اصغر خان کیس
عدلیہ کا احترام ہم سب پرواجب ہے خواہ ہمارا تعلق سول اداروں سے ہو یا پھرعسکری اداروں سے
ہماری سپریم کورٹ نے پچھلے ہفتے مشہور زمانہ اصغر خان کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے مختصر سی سماعت کے بعدحکومت کو حکم دیا ہے کہ ایک ہفتے کے اندر اِس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے اور اِس میں ملوث تمام افراد کے خلاف کارروائی کی جائے۔ کارروائی کس قسم کی ہو اور اِس کیس میں ملوث افراد کو کیا سزا دی جائے یہ نہ سپریم کورٹ کے 2012ء والے فیصلے میں تجویزکیا گیا ہے اور نہ ہی حالیہ فیصلے میں اِس کا تعین کیا گیا ہے۔ اب حکومت انھیں گرفتار کرکے جیلوں میں بند کر دے یا پھر اُن سے کوئی مالی جرمانہ وصول کرے۔ حکومت خود سے یہ فیصلہ نہیں کر سکتی۔ بہتر ہوتا عدالت اِس معاملے کو حکمرانوں پر چھوڑنے کی بجائے خود ہی غیر مبہم طریقے سے اِسے منتقی انجام تک پہنچاتی۔ لگتا ہے اِس مقدمے میں مرکزی ملزمان کا تعلق چونکہ ہمارے ملک کے ایسے ادارے سے ہے، جنھیں سول عدالتوں سے کوئی سزا دینا تو درکنار اُن کاطلب کیاجانا بھی ایک مشکل ترین کام ہے۔
عوامی دباؤ پر عدلیہ نے اِس کیس کی شنوائی تو ضرور شروع کردی لیکن وہ کوئی حتمی اور واضح فیصلہ پھر بھی نہ دے سکی۔ سماعت کے دوران ملزمان کے بیانوں اوررویوں سے بھی یہی ظاہر ہوتا رہا ہے کہ وہ کس قدر طاقتور طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہذا عدلیہ نے اپنے مذکورہ دونوں فیصلوں میں اُن کے لیے کوئی سزا مقررکرنے کی بجائے اِس کام کی ذمے داری اُس حکومت کے ناتواں کندھوں پر ڈال دی جو پہلے ہی اپنے کچھ کردہ اور ناکردہ گناہوں کی پاداش میں آج کل زیرعتاب ہے۔ اُس کے لیے ایسے کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کروانا ویسے ہی ناممکن ہے جس میں اُس کے اپنے لوگ براہ راست یا بالواسطہ طور پر ملوث ہوں۔ اِس لیے اُس سے یہ توقع کرنا بیکار ہے کہ وہ اِس پرکوئی عملدرآمد کر پائے گی۔ویسے بھی اِس حکومت کے پاس وقت بہت کم ہی رہ گیا ہے۔ ایسے میں بھلا وہ کیونکر شہد کی مکھیوں کے چتھے میں ہاتھ ڈال کر اپنے لیے کوئی نئی مشکل کھڑی کرے گی۔
اصغر خان کیس کے اِس فیصلے سے ایک بات تو بہر حال واضح ہوگئی کہ ہمارے ملک کی سیاست میں نادیدہ قوتوں کاکردار ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ اِس بات سے اب کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا کہ سول حکومتوں کے بنانے اور ہٹائے جانے میںہمارے کچھ اداروں کی مرضی و منشاء ضرور شامل ہوتی رہی ہے۔ یہ صرف ایک انتخابات کی بات نہیں ہے۔ پاکستان کی معرض وجود میں آنے کی دن سے لے کر آج تک یہ کام بڑی ہشیاری کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ کبھی براہ راست یا کبھی کسی اور طریقے سے سول حکومتوں پر حملے ہوتے رہے ہیں۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے 1993ء میں اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کی جانب سے میاں محمد نواز شریف کی حکومت کو آئین کی شق نمبر 58-2Bکے ذریعے سبکدوش کردیا گیا اور پھر سپریم کورٹ نے اُسے بحال بھی کردیا تو بھی کس طرح دیگر طریقوں سے اُسے مزید چلنے نہیں دیاگیا۔آپ اِسے خلائی مخلوق کانام دیں یا کچھ اور لیکن یہ اٹل حقیقت ہے کہ ہماری ملکی سیاست میں مقتدر حلقوں کی مداخلت ہمیشہ سے رہی ہے۔ غیر ممالک سے امپورٹ کردہ وزرائے اعظم بھی ہمارے اِنہی اداروں کی کرم نوازی تھی۔ معین قریشی کوکس کی ایماء پر یہاں لا کر نگراں وزیراعظم بنایا گیا تھا۔
تین ماہ کی اُس نگراں حکومت نے کچھ ایسے کام بھی کرڈالے جن کی ہمارا آئین انھیں اجازت بھی نہیں دیتا تھا ۔1993ء کے الیکشن کے نتائج کا الیکشن کمیشن کے بجائے جی ایچ کیو سے جاری کیا جانا از خود انتخابات کی شفافیت پر ایک بہت بڑا سوال تھا۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ جو اُن دنوں مسلم لیگ (ن) کے بہت متحرک اور پرجوش کارکن ہواکرتے تھے ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ اُن نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے طنزا فرمایا تھا کہ اِس ا لیکشن میں آٹھ نمبر کا خاکی ریگ مال استعمال ہوا ہے۔ ذرایع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے ہمارے کچھ تبصرہ نگاروں نے اِن انتخابات کو انجینئرڈ الیکشن کا نام بھی دیا تھا۔ قومی سیاست میں خفیہ ایجنسیوں کے اِس مبینہ کردار سے انکار کرنا حقیقت کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے نے تو اِس پر مہرِ تصدیق بھی ثبت کردی ہے۔
میاں صاحب آج جس خلائی مخلوق کا تذکرہ اپنی تقریروں اور اپنے بیانوں میں تسلسل کے ساتھ کررہے ہیں وہ خود کبھی اُس کے مہرے اور آلہ کار بنتے رہے ہیں اور کبھی اُس کی ناپسندیدہ کارروائیوں کا براہ راست نشانہ۔ اُن کاسینہ ایسے ہی رازوں سے بھر ا ہوا ہے، لیکن ابھی وہ مصلحتوں سے کام لیتے ہوئے سب کچھ بتانے سے قاصر ہیں۔
ہوسکتا ہے کچھ لوگ انھیں حالات کے بدل جانے کا یقین دلارہے ہوں۔ اِسی لیے شاید وہ اُمید کے سہارے اُس وقت تک کا انتظار کرنا چاہتے ہوں جب ساری اُمیدیں دم توڑ جائیں گی اور وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنے بہت سے ساتھیوں کی بے وفائی کا گلہ کررہے ہوں گے۔ وہ جن باتوں کو ابھی بتانے سے گریزاں ہیں وہ ہمارے لوگوں کے لیے شاید کوئی نئی نہیں ہونگی۔ ہمارے لوگ سب جانتے ہیں کہ اِس ملک میں ستر سال سے کیا کچھ ہوتا آیا ہے۔ بس اداروں کا احترام اور وطن عزیز سے بے پناہ محبت ہمیں اِس بارے میں لب کشائی سے روک دیتی ہے۔ورنہ میاں صاحب کا سینہ جن رازوں سے بھرا ہوا ہے وہ توہمارے ہر شخص کے سینے میں بھی پوشیدہ ہیں۔
اصغر خان کیس کے فیصلے پر جولوگ مسرت اور شادمانی کا اظہار کر رہے ہیں انھیں اِس پر عملدرآمد کے حوالے سے یقینا مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نہ پیسہ دینے والوں کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی اور نہ پیسہ وصول کرنے والوں کے خلاف کوئی قدم اُٹھایا جائے گا۔ اسی لیے عدالت عظمیٰ نے بھی اپنے فیصلے میں اُن کے لیے کوئی سزا تجویز نہیں کی۔ جب ملک کی سب سے بڑی عدالت ہی کوئی سزا تجویز کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہو تو پھر بھلا سول حکومت سے یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ انھیں کوئی سزا دے گی۔
نہ اِس فیصلے پر کوئی عمل درآمد ہوگا نہ ملکی سیاست میں آیندہ خفیہ ایجنسیوں کے مداخلت رک پائے گی۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اِس فیصلے پر عملدر آمد کرکے ہم مستقبل میں ایجنسیوں کے مداخلت کاراستہ بند کرسکتے ہیں وہ یقینا کسی بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔قومی سیاست میں ایجنسیوں کے مداخلت کبھی رکنے والی نہیں۔ یہ ہماری قسمت میں 1947ء سے لکھ دی گئی ہے۔آئین کی شق نمبر 58-3B ہو یا پھر شق نمبر 62اور 63۔یہ اگر نہ بھی ہوںتو کوئی اور طریقہ کار اپنا لیاجائے گا۔
عدلیہ کا احترام ہم سب پرواجب ہے خواہ ہمارا تعلق سول اداروں سے ہو یا پھرعسکری اداروں سے۔ جب سپریم کورٹ نے تیسری بار منتخب ہونے والے ایک وزیراعظم کو غیرملکی اقامہ رکھنے کے جرم میں نہ صرف اقتدار سے محروم کردیا بلکہ اُسے تمام عمر کے لیے انتخابی سیاست سے بھی نااہل قراردے دیا تو اُس پر فوراً عملدرآمد بھی ہوگیا، لیکن اِسی سپریم کورٹ نے 1993ء میں ایک وزیراعظم کو پھر سے بحال کردیا تو کس طرح اُس فیصلے کو چند ماہ میں بے آبرو کرکے بے اثر اور بے وقعت کردیا گیا۔یہ بھی ہمارے ملک کی تلخ حقیقت ہے کہ سپریم کورٹ کے اُس فیصلے کے بعد غیبی قوتوں کے اشاروں پر کام کرنے والے صدر مملکت نے ببانگ دہل فرمایا تھاکہ ''ابھی میرے ترکش میں بہت سے تیر باقی ہیں۔'' نادیدہ قوتوں کو آپ چاہے خلائی مخلوق کہیں یا فرشتوں کی جماعت کہہ کر پکاریں یا پھر تھرڈ امپائر کا نام دے ڈالیں مطلب صرف ایک ہی ہوتا ہے۔ ہم اُن کی موجودگی، اُن کی طاقت وقوت اور فعالیت سے قطعاً انکار نہیں کرسکتے ہیں۔