اندھے گونگے اور بہرے

جن باتوں پر ہم دوسروں کو برا بھلا کہتے تھکتے نہیں وہی باتیں ہم بڑے اعتماد اور یقین کے ساتھ خود کو حق بجانب سمجھتے۔۔۔


Moosa Raza Afandi April 21, 2013
[email protected]

یہ ایک اچھی بات ہے کہ میر ا آج کا کالم کسی اخباری خبر کی بنیاد پر نہیں لکھا جا رہا۔ اخباری خبروں پر کالم لکھنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایک خاص خبر کے مختلف زاویوں اور اثرات کا جائزہ پڑھنے والوں کے سامنے پیش کردیا جائے جسے اخبار تک نے درخور اعِتنا نہیں سمجھا۔ پولیس کے ان تفتیش کاروں نے نہیں سمجھا جن کا یہ فرض منصبی ہوتا ہے۔ وقوعہ کے گواہوں اور اردگرد موجود لوگوں نے ایک گھنائونے اور ہولناک واقعے پر کوئی خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ یہ سب باتیں ہماری بے حسی ظاہر کرتی ہیں اور اُس پستی کی عمیق گہرائی کو واشگاف انداز میں نشاندہی کرتی ہیں جس تک ہم بحیثیت ایک معاشرہ گِر چکے ہیں۔

پچھلے دنوں جن انہونے واقعات کا ذکر میں نے اپنے کالموں میں کیا تھا ان کا تعلق ہماری اس بے حسی سے ہے جسے اندھے گونگے اور بہرے پن کا مجموعہ کہا جاسکتا ہے جب فرمایا گیا کہ ان کے کان ہیں لیکن وہ سنتے نہیں۔ ان کی آنکھیں ہیں لیکن وہ دیکھتے نہیں اور ہم نے ان واقعات کے چشم دید گواہوں کا ردعمل دیکھنے کے بعد محسوس کیا ہے کہ بعض لوگ بہت زیادہ بک بک کرنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود مصلحتاً گونگے بن جاتے ہیں۔

مجھے معلوم ہے کہ لوگ جان کی امان پانے اپنی اور اپنے گھر والوں کی حفاظت چاہنے، آسودہ حال زندگی کو جاری وساری رکھنے، خداوند کریم کی عطا کردہ بے شمار نعمتوں کا بغیر شکر ادا کیے تسلسل برقرار رکھنے اپنے کروفر کے عطا کردہ اطمینان اور سکون کی لذتوں سے روشناس رہنے کے لیے اور اسی طرح اور بہت ساری چیزوں کو مستقلاً زیر استعمال رکھنے کے لیے آدمی جان بوجھ کر اندھا بہرا اور گونگا بن جاتا ہے۔ کس قدر آسانی سے ہم بھول جاتے ہیں کہ زندگی میں ایسے واقعات ہمارے ساتھ بھی پیش آسکتے ہیں جن کا تماشا کرنے والے بھی اندھا بہرا اور گونگا بننے میں ہی عافیت سمجھیں گے اس وقت شاید وہ لوگ بھی حق پر ہی ہوں کیونکہ اگر ہم اندھا بہرا اور گونگا بننے میں حق بجانب ہوسکتے ہیں تو اس قسم کی صورت حال میں وہ بھی بہرحال حق پر نہیں ہوں گے۔

اس صورت حال میں ہم جس کرب اور مصیبت کا شکار ہوتے ہیں وہ کچھ ہمیں جانتے ہیں لیکن بڑی آسانی کے ساتھ یہی کرب و مصیبت جب دوسروں پر نازل ہورہا ہوتاہے تو ہم کچھ نہیں کرتے۔ جب ہم پر نازل ہوتا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ لوگ کچھ نہیں کرتے۔ اسی بات کو گمان کے پیچھے بھاگنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ہمارے گمان ہمیں اپنے پیچھے بھگاتے رہتے ہیں جب کہ گمانوں کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔

اسی بات کو اگر آپ اپنے گھروں کے اندر دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ جن باتوں پر ہم دوسروں کو برا بھلا کہتے تھکتے نہیں وہی باتیں ہم بڑے اعتماد اور یقین کے ساتھ خود کو حق بجانب سمجھتے ہوئے کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً آپ بیٹے کی شادی کرتے ہیں ۔ بہو گھر لاتے ہیں بیٹا اگر بیوی کی طرف متوجہ رہتا ہے تو یہ ایک اچھی بات ہے اور یہی شادی بیاہ کے پیچھے بے شمار اور جائز وجوہات میں سے ایک وجہ بھی ہے لیکن آپ کو چونکہ بیٹا ہاتھوں سے کھسکتا ہوا محسوس ہوتا ہے اس لیے آپ کو اپنے بیٹے کا اپنی بیوی کی طرف التفات پسند نہیں آتا۔ اس ایک ناجائز بنیاد پر آپ کے گھر کے اندر فی سبیل اﷲ فساد کی بنیاد پڑ جاتی ہے اور بغیر کسی باقاعدہ وجہ کے آپ کا گھر جہنم بن جاتا ہے اور آپ یا ہم اصحاب النار بن جاتے ہیں۔

جس بات کا حق خداوند تعالیٰ نے آپ کے فرزند ارجمند کو عطا کیا ہے اُس حق کے استعمال سے آپ کا سیخ پا ہونا خداوند تعالیٰ کی تقسیم حقوق کے قانون کا مذاق نہیں تو اور کیا ہے لیکن آپ اپنی مرضی سے اندھے بہرے اور گونگے بننے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔

اسی سلسلے کی دوسری کڑی یعنی جب آپ کی صاحب زادی کا کسی پرائی ماں کے بیٹے کے ساتھ عقد ہوتا ہے تو آپ اپنے داماد کو جلد از جلد یتیم کرنے کی جدوجہد میں اس قدر سرعت اور لگن کے ساتھ بے چین رہتے ہیں جیسے آپ بیسویں صدی کے اندر ہی رہ گئے ہوں اور اکیسیویں صدی کی گاڑی آپ سے چھوٹ گئی ہو جب آپ کی صاحب زادی اپنے شوہر کی اپنے لیے محبت کے قصے لہک لہک کر سناتی ہے تو آپ اپنے اندازوں کو مانپنا شروع کردیتے ہیں تا کہ آپ کو صحیح صحیح پتہ چل سکے کہ آپ کی صاحب زادی کی محبت میں شکار ہونے والا اپنے والدین کو کتنا پیچھے چھوڑ چکا ہے اور اس کو منزل یعنی ماں باپ سے مکمل جدائی موت یا زندگی دونوں حالتوں میں کتنی دور ہے؟

ایک صورت میں آپ کسی اور کی بیٹی کے لیے اندھا بہرا اور گونگا بننے میں عافیت محسوس کرتے ہیں اور دوسری صورت میں کسی کے بیٹے کے لیے اندھا بہرا اور گونگا بننا پسند کرتے ہیں۔ ہمارے گمان ہمیں کہاں کہاں ذلیل کراتے ہیں اس کا اندازہ ہمیں نہیں ہوتا۔ گمان اس لیے ذلیل کراتے ہیں کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔

صرف یہی نہیں ہے بلکہ اگر ذرا سا غور و فکر کرکے دیکھا جائے آنکھیں بھی دو طرح کی ہوتی ہیں ظاہر اور باطن کان بھی دو طرح کے ہوتے ہیں ظاہر اور باطن زبان بھی دو طرح کی ہوتی ہے ظاہر اور باطن۔ ہمارے دین کے اندر اہمیت دونوں طرح کی ہے۔ میرے نماز، روزے، زکوٰۃ، حج عمرہ کا جس قدر ظاہر سے تعلق ہے اس سے کہیں زیادہ باطن سے ہے۔ نماز میں بغیر خضوع وخشوع سے پڑھونگا تو صرف اٹھک بیٹھک رہ جائے گی۔ روزہ بغیر خوف خدا کے فاقہ بن جائے گا۔ زکوٰۃ بغیر خلوص کے ریاکاری بن جائے گی۔ حج بغیر طیب و طاہر رزق کے محض ایک تکلیف دہ سفر رہ جائے گا۔

کیونکہ اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہوتا ہے جب تک نیت راسخ اور اور پاکیزہ نہ ہو ظاہری عبادات بے اثر رہتی ہیں، نہ اس دنیا کے اندر کام آسکتی ہیں اور نہ آخرت ہی کے اندر۔ یہی باتیں ہمیں اپنے آپ سے دور کر رہی ہیں اپنے لوگوں سے دور کررہی ہیں اپنے خاندانوں سے دُور کر رہی ہیں اور ہر اس چیز اور بات سے دور کررہی ہیں جس کا تعلق اٹل حقیقتوں سے ہے جب کہ ہم اپنے گمانوں کے پیچھے بھاگنے کے باعث ان حقیقتوں کا دن رات دم بھرنے کے باوجود اندھے بہرے اور گونگے بنے بیٹھے ہیں۔

خدا ہمار حامی و ناصر ہو۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں