کرو مہربانی تم اہل زمیں پر

معاشرے میں موجود مستحق افراد کی مدد کرنا ہمارے اولین فرائض میں شامل ہے

shabbirarman@yahoo.com

ISLAMABAD:
دین اسلام حقوق اللہ اور حقوق العباد کا حسین امتزاج ہے، جو اللہ پاک کی عبادت کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ کے بندوں کے ساتھ صلہ رحمی اور معاشرتی فلاح و بہبود کا بھی حکم دیتا ہے، خاص طور پر محتاجوں، بے کسوں، معذوروں، بیماروں اور بے سہارا لوگوں کی دیکھ بھال اور ان کی فلاح و بہبود کی ہدایت کرتا ہے۔ اسوہ رسول ﷺ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت کی فلاح و بہبود بالخصوص دکھی، مصیبت زدہ، مفلوک الحال اور مفلس و محتاج لوگوں کو باعزت زندگی گزارنے کے قابل بنانا، آپ ﷺ کی بعثت کے اعلیٰ مقاصد میں شامل تھا۔

بخاری اور مسلم کی متفقہ روایت کے مطابق آنحضرت ﷺ نے فرمایا بیواؤں اور مسکینوں کی مصیبتوں کو دورکرنے میں کوشاں شخص اجر و ثواب میں اس شخص کے برابر ہے جو ہمیشہ نماز میں مصروف رہتا ہے اور اس میں کوئی وقفہ نہیں کرتا اور ہمیشہ روزہ رکھتا ہے اورکبھی افطار نہیں کرتا۔ نبی کریمﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے کہ میں اور یتیم و بے کس کی کفالت کرنے والا جنت میں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح ہوں گے جس طرح انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی ایک دوسرے کے ساتھ ہیں ۔

اعزا و اقارب سے نیک سلوک کرنا، انسانی تعلقات استوارکرنا، بے کس و ناتواں کے مسائل و مصائب خود اپنے سر لینا، محروم و معدوم کو خود کما کر دینا ، مہمان نوازی کرنا، حادثات و مقدمات میں حقدارکو حق دلانے میں مدد دینا، عالمگیر اصول ہیں، انسانیت کی فلاح و معاشرت و تمدن کی بہبود کا انحصار انھی پر ہے۔ اس سلسلے میں آپ ﷺ کے لائحہ عمل اور سیرت وکردارکی جو مستند ترین روایت ہم تک پہنچی ہے، اگر مسلمان اسے اپنی انفرادی زندگی میں اپنا لیں تو نہ صرف اسلامی دنیا جنت نظیر بن سکتی ہے بلکہ پوری دنیا آنحضرت ﷺ کو صیحح معنوں میں رحمت دوعالم ماننے پر مجبور ہوسکتی ہے۔

معاشرے میں موجود مستحق افراد کی مدد کرنا ہمارے اولین فرائض میں شامل ہے، اس فرض کی ادائیگی صدقات اور عطیات کی صورت میں بھی کرتے ہیں تاکہ جس قدر ممکن ہو ہم مستحقین کو اپنی خوشیوں میں شامل کرسکیں۔ مستحقین تک یہ خوشیاں پہنچانے کے بہت سے ذرایع موجود ہیں، جن میں خیراتی اور فلاحی ادارے مختلف طریقے اپناتے ہیں جیسے کہ بینرز، پملٹ، جگہ جگہ رکھے گئے چندے کے ڈبے، موبائل فون کے ذریعے، آن لائن، بینک اکاؤنٹ، صدقہ، فطرانہ، خیرات، زکوۃ کی صورت میں عطیات اکھٹے کرنا شامل ہیں۔ کرو مہربانی تم اہل زمین پر، مگرکیا آپ کو معلوم ہے؟

آپ کے عطیات، خیرات، صدقات کی مد میں دی گئی رقم دہشت گردی کے کاموں میں بھی استعمال ہوسکتی ہے کیونکہ بظاہر وہ فلاحی ادارے جو عطیات،خیرات اور زکوۃ اکھٹی کرتے ہیں وہ ملک دشمن بھی ہوسکتے ہیں جو عطیات اور صدقات مختلف طریقوں سے مختلف تنظیموں تک پہنچائے جاتے ہیں۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق عطیات کی مد میں تقریبا 554 بلین روپے سالانہ اکٹھے ہوتے ہیں لیکن عطیات دینے والوں میں سے 26 فیصد لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ ان کے دیے گئے روپے کن مقاصد میں استعمال ہو رہے ہیں صرف 2 فیصد لوگ اس بات سے آگاہ ہوتے ہیں کہ ان کی دی گئی رقم دہشتگردی کے کاموں میں بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔ لوگ پیسے کی صورت میں عطیات دیتے ہیں۔


ان میں سے اکثر مساجد اور مدارس، بے گھر افراد اور تیسرے نمبر پر رشتے داروں کو دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک سرکاری ادارے کی جانب سے کروائے گئے ایک سروے کے اعداد وشمار کے مطابق 72 فیصد لوگ صدقات وخیرات رمضان المبارک میں دیتے ہیں، 53 فیصد ماہانہ بنیادوں پر، 47 فیصد عید پر، 22 فیصد مذہبی تہواروں پر، 22 فیصد مشکل کے وقت میں اور 18فیصد خوشیوں کے موقعے پر دیتے ہیں۔ ہم لوگ تحقیق نہیں کرتے کہ ہمارے صدقات اور عطیات واقعی بتائے گئے مقاصد میں ہی استعمال ہو رہے ہیں یا نہیں؟ جب کہ یہ بھی ہمارے فرائض کا حصہ ہے کہ ہم اپنے حق حلال سے کمائے ہوئے پیسے کو ملک دشمن عناصر تک پہنچنے سے روکیں، تاکہ ہماری کوئی نیکی ہمارے لیے وبال جان نہ بن جائے۔ جی ہاں! اگر آپ صدقات اور عطیات دیتے وقت ادارے کی جانچ پڑتال نہیں کرتے تو ممکن ہے کہ آپ کے دیے گئے صدقات اور عطیات حقیقی مستحق تک نہ پہنچ رہے ہوں، خیراتی اداروں کے بھیس میں موجود بہت سی کالی بھیڑیں ہماری حق حلال کی کمائی کو ملک دشمن کارروائیوں کے لیے استعمال کر سکتی ہیں، جس سے پوری قوم کا نقصان ہوتا ہے۔ صدقات اور عطیات دینے سے پہلے خیراتی اداروں یا افراد کی جانچ پڑتال ضرورکریں۔

گورنمنٹ آف پاکستان، نیشنل کرائسس مینجمنٹ سیل کی جانب سے جاری کردہ فہرست برائے دہشتگرد تنظیموں کے مطابق 72تنظیمیں دہشتگرد ہیں۔ جہاں صدقات اور عطیات دینا آپ کا فرض ہے اسی طرح ملک وقوم کی سلامتی کے لیے ان عطیات کا درست اور مستحق لوگوں تک پہنچانا بھی آپ کی اہم ذمے داری ہے۔ کیونکہ ملک سے دہشتگردی کی لعنت کو ختم کرنا حکومت کی ہی نہیں بلکہ ہماری اور آپ کی مشترکہ ذمے داری ہے، اپنی ذمے داری نبھائیے اور اپنے پیسے غلط ہاتھوں میں نہ پہنچنے دیں۔

صدقات اور عطیات دینے سے پہلے اطمینان کرلیں کہ کہیں کوئی ادارہ حکومت کی جانب سے شایع کی گئی ملک دشمن اداروں کی فہرست میں تو نہیں؟ ایسے ادارے جو ملک کے لیے خطرہ ہیں ان کی فہرست حکومتی اداروں کی جانب سے اخبارات میں شایع کی جاچکی ہے۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ اور ڈسٹرکٹ پولیس افسران کے دفتر سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔یاد رکھیں ! بے شمار مشکوک ادارے بھی فلاح و بہبود کے کاموں میں سرگرم ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ سوچ سمجھ کر اور مستند اداروں کو ہی صدقات اور عطیات دیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ کالعدم تنظیموں کی فہرست حکومتی اداروں کو ویب سائٹ پر شایع کرنی چاہیے، مقامی انتظامیہ کو کالعدم تنظیموں کے بارے میں آگاہی ہو تاکہ کسی بھی علاقے میں کیمپ ہٹایا جاسکے، موبائل فون کے ذریعے پیسے بھیجنے پر تمام ریکارڈ رجسٹرکروانے پر زور دیا جائے، کالعدم تنظیموں کے مختلف ونگ کو بھی بے نقاب کیا جائے، خاص طور پر شعبان، رمضان، عید کے دنوں اور بیرون ملک سے آنے والے عطیات پرکڑی نظر رکھی جائے، خیراتی اداروں کے افعال پر موجود پاکستانی قوانین کا اطلاق سختی سے کیا جائے۔

زمین پر فساد پیدا نہ کرو،کیونکہ اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا، اسلام دنیا میں امن کا پیامبر بن کر آیا۔ اس نے دنیا کو امن وآشتی کے نور سے منورکیا، تکمیل انسانیت کی منزل میں سب سے بڑا سنگ راہ، بد امنی اور دہشتگردی ہے۔

آنحضرت ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقعے پر جو عالمی چارٹر پیش کیا اس میں اسی بات کو فرمایا،اے لوگو! تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری آبرو تا قیامت اس طرح محترم ہے جس طرح یہ دن، اس مہینے اور اس شہر میں حرام ہے، مژدہ امن سنانے کا وقت ہے۔ دنیا میں تین چیزیں ہیں یعنی جان، مال اور آبرو اگر معاشرے میں ان تین چیزوں کی ضمانت مل جائے تو حقیقی امن کا قیام یقینی ہے۔ جب ظلم بڑھ جاتا ہے تو اللہ کا عذاب آتا ہے۔ انسانیت کی معراج یہ ہے کہ دنیا کی تمام قومیں امن وسکون کے ساتھ رہیں اور انسانی مفادات وحقوق کی حفاظت کریں۔ یہی زندگی کی عنایت ہے۔ اسلام اسی عنایت کی طرف بلاتا ہے۔
Load Next Story