہو کا بیل بھی شرما جائے۔ شکر دوپہر، کڑکتی دھوپ میں صحن کے بیچ دو چار پائیاں کھڑی کرکے اوپر چادر ڈال دی اور سائبان تیار کرلیا۔ اب نمک، مرچ، ہلدی اور دیگر مسالے پیسنا شروع کردیئے۔ اس وقت مشینیں دستیاب نہیں تھیں اس لیے ہر خاتون خانہ اسی طور اپنے گھرانے کو توانا رکھتی ہے۔

ماں جی ہفتے میں ایک بار کپڑے دھونے کا اہتمام ضرور کرتیں۔ سرکاری ٹونٹی کسی کسی گھر میں ہوتی تھی لیکن نلکا ہر آنگن کا جزو تھا۔ قیمص، شلوار، پتلون، بش شرٹ تو کسی کھاتے میں نہیں آتی تھی۔ گھر بھر کی چادریں، میز پوش، تکیے، غلاف، لحافوں کے اوچھاڑ اور پھر قالین نما فرشی دریاں۔ محشر کے روز اپنی گٹھڑی اپنے سر اٹھانے کی روایت فقط ایک یوم کے لیے ہے لیکن ہر اتوار کی چھٹی کے دن ان دھلے کپڑوں کا یہ گٹھڑ نلکے کے ساتھ علی الصبح رکھ دیا جاتا۔


ہم دونوں بھائی ڈی پی ایس ماڈل ٹائون میں داخل ہوئے تو ماں جی برقع پہنے ایم ٹی بی ایس کی لال بس پر سوار ہوکر ہمارے ساتھ سکول جاتیں۔ مین گیٹ پر پہنچ کر سر پر ہاتھ پھیرتیں اور واپسی بس پر مسلم ٹائون گھر چلی جاتیں۔ دوپہر چھٹی کی گھنٹی ہونے سے پہلے ماں جی اس آہنی گیٹ کے کونے سے لگی کھڑی ہوتیں۔ یہ سلسلہ ایک دو روز نہیں سالہا سال چلتا رہا۔ ہم نویں دسویں میں پہنچ گئے، ہم جماعت ہمارا مذاق اڑاتے کہ ابھی فیڈر نہیں چھوڑا جو والدہ ساتھ آتی ہیں۔ ہم نے احتجاج کیا تو ماں جی اپنے معمول میں تھوڑی سی تبدیلی لے آئیں۔ اب وہ سکول کے مبین گیٹ کی بجائے ایچ بلاک بس سٹاپ کی برجی کے نیچے کھڑی ہوجاتیں۔

1970ء کی پوری دہائی اسی طرح گزری۔ گرمی، سردی کے ہر موسم میں ماں جی کے معمول میں رتی برابر فرق نہیں آیا۔ ہماری پڑھائی کا اس حد تک خیال تھا کہ سکول کی دیوار کے ساتھ جڑے حبیب بینک میں ماہانہ فیس جمع کرانا بھی ماں جی نے اپنے معمول کا حصہ بنالیا۔ ان کا کہنا تھا کہ لائن میں لگنے سے پڑھائی کا حرج ہوگا۔ ڈی پی ایس سکول سے ڈی پی ایس کالج میں آگئے لیکن ہم دونوں بھائی کبھی سکول، کالج سے لیٹ ہوئے نہ کبھی ہماری فیس جرمانے کے ساتھ بھری گئی۔ ماضی کو اپنے بچوں کے بچپن سے ملاتا ہوں تو شرمندگی ہوتی ہے کیونکہ گاڑی کی آسائش ہونے کے باوجود میں اپنے بچوں کو کبھی وقت پر سکول نہیں پہنچا سکا اور اخبار کی نوکری میں وقت بے وقت تنخواہ ملنے کے باعث ہمیشہ جرمانے کے ساتھ بچوں کی فیس بھرنا پڑی۔

ماں جی نے دولت کی ریل پیل بھی دیکھی اور مٹھی بھر سکے بھی گنے۔ عیش و عشرت میں تکبر سے دور رہیں تو افلاس کی آزمائش میں وضعداری کا بھرم قائم رکھا۔ اچھے دنوں میں عید بکر پر شامیانے لگے۔ دیگیں پکتیں، خاندان بھر یک محفلیں سجتیں۔ والد بزرگوار کی جڑیں چونکہ دیہات سے جڑی تھیں لہٰذا ہمارا گھر باوٹرین سے لاہور آنے والے ہر مسافر کی منزل تھا۔ گائوں سے آئے ہر مہمان کے لئے دو چیزوں کا خاص اہتمام کیا جاتا: حقہ اور میٹھا۔

وقت نے پلٹا کھایا تو ماں جی نے پائو بھر دودھ، چھٹانک چینی، دو چھٹانک ڈالڈا گھی خرید کر بھی گزارا کیا۔ ان دنوں گھر میں صرف ایک پراٹھا بنتا تھا جس پر ایک چمچ گھی لگایا جاتا۔ وہ پراٹھا چھوٹی بہن کے حصے میں آتا۔ دودھ کم ہونے کی وجہ سے سے ہم بڑے بہن بھائی دودھ کی جگہ انگریزی لفظ وائٹ استعمال کرتے تاکہ چھوٹی دودھ پینے پر اصرار نہ کرے۔ ان حالات میں بھی ماں جی نے کمال صبر کا مظاہرہ کیا اور کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ خزاں نے کروٹ لی تو دیکھا ایک بار پھر بہار دستک دے رہی تھی۔

ماں جی کی وفا شعاری کا سبب تھا کہ ان کا ہیرو روشنیوں کے دیس سے واپس لوٹ آیا۔ وفا کی جوت جگی رہے تو شادی کا بندھن کیلنڈر کی تاریخوں کا محتاج نہیں رہتا۔ 91/90 ء کی بات ہے والد صاحب محترم دل کے عارضے میں پی آئی سی داخل ہوگئے۔ ماں جی نے داتاصاحب حاضری کی منت مانی۔ ڈاکٹر شہر یار نے تسلی دی تو گاڑی کا انتظار کیے بغیر حاضری بھرنے نکل پڑیں۔ بالوں میں بھر پور چاندی آجانے کے باوجود ماں جی تین پردوں والا برقع پہنتی تھیں۔ موٹر سائیکل پر بیٹھے برقع پہیے کی چین میں پھنس گیا۔ موٹر سائیکل نے قلا بازی کھائی تو ماں جی کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ ہیرو پی آئی سی میں تو خود یوسی ایچ بستر پر رہیں لیکن چند دن بعد ہی وہیل چیئر پر پی آئی سی جانا شروع کردیا۔ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا جب تک والد صاحب بھلے چنگے ہوکر گھر واپس نہیں آگئے۔ پھر آخر تک ساتھ اس طرح نبھاکر دونوں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پہلو بہ پہلو جاسوئے۔

بچپن کی ایک رات ماں جی کے پیٹ میں اچانک درد اٹھا۔ ایسے میں وہ صرف کوکا کولا پیتی تھیں۔ کچھ دیر بعد افاقہ ہوا تو وہ سوگئیں۔ میں دبے پائوں ان کی پائنتی کھڑا ہوگیا۔ نجانے کیوں آنکھیں بھر آئیں۔ آنسوئوں کی جھڑی لگی تو ہچکی بندھ گئی۔ ماں جی اٹھیں مجھے سینے سے لگایا اور کہا بہادر بچے روتے نہیں۔ وہ رات مجھے بھول گئی تھی، ماجی کو یاد تھی۔ بچھڑنے سے کچھ دن پہلے ماں جی کے پاس بیٹھا تو بچپن کی باتیں چھڑ گئیں۔ اس رات کا ذکر آیا تو ماں جی نے کہا اب تو بڑا ہو گیا ہے۔ چھوٹا تھا تو اچھا تھا۔ میں نے خفگی مٹاتے ہوئے کا آپ بھی تو بستر پر لیٹی ہیں۔ سینے سے نہیں لگاتیں۔ ماں جی خود کو سمیٹتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں اور پھر پتہ نہیں کتنی دیر ہم ایک دوسرے کے ساتھ چپکے رہے۔ لیکن ماں جی سچ کہتی تھیں میں بڑا ہوگیا ہوں، چھوٹا تھا تو اچھا تھا۔ کم از کم رو تو لیتا تھا۔

ماں جی کے ترکے سے ان کے سر کی چادر اور ایک جوڑی جوتا اپنے پاس رکھ لیا ہے۔ میرا ایمان ہے کہ جوتا قدم قدم پر سیدھی راہ چلائے گا اور چادر تا روز محشر سرپر سایہ فگن رہے گی۔انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔
Load Next Story