انتخابی ماحول کی سازگاری ناگزیر

بلاشبہ دہشت گردی کی لہر کا سامنا کرتے ہوئے اب بھی ضرورت ایک قومی اسپرٹ کے ساتھ انتخاب دشمن عناصر کو ان کی حد میں۔۔۔


Editorial April 20, 2013
بلاشبہ دہشت گردی کی لہر کا سامنا کرتے ہوئے اب بھی ضرورت ایک قومی اسپرٹ کے ساتھ انتخاب دشمن عناصر کو ان کی حد میں رکھنے کی ہے۔ فوٹو: فائل

نگراں وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو نے کہا ہے شفاف اور آزادانہ انتخابات کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے، انتخابی عمل پر اثرانداز ہونے اور اس میں خلل ڈالنے والے تمام سوراخ بند کرنے کی بھر پور کوششیں کرنی ہوگی، امیدواروں کے قتل سے سیاسی جماعتوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے تاہم تمام سیاسی جماعتوں کا مرکزی سیاسی عمل کا حصہ رہنے کا فیصلہ حوصلہ افزا ہے۔

جمعہ کو نگران وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو کی صدارت میں امن و امان کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں گورنر خیبر پختونخوا، پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ، سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری دفاع، چاروں صوبوں کے چیف سیکریٹریز، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی اور ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو نے شرکت کی۔

وزیراعظم نے انتخابی ماحول کی سازگاری اور عوام کے جمہوری حق کی راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ ڈالنے کے ہر امکان کو مسدود کرنے کا جو عندیہ دیا ہے وہ بروقت اور خوش آئند ہے جس سے اس غلط تاثر کاازالہ ہوجاتا ہے کہ حکومت تاحال دہشت گردی کی روک تھام اور انتخابی جلسوں اور قافلوں پر حملے میں ملوث عناصر اور مسلح تنظیموں کے خلاف کارروائی کے لیے پر جوش نہیں ۔حقیقت میں وزیراعظم نے خلل ڈالنے کے ہر سوراخ کو بند کرنے کی ضرورت اس لیے محسوس کی کہ وہ خود اس صوبہ سے تعلق رکھتے ہیں جہاں انتخابات کا انعقاد سب سے بڑا چیلنج ہے۔

بلوچستان میں غیر معمولی صورتحال ہے، ایک طرف شورش اور مزاحمت کاروں کی انتخابی جلسوں اور شخصیات پر قاتلانہ حملوں اور پر تشدد یلغار کی واردتوں کا سلسلہ شدت سے جاری ہے تو دوسری طرف صوبہ کی مین اسٹریم سیاسی قوتوں نے عہد کر رکھا ہے کہ وہ انتخابی عمل سے باہر نہیں رہیں گی اور آئین کے اندر رہتے ہوئے اپنے جمہوری حقوق کی جدوجہد جاری رکھیں گی۔ان کے اس عزم اور سیاسی کمٹمنٹ کی ارباب اختیار کو مکمل تحفظ مہیا کرنے کی یقین دہانی کرانی ہوگی تاکہ دہشت گردی اور پر تشدد طریقوں سے انتخابات کا راستہ روکنے والوں کے عزائم خاک میں ملائے جاسکیں۔

اس مقصد کے لیے وزیراعظم کھوسو نے جن بنیادی ضرورتوں کی طرف دھیان دینے کی بات کی ہے اور انتخابی عمل میں باوجود خطرات اور جمہوریت دشمنوں کی جانب سے دی جانے والی ہولناک نتائج کی دھمکیوں کے الیکشن پروسیس میں ان کی شمولیت کو سراہا ہے وہ ایک اہم پیش رفت ہے۔اگرانتخابی امیدواروں کو اپنی انتخابی مہم میں اعصاب شکن تحفطات کے پہاڑ کا سامنا کرنا پڑا اور ان پر حملوں کی شدت کم یا ختم نہیں ہوئی تو انتخابات کے شفاف ،آزادانہ،اور پر امن انداز میںہونے کے امکانات کے حوالہ سے اندیشہ ہائے دور دراز کا سلسلہ نہیں رک سکے گا۔

اجلاس کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات عارف نظامی نے وزیر قانون احمر بلال صوفی اور سیکریٹری داخلہ صدیق اکبر کے ہمراہ میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن ملتوی ہونگے نہ ہی انھیں کسی کو سبوتاژ کرنے دینگے، سیاسی رہنماؤں ، امیدواروں ، الیکشن کے عملہ ، غیر ملکی مبصرین کی سیکیورٹی اور بیلٹ باکسز کی بحفاظت ترسیل کو یقینی بنایا جائیگا، جلسے اور جلوسوں کے لیے مخصوص مقامات کا تعین کیا جائیگا ، امیدواروں کو ضلعی انتظامیہ کو پیشگی طور پر آگاہ کرنا ضروری ہو گا ، اسلحہ کی نمائش پر مکمل پابندی ہو گی، فوج پولنگ اسٹیشنوں پر تعینات نہیں کی جائے گی بلکہ کوئیک ری ایکشن فورس کے طور پر موجود رہے گی، عدالت پرویز مشرف کے خلاف کے حوالے سے جو بھی فیصلہ دے گی، اس پر من وعن عملدرآمد کیا جائیگا، تاحال پرویز مشرف پر غداری کے مقدمہ کے حوالے سے وفاقی حکومت کو آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔

بلاشبہ دہشت گردی کی لہر کا سامنا کرتے ہوئے اب بھی ضرورت ایک قومی اسپرٹ کے ساتھ انتخاب دشمن عناصر کو ان کی حد میں رکھنے کی ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف بلا تاخیر کارروائی کا میکنزم تیار کیا جائے،اور تمام حساس اور شورش زدہ علاقوں میں فورسز کی مناسب تعداد میں تعیناتی کو یقینی بنایا جائے۔فوج، پولیس، رینجرز،ایف سی اور لیویز سمیت انٹیلی جنس ایجنسیز کے مابین اطلاعات اور معلومات کے تبادلہ کا انتہائی شفاف نیٹ ورک قائم ہونا ضروری ہے ، پر تشدد وارداتوں اور انتخابی جلسوں اور سیاسی جماعتوں کے چھوٹے بڑے اجتماعات اور دفاتر پر حملوں کوروکنے کے لیے ریپڈ ڈپلائمنٹ دستے تعینات ہوں جب کہ انتخابی قافلوںمیں شامل اہم اور ہائی پروفائل امیدواروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے حفاظتی دستے ان کے ہمراہ کچھ فاصلے پر ہونے چاہییں۔

دہشت گرد مافیاؤں کی نشان دہی لازم ہے،ان کی تازہ ترین لسٹ پیش نظر رکھی جائے اور ان کے نقل وحمل اور ٹھکانوں میں موجودگی کی ہر لحظہ رپورٹ سکیورٹی فورسز کی تحویل میں ہو اور اس کی روشنی میں تسلسل کے ساتھ بلا لحاظ کراچی سے لے کرخیبر تک آپریشن ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ اس ہولناک انتخاب دشمنی کا موثر اور نتیجہ خیز حل نہ نکل سکے۔ مگر اس کے لیے دہشت گردوں کی شناخت ضروری ہے، ملک بھر کے سکیورٹی ادارے صوبائی سطح پر مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے عناصر اور کالعدم و انتہا پسند تنظیموں سے وابستہ افرادکی ریکی مکمل ہونے کے بعد اس کے محاصرے کے لیے سائنسی انداز میں کارروائی کو یقینی بنایا جائے ۔بین الصوبائی چیک پوسٹوں کو الرٹ رکھا جائے تاکہ دہشت گردوں کو وحشیانہ کارروائی کے بعد فوراً پکڑا جاسکے اور انھیں دوسرے صوبوں میں گھسنے کا راستہ بند ملے اس لیے جس تیزی سے یہ عمل آگے بڑھے گا دہشت گردی میں ملوث گروہوں کی کمر ٹوٹ جائے گی۔

مزید برآں فورسز بھی اپنے جوابی حملوںکا سلسلہ رکنے نہ دیں کیونکہ مداخلت کارسیکیورٹی اداروں کی توجہ بٹانے کے لیے ادھر ادھر وارداتیں کرتے رہتے ہیں، مثلاً گزشتہ روز بھی ان کی طرف سے وانا،اورکزئی ،ٹانک سمیت کراچی میں قتل وغارتگری کی وارداتیں جاری رہیں ۔چنانچہ وفاقی حکومت نے آئندہ عام انتخابات کے دوران امن وامان کے قیام کے لیے کئی اقدامات کی منظوری دیدی ہے ، صوبوں سے سیکیورٹی کی ضروریات کے حوالے سے 3 روز میں تفصیلات طلب کرلی گئیں ، تمام صوبوں ، حساس اداروں اور دیگر ذرائع سے معلومات اکٹھی کرنے کے لیے وزارت داخلہ میں سیل قائم کردیا گیا جو تقاضائے وقت ہے ۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان نے تجویز دی کہ بلوچستان میں پر امن انتخابات کے لیے مسلح گروپوں کے خلاف ٹارگٹڈ آپریشن کی ضرورت ہے ، خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے 10 ہزار سیکیورٹی اہلکاروں کی ضرورت سے آگاہ کیا جس کی فراہمی کے لیے وفاق نے رضا مندی ظاہر کی ہے ، چیف سیکریٹری سندھ نے بتایا کہ کسی بھی شر پسند تنظیم کو انتخابی عمل سبوتاژ کرنیکا موقع نہیں دیا جائیگا۔ سیکریٹری داخلہ صدیق اکبر نے بتایا کہ وفاقی حکومت کے پاس 2 لاکھ سول آرمڈ فورسز ہیں ، ریٹائرڈ پولیس اہلکاروں اور قومی رضا کاروں کو عارضی طور پر بھرتی کیا جائیگا، صوبوں سے کہا ہے کہ وہ 3 دن میں سیکیورٹی کے حوالے سے اپنی ضرورت سے آگاہ کریں۔

بہر طور یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ داخلی و خارجی قوتوں کی اینٹی الیکشن مہم جوئی صرف اسی صورت میں درد سر بن سکتی ہے جب دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی میں کوئی ابہام، سقم یا جھول پیدا ہو۔تاہم کچھ باطل ،خود سراور جمہوریت دشمن عناصر مداخلت و تخریب کاری ، جارحیت اور تشدد کی تھیوری کے ذریعہ انتخابی عملی کو ملیا میٹ کرنے کی خیالی جنت میں قتل وغارت کا الاؤ روشن رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں ریاستی اقدامات کیروشنی میں یہ پیغام اب تو مل ہی جانا چاہیے کہ ملک کی سلامتی پر ماموراداروں کے ہاتھوں انھیں بہر حال دھول چاٹنی پڑیگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں