بچوں کے اقبال
’’ضرب کلیم‘‘ اور ’’بال جبریل‘‘ میں وہ فلسفی اور مفکر نظر آتے ہیں، جب کہ ’’بانگ درا‘‘ میں وہ شاعر فطرت ہیں۔
آج 21 اپریل ہے، آج ہی کے دن علامہ اقبال نے75 سال پہلے وفات پائی تھی، اس حوالے سے کیوں نہ ہم بچوں کے اقبال کو یاد کر لیں۔ سب جانتے ہیں کہ اقبال نے ''بانگ درا'' میں بچوں کے لیے بڑی خوبصورت اور سبق آموز نظمیں لکھی ہیں، سچ پوچھیے تو مجھے اقبال کے تمام کلام میں ''بانگ درا'' کی شاعری سب سے زیادہ پسند ہے، اس اولین مجموعے میں ایسی جاذبیت، کشش اور سحر انگیزی ہے جو دوسرے مجموعوں میں ناپید ہے۔
''ضرب کلیم'' اور ''بال جبریل'' میں وہ فلسفی اور مفکر نظر آتے ہیں، جب کہ ''بانگ درا'' میں وہ شاعر فطرت ہیں۔ تشبیہات کے حوالے سے اقبال کی بعض نظمیں جیسے ماہ نو، ہمالیہ، بزم انجم، گل رنگیں، تصویر درد، ابر کوہسار، انسان اور بزم قدرت، ابر اور پھول، تشبیہات کی قدرت کے حوالے سے نہایت پرتاثر، سادہ اور منفرد نظمیں ہیں، کمال کی کاری گری نظر آتی ہے ان میں، ایک مثال صرف ''ماہ نو'' کی دیکھیے:
ٹوٹ کر خورشید کی کشتی ہوئی غرقاب نیل
ایک ٹکڑا تیرتا پھرتا ہے روئے آب نیل
چرخ نے بالی چرالی ہے عروس شام کی
نیل کے پانی میں یا مچھلی ہے سیم خام کی
آج بچوں کے ادب سے بے اعتنائی کا شکوہ بار بار کیا جا رہا ہے اور یہ صحیح بھی ہے، بہت کم لوگ اس جانب توجہ دے رہے ہیں، جب کہ ہمارے بڑے بڑے شعراء نے بچوں کے لیے بڑی پیاری پیاری نظمیں اور کہانیاں لکھی ہیں، مولوی اسماعیل میرٹھی کی مشہور نظم ''پن چکی'' کا یہ شعر تو ضرب المثل بن گیا ہے:
نہر پہ چل رہی ہے پن چکی
دھن کی پوری ہے کام کی پکی
اسی طرح صوفی تبسم نے بھی بڑی اچھی نظمیں لکھیں، جیسے ثریا کی گڑیا، بلو کا بستہ اور ٹوٹ بٹوٹ لیکن آج ہمارا موضوع صرف اقبال ہیں، یعنی بچوں کے اقبال، جنھوں نے تقریباً نو نظمیں لکھی ہیں، جن میں سے بیشتر ماخوذ ہیں غالباً انگریزی سے، کیونکہ صرف دو نظموں ''ہمدردی'' اور ''پہاڑ اور گلہری'' میں ولیم کوپر اور ایمرسن کے نام دیے گئے ہیں، بقیہ میں صرف ''ماخوذ'' لکھا گیا ہے، اس مختصر کالم میں ہم اختصار کے ساتھ ہی بات کریں گے۔
سب سے پہلی نظم ہے ''ایک مکڑا اور مکھی'' اس میں جو کہانی بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ایک مکڑا جو کئی دن سے بھوکا تھا، اس کے جال کے پاس سے ایک مکھی کا گزر ہوا، مکڑے نے مکھی کی بہت خوشامد کی کہ وہ کچھ دیر کے لیے اس کے گھر میں مہمان بن کر آئے اور آرام کرے، لیکن مکھی بہت ہوشیار تھی، وہ جانتی تھی کہ مکڑے کے جال میں قدم رکھنے کا مطلب کیا ہے، یعنی وہ اسے بہلا پھسلا کر پھنسانا چاہتا ہے، لہٰذا مکھی نے معذرت کر لی یہ کہہ کر کہ:
اس جال میں مکھی کبھی آنے کی نہیں ہے
جو آپ کی سیڑھی پہ چڑھا پھر نہیں اترا
یہ جواب سن کر مکڑے نے سوچا:
مکڑے نے کہا دل میں، سنی بات جو اس کی
پھانسوں اسے کس طرح یہ کم بخت ہے دانا
سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں
دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندہ
لہٰذا اس نے اب دوسری طرح مکھی کی تعریف شروع کر دی، اس کی آنکھوں کی، سر پہ کلغی کی، اس کی بھنبھناہٹ کی تو مکھی پسیج گئی۔
مکھی نے سنی جب یہ خوشامد تو پسیجی
بولی کہ نہیں آپ سے مجھ کو کوئی کھٹکا
یہ بات کہی اور اڑی اپنی جگہ سے
پاس آئی تو مکڑے نے اچھل کر اسے پکڑا
بھوکا تھا کئی روز سے، اب ہاتھ جو آئی
آرام سے گھر بیٹھ کے مکھی کو اُڑایا
اس نظم میں اقبال بچوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ خوشامد اور جھوٹی تعریف سے چالباز لوگ اپنا کام نکالنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ آج پاکستانی سیاست میں خوشامد اور جھوٹی تعریف ہی جلوہ گر ہے۔ دھوکے بازوں، رشوت خوروں، خائن اور بدکردار لوگوں کی تعریف اس لیے کی جا رہی ہے کہ الیکشن میں کامیابی کے بعد وہ انھیں کوئی بڑا عہدہ دے دیں، تا کہ وہ دونوں ہاتھوں سے ملکی خزانہ لوٹ سکیں، حج اور عمرے کر سکیں اور خود کو تمام تر جعلی کاموں اور کرپشن کے باوجود پاکباز اور ایماندار ظاہر کر سکیں۔
دوسری اہم نظم ہے ''ہمدردی'' اس نظم میں اقبال نے بچوں کو دوسروں کے کام آنے کی تلقین کی ہے اور کہا ہے کہ آدمی تو سب ہی ہوتے ہیں لیکن انسان وہ ہے جو دوسروں کے واسطے زندہ رہے، ہوتا یوں ہے کہ ایک بلبل دن بھر دانہ دنکا چگنے میں مصروف رہا، رات کب سر پہ آئی اسے پتہ ہی نہ چلا، جب چاروں طرف اندھیرا چھا گیا تو پریشانی نے اسے آ گھیرا کہ یا الٰہی اب میں اپنے آشیانے تک کیسے پہنچوں؟ ابھی بلبل آہ و زاری کر ہی رہا تھا کہ کہیں پاس ہی ایک جگنو اس کی آواز سن رہا تھا، اس نے بلبل کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ وہ پریشان نہ ہو۔ اﷲ نے اسے ایک ننھی سی مشعل دی ہے، وہ اس مشعل سے بلبل کو راستہ دکھائے گا تا کہ وہ اپنے آشیانے تک پہنچ سکے، جگنو نے اندھیری رات میں بلبل کے آگے اڑ کر اسے راستہ دکھایا اور اس طرح وہ اپنے گھونسلے تک آرام سے پہنچ گیا، جگنو نے بلبل سے کہا:
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
کاش! ہر انسان بھی اگر جگنو کی اس بات پہ عمل کرے تو دنیا جنت بن جائے۔ نظم ''پہاڑ اور گلہری'' میں بھی اقبال نے بڑی پتے کی بات کہی ہے کہ کبھی کسی کو حقیر نہ جانو، ہر انسان اور ذی روح کی اپنی اہمیت ہے، پہاڑ کو اپنے اوپر بڑا غرور تھا وہ اکثر ننھی منی گلہری کی توہین کرتا اور اپنی بڑائی جتا کر اس کا مذاق اڑاتا اور کہتا تھا:
تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے
زمین ہے پست مری آن بان کے آگے
جو بات مجھ میں ہے تجھ کو وہ نصیب کہاں
بھلا پہاڑ کہاں، جانور غریب کہاں!
ہر روز کی ہرزہ سرائی سے گلہری کو غصہ آ گیا اور پھر اس نے پہاڑ کو یوں لتاڑا:
کہا یہ سن کے گلہری نے منہ سنبھال ذرا
یہ کچی باتیں ہیں، دل سے انھیں نکال ذرا
ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی بڑا کوئی چھوٹا، یہ اس کی حکمت ہے
جو تو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دکھا مجھ کو
یہ چھالیہ ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
''ایک گائے اور بکری'' میں گائے کا شکوہ انسان سے ہے کہ وہ اس کا دودھ اپنے لیے استعمال کرتا ہے، لیکن بکری دوسرا رخ دیکھتی ہے، وہ گائے کو احساس دلاتی ہے کہ انسان نے تمہارے لیے چراگاہ بنائی ہے، جہاں تمہیں کسی جنگلی جانور کا ڈر نہیں، وہ تمہیں چارہ دیتا ہے، حفاظت کرتا ہے، دراصل اس نظم میں اقبال یہ بتانا چاہتے ہیں کہ انسان کو ہمیشہ زندگی کا روشن پہلو دیکھنا چاہیے، ہمیشہ منفی پہلوئوں کو سامنے نہیں رکھنا چاہیے، کیونکہ منفی سوچ انسان کو بیمار ڈال دیتی ہے، گائے بکری کی بات سن کر سوچتی ہے۔
یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی
''پرندے کی فریاد'' میں آزادی کی اہمیت بتائی ہے، پرندوں کو قید کرنا اور انھیں پنجروں میں بند کرنا بڑا ہی غیر انسانی فعل ہے، پرندوں کی دنیا تو فضا کی وسعتیں ہیں نہ کہ قید تنہائی۔
گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے
دکھے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے
آزاد مجھ کو کردے، او قید کرنے والے
میں بے زباں ہوں قیدی، تو چھوڑ کر دعا لے
اور آخر میں اس نظم کا ضرور ذکر کرنا چاہوں گی جو ہم میں سے اکثریت نے اپنے اپنے اسکولوں میں اسمبلی کے وقت سنی اور پڑھی ہو گی۔ اس کا عنوان ہے ''بچے کی دعا''
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب
ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے، ضعیفوں سے محبت کرنا
کتنے دلنشیں ہیں اس نظم کے بول، کانوں میں گھنٹیاں سی بجنے لگتی ہیں، اپنا اسکول، اساتذہ، سہیلیاں، اسکول کی روش، اس میں کھلے پھول، بہت کچھ نظروں کے سامنے بکھر جاتا ہے، لیکن یہ ماضی کی بات ہے، آج اسکولوں میں علم کی شمع سے محبت کرنا نہیں سکھایا جاتا، بلکہ نقل کے جدید طریقے، اساتذہ اور پرنسپل کو دھمکانے کے طریقے، مال دار باپ کی اولاد اپنے اسکولوں میں اقبال کی یہ نظم نہیں پڑھتیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ جعلی ڈگری کے بل بوتے پر یہاں وزیر اعظم بھی بنا جا سکتا ہے اور ہر عہدہ خریدا جا سکتا ہے!!
''ضرب کلیم'' اور ''بال جبریل'' میں وہ فلسفی اور مفکر نظر آتے ہیں، جب کہ ''بانگ درا'' میں وہ شاعر فطرت ہیں۔ تشبیہات کے حوالے سے اقبال کی بعض نظمیں جیسے ماہ نو، ہمالیہ، بزم انجم، گل رنگیں، تصویر درد، ابر کوہسار، انسان اور بزم قدرت، ابر اور پھول، تشبیہات کی قدرت کے حوالے سے نہایت پرتاثر، سادہ اور منفرد نظمیں ہیں، کمال کی کاری گری نظر آتی ہے ان میں، ایک مثال صرف ''ماہ نو'' کی دیکھیے:
ٹوٹ کر خورشید کی کشتی ہوئی غرقاب نیل
ایک ٹکڑا تیرتا پھرتا ہے روئے آب نیل
چرخ نے بالی چرالی ہے عروس شام کی
نیل کے پانی میں یا مچھلی ہے سیم خام کی
آج بچوں کے ادب سے بے اعتنائی کا شکوہ بار بار کیا جا رہا ہے اور یہ صحیح بھی ہے، بہت کم لوگ اس جانب توجہ دے رہے ہیں، جب کہ ہمارے بڑے بڑے شعراء نے بچوں کے لیے بڑی پیاری پیاری نظمیں اور کہانیاں لکھی ہیں، مولوی اسماعیل میرٹھی کی مشہور نظم ''پن چکی'' کا یہ شعر تو ضرب المثل بن گیا ہے:
نہر پہ چل رہی ہے پن چکی
دھن کی پوری ہے کام کی پکی
اسی طرح صوفی تبسم نے بھی بڑی اچھی نظمیں لکھیں، جیسے ثریا کی گڑیا، بلو کا بستہ اور ٹوٹ بٹوٹ لیکن آج ہمارا موضوع صرف اقبال ہیں، یعنی بچوں کے اقبال، جنھوں نے تقریباً نو نظمیں لکھی ہیں، جن میں سے بیشتر ماخوذ ہیں غالباً انگریزی سے، کیونکہ صرف دو نظموں ''ہمدردی'' اور ''پہاڑ اور گلہری'' میں ولیم کوپر اور ایمرسن کے نام دیے گئے ہیں، بقیہ میں صرف ''ماخوذ'' لکھا گیا ہے، اس مختصر کالم میں ہم اختصار کے ساتھ ہی بات کریں گے۔
سب سے پہلی نظم ہے ''ایک مکڑا اور مکھی'' اس میں جو کہانی بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ایک مکڑا جو کئی دن سے بھوکا تھا، اس کے جال کے پاس سے ایک مکھی کا گزر ہوا، مکڑے نے مکھی کی بہت خوشامد کی کہ وہ کچھ دیر کے لیے اس کے گھر میں مہمان بن کر آئے اور آرام کرے، لیکن مکھی بہت ہوشیار تھی، وہ جانتی تھی کہ مکڑے کے جال میں قدم رکھنے کا مطلب کیا ہے، یعنی وہ اسے بہلا پھسلا کر پھنسانا چاہتا ہے، لہٰذا مکھی نے معذرت کر لی یہ کہہ کر کہ:
اس جال میں مکھی کبھی آنے کی نہیں ہے
جو آپ کی سیڑھی پہ چڑھا پھر نہیں اترا
یہ جواب سن کر مکڑے نے سوچا:
مکڑے نے کہا دل میں، سنی بات جو اس کی
پھانسوں اسے کس طرح یہ کم بخت ہے دانا
سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں
دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندہ
لہٰذا اس نے اب دوسری طرح مکھی کی تعریف شروع کر دی، اس کی آنکھوں کی، سر پہ کلغی کی، اس کی بھنبھناہٹ کی تو مکھی پسیج گئی۔
مکھی نے سنی جب یہ خوشامد تو پسیجی
بولی کہ نہیں آپ سے مجھ کو کوئی کھٹکا
یہ بات کہی اور اڑی اپنی جگہ سے
پاس آئی تو مکڑے نے اچھل کر اسے پکڑا
بھوکا تھا کئی روز سے، اب ہاتھ جو آئی
آرام سے گھر بیٹھ کے مکھی کو اُڑایا
اس نظم میں اقبال بچوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ خوشامد اور جھوٹی تعریف سے چالباز لوگ اپنا کام نکالنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ آج پاکستانی سیاست میں خوشامد اور جھوٹی تعریف ہی جلوہ گر ہے۔ دھوکے بازوں، رشوت خوروں، خائن اور بدکردار لوگوں کی تعریف اس لیے کی جا رہی ہے کہ الیکشن میں کامیابی کے بعد وہ انھیں کوئی بڑا عہدہ دے دیں، تا کہ وہ دونوں ہاتھوں سے ملکی خزانہ لوٹ سکیں، حج اور عمرے کر سکیں اور خود کو تمام تر جعلی کاموں اور کرپشن کے باوجود پاکباز اور ایماندار ظاہر کر سکیں۔
دوسری اہم نظم ہے ''ہمدردی'' اس نظم میں اقبال نے بچوں کو دوسروں کے کام آنے کی تلقین کی ہے اور کہا ہے کہ آدمی تو سب ہی ہوتے ہیں لیکن انسان وہ ہے جو دوسروں کے واسطے زندہ رہے، ہوتا یوں ہے کہ ایک بلبل دن بھر دانہ دنکا چگنے میں مصروف رہا، رات کب سر پہ آئی اسے پتہ ہی نہ چلا، جب چاروں طرف اندھیرا چھا گیا تو پریشانی نے اسے آ گھیرا کہ یا الٰہی اب میں اپنے آشیانے تک کیسے پہنچوں؟ ابھی بلبل آہ و زاری کر ہی رہا تھا کہ کہیں پاس ہی ایک جگنو اس کی آواز سن رہا تھا، اس نے بلبل کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ وہ پریشان نہ ہو۔ اﷲ نے اسے ایک ننھی سی مشعل دی ہے، وہ اس مشعل سے بلبل کو راستہ دکھائے گا تا کہ وہ اپنے آشیانے تک پہنچ سکے، جگنو نے اندھیری رات میں بلبل کے آگے اڑ کر اسے راستہ دکھایا اور اس طرح وہ اپنے گھونسلے تک آرام سے پہنچ گیا، جگنو نے بلبل سے کہا:
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
کاش! ہر انسان بھی اگر جگنو کی اس بات پہ عمل کرے تو دنیا جنت بن جائے۔ نظم ''پہاڑ اور گلہری'' میں بھی اقبال نے بڑی پتے کی بات کہی ہے کہ کبھی کسی کو حقیر نہ جانو، ہر انسان اور ذی روح کی اپنی اہمیت ہے، پہاڑ کو اپنے اوپر بڑا غرور تھا وہ اکثر ننھی منی گلہری کی توہین کرتا اور اپنی بڑائی جتا کر اس کا مذاق اڑاتا اور کہتا تھا:
تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے
زمین ہے پست مری آن بان کے آگے
جو بات مجھ میں ہے تجھ کو وہ نصیب کہاں
بھلا پہاڑ کہاں، جانور غریب کہاں!
ہر روز کی ہرزہ سرائی سے گلہری کو غصہ آ گیا اور پھر اس نے پہاڑ کو یوں لتاڑا:
کہا یہ سن کے گلہری نے منہ سنبھال ذرا
یہ کچی باتیں ہیں، دل سے انھیں نکال ذرا
ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی بڑا کوئی چھوٹا، یہ اس کی حکمت ہے
جو تو بڑا ہے تو مجھ سا ہنر دکھا مجھ کو
یہ چھالیہ ہی ذرا توڑ کر دکھا مجھ کو
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
''ایک گائے اور بکری'' میں گائے کا شکوہ انسان سے ہے کہ وہ اس کا دودھ اپنے لیے استعمال کرتا ہے، لیکن بکری دوسرا رخ دیکھتی ہے، وہ گائے کو احساس دلاتی ہے کہ انسان نے تمہارے لیے چراگاہ بنائی ہے، جہاں تمہیں کسی جنگلی جانور کا ڈر نہیں، وہ تمہیں چارہ دیتا ہے، حفاظت کرتا ہے، دراصل اس نظم میں اقبال یہ بتانا چاہتے ہیں کہ انسان کو ہمیشہ زندگی کا روشن پہلو دیکھنا چاہیے، ہمیشہ منفی پہلوئوں کو سامنے نہیں رکھنا چاہیے، کیونکہ منفی سوچ انسان کو بیمار ڈال دیتی ہے، گائے بکری کی بات سن کر سوچتی ہے۔
یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی
''پرندے کی فریاد'' میں آزادی کی اہمیت بتائی ہے، پرندوں کو قید کرنا اور انھیں پنجروں میں بند کرنا بڑا ہی غیر انسانی فعل ہے، پرندوں کی دنیا تو فضا کی وسعتیں ہیں نہ کہ قید تنہائی۔
گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے
دکھے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے
آزاد مجھ کو کردے، او قید کرنے والے
میں بے زباں ہوں قیدی، تو چھوڑ کر دعا لے
اور آخر میں اس نظم کا ضرور ذکر کرنا چاہوں گی جو ہم میں سے اکثریت نے اپنے اپنے اسکولوں میں اسمبلی کے وقت سنی اور پڑھی ہو گی۔ اس کا عنوان ہے ''بچے کی دعا''
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب
ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے، ضعیفوں سے محبت کرنا
کتنے دلنشیں ہیں اس نظم کے بول، کانوں میں گھنٹیاں سی بجنے لگتی ہیں، اپنا اسکول، اساتذہ، سہیلیاں، اسکول کی روش، اس میں کھلے پھول، بہت کچھ نظروں کے سامنے بکھر جاتا ہے، لیکن یہ ماضی کی بات ہے، آج اسکولوں میں علم کی شمع سے محبت کرنا نہیں سکھایا جاتا، بلکہ نقل کے جدید طریقے، اساتذہ اور پرنسپل کو دھمکانے کے طریقے، مال دار باپ کی اولاد اپنے اسکولوں میں اقبال کی یہ نظم نہیں پڑھتیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ جعلی ڈگری کے بل بوتے پر یہاں وزیر اعظم بھی بنا جا سکتا ہے اور ہر عہدہ خریدا جا سکتا ہے!!