تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی کامیاب سیاسی حکمت عملی

تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی کامیاب سیاسی حکمت عملی

تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی کامیاب سیاسی حکمت عملی

تحریک انصاف کی قیادت کے حوالے سے یہ سوال اٹھایا گیا کہ سینٹ انتخابات میں ووٹوں کی فروخت کے حوالے سے جن بیس ارکان کے ناموں کا اعلان کیا گیا انھیں مذکورہ اعلان سے قبل نہ تو شوکاز نوٹس جاری کیے گئے اور نہ ہی صفائی کا موقع فراہم کیا گیا اور اچانک ان کے ناموں کا اعلان کردیا گیا۔

ٹھیک اسی طرح شوکاز نوٹس کا جواب دینے کی ڈیڈ لائن پوری ہوتے ہی بڑے ہی عجیب سے انداز میں ان ارکان کو پارٹی سے فارغ کرنے کا اعلان بھی کردیا گیا جنہوں نے شوکاز نوٹس کا جواب نہیں دیا ، حالانکہ چاہیے تو یہ تھا کہ یہ معاملہ سپیکر اسد قیصر کی سربراہی میں قائم انضباطی کمیٹی میں لایا جاتا ،کمیٹی ان ارکان کے جوابات کا جائزہ لیتی جو کمیٹی یا پارٹی قیادت کو موصول ہو چکے تھے اورجن ارکان نے جوابات نہیں دیئے تھے۔

ان کے حوالے سے سفارشات پارٹی قیادت کو ارسال کی جاتیں تاکہ وہ ایسے ارکان کو پارٹی سے فارغ کرنے کا اعلان کرتی لیکن یہ طریقہ کار نہیں اپنایا گیا جس کی وجہ سے صورت حال یہ ہے کہ جن بارہ سے چودہ ارکان نے شوکاز نوٹس کا جواب نہیں دیا وہ اب پی ٹی آئی کا حصہ ہیں یا نہیں اس بارے میں کوئی واضح بات موجود نہیں۔

یہی وجہ ہے جواب دینے کے باوجود ارکان نے اپنے لیے نئے سیاسی ٹھکانوں کی تلاش شروع کردی ہے جس کی ابتداء خاتون رکن نرگس علی نے مسلم لیگ(ق)میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے کی ہے جس کے بعد آنے والے دنوں میں مزید ارکان بھی نئے ٹھکانوں کا رخ کرینگے۔ عجیب صورت حال ان ارکان کے حوالے سے بنی ہوئی ہے جنہوں نے شوکاز نوٹس کا جواب دے رکھا ہے، مذکورہ اراکین اسمبلی جن میں معراج ہمایون، فوزیہ بی بی، سردارمحمد ادریس، عارف یوسف، سمیع اللہ علیزئی، فیصل زمان اور نسیم حیات شامل ہیں۔

بدستور معلق صورت حال میں ہیں کیونکہ ان ارکان کی جو بدنامی ہونی تھی وہ بھی ہوچکی اور اب اس موقع پر یہ بھی واضح نہیں کہ ان کے مستقبل کے حوالے سے کیا فیصلہ کیا جاتا ہے، چونکہ حکومت نے اسمبلی اجلاس کا انعقاد کرنا نہیں اس لیے ان ارکان کے حوالے سے فیصلے میں بھی اتنی دلچپسی نہیں لی جا رہی جتنی ہونی چاہیے، تاہم امکان ہے کہ ہفتہ رواں میں ان ارکان کے حوالے سے کوئی نہ کوئی فیصلہ سامنے آجائے گا جس کے بعد یہ بھی اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہونگے۔

خود کومحفوظ رکھنے کے لیے پی ٹی آئی کے قائدین نے جو منصوبہ بندی کررکھی ہے اس کے تحت صوبائی اسمبلی کے اجلاس کو فٹ بال بناتے ہوئے اسے مسلسل ککس لگاتے ہوئے آگے کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، بظاہر تو یہی تاثر دیا جا رہا ہے کہ چونکہ اپوزیشن جماعتیں حکومت کے ساتھ آئندہ مالی سال کے بجٹ کی منظوری کے عمل میں ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں اس لیے اسمبلی اجلاس کے انعقاد میں تاخیر ہو رہی ہے کیونکہ حکومت،اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ رابطے میں ہے اور انھیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ بجٹ منظوری کے عمل میں ان کا ساتھ دیں۔


تاہم اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ حکومت اس موقع پر جبکہ اب عام انتخابات پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں، صوبائی اسمبلی میں اپنی عددی اکثریت کو ظاہر نہیں کرنا چاہتی، اگر اسمبلی اجلاس منعقد ہوتا ہے تو اس میں ہنگامہ آرائی بھی ہونی ہے اور حکومت کو حاصل اکثریت پر بھی انگلیاں اٹھنی ہیں، یہی وجہ ہے کہ 3مئی کو بلایا گیا اسمبلی اجلاس پہلے 14 مئی کو منتقل کیا گیا اور اب نئی تاریخ22 مئی دی گئی ہے۔

اور قرائن یہی بتا رہے ہیں کہ اسمبلی اجلاس 22 مئی کو بھی منعقد نہیں ہونے والا، تاہم اس طریقے سے حکومت نے آئینی اور قانونی طریقوں سے خود کو ایکسپوز ہونے سے بچا لیا ہے، اگرحکومت 3مئی کو بلائے گئے۔

اجلاس کو ملتوی کرتے ہوئے دوبارہ اجلاس نہ طلب کراتی تو اس صورت میں فوری طور پر اپوزیشن جماعتیں اسمبلی اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن جمع کرادیتیں اور سپیکرکومذکورہ ریکوزیشن پراسمبلی اجلاس بلانا پڑتا لیکن حکومت نے جو طریقہ کار اختیار کیا اس کی بدولت ایک جانب تو حکومت، اپوزیشن کی ریکوزیشن کے ہتھیار کی زد میں آنے سے بھی بچ گئی اور دوسری جانب اسمبلی میں ہنگامہ آرائی سے بھی کیونکہ اب اگر 22مئی یا اس سے ایک آدھ دن قبل حکومت مذکورہ اجلاس کوملتوی کردیتی ہے اوراپوزیشن اسمبلی اجلاس بلانے کے لیے ریکوزیشن جمع کرا بھی دیتی ہے تو ریکوزیشن کے تحت چودہ دنوں کے اندراجلاس بلانے کی ڈیڈلائن پوری ہونے سے پہلے ہی اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرتے ہوئے تحلیل ہوجائے گی اس لیے داد دینی چاہیے حکومت اوراس کے پالیسی سازوں کو جنہوں نے آئینی طورطریقوں کا استعمال کرتے ہوئے معاملات کو سنبھالے رکھا۔

چونکہ حکومت اپنے آخری فیز میں ہے اور اب اسمبلیوں اورحکومتوں کے خاتمے میں مہینوں نہیں بلکہ ہفتوں اوردنوں کی بات رہ گئی ہے اسی لیے یہ تمام تر صورت حال سامنے ہوتے ہوئے بھی گورنر خیبرپختونخوا اقبال ظفر جھگڑا جن کا تعلق مسلم لیگ(ن) سے ہے ، وہ بھی کوئی ایڈونچر نہیں کرنا چاہتے بصورت دیگر اگر وہ چاہتے تو حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کرسکتے تھے لیکن انہوں نے بھی معاملات کو نظرانداز کرتے ہوئے حکومت کو اپنا وقت پورا کرنے کا موقع فراہم کیا جس کی بدولت پی ٹی آئی حکومت اکثریت کھودینے کے باوجود اپنا وقت نکال گئی ہے۔

اوراس موقع پر جماعت اسلامی کے حوالے سے عجیب صورت حال درپیش ہے جس کے تینوں وزراء نے3مئی کو وزیراعلیٰ پرویزخٹک کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے حکومت سے الگ ہونے کا اعلان کیا اور یہ بھی بتایاگیا کہ انہوں نے اپنے استعفے دے دیئے ہیں لیکن حیران کن طور پر مذکورہ استعفے اب تک منظور نہیں ہوئے کیونکہ یہ استعفے لاپتہ ہیں،جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے وزراء کا موقف ہے کہ انہوں نے استعفے وزیراعلیٰ کے حوالے کیے جبکہ حکومت اس سے انکاری ہے۔

قانونی طورپرتوجماعت اسلامی کے تینوں وزراء کواپنے استعفے منظوری کے لیے گورنر کوارسال کرنے چاہیں تھے لیکن انہوں نے قانونی راستہ اپنانے سے گریز کرتے ہوئے گورنر کو استعفے نہیں دیئے جس کی وجہ سے اب صورت حال یہ ہے کہ جماعت اسلامی حکومت سے الگ بھی ہوچکی ہے اور حکومت کا حصہ بھی ہے۔

جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے تینوں وزراء کابینہ کا حصہ نہیں بھی ہیں لیکن وہ کابینہ کا حصہ ہیں بھی ،گوکہ جماعت اسلامی کے عنایت اللہ یہ ایشو مسلسل زیر بحث آنے کے بعد استعفے منظر عام پر بھی لائے اور ساتھ ہی انہوں نے ان کی نقول صوبائی سیکرٹری سٹیبلشمنٹ اینڈایڈمنسٹریشن کو بھی ارسال کیں لیکن ظاہری سی بات ہے کہ سیکرٹری ای اینڈ اے اس وقت تک ان استعفوں کی منظوری اورتینوں وزراء کوکابینہ سے فارغ کیے جانے کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کرسکتے جب تک یہ استعفے گورنر سے منظورہوکر ان تک نہ پہنچیں اورجب استعفے گورنر تک پہنچے ہی نہیں تو منظور کیسے ہوں گے؟اورحیران کن طورپراب بھی جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے یہ تینوں وزراء اپنے استعفے گورنرکوارسال کرنے کی راہ اپنانے سے گریزاں ہیں۔
Load Next Story