فکر اقبال کے چند تاب دار موتی

قوی انسان ماحول تخلیق کرتا ہے۔ کمزوروں کو ماحول کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا پڑتا ہے، علامہ اقبال

قوی انسان ماحول تخلیق کرتا ہے۔ کمزوروں کو ماحول کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا پڑتا ہے، علامہ اقبال فوٹو: فائل

1910ء میںجب علامہ اقبال کی عمر 37برس تھی، انھوں نے انگریزی میں متفرق موضوعات پراپنے خیالات کو سپرد قلم کیا۔

1961ء میں اقبال کی یہ نگارشات ڈاکٹر جاوید اقبال کے مفصل تعارف کے ساتھ "stray reflections" کے عنوان سے چھپیں۔ 1977ء میں معروف نقاد ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی کے قلم سے اس کتاب کا اردو ترجمہ مجلسِ ترقیٔ ادب نے''شذراتِ فکرِ اقبال ''کے عنوان سے شائع کیا، جس میں سے چند شذرات نذرِ قارئین ہیں۔

فن (آرٹ ):
فن ایک مقدس جھوٹ ہے۔

پندار کی تسکین:
پندار کی تسکین میں ہمارے لیے ایک معاشی پہلو بھی ہے۔ آپ مجھے ہسپتال اسسٹنٹ کے بجائے سب اسسٹنٹ سرجن کہیں تو میں بالکل مطمئن ہوجائوں گا، خواہ آپ میری تنخواہ میں کوئی اضافہ نہ کریں۔

تلخ نفسیات:
ایک تلخ نفسیاتی حقیقت کے لیے معافی چاہتا ہوں۔ آپ اپنی مہم میں ناکام رہے اور اب آپ اپنے گھر سے دور، دیار غیر میں قسمت آزمائی کے خواہاں ہیں۔ یہ بات نہیں کہ ناکامی نے آپ کے عزائم میں ایک نئی تحریک پیدا کردی ہے، بلکہ خاص وجہ یہ ہے کہ آپ ان لوگوں سے روپوش ہونا چاہتے ہیں جو آپ کی ناکامی کے عینی شاہد ہیں۔

یقین کی قوت:
یقین ایک عظیم قوت ہے۔ جب میں دیکھتا ہوں کہ میرے ایک نظریے پر کسی شخص کو یقین آگیا ہے تو اس نظریے کی صداقت پر میرا اپنا اعتقاد بے انتہا بڑھ جاتا ہے۔

عصبیت:
تمام قومیں ہم پر عصبیت کا الزام لگاتی ہیں۔ مجھے یہ الزام قبول ہے بلکہ میں یہ بھی کہتا ہوں کہ ہم اپنی عصبیت میں حق بجانب ہیں۔ حیاتیات کی زبان میں، عصبیت اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ اصول فردیت، بجائے فرد واحد کے، ایک جماعت پر عمل کرتا ہے۔ اس مفہوم میں حیات کی تمام صورتیںکم و بیش متعصبانہ ہوتی ہیں اور اگر انہیں اپنے اجتماعی وجود کی کچھ پروا ہے تو انہیں ایسا ہی ہونا چاہیے۔

امر واقعہ یہ ہے کہ ساری قومیں متعصب ہیں۔ کسی انگریز کے مذہب پر تنقید کیجئے تو اس پر کوئی اثر نہ ہوگا، لیکن ذرا اس کی تہذیب، اس کے ملک یا عملی سرگرمیوں کے کسی دائرے میں اس کے قومی شعار پر نکتہ چینی کیجئے تو اس کا اندرونی تعصب ظاہر ہوجائے گا۔ بات یہ ہے کہ اس کی قومیت کا انحصار مذہب پر نہیں بلکہ ایک جغرافیائی بنیاد یعنی اس کے ملک پر ہے۔ لہٰذا جب آپ اس کے ملک پر نکتہ چینی کرتے ہیں تو بجا طور پر اس کا جذبۂ عصبیت برانگیختہ ہوجاتا ہے۔ ہماری حیثیت اصلاً اس سے بالکل مختلف ہے۔

ہماری قومیت محض ایک تصور ہے جس کی کوئی مادی بنیاد نہیں۔ حیات و کائنات کے ایک خاص نظریے کے بارے میں ایک طرح کا ذہنی سمجھوتا ہی ہمارا واحد نقطۂ اجتماع ہے۔ اب اگر مذہب پر تنقید ہماری عصبیت کو برانگیختہ کردیتی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں ہم اسی طرح حق بجانب ہیں جیسے وہ انگریز جس کی تہذیب کو مطعون کیا جائے۔ احساس کی نوعیت دونوں حالتوں میں یکساں ہے، اگرچہ اس کا تعلق مختلف چیزوں سے ہے۔ عصبیت، دینی وطن پرستی ہے اور وطن پرستی، ملکی عصبیت۔

فتح ایران:
اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ تاریخ اسلام کا اہم ترین واقعہ کون سا ہے تو میں بے تامل کہوں گا:''فتح ایران''۔ نہاوند کی جنگ نے عربوں کو ایک حسین ملک کے علاوہ ایک قدیم تہذیب بھی عطا کی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ ایک ایسی قوم سے روشناس ہوئے جو سامی اور آریائی عناصر کے امتزاج سے ایک نئی تہذیب کو جنم دے سکتی تھی۔ ہماری مسلم تہذیب، سامی اور آریائی تصورات کی پیوندکاری کا حاصل ہے۔ گویا یہ ایسی اولاد ہے جسے آریائی ماں کی نرمی و لطافت اور سامی باپ کے کردار کی پختگی و صلابت ورثے میں ملی ہے۔ فتح ایران سے ہمیں وہی کچھ حاصل ہوگیا جو فتح یونان سے رومیوں کو ملا تھا۔

غالب:
میری رائے میں مرزا غالب کا فارسی کلام، شاید مسلمانان ہند کی جانب سے وہ واحد پیشکش ہے، جس سے ملت کے عام ادبی سرمائے میں کوئی مستقل اضافہ ہوا ہے۔ غالب یقینا ان شعرا میں سے ہے، جن کا ذہن اور تخیل انہیں مذہب اور قومیت کے تنگ حدود سے بالاتر مقام عطا کرتا ہے۔ غالب شناسی کا حق ادا ہونا ابھی باقی ہے۔

ہیگل، گوئٹے، غالب، بیدل اور ورڈزورتھ:
میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے ہیگل، گوئٹے، مرزا غالب، عبدالقادر بیدل اور ورڈزورتھ سے بہت کچھ استفادہ کیا ہے۔ ہیگل اور گوئٹے نے اشیا کی باطنی حقیقت تک پہنچنے میں میری رہنمائی کی۔ بیدل اور غالب نے مجھے یہ سکھایا کہ مغربی شاعری کی اقدار اپنے اندر سمولینے کے باوجود، اپنے جذبے اور اظہار میں مشرقیت کی روح کیسے زندہ رکھوں اور ورڈزورتھ نے طالب علمی کے زمانے میں مجھے دہریت سے بچالیا۔

سفید فام قوموں کا ''بار امانت'':
ایک مرتبہ کسی انگریز نے مجھ سے کہا کہ وہ یہودیوں سے نفرت کرتا ہے، کیوں کہ ان کا عقیدہ ہے کہ وہ خدا کی برگزیدہ قوم ہیں اور یہ ایسا عقیدہ ہے جس میں دیگر اقوام کی تحقیر مضمر ہے، بلکہ یہی اس تحقیر کا جواز بھی ہے۔ وہ انگریز بھول گیا کہ ''سفید فام قوموں کا بار امانت'' والا مشہور فقرہ، ایک مختلف پیرایے میں، اسی قسم کے احساس تفوق کی غمازی کرتا ہے۔

گوئٹے کا ڈراما 'فائوسٹ':
گوئٹے نے ایک معمولی قصے کو لیا اور اس میں صرف انیسویں صدی ہی نہیں بلکہ نسل انسانی کے تمام تجربات سمو دیئے۔ ایک معمولی قصے کو انسان کے اعلیٰ ترین نصب العین کے ایک منظم و مربوط اظہار میں ڈھال دینا، الہامی کارنامے سے کم نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے بے ہنگم ہیولیٰ سے ایک حسین کائنات تخلیق کردی جائے۔

لٹیری قومیں:
مسرف انسان فطرت کا منظور نظر ہے۔ فطرت کو یہ گوارا نہیں کہ چند افراد کے ہاتھوں میں دولت کی کثیر مقدار جمع ہوجائے۔ جب کسی خاندان کا مربی دولت کے انبار لگانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ تیسری یا دوسری ہی پشت میں کوئی فضول خرچ نکل آتا ہے اور ساری دولت لٹا کر ٹھکانے لگا دیتا ہے۔ اگر فطرت کے یہ کارندے نہ ہوں تو گردش زر کا سلسلہ رک جائے۔

افراد کی طرح اقوام کے معاملے میں بھی یہ بات صادق آتی ہے۔ جب کوئی قوم محنت مشقت یا کسی اور ذریعے سے دولت کے ذخیرے جمع کرتی ہے اور اس اکتناز زر کے نتیجے میں دنیا کے کاروبار کی گاڑی تھم جاتی ہے، جس کی رفتار مسلسل گردش زر پر منحصر ہے، تو لٹیری قومیں نمودار ہوتی ہیں اور مقید دولت کو آزاد کردیتی ہیں۔ وارن ہیسٹنگز، کلائیو اور محمود غزنوی ایسی قوموں کے مخصوص نمائندے ہیں جو کاروبار عالم کی ترقی میں فطرت کے غیر شعوری کارندوں کی حیثیت سے معاون ہوتی ہیں۔ وارن ہیسٹنگز کی لوٹ کی صحیح توجیہہ و تفسیر ہمیں تاریخ کے اس باب میں ملے گی جہاں سترھویں اور اٹھارہویں صدی کے یورپی زر کا بیان ہے۔


اقلیتوں کی قوت:
دنیا کی تقدیر کا فیصلہ خاص طور سے اقلیتوں کے ہاتھ رہا ہے۔ یورپ کی تاریخ اس دعوے کی صداقت پر کافی شہادت پیش کرتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے، اس کا کوئی نفسیاتی سبب ضرور ہے کہ اقلیتیں ایک قوی عامل کی حیثیت سے تاریخ انسانیت پر کیوں اثر انداز رہی ہیں۔ کردار ہی وہ غیر مرئی قوت ہے جس سے قوموں کے مقدر متعین ہوتے ہیں اور اکثریتی جماعت میں کردار کی استواری ناممکن ہے۔ یہ تو ایک قوت ہے۔ جتنا ہی اسے تقسیم کیا جائے، اسی قدر یہ کمزور تر ہوجاتی ہے۔

عربی شاعری:
''میرے چچا کا بیٹا ایک چٹان کے سرے پر چلا جارہا ہے۔ کیا میں پیچھے سے جاکر اسے سنگلاخ وادی میں دھکیل دوں کہ اس کی زندگی کے افق پر پھر نئی سحر طلوع نہ ہو؟ اس کے رویے کے پیش نظر میرا یہ عمل بالکل روا ہوگا۔ لیکن ایسا کرنا کمینہ پن، اور شیوۂ مردانگی کے خلاف ہے۔''

ایک عرب شاعر ''حماسہ' میں یوں اظہار خیال کرتا ہے۔ یہ ٹکڑا عربی شاعری کا ایک نمائندہ نمونہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ دنیا کی کوئی شاعری، اتنی سادہ، دو ٹوک اورمردانہ جذبات سے اتنی لبریز نہیں ہے۔ عرب شاعر حقیقت سے نہایت گہرا رابطہ رکھتا ہے۔ رنگینی کلام کی آب و تاب سے وہ بے نیاز ہے۔ عرب شعرا میں 'متنبی' ایک استثنا ہے، لیکن وہ صرف زبان کی حد تک عرب شاعر ہے، معنوی طور پر وہ کایۃً ایرانی ہے۔

مرد قوی:
قوی انسان ماحول تخلیق کرتا ہے۔ کمزوروں کو ماحول کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا پڑتا ہے۔

مسلم قوم کی حیرت انگیز تاریخ:
مسلم قوم کی تاریخ پر آپ جتنا غور کریں گے، اتنا ہی اسے حیرت انگیز پائیں گے۔ ابتدائی دور سے سولہویں صدی کے آغاز تک۔ پورے ایک ہزار سال یہ توانا نسل (میں نسل اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اسلام نے ایک نسل ساز قوت کا کردار ادا کیا ہے) سیاسی توسیع کے ہمہ جاذب مشغلے میں پیہم منہمک رہی ہے۔ تاہم مسلسل جدوجہد کے اس طوفانی دور میں بھی، اس حیرت انگیز قوم نے، بڑے بڑے تہذیبی کارنامے انجام دینے کے لیے کافی موقع نکال لیا۔ اس نے قدیم علوم کے مدفون خزانوں کو باہر نکالا اور محفوظ کیا، اس میں ٹھوس اضافے کیے، ایک منفرد نوعیت کا ادب تخلیق کیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک مکمل نظام قانون مرتب کیا، جو ہمارے لیے مسلم فقہا کا سب سے قیمتی ورثہ ہے۔

تاریخ کا گراموفون:
تاریخ ایک طرح کا ضخیم گراموفون ہے جس میں قوموں کی صدائیں محفوظ ہیں۔

نیک لوگ:
گناہ کی اپنی ایک تعلیمی قدرو قیمت ہے۔ نیک لوگ اکثر سادہ لوح ہوتے ہیں۔

زندگی میں کامیابی:
زندگی میں کامیابی کا انحصار عزم پر ہے، نہ کہ عقل پر۔

عوامی رہنما:
اگر آپ عوامی رہنما بننا چاہتے ہیں تو عوام کو پرچانے اور رجھانے کا گر آپ کو جاننا چاہیے۔ فرسودہ اقوال اور اگر ضرورت ہو تو دروغ بافی سے ان کی تواضع کیجئے۔

کامیاب انسان:
اپنی حدود کو پہچانیے اور اپنی صلاحیتوں کو پرکھیے، پھر زندگی میں آپ کی کامیابی یقینی ہے۔

بڑا کتب خانہ:
اگر آپ ایک بڑے کتب خانے کے مالک ہیں اور اس کی ساری کتابیں آپ کے علم میں ہیں، تو اس سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ امیر ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ آپ مفکر بھی ہوں۔ آپ کے بڑے کتب خانے کا مطلب صرف یہ ہے کہ آپ بہت سے آدمیوں کی فکری خدمات حاصل کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔

شعرأ اور سیاست داں:
قومیں شعرا کے دلوں میں جنم لیتی ہیں اور سیاست دانوں کے ہاتھوں میں پلتی اور مرجاتی ہیں۔

سچی سیاسی زندگی:
سچی سیاسی زندگی کا آغاز، حقوق کے مطالبے سے نہیں بلکہ فرائض کی ادائیگی سے ہوتا ہے۔

لمحے کی قدر و قیمت:
میں اپنے شب وروز اور ماہ و سال کی قدر و قیمت ان تجربات کے لحاظ سے جانچتا ہوں جو وہ مجھے بخشتے ہیں اور بعض اوقات میں یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں کہ ایک آن واحد پورے ایک سال سے زیادہ گراں قدر ہے۔

مقصد واحد کی لگن:
اگر آپ چاہتے ہیں کہ دنیا کے شور و غوغا میں آپ کی آواز سنی جائے تو آپ کی روح پر محض ایک ہی خیال کا غلبہ ہونا چاہیے۔ مقصد واحد کی لگن والا آدمی ہی سیاسی اور معاشرتی انقلابات پیدا کرتا ہے، سلطنتیں قائم کرتا ہے اور دنیا کو آئین عطا کرتا ہے۔
Load Next Story