’’مذہب جیسی مقدس چیز کو الیکشن کی آڑ نہ بنایا جائے‘‘

علامہ اقبال انتخابی مہم میں فرقہ پرستی اور ذات پات کے بُت پاش پاش کرنے پر زور دیتے رہے

اقبال کے الیکشن لڑنے کی کہانی، ڈاکٹر جاوید اقبال کی زبانی۔ فوٹو : فائل

1926ء میں دوسری مرتبہ پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے انتخابات ہونے تھے۔ سو احباب نے پھر اصرار کیا کہ اقبال لاہور کے مسلم حلقہ سے انتخابات میں حصہ لیں۔

اسی دوران جب میاں عبدالعزیز بیرسٹر نے انہیں یقین دلایا کہ وہ اقبال کے مقابلے میں کھڑے نہ ہوں گے بلکہ ان کی مدد کریں گے تواقبال اپریل1926ء میں انتخابات میں حصہ لینے کے لئے آمادہ ہو گئے۔ میاں عبدالعزیز بیرسٹر کا اقبال کے حق میں دستبرداری کا اعلان 15 جولائی 1926ء کے زمیندار میں شائع ہوا۔ اس کے بعد 20جولائی 1926ء کے زمیندار میں اقبال کی طرف سے امیدواری کا باقاعدہ اعلان چھپا۔ انہوں نے میاں عبدالعزیز بیرسٹر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا:

''مسلمانوں کو معلوم ہے کہ میں اب تک اس قسم کے مشاغل سے بالکل علیحدہ رہا' محض اس لئے کہ دوسرے لوگ یہ کام انجام دے رہے تھے اور میں نے اپنے لئے دوسرا دائرہ کار منتخب کر لیا تھا لیکن اب قوم کی مصیبتیں مجبور کر رہی ہیں کہ اپنا حلقۂ عمل قدرے وسیع کر دوں۔ شاید میرا ناچیز وجود اس طرح اس ملت کے لئے زیادہ مفید ہو سکے جس کی خدمت میں میری زندگی کے تمام لیل ونہار گزرے ہیں۔''

گو لاہور کے مسلم اخباروں نے بارہا تحریر کیا کہ اقبال جیسی شخصیت کو بلامقابلہ کونسل کا رکن منتخب کیا جانا چاہئے لیکن لاہور میں برادری نوازی کی وبا کی موجودگی کے سبب دو اور حضرات مقابلہ میں کھڑے ہو گئے۔ بہرحال ان میں سے ایک ملک محمد حسین صدر بلدیہ لاہور نے اقبال کے حق میں دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا اور اقبال نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے فرمایا:

''میں ان کے اس جذبہ کو بے انتہا قابل تعریف سمجھتا ہوں کہ وہ مسلمانوں میں برادریوں کے افتراق کو دیکھنا پسند نہیں کرتے اور اتحاد المسلمین کے مقصد عزیز کے لئے انتہائی ایثار سے کام لے سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اس قسم کی دردمندی اور ایثار کی توفیق دے۔''

مگر ملک محمد دین مقابلہ میں ڈٹے رہے اور اس لئے اقبال کو انتخابی جنگ کے میدان میں اترنا پڑا۔ لاہور میں ان کی حمایت میں تقریباً بیس جلسے منعقد ہوئے جن میں بعض سے اقبال نے خطاب کیا۔ ہر محلے سے جلوس نکالے گئے۔ شہر کی کئی برادریوں نے ان کی حمایت میں اشتہار شائع کئے اور اقبال کو انتخابی مہم میں اپنی جیب سے بہت کم خرچ کرنا پڑا۔

انتخابی مہم میں ملک محمد دین اقبال پر مختلف سمتوں سے حملہ آور ہوئے۔ ان کا ایک زاویہ یہ تھا کہ اقبال کے عقائد قابل اعتراض ہیں۔ یعنی وہ وہابی العقیدہ ہیں لیکن ملک محمد دین اہل سنت والجماعت ہیں۔ یہ پہلو اس لئے فائدہ مند تھا کہ اقبال نے اسرار خودی میں حافظ شیرازی پر تنقید کر کے بعض مشائخ سے دشمن تصوف کا خطاب پایا تھا۔ نیز سلطان ابن سعود کے حق میں بیان دے کر علماء کے ایک طبقہ سے انہوں نے کفر کا فتویٰ بھی حاصل کر رکھا تھا۔

ملک محمد دین کا دوسرا زاویہ یہ تھا کہ اقبال کشمیری برادری سے تعلق رکھتے ہیں مگر چونکہ ملک محمد دین ارائیں ہیں اس لئے ارائیں برادری کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے ارائیں ہی کو اپنا نمائندہ چننا چاہئے۔ ان کا تیسرا زاویہ اشتہارات کے ذریعہ اقبال کے ذاتی کردار پر کیچڑ اچھالنا یا ان کی کردار کشی کرنا تھا۔ ملک محمد دین کی انتخابی مہم کا یہ پہلو نہایت افسوسناک تھا۔



اس قسم کے چودہ اشتہار سوالات کی شکل میں دیواروں پر چسپاں کئے گئے اور ان کا اسلوب الزام تراشی یا بہتان طرازی کے سوا کچھ نہ تھا۔ اقبال کی طرف سے ان اشتہارات کا کوئی جواب نہ دیا گیا۔ ان کے جلوسوں میں اسلامی اتحادواتفاق برقرار رکھنے کی تلقین کی گئی' ذات برادری کے غیراسلامی قیود کے خاتمہ کی ترغیب دی گئی اور اختلافات عقائد سے احتراز کیا گیا۔ کسی جلسہ میں کسی کے خلاف کچھ نہ کہا گیا اور اگر کسی کے منہ سے جوش میں آ کر کوئی نازیبا کلمہ نکل بھی گیا تو اسے روک دیا گیا

مدیر زمیندار نے اقبال کی حمایت میں ملک محمد دین کی انتخابی مہم پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر کیا:

''کیا یہ مسلمانوں کی انتہائی بدبختی اور نامرادی کی دلیل نہیں کہ انہوں نے ایسی محترم شخصیت کو بھی پنجاب کونسل کی ممبری جیسے حقیر منصب کے لئے بلامقابلہ منتخب نہ ہونے دیا؟ جب مسلمانوں کی بے حسی اور بے غیرتی کی حالت یہ ہے تو پھر ان کی یہ شکایت کہاں تک حق بجانب قرار دی جا سکتی ہے کہ مخلص خادمانِ قوم نہیں ملتے اور حقیقی رہنماؤں کا قحط پڑ رہا ہے۔ میاں عبدالعزیز بیرسٹر ایٹ لا اور ملک محمد حسین صاحب صدر بلدیہ لاہور نے علامہ اقبال کے حق میں کونسل کی امیدواری سے دستبردار ہو کر اپنی دانش مندی اور ضرورت شناسی ملت کا ثبوت دیا اور مسلمان تہہ دل سے ان کے شکرگزار ہیں۔

لیکن اب علامہ اقبال کے مقابلہ میں لاہور کے ایک غیرمعروف بیرسٹر ملک محمد دین صاحب کھڑے ہوئے ہیں جن کے نام سے بھی عامتہ المسلمین اب تک ناواقف تھے... ملک محمد دین نے اپنے انتخاب کے سلسلہ میں جو اعلان شائع کیا ہے اس میں جابجا اس امر پر زور دیا ہے کہ میں اہل سنت والجماعت میں سے ہوں۔ میں نے بزرگوں کے مزاروں کی زیارت کی ہے اور میں صرف اہل سنت کے ووٹ حاصل کرنا چاہتا ہوں۔

ہم یہ سوال کرنا چاہتے ہیں کہ کیا کونسل کی ممبری کے لئے آئندہ اہل سنت اور غیر اہل سنت کا معیار معتبر سمجھا جائے گا؟... جو شخص امیدواری کی حالت میں اس قدر فرقہ پرست ہے وہ کونسل کی ممبری حاصل کرنے کے بعد تمام مسلمانوں کا نمائندہ کیونکر کہلا سکتا ہے؟ اس کا یہ مطلب ہے کہ شیعہ اور اہل حدیث، کونسل میں اپنے لئے الگ نشستوں کا مطالبہ شروع کردیں؟ ایک طرف علامہ اقبال پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ میں تمام کلمہ گویوں کا نمائندہ بننا چاہتا ہوں اور برادریوں اور فرقوں کے بت کو پاش پاش کر دینا میرا مقصد ہے اور دوسری طرف ایک شخص حنفیت کو پیش کر رہا ہے اور یہ نہیں دیکھتا کہ مسلمانوں کو تفرق کی ضرورت نہیں بلکہ اتحاد کی ضرورت ہے... ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ملک محمد دین کو ارائیوں کی برادری کے ووٹوں پر زیادہ تر اعتماد ہے اور کسی ایک برادری کے ووٹوں پر تکیہ کرنا بھی ان کی تفرق پسندی کی نہایت روشن دلیل ہے۔

عامتہ المسلمین سے ان کو کوئی مطلب نہیں لیکن ہم ان کو بتانا چاہتے ہیں کہ ارائیں برادری کے تعلیم یافتہ اور روشن خیال افراد بھی اس قدر کور سواد اور عقل کے اندھے نہیں ہیں کہ علامہ اقبال اور ملک محمد دین میں تمیز نہ کر سکیں... وہ کبھی برادری کے مقاصد کو اسلام کی اغراض پر ترجیح نہ دیں گے... یہ حالت تو ملک محمد دین کی ہے اور علامہ قبال بارہا لاہور کے جلسوں میں باآواز بلند فرما چکے ہیں کہ جو شخص مجھے کشمیری ہونے کی وجہ سے ووٹ دینا چاہتا ہے وہ مجھے ایسے ووٹ سے معاف رکھے۔ میں صرف اسلام کے نام پر اپیل کرتا ہوں اور مجھے صرف مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت ہے... ایک لالہ لاجپت رائے جس حلقہ سے چاہتا ہے ایک شخص کو نامزد کر کے بلامقابلہ منتخب کرا دیتا ہے اور کسی دوسرے کو اس کے مقابلہ میں کھڑے ہونے کی جرأت نہیں ہوتی۔

ہندوؤں نے شدید باہمی مخالفت کے باوجود پنڈت موتی لعل نہرو اور پنڈت مالوی کو بلامقابلہ منتخب کرانے کا فیصلہ کر لیا ہے جس حلقہ سے پنڈت مالوی کھڑے ہو رہے ہیں۔ اس میں لاکھوں کانگریسی موجود ہیں اور جس حلقہ سے پنڈت موتی لعل نہرو امیدوار ہیں اس میں لاکھوں سنگٹھنی موجود ہیں لیکن قومی ا تحاد کی یہ حالت ہے کہ ان اکابر مملکت کے مقابلہ میں کوئی شخص کھڑا نہیں ہو سکتا اور مسلمان ہیں جو علامہ اقبال کی جلیل القدر اور عظیم الشان شخصیت کے ساتھ عقیدت کا یہ منظر بھی پیش نہیں کر سکتے۔''

حاجی دین محمد خوشنویس' جو انتخابات میں اقبال کے زبردست حامیوں میں سے تھے اور جنہوں نے اس سلسلہ میں نمایاں خدمات انجام دیں' کے بیان کے مطابق ملک محمد دین کو سرشادی لعل نے اقبال کے مقابلہ میں کھڑا ہونے کے لئے تیار کیا تھا۔ وہ مزید بیان کرتے ہیں کہ ملک محمد دین کی طرف سے ایک بہت بڑا اشتہار دیواروں پر چسپاں کیا گیا۔ مزنگ میں اقبال کے حامیوں کا جلسہ ہونے والا تھا۔ ملک لال دین قیصر نے خواہش ظاہر کی کہ ہماری طرف سے بھی ایسا ہی قدآدم اشتہار چھپنا چاہئے۔

سب کی نگاہ حاجی دین محمد پر پڑی کیونکہ وہ جلی یا نمایاں خوش نویسی میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔ انہوں نے فوراً اشتہار کی کتابت کی' کاغذ فراہم کیا' پریس میں پہنچے' پروف نکلوا کر پڑھا' شائع کرایا' مزنگ کی دیواروں اور جلسہ گاہ کے باہر چسپاں کیا اور جلسہ گاہ میں آ کر چپ چاپ ایک طرف بیٹھ گئے۔ جب جلسہ شروع ہونے لگا تو ملک لال دین قیصر نے ان سے پوچھا، حاجی صاحب آپ یہاں بیٹھے ہیں' اشتہار کہاں ہیں؟ وہ مسکرائے اور ایک طرف اشارہ کر کے کہنے لگے: وہ رہا آپ کا اشتہار۔ لوگ بڑے متعجب ہوئے کہ اتنی قلیل مدت میں اتنا بڑا اشتہار کیونکر تیار ہو گیا۔ جب اقبال کو پتہ چلا تو انہوں نے نے بھی حیرت کا اظہار کیا اور فرمایا حاجی صاحب تو کاتب کن فیکون ہیں۔ اشتہار سے کہا کن اور وہ اسی وقت فیکون ہو گیا۔

ملک لال دین قیصر بھی اقبال کے زبردست حامیوں میں سے تھے۔ پنجابی کے معروف شاعر تھے اور اقبال کے ہر جلسہ میں شریک ہوتے تھے۔ مولانا غلام مرشد اسلامی اتحاد کی ضرورت پر تقریریں کرتے اور ملک لال دین قیصر اپنے پنجابی اشعار سنا کر سامعین کو محفوظ کرتے تھے۔ اس زمانے میں ملک لال دین قیصر کے پنجابی اشعار:ا ٓ گئی فوج اقبالی' کر دیو رستہ خالی' کارکنان کی زبان پر رہتے جلوسوں میں اسلامیہ کالج کے طلبہ اور شہر کے دیگر نوجوان یہی اشعار پڑھتے یا اقبال کے اس شعر کا ورد ہوتا:

یوں تو سید بھی ہو' مرزا بھی ہو' افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو' بتاؤ تو مسلمان بھی ہو


اقبال کے حامیوں میں لاہور شہر کی کئی معروف ہستیاں تھیں۔ میاں نظام الدین' میاں امیر الدین' میاں حسام الدین بیرسٹر' میاں ایم اسلم' محمد دین تاثیر' خلیفہ شجاع الدین' میاں عبدالعزیز بیرسٹر' مولوی سید ممتاز علی' غلام رسول مہر' عبدالمجید سالک' خواجہ فیروز دین' خواجہ دل محمد' پہلوان چنن دین' ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ' مولوی احمد دین ایڈووکیٹ' حفیظ جالندھری' سید محسن شاہ ایڈووکیٹ' سید مراتب علی' شیخ عظیم اللہ ایڈووکیٹ' عبدالرحمن چغتائی' عبداللہ چغتائی' نواب محمد علی خان قزلباش' سید افضال علی حسنی' مرزا جلال الدین بیرسٹر' شیخ گلاب دین ایڈووکیٹ' سردار حبیب اللہ' ملک میراں بخش' مولانا ظفر علی خان' شیخ محمد نقی' مولوی محبوب عالم' میاں شاہ نواز' حکیم محمد یوسف حسن کے علاوہ سینکڑوں شخصیتوں کے نام محمد حنیف شاہد نے اپنی تصنیف ''اقبال اور پنجاب کونسل'' میں درج کئے ہیں۔

مختلف علاقوں کی انجمنوں یا وارڈوں کے مکینوں نے اقبال کی حمایت میں اعلان جاری کئے۔ شہر میں کشمیریوں کی تعداد ارائیوں سے کم تھی لیکن کئی دیگر برادریوں مثلاً زرگروں' خوجوں' قصابوں' گوجروں اور لوہارو نے اقبال کے حق میں متفقہ فیصلے کئے۔ ککے زئی برادری نے عملی حیثیت سے اقبال کی امداد کی۔ مذہبی حلقوں میں شیعہ رہنما سید علی حائری' خواجگانِ نارووال' احمد یان قادیان اور احمدیان لاہور نے بھی اقبال کی تائید اور حمایت میں اعلان جاری کئے۔ انجمن اسلامیہ میاں میر اور اہل حدیث بھی اقبال کے ساتھ تھے۔ سیاسی جماعتوں میں مجلس خلافت نے اقبال کو بہترین امیدوار قرار دیتے ہوئے ان کی اعانت کی۔ اقبال نے مجلس خلافت کے اصول
سے اتفاق کیا تھا اور اس کے مندرجہ ذیل منشور پر دستخط کئے تھے:
1- ہمیشہ قومی مفاد کو ذاتی اغراض اور حکومت کی خوشنودی پر ترجیح دینا۔

2- مسلمانوں کے تمام حقوق کی حفاظت کے علاوہ ہندوستان کی مکمل آزادی کا نصب العین پیش نظر رکھنا اور مجلس خلافت جب تک اس نصب العین کو سامنے رکھ کر کام کر رہی ہے اس کی مخالفت کونسل کے اندر یا باہر نہ کرنا۔

3- عام اسلامی مفاد کی حفاظت کے علاوہ جب تک ہندوستان کے حالات بدل نہ جائیں اس وقت تک مسلمانوں کے فرقہ وارانہ نیابت کی جدوجہد کو جاری رکھنا۔
4- کونسل کے اندر اس جماعت کی ہمنوائی کرنا جو مندرجہ بالا اصولوں پر کاربند ہو۔

کشمیریوں کے دو اخبار سیاست اور نشتر اقبال کو جھوٹا' کذاب' وہابی' نجدی' اسلام دشمن وغیرہ کے خطابات سے نواز کر ان کی شدید مخالفت کرتے رہے لیکن لاہور کے باقی تمام مسلم اخبارات اقبال کی حمایت میں لکھتے تھے۔

جلسوں کا سلسلہ اکتوبر 1926ء سے شروع ہوا۔ ان جلسوں میں مولانا غلام مرشد اور ملک لال دین قیصر کے علاوہ جو معروف شخصیتیں تقریریں کرتی یا نظمیں پڑھتی تھیں' ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں: مولانا محمد بخش مسلم' حفیظ جالندھری' ڈاکٹر سیف الدین کچلو' مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری' مولانا ظفر علی خان' مولانا حبیب الرحمن' مولانا مظہر علی اظہر۔ بڑے بڑے جلوس بھی نکلتے جن میں اقبال شامل ہوتے۔ مختلف وارڈوں کے رضاکاروں کی ٹولیاں انتخابی اعلانات کی جھنڈیاں بلند کئے اقبال کی تعریف میں اشعار پڑھتے ہوئے آگے آگے روانہ ہوتیں۔

ہر ٹولی کا امتیازی نشان مختلف ہوتا۔ کسی جماعت کے سروں پر کانسی رنگ کی پگڑیاں ہوتیں' کہیں ملگجی رنگ کی پگڑیاں دکھائی دیتیں' کہیں سرخ ترکی ٹوپیوں والے نوجوان ہوتے جن کی ٹوپیوں پر اقبال کا لفظ کھر یا مٹی سے لکھا ہوا نظر آتا۔ ان ٹولیوں کے پیچھے معززین شہر کی جماعت ہوتی جن میں رؤسا' کاروباری لوگ' کالجوں کے پروفیسرا ور دیگر اہل علم شامل ہوتے۔ اس جماعت نے اقبال کو گھیرے میں لیا ہوتا۔ وہ چند قدم چلنے نہ پاتے کہ پھولوں کے ہاروں سے لاد دیئے جاتے۔ رستہ میں ہر طرف سے پھولوں کی بارش ہوتی۔

کارکن اور رضاکار اقبال کے ان اشعار کو خاص طور پر گاتے جن میں اسلامی اتحاد کا پیغام دیا گیا تھا کیونکہ اقبال نے لاہور میں انتخابات کے موقعہ پر برادری اور فرقہ بندی کی لعنتوں کو ختم کرنے کا بیڑہ اٹھایا تھا۔ جلوس لاہور کے بازاروں سے گزرتے اور جلوس کے دوران اگر نماز کا وقت آ جاتا تو کسی بڑی مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنے کے بعد جلوس پھر مرتب کیا جاتا اور اسی شان وشوکت سے مختلف بازاروں سے گزرتا ہوا لاہور شہر کے کسی نہ کسی دروازہ پر اختتام پذیر ہوتا جہاں اقبال تقریر کرتے اور مسلمانوں کو اتحاد کا پیغام دیتے۔

ایسے انتخابی جلسوں یا جلوسوں میں اقبال کی کچھ تقریریں جو زمیندار میں شائع ہوئیں' اب تک محفوظ ہیں۔ مثلاً 11 اکتوبر 1926ء کو ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

''میں انگریزی' اردو' فارسی میں برنگ نثر بھی اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا تھا لیکن یہ ایک مانی ہوئی بات ہے کہ طبائع' نثر کی نسبت شعر سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ لہٰذا میں نے مسلمانوں کو زندگی کے صحیح مفہوم سے آشنا کرنے' اسلاف کے نقش قدم پر چلانے اور ناامیدی' بزدلی اور کم ہمتی سے باز رکھنے کے لیے نظم کا ذریعہ استعمال کیا۔ میں نے 25سال تک اپنے بھائیوں کی مقدور بھر ذہنی خدمت کی۔ اب ان کی بطرز خاص عملی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کر رہا ہوں۔

اسلامیان ہند پر عجب دور گزر رہا ہے۔ 1929ء میں ایک شاہی مجلس تحقیقات اصلاحات جسے رائل کمیشن کہتے ہیں یہ تحقیق کرے گی کہ آیا ہندوستان مزید رعایات واصلاحات کا مستحق ہے یا نہیں۔ ضرورت ہے کہ مسلمان بھی اس باب میں پوری توجہ سے کام لیں اور اپنے حقوق کا تحفظ کریں۔ ممبر کا سب سے بڑا وصف یہ ہونا چاہئے کہ ذاتی اور قومی منفعت کی ٹکر کے وقت اپنے شخصی مفاد کو مقاصد قوم پر قربان کر دے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں کبھی بھی اپنے مفاد کو قوم کے مصالح کے مقابلہ میں ترجیح نہیں دوں گا اور رب العزت سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے اس امر کی توفیق بخشے کہ میں آپ کی خدمت کر سکوں۔ میں اغراض ملی کے مقابلہ میں ذاتی خواہشوں پر مٹنے کو موت سے بدتر خیال کرتا ہوں۔''

13 اکتوبر 1926ء کو ایک جلسہ میں اعلان کیا گیا کہ اگر قوم متفقہ طور پر مجھے دستبردار ہونے کا حکم دے تو میں حکم کی تعمیل کے لئے بسر وچشم تیار ہوں۔ میں ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانا بدترین گناہ سمجھتا ہوں۔ میں عنقریب نوجوانوں کا ایک جیش تیار کروں گا جو مسلمانوں کے درمیان فرقہ پرستی کی موجودہ لعنت کو بیخ وبنیاد سے اکھاڑ دے گا۔

15 اکتوبر 1926ء کو ایک مجمع سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد کیا کہ مذہب جیسی مقدس چیز کو الیکشن کی آڑ نہ بنایا جائے اور باہمی اتفاق سے کام لیا جائے۔ اور یہ کہ ہم کو پھر ابراہیمی کام کرنا ہے اور ذات پات کے بت کو پاش پاش کرنا ہے۔ میں نوجوانوں کے سامنے عنقریب ایک سوشل پروگرام پیش کرنے والا ہوں۔ 17 اکتوبر 1926ء کو ایک جلسہ میں انہوں نے جمہوریت، اسلام اور پنجاب کونسل کے موضوع پر ایک فاضلانہ خطبہ دیا۔19 نومبر 1926ء کو کڑہ ولی شاہ کا جلسہ اندرون شہر میں غالباً آخری جلسہ تھا۔

اقبال ساڑھے آٹھ بجے شب جلسہ گاہ میں تشریف لائے۔ جلسہ گاہ سے باہر بازار دور تک آراستہ تھا اور ہر سمت لوگوں کا ہجوم تھا۔ حاضرین کی کثرت کا یہ عالم تھا کہ تل دھرنے کو بھی جگہ نہ تھی۔ اقبال کے داخل ہوتے ہی انہیں ہار پہنائے گئے اور جلسہ پرجوش نعروں سے گونج اٹھا۔ ملک لال دین قیصر' آس اور ثمر کی نظموں کے بعد شیخ عظیم اللہ ایڈووکیٹ' شمس الدین حسن ایڈیٹر خاور' خواجہ فیروز دین اور مولانا محمد بخش مسلم نے تقریریں کیں۔ آخر میں اقبال کھڑے ہوئے اور فرمایا:

''مسلمانوں کی زندگی کا راز اتحاد میں مضمر ہے۔ میں نے برسوں مطالعہ کیا۔ راتیں غور وفکر میں گزاریں تاکہ وہ حقیقت معلوم کروں جس پر کاربند ہو کر عرب حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں تیس سال کے اندر اندر دنیا کے امام بن گئے۔ وہ حقیقت اتحاد واتفاق ہے جو ہر شخص کے لبوں پر ہر وقت جاری رہتی ہے۔ کاش ہر مسلمان کے دل میں بیٹھ جائے۔ نسلی اور اعتقادی اختلافات میں تنگ نظری اور تعصب نے مسلمانوں کو تباہ کر دیا۔ اختلاف رائے ایک طبی امر ہے۔ اس لئے کہ طبائع مختلف ہوتی ہیں۔

ہر شخص کی نظر مختلف ہے' اسلوب فکر مختلف ہے لیکن اس میں اختلاف کو اس طریقہ پر رکھنا چاہئے جس طرح ہمارے آباؤ اجداد نے اسے رکھا۔ اس صورت میں اختلاف رحمت ہے۔ جب لوگوں میں تنگ نظری آ جاتی ہے تو یہ زحمت بن جاتا ہے۔ مسلمانو! میں تمہیں کہتا ہوں کہ اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو متحد ہو جاؤ۔ اختلاف بھی کرو تو اپنے آبا کی طرح۔ تنگ نظری چھوڑ دو۔ میں کہتا ہوں کہ تنگ نظری چھوڑنے پر سب اختلافات مٹ سکتے ہیں۔ مسلمانانِ ہند کے لئے دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ وہ ہندوستان کی سیاسیات کے ساتھ گہری دل بستگی پیدا کریں۔ جو لوگ خود اخبار نہ پڑھ سکتے ہوں وہ دوسروں سے سنیں۔ اس وقت جو قومیں دنیا میں کارفرما ہیں' ان میں سے اکثر اسلام کے خلاف کام رہی ہیں لیکن میرا ایمان ہے کہ انجام کار اسلام کی قوتیں کامیاب وفائز ہوں گی۔ ''

23 اور 24 نومبر 1926ء کو پولنگ کے آنکھوں دیکھے حال کی تفصیل ان ایام کے زمیندار اخبار کے حوالوں سے محمد حنیف شاہد کی تصنیف ''اقبال اور پنجاب کونسل'' میں پڑھی جا سکتی ہے۔ 23 نومبر کو لاہور شہر کے مسلم حلقہ میں اور 24نومبر کو لاہور چھاؤنی میں حلقہ میں رائیں درج کی گئیں۔ ہر پولنگ سٹیشن پر دن کے ابتدائی گھنٹوں میں ووٹ ڈالنے کا بہت زور رہا اور آخری گھنٹوں میں رفتار سست ہو گئی۔ اکبری دروازہ کے پولنگ سٹیشن پر چپقلش بھی رونما ہوئی۔ مختلف مراکز پر ملک محمد دین کے حامیوں نے جعلی ووٹ درج کرانے کی کوشش کی لیکن بہت سے جعلی ووٹ مسترد کر دیئے گئے۔ دس کے قریب گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں۔ بہت سے پڑھے لکھے ارائیوں نے جو اپنے آپ کو برادری کے سوال سے بالاخیال کرتے تھے اقبال کے حق میں ووٹ ڈالے۔ موچی دروازہ کے انتخابی مرکز پر فریقین کے حامیوں کے درمیان ہنگامہ ہو گیا اور ایک شخص نے اپنے مدمقابل کو چاقو سے زخمی کر دیا۔ پولنگ کے اختتام پر ہجوم نے اقبال کو گھیر لیا اور شہر کے اندر لے گئے۔ چنانچہ خودبخود ایک جلوس مرتب ہو گیا جو اللہ اکبر اور اقبال زندہ باد کے نعرے لگاتا ہوا کشمیری بازار اور ڈبی بازار سے گزرا۔

24 نومبر کو لاہور چھاؤنی کے انتخابات کے دوران ملک محمد دین کے چار آدمی جعلی پرچیاں ڈالنے کے جرم میں گرفتار کئے گئے جن میں ان کا چھوٹا بھائی نذیر احمد بھی شامل تھا لیکن بعد میں وہ ضمانت پر رہا کر دیئے گئے۔ ملک محمد دین کے ایک حامی نے اس شخص کی طرف سے جعلی پرچی ڈالنی چاہی جو اقبال کی طرف سے رائے دہندوں کی شناخت کے لئے مقرر کیا گیا تھا چنانچہ فی الفور پہچان لیا گیا کہ وہ جعلی پرچی ڈالنا چاہتا تھا۔ دولت علی نامی ایک ٹمٹم والے کی ٹمٹم اس بناء پر غائب کر دی گئی کہ اس نے ملک محمد دین کے ایک جعلی ووٹر کو شناخت کیا تھا۔ بعد میں وہ ٹمٹم ملک محمد دین کے چار آدمیوں کے قبضہ سے برآمد کی گئی جن میں سے دو گرفتار ہوئے اور دو فرار ہو گئے۔ اس معاملہ کی تفتیش کے لئے چودھری علی گوہر حوالدار پولیس تھانہ لاہور چھاؤنی متعین کئے گئے۔

6 دسمبر 1926ء کو انتخابات کونسل کے نتائج سرکاری اعلان ضلع کچہری میں ہوا۔ اس زمانہ میں حلقہ کے کل ووٹروں کی تعداد بارہ ہزار کے لگ بھگ تھی جن میں سے تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار ووٹ ڈالے گئے۔ اقبال کو پانچ ہزار چھ سو پچھتر ووٹ ملے اور ملک محمد دین کو دو ہزار چھ سو اٹھانوے۔ سو اقبال تقریباً تین ہزار آراء کی اکثریت سے کامیاب قرار دیئے گئے۔ بعدازاں جب اقبال کے حامی مختلف ٹولیوں میں میونسپل مارکیٹ کے چوک میں پہنچے تو وہاں اقبال انہیں مل گئے چنانچہ لوگوں نے انہیں گھیر لیا اور ایک جلوس مرتب ہو گیا۔ نوجوان بھنگڑا ڈال رہے تھے۔ محمددین تاثیر بھی جنہوں نے میاں صلاح الدین کو کندھوں پر اٹھا رکھا تھا، بھنگڑے میں شامل تھے۔

یہ جلوس تقریباً تین بجے دوپہر انارکلی اور لوہاری دروازہ سے گزرتا ہوا سرشام بھاٹی دروازے پہنچا اور یہاں اونچی مسجد میں نماز مغرب ادا کی گئی۔ پھر جلوس ہیرا منڈی ا ور سید مٹھا بازار سے ہوتا ہوا چوک جھنڈا میں پہنچا جہاں کسی نے اقبال کے سر پر پگڑی باندھی۔ اس کے بعد جلوس موری دروازے پہنچا اور اقبال کو فٹن میں سوار کرایا گیا۔ پھر جلوس پانی والے تالاب اور ڈبی بازار سے ہوتا ہوا کشمیری بازار پہنچا جہاں ملکوں کی دکان پر اقبال کی خدمت میں ایک مشہدی لنگی ہدیتہ پیش کی گئی۔ ازاں بعد جلوس پرانی کوتوالی سے ہوتا ہوا کچھ دیر چوہٹہ مفتی باقر میں ٹھہرا جہاں استاد گام نے پنجابی نظم پڑھی۔ رات ساڑھے دس بجے اقبال نے اہل جلوس کا شکریہ ادا کیا اور یہ جلوس منتشر ہوا۔
Load Next Story