کیمرہ صرف نقش دیکھتا ہے
میڈیا سے تعلق میرا بھی ہے اور آپ کا بھی۔ فرق بس یہ ہے کہ میں کچھ دیر کے لیے لکیر کی دوسری طرف بھی کھڑا ہوجاتا ہوں۔
نام اس کا شاہینہ تھا۔ مجھ سے ایک کلاس جونیئر تھی۔ عام سی شکل و صورت لیکن باتونی، چرب زبان اور پرس گھمانے میں طاق۔ معلوم ہوا کہ پڑھائی میں بھی بس خلیفہ ہے۔ نقل شقل مار کے پہلا سیمسٹر کلیئر کیا تھا کہ اچانک ایک روز ٹی وی پر کپڑے دھونے والے پاؤڈر کے ایک اشتہار میں دکھائی دی۔ یہ بلیک اینڈ وہائٹ ٹی وی کا دور تھا۔ اگلے ہی روز لاہور سے میرے ایڈیٹر کا فون آیا کہ اخبار کو فون کرکے ان سے فوٹوگرافر کا پتہ پوچھو۔
اس کا اسٹوڈیو کہیں طارق روڈ کی پشت پر ہے اور پھر فوراً اس نئی ماڈل کو تلاش کرکے رسالے کے لیے اس کا فوٹو سیشن کراؤ۔ میں نے کہا ''ماڈل کو تو میں جانتا ہوں لیکن وہ تو سانولے رنگ کی ہے اور اس کی آواز بھی بھدی ہے''۔ ایڈیٹر نے کہا ''رنگت کو ماروگولی۔ کیمرہ نقش دیکھتا ہے، رنگت اور آواز نہیں''۔
جی ہاں۔۔۔۔ ''کیمرہ صرف نقش دیکھتا ہے''۔ یہ بات آج تک میرا پیچھا کر رہی ہے۔ ٹی وی کا صرف ایک پودا بڑھتے بڑھتے پورا جنگل بن گیا ہے۔ ایک گھنا جنگل، جس میں دھوپ بھی چھن چھن کے اور اس سے پوچھ کے رستہ بناتی ہے۔ طاقت ایسی کہ بڑے سے بڑا سورما بھی ٹکرا کے پاش پاش ہوجائے اور زعم ایسا کہ جیسے دنیا میں کوئی کام اب اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہوگا۔
میڈیا سے تعلق میرا بھی ہے اور آپ کا بھی۔ فرق بس یہ ہے کہ میں کچھ دیر کے لیے لکیر کی دوسری طرف بھی کھڑا ہوجاتا ہوں۔ لکیر کے اس طرف میں جو کچھ دیکھتا اور محسوس کرتا ہوں وہی آج لکھنا چاہتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ وہ نہیں ہے جو دکھائی دیتا ہے۔ یہ صرف کسی دوشیزہ کی رنگت اور آواز کی بات نہیں ہے بلکہ طاقت کا معاملہ ہے۔ ہوسکتا ہے تھوڑا عرصہ اور گزرے تو یہ طاقت بڑھتے بڑھتے اتنی ہوجائے کہ ملک کی تقدیر بدلنے کا ٹھیکہ اسے مل جائے۔ فی الحال ایسا نہیں ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ میڈیا کا یہ سارا ہنگامہ صرف شہری علاقوں تک محدود ہے۔
آپ اس میں پرنٹ اور سوشل میڈیا کو بھی شامل کرلیں تو اس کا دائرہ اور بھی محدود ہوجاتا ہے۔ پی ٹی وی کے سوا تمام ٹی وی چینل کیبل کے ذریعے چلتے ہیں اور ان کے چلائے ہوئے تیر بس تھوڑی ہی دور تک مار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں ان کے اس حد تک موثر ہونے سے منکر ہوں جتنا عمومی طور پر سمجھا جاتا ہے۔اس کی ایک واضح مثال اس وقت دکھائی دی تھی جب جمشید دستی نے گزشتہ اسمبلی کا الیکشن دوسری بار جیتا تھا۔ جعلی ڈگری کیس میں جمشید دستی کی سیٹ چھن گئی تھی۔ اس نے دوبارہ الیکشن لڑنے کا اعلان کیا تو میڈیا نے ایک طوفان برپا کردیا تھا۔
تمام کے تمام نجی چینل گھنٹوں اس کا مذاق اڑاتے، گانے، ٹھٹھے، لطیفے اور کارٹون۔ کئی روز تک ایسا ہوتا رہا اور جونہی الیکشن نزدیک آیا اس منفی پروپیگنڈے میں اور بھی شدت آگئی۔ یوں لگتا تھا کہ دستی بری طرح ہار جائے گا اور اس کی ضمانت ضبط ہوجائے گی۔ صوبائی حکومت اور سوشل میڈیا بھی اس کے خلاف تھا لیکن وہ جیت گیا اور دوبارہ قومی اسمبلی میں پہنچ گیا۔ مجھے یاد ہے کہ تب ٹی وی کے چہرے پر ایک کھسیانی سی شکست چھائی ہوئی تھی۔ اس وقت چند اینکرز کو دھیمے لہجے میں یہ اعتراف کرتے ہوئے بھی سنا گیا کہ لگتا ہے ہماری بات کوئی نہیں سنتا۔
دوسری مثال بوڑھے جرنیل پرویز مشرف کی ہے۔ 1999 میں مارشل لاء لگانے کے بعد ان کا ایک پسندیدہ سوال یہ تھا کہ ''مجھے دھکا کس نے دیا تھا؟'' اب واپس لوٹ کے پھنسنے کے بعد پھر یہی سوال پیدا ہوگیا ہے۔ آئیے! میں اس کا جواب دیتا ہوں۔ انھیں سوشل میڈیا نے دھکا دیا ہے۔ یہ دھکا فیس بک پر موجود ان آٹھ لاکھ افراد نے دیا ہے جنھوں نے انھیں Like کیا تھا۔ ''لائیک'' کرنا ایک ایسی اصطلاح ہے جو صرف پسند کرنے والوں کے لیے استعمال نہیں ہوتی بلکہ جو لوگ بھی کسی شخص کا پروفائل دیکھنا چاہتے ہیں انھیں ''لائیک'' کا بٹن دبانا پڑتا ہے، خواہ وہ اس سے نفرت ہی کرتے ہوں۔
جنرل صاحب اسی چیز کو اپنی مقبولیت کا ثبوت سمجھتے ہیں اور بارہا اس کا ذکر بھی کرتے ہیں، حالانکہ آٹھ لاکھ کی تعداد تو ایک بہت ہی معمولی تعداد ہے۔ صدر اوباما کو دو کروڑ اسی لاکھ افراد ''لائیک'' کرچکے ہیں۔ باقی رہی بات ان کی ذہنی کیفیت کی جس میں وہ خود کو میڈیا کی ایک مقبول شخصیت سمجھ کے امید کرتے رہے کہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا ہجوم انھیں خوش آمدید کہے گا تو اس پر بات ہوتی ہی رہتی ہے۔
اسی طرح مجھے ان صاحب کا مستقبل بھی مشکوک دکھائی دے رہا ہے جن کی سیاسی جماعت صرف راولپنڈی کے ایک حلقے میں اور ٹی وی کے چینلوں میں موجود ہے۔ ٹی وی پر ان کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ہر چینل ان کے ساتھ پروگرام کرنے کو ترستا ہے۔ وہ بڑے نخرے سے انھیں وقت دیتے ہیں اور یہ شرط لگاتے ہیں کہ ان کے ساتھ کسی اور مہمان کو نہیں بلایا جائے گا۔ سبھی کو یہ شرط ماننا پڑتی ہے کیونکہ جس چینل پر وہ موجود ہیں اس روز اس کی ریٹنگ آسمان پر ہوتی ہے۔ الیکشن میں پی ٹی آئی بھی انھیں سپورٹ کر رہی ہے۔ لیکن کیا وہ جیت جائیں گے؟ اس کا جواب تو گیارہ مئی کو ہی مل سکے گا۔
اسی طرح تحریک انصاف کی دھواں دھار اٹھان بھی میڈیا اور سوشل میڈیا کی مرہون منت ہے۔ عمران خان ایک کرشماتی کردار ہے اور پوری دنیا کے میڈیا میں مقبول ہے۔ کسی سیاسی رہنما کو میڈیا پر اتنی پذیرائی نہیں ملی جتنی انھیں ملی ہے۔ وہ خود بھی ایک متحرک آدمی ہیں اس لیے میڈیا پر دکھائی دینے کا گر جانتے ہیں۔ سوشل میڈیا میں بھی ان کے پرستاروں نے ایک ہنگامہ برپا کیا ہوا ہے لیکن ان میں سے بہت سے نوجوانوں کی سوچ مثبت نہیں ہے۔
جس طرح ان کی ٹی وی پبلسٹی اعلیٰ درجے کی نہیں ہے اسی طرح سوشل میڈیا پر بھی تقریباً تمام پیغامات اداروں کی کردار کشی پر مبنی ہوتے ہیں۔آپ اسی سے اندازہ لگالیں کہ ان میں اکثریت ان تصاویر پر مشتمل ہوتی ہے جن میں پلید جانوروں پر انسانی چہرے چسپاں کیے جاتے ہیں۔ ان کے مخالفین بھی فرشتے نہیں ہیں لیکن وہ اس حد تک نہیں جاتے۔
سوال یہ ہے کہ میڈیا پر ایسی بے مثال اجارہ داری کا انتخابی نتیجہ کیا نکلے گا؟ میرا خیال ہے کہ وہ نہیں جو کیمرہ دکھا رہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی سے کہیں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی اور عمومی توقعات کے برعکس اس دوڑ میں دوسرا نمبر حاصل کرلے گی حالانکہ کیمرے کو نہ تو اس کے نقوش اچھے لگتے ہیں، نہ رنگت اور نہ ہی آواز۔