شام میں کشیدگی ختم کرنے کی کوششیں

براہیمی نے روس اورچین پر الزام لگایا کہ یہ دونوں بڑے ملک بھی شام میں کسی سمجھوتے پرپہنچنے کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں

براہیمی نے روس اور چین پر الزام لگایا کہ یہ دونو بڑ ے ملک بھی شام میں کسی سمجھوتے پر پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں. فوٹو: رائٹرز

مشرق وسطیٰ کے ایک نہایت اہم اسلامی ملک شام میں، جسے عربی زبان میں سوریا اور انگریزی میں سیریا کہا جاتا ہے' 2011ء کے اوائل میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے دوران اب تک ستر ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

اقوام متحدہ نے لخدر براہیمی کو شام کا مسئلہ حل کرانے کے لیے اپنا خصوصی ایلچی نامزد کیا ہوا ہے جو ابھی تک اس خانہ جنگی کو بند کرانے میں اپنا کوئی کردار ادا نہیں کر سکے تاہم تازہ اطلاع کے مطابق انھوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ اگر شام کے مسئلے پر فوری طور پر قابو پانے کی کامیاب کوششیں نہ کی گئیں تو پھر کوئی بعید نہیں کہ قتل و غارت گری کی یہ آگ اردگرد کے تمام ملکوں میں بھی پھیل جائے۔ معلوم ہوا ہے کہ 15 رکنی سلامتی کونسل بھی شام کے مسئلے کے حل کے بارے میں اندرونی طور پر اختلافات کا شکار ہے۔


براہیمی نے سلامتی کونسل کو بتا دیا ہے کہ شام کے صدر بشار الاسد مخالفین کے ساتھ بات کرنے کے لیے کسی صورت میں بھی آمادہ ہونے پر تیار نہیں۔ براہیمی نے روس اور چین پر الزام لگایا کہ یہ دونوں بڑے ملک بھی شام میں کسی سمجھوتے پر پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں لہٰذا مغربی ممالک پر لازم ہے کہ وہ شام کی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ براہیمی کو اقوام متحدہ کا خصوصی ایلچی مقرر ہوئے سات ماہ سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے لیکن انھیں اپنی کامیابی کی کوئی صورت نظر نہیں آئی جب کہ شامی باشندوں کا خون مسلسل بہتا چلا جا رہا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں ہونے والی ہلاکتوں میں مزید اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔

براہیمی کے بارے میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ آئندہ ہفتہ کے آغاز میں عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل نبیل الاعرابی سے ملاقات کریں گے تا کہ شام میں قیام امن کے امکانات پیدا ہو سکیں۔ غیرملکی میڈیا یہ بھی کہہ رہا ہے کہ براہیمی اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہونے کے باعث مایوسی کا شکار ہیں اور اس ذمے داری سے سبکدوش ہونا چاہتے ہیں۔

ادھر شام میں بشار الاسد حکومت نے بھی براہیمی پر نکتہ چینی کی ہے اور اشارہ دیا ہے کہ ستمبر 2012ء سے مصالحت کار کا منصب سنبھالنے والے براہیمی جلد اپنا عہدہ چھوڑ دیں گے یا پھر عرب لیگ کے ساتھ اپنا تعلق ختم کر لیں گے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ براہیمی سے قبل اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے بھی شام میں مصالحت کرانے کی کوشش کی تھی مگر وہ بھی کامیاب نہ ہو سکے تھے۔یوں دیکھا جائے تو شام میں قیام امن کے فوری امکانات نہیں ہیں ، بہرحال اقوام متحدہ اور عرب لیگ کو اس معاملے کو جلد حل کرنا چاہیے تاکہ شام میں قتل وغارت کا سلسلہ رک سکے۔
Load Next Story