کتاب اور انسان
ازل سے ابد تک کی ایک معلومات افروز داستان۔
انسان کے اس دنیا میں آنے کے بعد اسے شعور کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے الہامی کتابوں اور صحیفوں کا نزول ہوا۔کتاب ہمیشہ سے سنجیدہ انسانوں کی شناخت رہی ہے۔ یہ صرف کاغذوں کا مجموعہ نہیں بلکہ آفاقی پیغام لیے ہوئے ہوتی ہیں۔
قدیم تہذیبوں میں چین کی تہذیب میں کھال اور ہڈیوں پر کھلنے کا آغاز ہوا تھا اور تحقیق کے مطابق تاریخ میں سب سے پہلے کاغذ کی ایجاد چین میں پہلی صدی عیسوی میں ہی ہوچکی تھی۔ اسی طرح طباعت کا عمل بھی سب سے پہلے چین میں ہی شروع ہوا۔امت مسلمہ کے ظہور کے ساتھ ہی کتب نویسی کو ایک نئی جہد مل گئی۔ حضرت محمد ﷺ نے قرآن مجید کی کتابت لکڑی پر، کھجور کی چھال پر، پتھروں اور بوسیدہ کپڑوں پر کروائی تھی۔ جسے حضرت عثمانؓ نے اپنے دور میں یکجا کرکے اس کی کتابت کا اہتمام کروایا۔
کتابت حدیث کے زمانے میں اور اس کے بعد تو مسلمانوں نے کتاب کی ایک عظیم الشان تاریخی تہذیب کو جنم دیا اور ایک ہزار سالوں تک اس کی پرورش کی۔۔ اسلامی دور حکومت میں کتابوں کو ایک ایسے خزانے کا درجہ حاصل تھا جو ہر خاص و عام کے لیے یکساں میسر تھا۔ مختلف ملکوں سے کتابیں لاکر ان کے تراجم کروائے جاتے تھے اور محفوظ کیا جاتا تھا۔
مسلم امہ سے کتب بینی کا یہ شوق جب یورپ منتقل ہوا تو وہاں ایک نئے جہد کا آغاز ہوا۔ معلومات کا ایک طوفان تھا جس نے انسانیت کی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا اور کتابوں کی ہیت ترقی کرتی کرتی ہوئی انسان کی ترقی کا پیش خیمہ بن گئی۔ کتاب نے انسان کی عمرانی، اقتصادی، سیاسی، مذہبی، ادبی، سائنسی اور فنی ارتقاء میں بنیادی کردار ادا کیا۔ کتاب نے خود پتھروں کی سلوں سے کاغذ اور پھر کاغذ سے ڈیجیٹل بک کی شکل اختیار کرلی جس نے کتاب کے حصول کو موجودہ دور میں بہت آسان کردیا ہے۔ آج کتاب ہر ایک کی دسترس میں ہے مگر مطالعے کا شوق کم ہوگیا ہے۔ معلومات کا ایک خزانہ انسان کی دسترس میں ہے مگر علم آہستہ آہستہ کم ہوگیا ہے۔ شوق علم ہی انسان میں کتاب کے مطالعے کی طلب پیدا کرتا ہے مگر اب کتابوں کا مطالعہ نصابی کتب تک ہی محدود ہوگیا ہے۔
قوموں نے ترقی کے زینے کتابوں سے حاصل کردہ علوم سے ہی طے کیے ہیں۔ کتابیں زبانوں کی قید سے بالاتر ہوتی ہیں۔
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کرتو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
قاری کے شوق پر منحصر ہے کہ اس کا شوق اسے کتاب سے کس طرح باندھتا ہے۔ کتابیں اپنے اندر ایسی دنیا سمیٹے ہوتی ہیں جو امن و محبت اور علم و آگہی کا نیا دور اپنے قاری پر آشکار کرتی ہے۔ انسانوں کی معاشی یا معاشرتی ضروریات کا دارومدار علم پر ہے اور کتابیں حصول علم کا سب سے اہم ذریعہ ہیں۔ پتھروں پر کندہ الفاظ سے ہاتھ میں موجود ڈیجیٹل کتاب تک کا سفر انسان کی کتاب دوستی کا ثبوت ہے۔ جوں جوں کتاب کی دستیابی آسان ہوتی گئی شوق حصول علم کا فقدان بڑھتا جارہا ہے۔ وقت کی کمی کا رونا روتے انسان کے لیے موبائل پر بے مقصد گیمز کھیلنا بامقصد کتاب پڑھنے سے زیادہ اہم کام ہے۔ ترجیحات کی یہ تبدیلی معاشرے میں اخلاقی و تہذیبی تنزلی کی ہنگامی صورتحال ہے۔ حصول علم کو حصول روزگار سے منسلک کرکے موجودہ نسل کو کتاب دوستی کے شوق سے آشناہی نہیں کیا گیا۔ بحیثیت قوم یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم کتابوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اپنی نئی نسل کی تربیت ان خطوط پر کریں جو انہیں ایک تہذیب و تعلیم یافتہ قوم بنائیں۔
زندگی کچھ اور شے ہے، علم ہے کچھ اورشے
زندگی سوز جگر ہے، علم ہے سوز دماغ
قدیم تہذیبوں میں چین کی تہذیب میں کھال اور ہڈیوں پر کھلنے کا آغاز ہوا تھا اور تحقیق کے مطابق تاریخ میں سب سے پہلے کاغذ کی ایجاد چین میں پہلی صدی عیسوی میں ہی ہوچکی تھی۔ اسی طرح طباعت کا عمل بھی سب سے پہلے چین میں ہی شروع ہوا۔امت مسلمہ کے ظہور کے ساتھ ہی کتب نویسی کو ایک نئی جہد مل گئی۔ حضرت محمد ﷺ نے قرآن مجید کی کتابت لکڑی پر، کھجور کی چھال پر، پتھروں اور بوسیدہ کپڑوں پر کروائی تھی۔ جسے حضرت عثمانؓ نے اپنے دور میں یکجا کرکے اس کی کتابت کا اہتمام کروایا۔
کتابت حدیث کے زمانے میں اور اس کے بعد تو مسلمانوں نے کتاب کی ایک عظیم الشان تاریخی تہذیب کو جنم دیا اور ایک ہزار سالوں تک اس کی پرورش کی۔۔ اسلامی دور حکومت میں کتابوں کو ایک ایسے خزانے کا درجہ حاصل تھا جو ہر خاص و عام کے لیے یکساں میسر تھا۔ مختلف ملکوں سے کتابیں لاکر ان کے تراجم کروائے جاتے تھے اور محفوظ کیا جاتا تھا۔
مسلم امہ سے کتب بینی کا یہ شوق جب یورپ منتقل ہوا تو وہاں ایک نئے جہد کا آغاز ہوا۔ معلومات کا ایک طوفان تھا جس نے انسانیت کی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا اور کتابوں کی ہیت ترقی کرتی کرتی ہوئی انسان کی ترقی کا پیش خیمہ بن گئی۔ کتاب نے انسان کی عمرانی، اقتصادی، سیاسی، مذہبی، ادبی، سائنسی اور فنی ارتقاء میں بنیادی کردار ادا کیا۔ کتاب نے خود پتھروں کی سلوں سے کاغذ اور پھر کاغذ سے ڈیجیٹل بک کی شکل اختیار کرلی جس نے کتاب کے حصول کو موجودہ دور میں بہت آسان کردیا ہے۔ آج کتاب ہر ایک کی دسترس میں ہے مگر مطالعے کا شوق کم ہوگیا ہے۔ معلومات کا ایک خزانہ انسان کی دسترس میں ہے مگر علم آہستہ آہستہ کم ہوگیا ہے۔ شوق علم ہی انسان میں کتاب کے مطالعے کی طلب پیدا کرتا ہے مگر اب کتابوں کا مطالعہ نصابی کتب تک ہی محدود ہوگیا ہے۔
قوموں نے ترقی کے زینے کتابوں سے حاصل کردہ علوم سے ہی طے کیے ہیں۔ کتابیں زبانوں کی قید سے بالاتر ہوتی ہیں۔
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کرتو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
قاری کے شوق پر منحصر ہے کہ اس کا شوق اسے کتاب سے کس طرح باندھتا ہے۔ کتابیں اپنے اندر ایسی دنیا سمیٹے ہوتی ہیں جو امن و محبت اور علم و آگہی کا نیا دور اپنے قاری پر آشکار کرتی ہے۔ انسانوں کی معاشی یا معاشرتی ضروریات کا دارومدار علم پر ہے اور کتابیں حصول علم کا سب سے اہم ذریعہ ہیں۔ پتھروں پر کندہ الفاظ سے ہاتھ میں موجود ڈیجیٹل کتاب تک کا سفر انسان کی کتاب دوستی کا ثبوت ہے۔ جوں جوں کتاب کی دستیابی آسان ہوتی گئی شوق حصول علم کا فقدان بڑھتا جارہا ہے۔ وقت کی کمی کا رونا روتے انسان کے لیے موبائل پر بے مقصد گیمز کھیلنا بامقصد کتاب پڑھنے سے زیادہ اہم کام ہے۔ ترجیحات کی یہ تبدیلی معاشرے میں اخلاقی و تہذیبی تنزلی کی ہنگامی صورتحال ہے۔ حصول علم کو حصول روزگار سے منسلک کرکے موجودہ نسل کو کتاب دوستی کے شوق سے آشناہی نہیں کیا گیا۔ بحیثیت قوم یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم کتابوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اپنی نئی نسل کی تربیت ان خطوط پر کریں جو انہیں ایک تہذیب و تعلیم یافتہ قوم بنائیں۔
زندگی کچھ اور شے ہے، علم ہے کچھ اورشے
زندگی سوز جگر ہے، علم ہے سوز دماغ