حکومت کے آخری ایام اور الیکشن

اپوزیشن ’’غداری غداری‘‘ کھیل رہا ہے اور حکومت اپنا کام کر رہی ہے

ali.dhillon@ymail.com

ویسے تومجھے گزشتہ کالم کے ہی تسلسل کو آگے بڑھانا چاہیے کیونکہ سابق نااہل وزیر اعظم کے بیانات نے ملکی سیاست میں جس قدر ہلچل پیدا کر دی ہے اس کے لیے درجن بھر کالم بھی کم ہیں۔ اس لہر میں ایک چیز جو سب کی نظروں سے اوجھل ہے وہ ہے حکومت کی آخری دنوں میں ''تیزیاں ''، فی الفور فائلیں نمٹانا، فنڈز ٹرانسفر کرنا اور کھاتے پورے کرکے اسے ''کمیٹیوں'' سے جلد از جلد پاس کرا کر SOP'sکو فالو کرنا اور کرپشن، بے قاعدگیوں اور کمیشنز کو قانونی بنانا ہے۔

اس حوالے سے وزارت خزانہ کی منسٹری میں جو ہلچل نظر آرہی ہے وہ کسی کو دکھائی نہیں دے رہی۔گزشتہ دور حکومت میں پیپلز پارٹی نے بھی کمال ہوشیاری سے اتوار کوبینک کھلوا کر بھاری فنڈز ٹرانسفر کیے تھے۔قارئین کو یاد ہوگا کہ اُنہی دنوں مقامی اخبارات نے ان حالات کو یوں فائل کیا تھا کہ ''لگتا ہے حکومت کو پانچ سال کے فنڈز ٹرانسفرکرنا ابھی یاد آرہا ہے اور پیپلز پارٹی ایسےBehaveکر رہی ہے کہ شاید اُسکی یہ آخری حکومت ہو'' ۔ پیپلز پارٹی کے دور کے آخری 7دنوں میں حالات دیکھ کر ہر کوئی سر پکڑ کر بیٹھ گیا تھا۔

اب یہی موجودہ حکومت کر رہی ہے،اپوزیشن ''غداری غداری'' کھیل رہا ہے اور حکومت اپنا کام کر رہی ہے۔ دھڑادھڑ صوبائی محکموں کے خزانہ اور منصوبہ بندی کے محکموں اور صوبائی اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفاتر میں رات دن کام ہو رہا ہے ،وفاقی حکومت میں خزانہ ، منصوبہ بندی ڈویژن ، ایف بی آر اور اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان (اے جی آفس)کے دفاتر کے لیے بھی وقت کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ یہی حال دیگر وزارتوں، محکموں اور اداروں کا بھی ہے۔ حکمرانوں کے خاص لوگوں کی سرکاری دفاتر میں آمد و رفت زیادہ ہے اور فائلیں تیزی سے سفر کر رہی ہیں۔ مرکز سے لے کر اضلاع اور تحصیل کی سطح کے دفاتر میں بھی زیادہ سرگرمی نظر آرہی ہے تاکہ حکومت ختم ہونے سے پہلے سارے کام نمٹائے جا سکیں۔

بجٹ وقت سے پہلے پیش کر دینا،ایم این ایز اور ایم پی ایز کو فنڈز ریلیز کردینا، مفتاح اسماعیل کا وفاقی وزیر خزانہ بن جانا جیسے فیصلے معمولی نہیں ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہیں جیسے پی پی پی کے دور میں حکومت ختم ہونے سے چند دن پہلے ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو ہٹا کر سلیم مانڈوی والا کو وزیر خزانہ بنایا گیا تھا۔ان کے وزیر خزانہ کے بعد حکومت ختم ہونے سے صرف سات دن قبل کابینہ کی اقتصادی کمیٹی (ای سی سی ) کا اجلاس بلایا گیا۔ یہ قانونی سوال آج تک موجود ہے کہ حکومت کے خاتمے سے صرف ہفتہ قبل اجلاس بلایا جا سکتا ہے یا نہیں لیکن یہ اجلاس منعقد ہوا۔


ای سی سی بہت اہم اور طویل المعیاد فیصلے کرتی ہے۔ اصولی طور پر ان فیصلوں کو نئی منتخب حکومت پر چھوڑ دینا چاہیے تھا لیکن نہ صرف ای سی سی کا اجلاس منعقد ہوا بلکہ پاکستان کی تاریخ میں مسلسل دو دن تک جاری رہا۔ اس اجلاس میں سب سے زیادہ سمریز وزارت پٹرولیم اور قدرتی وسائل کی تھیں اور شاید ان میں سے کچھ سمریاں منظور بھی ہوئیں۔ کابینہ کی اقتصادی کمیٹی کے فیصلوں کی منظوری کے لیے وفاقی کابینہ کا اجلاس بلایا گیا۔ کابینہ کا اجلاس حکومت کے خاتمے سے شاید ایک یا دو دن پہلے منعقد ہوا۔ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اجلاس کی صدارت کی ۔ یعنی ان دو ادوار میں جمہوریت کے ''ثمرات'' کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو یقیناً ہم سب کے سر شرم سے جھک جائیں گے۔

ایک دور تھا جب ہم ڈکٹیٹر شپ کے خلاف مر مٹنے کے لیے تیار ہوتے تھے ، اُس وقت ہمارے ایک دوست کہا کرتے تھے کہ ایک دفعہ دوبارہ ان دونوں بڑی جماعتوں کی حکومت آگئی تو ملکی معیشت میں جھرلو پھر جائے گا اور عوام منہ تکتے رہ جائیں گے۔ میں اُس دوست کو اکثر یہ کہہ کر چپ کرا دیتا تھا کہ جمہوریت کا ایک دن ڈکٹیٹر شپ کے سو دن سے ہزار گنابہتر ہے۔ اب جب کہ پورا ملک وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے باقی دنوں کی الٹی گنتی کر رہا ہے اور حکومت کے پاس محض دو ہفتے سے بھی کم وقت بچا ہے۔ کیونکہ 30 مئی 2018 تک موجودہ منتخب حکومتوں کی مدت ختم ہو جائے گی اور ملک میں نگران حکومتیں قائم ہو جائیں گی۔

اس سے پہلے والی حکومتوں کا میں نے اس لیے ذکر نہیں کیا کہ انھیں مدت پوری کرنے کا موقع ہی نہیں ملا،یا انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ اُن کی حکومت کا خاتمہ کب ہو جائے گا۔ ورنہ وہ بھی کم نہ کرتیں۔ قارئین جانتے ہیں کہ 1985ء کے انتخابات غیر جماعتی ہوئے جس کے نتیجے میں بننے والے وزیر اعظم مرحوم محمد خان جونیجو کو اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل (ر) ضیاء الحق مرحوم نے سبکدوش کیا تھا، یہ حکومت وقت سے پہلے چلتی بنی۔اس کے بعد 1988ء کی حکومت پیپلز پارٹی بنانے میں کامیاب ہوگئی جسے مرحوم صدر غلام اسحق خان نے ختم کیا۔ نئے انتخابات آگئے اور 1990ء میں آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے میاں نواز شریف وزیر اعظم بن گئے۔

پھر تین سال میں ہی مرحوم صدر غلام اسحق خان نے میاں نواز شریف اور ان کی حکومت کی بساط لپیٹ دے دی۔ 1993ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو دوبارہ وزیر اعظم بن گئیں اور دوبارہ پھر وہی ذاتیات اور مخالفت برائے مخالفت والا کھیل شروع ہو گیا۔ پھر1996ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت بھی ختم ہوگئی۔1996ء کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کو بھاری اکثریت حاصل ہوگئی اور اقتدار میں آگئی جنھیں اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف نے حکومت کوگھر بھیج دیا۔ پھر 10سال تک ڈکٹیٹر شپ قائم رہی، اور 2008ء کو اقتدار دوبارہ پی پی پی کی جھولی میں آگیا جس نے ریکارڈ 5سال پورے کیے۔ اس کے بعد 2013ء میں الیکشن ہوئے اور ایک بار پھر ن لیگ اقتدار میں آئی جو اب اپنی مدت پوری کرنے کو ہے۔

اس دور میں کیا گل کھلا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا، مگر وزیر اعظم کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو کوئی نہیں سمجھے گا کہ حکومت کی ٹرم ختم ہونے کے قریب ہے اور اُس نے ایک اہم پالیسی کا ا علان کیوں کیا؟اور پھر غیر منتخب وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کو بجٹ پیش کرتے دیکھ کر حیرانی ہوئی۔ انھی دنوں جب ممبران قومی اسمبلی یہ دیکھیں گے کہ ہر کوئی اپنا کام کرا رہا ہے تو وہ وزیر اعظم سے ضرور پوچھیں گے کہ جناب ہمارے کام کا کیا بنا؟ سب ایک ہی بات کہیں گے کہ ہمیں ترقیاتی فنڈز دے دیں۔ یوں چھٹی کے روز بھی ایم این ایز کے حلقوں کے لیے فنڈز ریلیز کیے جائیں گے اور جماعت کے ساتھ وفاداری کا حلف بھی لیا جائے گا! یہ ہے الیکشن کی تیاری اب دوسری طرف وہ جماعیتں جو آج کل غداری غداری کھیلنے میں لگے ہیں، وہ الیکشن کی کیا تیاری کررہے ہیں، مجھے معلوم نہیں۔ یہ لوگ بیک اسٹیج کوئی گل کھلا رہے ہوں تو الگ بات ہے لیکن اس کا کسی کو کیا علم!
Load Next Story