نواز شریف کے بیان نے انتخابات کے بروقت انعقاد کو خطرات سے دوچار کردیا

تحریک انصاف کی قیادت کو موجودہ صورتحال کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں

نواز شریف کے بیان نے انتخابات کے بروقت انعقاد کو خطرات سے دوچار کردیا ؟

WASHINGTON:
مسلم لیگ(ن) کے سابق سربراہ میاں نواز شریف کے سیاسی سفر پر نگاہ ڈالی جائے تو اپنے ہر دور اقتدار میں انہوں نے فوج اور عدلیہ کے ساتھ ٹکراؤ کی سیاست کی ہے لیکن ہر مرتبہ اپنے اقتدار کے تابوت میں آخری کیل خود میاں صاحب نے ہی ٹھونکا ہے۔

چنانچہ اس مرتبہ بھی پانامہ اور ڈان لیکس سے شروع ہونے والی سرد جنگ کو آخری گھمسان کی جنگ میں بدل کر سیاسی شہادت حاصل کرنے کیلئے میاں صاحب نے ڈان لیکس والے اخبار کے اسی صحافی کو اسی موضوع پر ایسا انٹرویو دیا کہ جو کام نواز شریف مخالف قوتیں گزشتہ ڈیڑھ ،دو برس میں نہیں کر پا رہی تھیں وہ میاں نواز شریف نے خود ہی کردیا اور یہ کام تھا ، (ن) لیگ کے ووٹر کو میاں نواز شریف سے دور کرنا۔ مسلم لیگ(ن) کی سیاسی طاقت کا محور پنجاب رہا ہے اور پنجاب میں سنٹرل پنجاب اور بالائی پنجاب اس کے مضبوط گڑھ شمار کیئے جاتے رہے ہیں۔

ان علاقوں کی پاک فوج سے جذباتی وابستگی کی ایک طویل تاریخ ہے اور یہاں کے ہر دوسرے یا تیسرے گھر کا کم سے کم ایک فرد پاک فوج کا حصہ ضرور بنا ہے۔ ہم لوگ بھارتی فلمیں شوق سے دیکھتے ہیں،98 فیصد آڈیو میوزک بھی بھارتی سنتے ہیں لیکن جب بات پاکستان اور بھارت کے قومی مفاد کی آتی ہے تو ہمارے بھارت مخالف جذبات کے طوفان کے سامنے کچھ نہیں ٹھہر پاتا۔ میاں نواز شریف کے بیان نے ن لیگ کے ووٹر کے اندر یہی طوفان جگا دیا ہے اور ن لیگ کا ووٹ بنک شدید متاثر ہو رہا ہے۔ میاں نواز شریف جیسے منجھے ہوئے شاطر سیاستدان نے یہ بیان بہت سوچ سمجھ کردیا ہوگا اور ان کا ایجنڈا چاہے کچھ بھی رہا ہو۔

بیان کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اور شدید قومی ردعمل کا اندازہ لگانے میں میاں جی سے چوک ہو گئی ہے اور انہوں نے پاک افواج، عام پاکستانی سمیت اپنے ڈائی ہارڈ ورکر کو بھی ناراض کر لیا ہے۔ میاں شہباز شریف نے پہلے روز صورتحال سنبھالنے کی کوشش کی تھی اور آئی ایس پی آر کے بیان کے بعد میاں شہباز شریف نے جو بیان جاری کیا تھا وہ پسپائی اور اعتراف ندامت کا مظہر محسوس ہو رہا تھا لیکن مریم نواز نے اپنے چچا اور مسلم لیگ(ن) کے سربراہ کی جانب سے اسٹیبشلنٹ کے ساتھ مصالحانہ کوششوں کو چند گھنٹے بعد ہی سبوتاژ کر ڈالا ہے۔

فی الوقت تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز نے دانستہ طور پر شہباز شریف کی فوج دوست پالیسی ختم کر دی ہے۔گزشتہ تین روز سے میاں نواز شریف اور مریم نواز پاک فوج کے خلاف کھلے عام جارحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف اب ہر صورت میں سیاسی شہادت چاہتے ہیں وہ چاہ رہے ہیں کہ اگر مسلم لیگ(ن) کی جانب سے وہ یا ان کی صاحبزادی وزیر اعظم نہیں ہیں تو پھر ن لیگ کی حکومت رہنے کا بھی جواز باقی نہیں رہتا اور ن لیگ کی جانب سے کوئی رہنما اقتدار میں آنے کا ''مجاز'' نہیں ہو سکتا۔ میاں نواز شریف تو اپنے بھائی شہباز شریف کو بھی''ڈس اون'' کر رہے ہیں ورنہ وہ شہباز شریف کی مصالحانہ کوششوں کو آگے بڑھانے کیلئے ''سیز فائر'' کر دیتے۔ اس بیان نے جہاں قومی سیاست کو تہہ وبالا کیا ہے تو وہیں مریم نواز کے بیانات اور ٹویٹس نے خاندانی لڑائی کو بھی دوبارہ مرکز نگاہ بنا دیا ہے۔


پاک فوج کے سخت ردعمل اور قومی سلامتی کونسل کے سخت الفاظ پر مشتمل اعلامیہ نے صورتحال کو پیچیدہ اور تشویشناک بنا دیا ہے۔ ٹکراو کی یہ سنگین صورتحال عام انتخابات کے بروقت انعقاد کو غیریقینی صورتحال سے دوچار کر سکتی ہے ۔ نواز شریف نے سخت اعلامیہ جاری کرنے پر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی بھی ''کلاس'' لی ہے جبکہ میاں صاحب نے اس اعلامیہ کو مسترد بھی کردیا ہے اور ماضی کی ڈان لیکس کا اعتراف بھی کر لیا ہے، گویا کہ وہ اب ''تخت یا تختہ'' والی سیاست پر اتر آئے ہیں لیکن میاں صاحب کو اندازہ نہیں ہے یا انہیں احساس ہونے نہیں دیا جا رہا کہ جیسے ہی ان کو سزا ہوئی، ان کی پارٹی میں سے کوئی بڑی تحریک شروع نہیں ہو پائے گی۔ چوہدری نثار علی خان پہلے ہی ناراض ہیں اور انہوں نے حالیہ بیان کے بعد جو بیان دیا ہے وہ نواز شریف کی نفی کرتا ہے۔

شاہد خاقان عباسی کا کردار بھی متنازعہ ہو چکا ہے۔ ایک جانب وہ وزیر اعظم ہاوس سے جاری کردہ قومی سلامتی کونسل کے اعلامیہ میں میاں نواز شریف کے بیان کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کرتے ہیں تو دوسری جانب پریس کانفرنس میں اور قومی اسمبلی ایوان میں نواز شریف کا بھرپور دفاع کر رہے ہیں۔ ان کی یہ دوغلی پالیسی ان کی اپنی ساکھ اور سیاست کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ بقول وزیر اعظم اگر نواز شریف کا بیان اخبار اور صحافی نے توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے تو ابتک نواز شریف نے اس بیان کی باضابطہ تردید کیوں نہیں کی، اخبار اور صحافی کو نوٹس کیوں نہیں بھیجا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ نواز شریف نے خود کش جیکٹ پہن لی ہے اور اب وہ جمہوریت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

موجودہ کشیدہ صورتحال اور ٹکراو کی سیاست نے عام انتخابات کے بروقت انعقاد بارے کئی شکوک وشبہات پیدا کر دیئے ہیں اور نہ صرف عوامی حلقوں بلکہ مقتدر و باخبر حلقوں میں بھی یہ بات سنجیدگی سے کہی جا رہی ہے کہ ٹکراو کی سیاست چند روز مزید اسی شدت سے جاری رہی اور ماہ جون کے پہلے عشرے میں میاں نواز شریف کو ممکنہ سزا ہونے کے بعد لیگی رہنما تصادم کی کوشش کرتے ہیں تو عام انتخابات غیر معینہ مدت تک موخر ہو سکتے ہیں۔ عام انتخابات کی طویل تاخیر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو منظور نہیں ہے۔

یہ دونوں پارٹیاں سمجھتی ہیں کہ اس وقت ن لیگ جس قدر کمزور ہے اور نواز شریف جس حد تک ٹکراو کی جانب بڑھ رہے ہیں ایسی صورتحال میں ہونے والے انتخابات میں وہ بڑی کامیابی حاصل کر سکتی ہیں۔ آنے والے چند روز پاکستان کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے بہت نازک اور فیصلہ کن ثابت ہوں گے۔ انتخابات اگر موخر یا ملتوی ہوتے ہیں تو پھر ان کی مدت کا تعین سیاستدان نہیں کر پائیں گے۔ سیاسی حلقوں میں تو گزشتہ روز ہونے والی قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کی ویڈیو فوٹیج میں عسکری قیادت کے چہروں پر چھائی انتہائی سنجیدگی اور اس میں سے جھلکنے والی شدید برہمی بارے بھی بہت کچھ کہا جا رہا ہے کیونکہ ایک تصویر ہزار الفاظ پر بھاری تصور کی جاتی ہے۔

تحریک انصاف کی قیادت کو موجودہ صورتحال کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں بالخصوص تحریک انصاف کی میڈیا ٹیم کو بھرپور کارکردگی دکھانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ٹاک شوز میں آنے والے تحریک انصاف کے رہنماوں میں سے چند ایک کو چھوڑ کر دیگر کو کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ انہوں نے کیا بولنا ہے۔ فواد چوہدری نے تھوک کے حساب سے تحریک انصاف شعبہ اطلاعات کے عہدے تو بانٹ دیئے ہیں کم ازکم ان میں سے چند ایک کو وہ ''گر'' بھی سمجھا دیں جن سے تحریک انصاف کا موقف مضبوطی سے سامنے آسکے، اب ایک فواد چوہدری تو سارا دن ٹی وی چینلز پر اپنے جوہر نہیں دکھا سکتا۔
Load Next Story