مشرف کی واپسی اور گرفتاری
آج تک صرف جنرل مشرف کے دوسرے پی سی او کے خلاف ایک فیصلہ آیا مگر اس پی سی او کا نفاذ اکیلے جنرل مشرف کے بس میں نہیں تھا
سابق آرمی چیف اور صدر جنرل پرویز مشرف کی وطن واپسی اور اب ان کی گرفتاری پر دو طرح کی آرا سامنے آئی ہیں۔
ایک یہ کہ ان کو بعض عالمی طاقتوں نے یقین دہانیاں کرائی ہیں۔ اور پکڑ دھکڑ کے کھیل میں آخر کار ان کو پاک صاف قرار دے دیا جائے گا۔ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اب وہ شکنجے میں کس دیئے گئے ہیں، ان کو مصری صدر حسنی مبارک کی طرح لوہے کے پنجرے میں ڈال کر عدالتوں میں پیش کیا جائے گا اور بہت جلد غداری، قتل و غارت جیسے مقدمات میں سزا سنا دی جائے گی جس پر فوری عمل بھی ہو جائے گا۔ اس رائے کے پیچھے ایک سازشی نظریہ بھی ہے، وہ یہ کہ امریکا نے پہلے ایک کھیل ترکی میں کھیلا اور وہاں کی فوج کو نکیل ڈالنے کے عمل کا آغاز کیا اور پھر یہ عمل مصر میں دہرایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بھی ایسا عمل دہرانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔
پاکستان میں عام طور پر یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ کسی سابق آرمی چیف کو گرفتار کیا جا سکے لیکن اب یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جنرل اسلم بیگ نے سپریم کورٹ کے پورے بنچ سے کہا تھا کہ وہ عدالت کا بائیکاٹ کر کے باہر سے جا رہے ہیں اور جو فیصلہ کیا جائے، انھیں گھر پر بتا دیا جائے، ابھی دور کی بات نہیں، سابق فوجیوں کی ایسوسی ایشن کے صدر جنرل فیض علی چشتی جو ضیاء مارشل لا کی اصل قوت تھے، یہ کہہ چکے ہیں کہ جس میں ہمت ہے، ان کے خلاف آئین توڑنے ، منتخب حکومت کا تختہ الٹنے اور غداری کے الزام میں مقدمہ چلا کر دکھائے۔
اصغر خان کیس کی سماعت تو دھوم دھام سے شروع ہو ئی مگر پھر یہ جھاگ جلد ہی بیٹھ گئی، کیوں، اس کی وجہ کا پتہ نہیں چل سکا، نہ کسی نے پیسے تقسیم کرنے والوں سے باز پرس کی اور نہ کسی نے پیسے لینے والوں سے کوئی تعرض کیا۔ لوگوں کے ذہن میں ریمنڈ ڈیوس کا کیس بھی ہے، اس شخص کو جیل سے رہا کروا کر امریکا بھجوا دیا گیا، اب ایک کتاب میں اس کا سارا کچا چٹھہ کھول دیا گیا ہے، مگر ہمارے ہاں باز پرس کا عمل شروع نہیں ہوا۔
ایبٹ آباد کا سانحہ سنگین نوعیت کا تھا، اس پر تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنا، مگر اس نے کیا پتہ چلایا۔ کسی کو علم نہیں ہو سکا، 1971ء میں ملک ٹوٹا، فوج کو سرنڈر کرنا پڑا، اس کی تحقیقات جسٹس حمود الرحمٰن کمیشن نے کیں مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ اب مشرف کو غداری اور قتل کے جن الزامات کا سامنا ہے، ان کی سماعت تو شروع ہو جائے گی لیکن یہ ثابت کرنا مشکل ہو جائے گا کہ مارشل لا یا ایمرجنسی کا نفاذ فرد واحد کا جرم بنتا ہے یا کچھ اورہے۔پھر ملک کی سپریم عدالت نے اس اقدام کاجواز بھی فراہم کر دیا جیسا کہ جنرل ضیاء، جنرل یحیٰ اور جنرل ایوب کے مارشل لا کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیا گیا تھا۔
آج تک صرف جنرل مشرف کے دوسرے پی سی او کے خلاف ایک فیصلہ آیا مگر اس پی سی او کا نفاذ اکیلے جنرل مشرف کے بس میں نہیں تھا۔ لال مسجد اور اکبر بگٹی کے خلاف آپریشن بھی اکیلے جنرل مشرف کے بس کی بات نہیں۔ اس میں حکومت بھی شامل تھی۔ یہ مقدمات چلنے ہیں تو تفتیش، جرح اور سزا کا دائرہ بے حد وسیع کرنا پڑے گا۔ آج تک دنیا کی کسی قوم نے اس قدر بڑے مقدمے میں ہاتھ نہیں ڈالا، ہم ڈالنا چاہتے ہیں تو یہ ہماری مرضی ہے۔
عدلیہ کا کہنا ہے کہ پنڈورا بکس کھلتا ہے تو کھلنے دو، آسمان ٹوٹ پڑے یا زمین شق ہو جائے، وہ ہر حالت میں انصاف کریں گے، ظاہر ہے انصاف کے عمل کی کون مخالفت کر سکتا ہے۔ موجودہ نظام میں صرف جنرل مشرف کو سزا کا مستوجب قرار دینا مشکل ہو جائے گا۔ اور ان کے ساتھ باقی فوج کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تو ملکی سلامتی دائو پر لگ جائے گی کیونکہ ایک ادارہ تتر بتر ہو گیا تو ہماری تھانوں کی پولیس نہ دہشت گردی سے نمٹ سکتی ہے، نہ امریکی اور ناٹو افواج سے اور نہ بھارتی جارحیت سے نبرد آزما ہونا ا س کے لیے ممکن ہو گا۔
ہاں، اگر امریکا یہ ضمانت دے دے کہ مشرف اور اس کے ساتھیوں کی سرزنش کے دوران پاکستان کو کسی بیرونی جارحیت کا خطرہ لاحق نہیں ہو گا اور اگر ہوا تو جس طرح تیونس، لیبیا اور شام میں ناٹو کی افواج مدد کر رہی ہیں، اسی طرح پاکستانیوں کو بھی ناٹو کی طرف سے فوجی چھاتہ فراہم کیا جائے گا تو پھر مشرف چھوڑ، یحییٰ، ضیا اور ایوب کو بھی قبروں سے نکال کر پھانسی دینے کا شوق پورا کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے دشمن کسی نہ کسی طرح پاک فوج کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔
اب یہ ہمارا فیصلہ ہے کہ ہم اس کے مددگار بننا چاہتے ہیں یا نہیں۔ فوج نے پانچ سال سے اچھا بچہ بن کر دکھایا ہے تو پھر اس پہلو کو بھی مد نظر رکھا جانا چاہیے۔ پاکستان میں بعض افراد فوج پر تنقید کرنا فیشن سمجھتے ہیں حالانکہ دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔میں یہاں برطانیہ کی مثال دینا چاہوں گا جہاں ایک اخبار کی ویب سائٹ پر مارگریٹ تھیچر کے خلاف پچھلے دنوں دشنام طرازی کی حد کر دی گئی۔ برطانیہ سے زیادہ تو دنیا میں کہیں بھی آزادی اظہار کی ضمانت نہیں، مگر متعلقہ اخبار نے نہ صرف دشنام طرازی کا سلسہ بند کر دیا بلکہ اس کا سارا ریکارڈ بھی حذف کر دیا، یہ وہ برطانیہ ہے جو آزادی اظہار کا علمبردار ہے لیکن ایک ستاسی سالہ متنازعہ سابق وزیر اعظم کی موت پر اس کے خلاف گالم گلوچ کو گوارا نہیں کر سکا۔
ایک ہم ہیں کہ کبھی مشرف کے حامی وکیل احمد رضا قصوری کا منہ کالا کر دیتے ہیں، کبھی انتہائی شریف النفس انسان وسیم سجاد کی میز سے چائے کی پیالی اٹھا لیتے ہیں اور کبھی مشرف کے حامیوں پر کرسیاں چلاتے ہیں۔ میں یہاں وہ ریمارکس نہیں دہرا سکتا جو بعض عناصر آج بھی بھٹو اور ان کی بیٹی محترمہ بینظیر کے خلاف دیتے ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ ہم اپنی پسند اور ناپسند کا نظام اور انصاف چاہتے ہیں، مگر دنیا اسے انتقامی اور جنونی جذبے کا نام دیتی ہے۔ انتقام اور جنون کی اس آگ کو بجھانے میں ہم کہاں تک جا سکتے ہیں، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔
ایک یہ کہ ان کو بعض عالمی طاقتوں نے یقین دہانیاں کرائی ہیں۔ اور پکڑ دھکڑ کے کھیل میں آخر کار ان کو پاک صاف قرار دے دیا جائے گا۔ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اب وہ شکنجے میں کس دیئے گئے ہیں، ان کو مصری صدر حسنی مبارک کی طرح لوہے کے پنجرے میں ڈال کر عدالتوں میں پیش کیا جائے گا اور بہت جلد غداری، قتل و غارت جیسے مقدمات میں سزا سنا دی جائے گی جس پر فوری عمل بھی ہو جائے گا۔ اس رائے کے پیچھے ایک سازشی نظریہ بھی ہے، وہ یہ کہ امریکا نے پہلے ایک کھیل ترکی میں کھیلا اور وہاں کی فوج کو نکیل ڈالنے کے عمل کا آغاز کیا اور پھر یہ عمل مصر میں دہرایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بھی ایسا عمل دہرانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔
پاکستان میں عام طور پر یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ کسی سابق آرمی چیف کو گرفتار کیا جا سکے لیکن اب یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جنرل اسلم بیگ نے سپریم کورٹ کے پورے بنچ سے کہا تھا کہ وہ عدالت کا بائیکاٹ کر کے باہر سے جا رہے ہیں اور جو فیصلہ کیا جائے، انھیں گھر پر بتا دیا جائے، ابھی دور کی بات نہیں، سابق فوجیوں کی ایسوسی ایشن کے صدر جنرل فیض علی چشتی جو ضیاء مارشل لا کی اصل قوت تھے، یہ کہہ چکے ہیں کہ جس میں ہمت ہے، ان کے خلاف آئین توڑنے ، منتخب حکومت کا تختہ الٹنے اور غداری کے الزام میں مقدمہ چلا کر دکھائے۔
اصغر خان کیس کی سماعت تو دھوم دھام سے شروع ہو ئی مگر پھر یہ جھاگ جلد ہی بیٹھ گئی، کیوں، اس کی وجہ کا پتہ نہیں چل سکا، نہ کسی نے پیسے تقسیم کرنے والوں سے باز پرس کی اور نہ کسی نے پیسے لینے والوں سے کوئی تعرض کیا۔ لوگوں کے ذہن میں ریمنڈ ڈیوس کا کیس بھی ہے، اس شخص کو جیل سے رہا کروا کر امریکا بھجوا دیا گیا، اب ایک کتاب میں اس کا سارا کچا چٹھہ کھول دیا گیا ہے، مگر ہمارے ہاں باز پرس کا عمل شروع نہیں ہوا۔
ایبٹ آباد کا سانحہ سنگین نوعیت کا تھا، اس پر تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنا، مگر اس نے کیا پتہ چلایا۔ کسی کو علم نہیں ہو سکا، 1971ء میں ملک ٹوٹا، فوج کو سرنڈر کرنا پڑا، اس کی تحقیقات جسٹس حمود الرحمٰن کمیشن نے کیں مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ اب مشرف کو غداری اور قتل کے جن الزامات کا سامنا ہے، ان کی سماعت تو شروع ہو جائے گی لیکن یہ ثابت کرنا مشکل ہو جائے گا کہ مارشل لا یا ایمرجنسی کا نفاذ فرد واحد کا جرم بنتا ہے یا کچھ اورہے۔پھر ملک کی سپریم عدالت نے اس اقدام کاجواز بھی فراہم کر دیا جیسا کہ جنرل ضیاء، جنرل یحیٰ اور جنرل ایوب کے مارشل لا کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیا گیا تھا۔
آج تک صرف جنرل مشرف کے دوسرے پی سی او کے خلاف ایک فیصلہ آیا مگر اس پی سی او کا نفاذ اکیلے جنرل مشرف کے بس میں نہیں تھا۔ لال مسجد اور اکبر بگٹی کے خلاف آپریشن بھی اکیلے جنرل مشرف کے بس کی بات نہیں۔ اس میں حکومت بھی شامل تھی۔ یہ مقدمات چلنے ہیں تو تفتیش، جرح اور سزا کا دائرہ بے حد وسیع کرنا پڑے گا۔ آج تک دنیا کی کسی قوم نے اس قدر بڑے مقدمے میں ہاتھ نہیں ڈالا، ہم ڈالنا چاہتے ہیں تو یہ ہماری مرضی ہے۔
عدلیہ کا کہنا ہے کہ پنڈورا بکس کھلتا ہے تو کھلنے دو، آسمان ٹوٹ پڑے یا زمین شق ہو جائے، وہ ہر حالت میں انصاف کریں گے، ظاہر ہے انصاف کے عمل کی کون مخالفت کر سکتا ہے۔ موجودہ نظام میں صرف جنرل مشرف کو سزا کا مستوجب قرار دینا مشکل ہو جائے گا۔ اور ان کے ساتھ باقی فوج کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تو ملکی سلامتی دائو پر لگ جائے گی کیونکہ ایک ادارہ تتر بتر ہو گیا تو ہماری تھانوں کی پولیس نہ دہشت گردی سے نمٹ سکتی ہے، نہ امریکی اور ناٹو افواج سے اور نہ بھارتی جارحیت سے نبرد آزما ہونا ا س کے لیے ممکن ہو گا۔
ہاں، اگر امریکا یہ ضمانت دے دے کہ مشرف اور اس کے ساتھیوں کی سرزنش کے دوران پاکستان کو کسی بیرونی جارحیت کا خطرہ لاحق نہیں ہو گا اور اگر ہوا تو جس طرح تیونس، لیبیا اور شام میں ناٹو کی افواج مدد کر رہی ہیں، اسی طرح پاکستانیوں کو بھی ناٹو کی طرف سے فوجی چھاتہ فراہم کیا جائے گا تو پھر مشرف چھوڑ، یحییٰ، ضیا اور ایوب کو بھی قبروں سے نکال کر پھانسی دینے کا شوق پورا کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے دشمن کسی نہ کسی طرح پاک فوج کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔
اب یہ ہمارا فیصلہ ہے کہ ہم اس کے مددگار بننا چاہتے ہیں یا نہیں۔ فوج نے پانچ سال سے اچھا بچہ بن کر دکھایا ہے تو پھر اس پہلو کو بھی مد نظر رکھا جانا چاہیے۔ پاکستان میں بعض افراد فوج پر تنقید کرنا فیشن سمجھتے ہیں حالانکہ دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔میں یہاں برطانیہ کی مثال دینا چاہوں گا جہاں ایک اخبار کی ویب سائٹ پر مارگریٹ تھیچر کے خلاف پچھلے دنوں دشنام طرازی کی حد کر دی گئی۔ برطانیہ سے زیادہ تو دنیا میں کہیں بھی آزادی اظہار کی ضمانت نہیں، مگر متعلقہ اخبار نے نہ صرف دشنام طرازی کا سلسہ بند کر دیا بلکہ اس کا سارا ریکارڈ بھی حذف کر دیا، یہ وہ برطانیہ ہے جو آزادی اظہار کا علمبردار ہے لیکن ایک ستاسی سالہ متنازعہ سابق وزیر اعظم کی موت پر اس کے خلاف گالم گلوچ کو گوارا نہیں کر سکا۔
ایک ہم ہیں کہ کبھی مشرف کے حامی وکیل احمد رضا قصوری کا منہ کالا کر دیتے ہیں، کبھی انتہائی شریف النفس انسان وسیم سجاد کی میز سے چائے کی پیالی اٹھا لیتے ہیں اور کبھی مشرف کے حامیوں پر کرسیاں چلاتے ہیں۔ میں یہاں وہ ریمارکس نہیں دہرا سکتا جو بعض عناصر آج بھی بھٹو اور ان کی بیٹی محترمہ بینظیر کے خلاف دیتے ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ ہم اپنی پسند اور ناپسند کا نظام اور انصاف چاہتے ہیں، مگر دنیا اسے انتقامی اور جنونی جذبے کا نام دیتی ہے۔ انتقام اور جنون کی اس آگ کو بجھانے میں ہم کہاں تک جا سکتے ہیں، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔