خون میں رنگے انتخابات

مختلف ممالک میں ہونے والے الیکشن، جو بڑے پیمانے پر تصادم اور خوں ریزی کا باعث بن گئے

فوٹو : فائل

RAWALPINDI:
کسی بھی ملک میں جمہوری حکومت کا قیام اور اس کے لیے انتخابات کا انعقاد ایک خوش آئند امر ہوتا ہے وہ معاشرے جہاں یہ عمل تسلسل سے انجام دیا جاتا ہے عموماً ان ممالک میں انتخابات کی گہماگہمی رائے شماری تک محدود رہتی ہے۔

تاہم وہ معاشرے یا ممالک جہاں تعلیم کی کمی اور برداشت کا فقدان ہوتا ہے، وہاں انتخابات امن وامان کا مسئلہ بھی پیدا کردیتے ہیں۔ اگر ہم اس حوالے سے ان خونیں انتخابات پر نظر ڈالیں تو واضح ہوتا ہے اس قسم کے ان میں ہونے والے جھگڑے اور خوں ریزی کے واقعات نہ صرف بھاری مالی نقصان کا باعث بنے ہیں بل کہ قیمتی جانیں بھی لڑائی جھگڑے کے باعث ضائع ہوئی ہیں۔ اس تناظر میں ذیل میں دیے گئے دنیا کے مختلف ممالک میں ہونے والے انتخابی واقعات توجہ کے حامل ہیں، جو انسانی جانوں کے ضیاع کے اعتبار سے یاد رکھے جاتے ہیں۔

٭کینیا، 2007 کے انتخابات:
براعظم افریقہ کے اس انتہائی اہم ملک کی بدقسمتی ہے کہ اس ملک کے عوام قومیتوں، نسلی تعصب اور زات برادری کی سیاست کی لعنت میں مبتلا ہے یہاں پر جمہوری عمل دراصل ایک نسل یا قبیلے کا دوسری نسل یا قبیلے پر تسلط کا دوسرا نام ہے۔ چناں چہ کینیا میں انتخابی عمل ہمیشہ خوں ریزی اور تصادم سے عبارت نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کینیا کے موجودہ صدرMwai Kibakiکے انتخاب کے لیے 27دسمبر2007کو ہونے والی پُرتشدد پولنگ کے دوران لگ بھگ پندرہ سو افراد لقمۂ اجل بنے

واضح رہے کہ اس الیکشن میں کثیر تعداد میں صدارتی امیدواروں نے حصہ لیا تھا، چوں کہ ''موائی کیبانے'' دوسری مرتبہ صدارتی انتخاب کے لیے حصہ لے رہے تھے اور وہ انتخابات سے قبل کینیا کے صدر بھی تھے، لہٰذا الیکشن کے نتائج ان کے حق میں آنے کے بعد مخالفین نے انتخابات میں دھاندلی اور انتظامیہ کی جانب سے صدر موائی کیبانے کی حمایت کا الزام لگاتے ہوئے شدید ہنگامہ آرائی شروع کردی، جو دیکھتے ہی دیکھتے نسلی تناؤ اور خوں ریزی میں بدل گئی۔ بدامنی اور پرتشدد کارروائیوں کے سب سے زیادہ واقعات کینیا کے جنوبی حصے میں پیش آئے تھے۔



تاہم ان ہنگاموں اور احتجاج کے باوجود جن میں پندرہ سو سے زاید انسانی جانیں موت کے گھاٹ اتار دی گئیں۔ صدر موائی کیبانے بطور صدر دوسری مدت کے لیے منتخب ہوگئے۔ بعدازاں ان کے قریبی حریف ''اورنج ڈیموکریٹک موومنٹ'' کے چیئرمین ''رائیلا ادینگو '' بھی امن معاہدے کے تحت وزیراعظم بن گئے۔ واضح رہے کہ صدر موائی کیبانے پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام ان کے قریبی حریف رائیلا ادینگو اور ان کے حامیوں نے لگایا تھا۔ الزامات کے نتیجے میں Kikuyu قبیلے سے تعلق رکھنے والے بیشتر افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا۔

واضح رہے کہ صدر موائی کیبانے کا تعلق Kikyuyقبیلے سے ہے۔ عینی شاہدین کے مطابق صرف ایک واقعے میں جس وقت ہنگامہ آرائی عروج پر تھی تو رائیلا ادینگو کے حامیوں نے گرجا گھر میں پناہ لیے ہوئےKikuyuقبیلے کے دوسو سے زاید افراد کو گرجا گھر سمیت نذرآتش کردیا تھا۔

متاثرہ افراد میں کینیا کے تین قومی سطح کے اولمپیئن کھلاڑی بھی شامل تھے۔ مجموعی طور پر دو ہزار سے زاید افراد کی اموات اور ساٹھ ہزار گھرانوں کو بے گھر کرنے والے ان ہنگاموں کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان کو مداخلت کرنے پڑی تھی کوفی عنان اور دیگر عالمی راہ نماؤں کی کوششوں کے نتیجے میں ایک امن معاہدہ تشکیل پایا اور ایک مخلوط حکومت بنی، جس میں متفقہ طور پر دونوں متحارب گروہوں کے سربراہان ''موائی کیبانے'' کو صدر اور اورنج ڈیموکریٹک موومنٹ کے ''رائیلا ادینگو'' کو کینیا کا وزیراعظم منتخب کیا گیا، جس کے بعد فی الحال کینیا میں امن و امان کی صورت حال بتدریج بہتر ہوتی جارہی ہے۔



٭ایران، 2009 کے الیکشن:
1979کے آیت اﷲ خمینی کے لائے ہوئے انقلاب کے بعد پہلی مرتبہ ایران کے طول وعرض میں 2009کے انتخابات میں خوں ریزی کے واقعات سامنے آئے، جنہیں مغربی میڈیا نے بطور خاص پیش کیا۔ ایرانی صدر احمدی نژاد کی فتح کے اعلان کو ان کے قریبی حریف میر حسین موسوی نے دھاندلی اور انتخابی نتائج میں ردوبدل کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے پرامن احتجاج کا اعلان کیا۔ تاہم ان کی جانب سے پُرامن رہنے کی استدعا کے باوجود دارالحکومت تہران میں مظاہرین اور پولیس کے خفیہ اہل کاروں کے مابین جھڑپیں شروع ہوگئیں۔

بعدازاں یہ جھڑپیں احمدی نژاد اور میر حسین موسوی کے حامیوں کے درمیان بھی زور پکڑ گئیں، جس کے نتیجے میں تہران شہر کی اہم شاہراہیں جنگ کا منظر پیش کرنے لگیں اور دونوں راہ نماؤں کے حامی دست بہ گریباں ہوگئے۔



ہنگاموں کے دوران کئی دفاتر، عمارتیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کو نذرآتش کیا گیا، جب کہ پرتشدد کارروائیوں کے باعث ایک سو پچاس سے زاید سیاسی کارکن موت کی نیند سوگئے، جب کہ چار ہزار افراد کو گرفتار اور لاتعداد افراد زخمی ہوئے انتخابات کے دوران کشیدگی بڑھتے ہی حکومت ایران نے موبائل فون سروس اور کئی بین الااقوامی خبررساں ویب سائٹس بند کردیں، جس کے باعث بیرون ایران حالات کی سنگینی کا اندازہ دیر سے لگایا گیا۔ تاہم انتخابات میں وقوع پذیر ہونے والے ہنگاموں کے واقعات میں سب سے معروف واقعہ چھبیس سالہ طالبہ ''ندا آغا سلطان'' کی موت کی ویڈیو تھی۔

ندا آغا سلطان کو تہران میں انتخابات کے آٹھ دن بعد مظاہرے کے دوران بیس جون2009کو ایک پولیس اہلکار نے سب کے سامنے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔ اس اندوہ ناک عمل کی ویڈیو فلم ایک شوقیہ فوٹوگرافر نے بنائی، جسے اس نے بعد میں سوشل میڈیا پر پیش کیا، تو عالمی سطح پر ایرانی حکومت کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اور حالات کی سنگینی کھل کر سامنے آئی۔

تاہم حکومت ایران نے بزور اپنے خلاف اٹھنے والی اس احتجاجی تحریک کا زور توڑ دیا۔ واضح رہے کہ انتخابی نتائج میں دھاندلی کے باعث تیرہ جون2009سے جاری رہنے والی یہ ہنگامہ آرائی تقریباً سات ماہ تک جاری رہی تھی، جس میں ڈیڑھ سو سے زاید افراد زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔



٭امریکا، 1920کے الیکشن:
جمہوریت میں اعلیٰ اقدار کے دعوے دار ملک امریکا کی تاریخ سیاہ فام افراد سے نسلی تعصب برتنے کے سیاہ واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ 1920کے صدارتی انتخابات کے دن پیش آیا تھا، جب ریاست فلوریڈا کے علاقے Ocoeeمیں متعصب سوچ رکھنے والے سفید فام افراد کے ایک مشہور جھگڑالو گروہ Ku Klux Klan کے ارکان نے ایک سیاہ فام آبادی کو اپنی منفی سوچ کا نشانہ بنایا۔
واقعات کے مطابق ''کو کلکس کلان'' گروہ نے سیاہ فام افراد کو انتخابات میں ووٹ ڈالنے سے روکنے کے لیے پورے شہر کے ہر پولنگ اسٹیشن پر اسلحہ بردار غنڈے کھڑے کردیے تھے، جنہوں نے پولنگ کے لیے آنے والے سیاہ فام ووٹروں پر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں پچاس سے زاید افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔

انسانی جانوں کے ضیاع کے علاوہ سفید فام برتری کے نشے میں بدمست ''کو کلکس کلان'' گروہ کے غنڈوں نے سیاہ فام آبادی کی تمام املاک کو بھی نیست و نابود کرکے تمام سیاہ فام افراد کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔ بعدازاں خالی گھروں پر ان غنڈوں نے قبضہ کرلیا تھا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ علاقے میں موجود سیاہ فام آبادی کے خالی کیے گئے گھروں پر تقریباً دو دہائیوں تک صرف سفید فام آبادی کا قبضہ رہا۔



اس واقعہ کا ایک قابل افسوس پہلو یہ بھی تھا کہ 1990تک سیاہ فام افراد جو دراصل ''افرو امریکن شہری'' تھے ان کے بہیمانہ قتل کا یہ واقعہ دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھا گیا۔ تاہم 1990میں مقامی سفید فام افراد نے اپنے آباواجداد کی جانب سے کی جانے والی اس نسل پرستانہ قتل و غارت گری پر معافی مانگی تھی اور پوری دنیا کے سامنے اپنے آباواجداد کی غلطیوں کی تلافی کرنے کی کوشش کی تھی۔


اس واقعے سے قبل1874کے الیکشن میں بھی امریکی ریاست الباما کے علاقےComerمیں عین رائے شماری کے دوران مقامی سفید فام اور سیاہ فام آبادی میں جھگڑے کے دوران سات سیاہ فام افراد ہلاک اور ستر سے زاید زخمی ہوئے تھے، جب کہ رنگ کی بنیاد پر احساس برتری کے نشے میں مبتلا سفید فام افراد نے ہزاروں سیاہ فام افراد کو ووٹ ڈالنے سے روک دیا تھا۔



٭نائیجیریا،2011 کا چناؤ:
مغربی افریقہ کے اہم ترین ملک نائیجیریا کی تاریخ بھی خوں ریز ہنگاموں سے بھری پڑی ہے۔ دو واضح اکثریتی مذاہب اسلام اور عیسائیت کے پیروکار ملک کے مساوی حصوں میں رہائش پذیر ہیں۔ تیل کی پیداوار کے لحاظ سے صف اول کے ممالک میں شمار کیے جانے والے اس ملک کے 16اپریل2011کے الیکشن سے قبل ہنگاموں میں ایک ہزار سے زاید افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔ انتخابی مہم کے دوران نہ صرف بم دھماکے کیے گئے بلکہ مخالفین نے جتھوں کی شکل میں ایک دوسرے کو قتل کیا۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ اس قتل عام کے حوالے سے اگر دونوں گروہوں کے افراد سے بات چیت کی جائے تو ان کا کہنا ہے کہ ایک دوسرے کے ووٹرز کو موت کے گھاٹ اتار کر دراصل وہ ووٹ بینک کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ نائیجیریا مکمل طور پر اسلام اور عیسائیت میں بٹا ہوا ہے۔ شمالی حصے میں مسلمان اور جنوبی حصے میں عیسائی اکثریت میں بستے ہیں اور یہاں اسلام پسند اور عیسائیت سے تعلق رکھنے والے گروہ ہمیشہ سے ایک دوسرے سے متصادم رہتے ہیں۔ اسی تناظر میں 2011کے الیکشن کا انعقاد بھی ہوا۔



حیرت انگیز طور پر الیکشن کا انعقاد قائم مقام صدر ''گڈلک جوناتھن'' کی سربراہی میں ہوا تھا، جو نہ صرف حکم راں جماعت ''پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی'' کے سربراہ تھے، بلکہ پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار بھی تھے اور اپنی سربراہی میں منعقد کروانے والے الیکشن میں وہی کام یاب ہوکر نائیجیریا کے صدر بھی منتخب ہوگئے۔

ان کی اس کام یابی پر ان کے قریبی حریف ''کانگریس آف پروگریسیو چینج'' پارٹی کے مرکزی راہ نما ''محمد بوہاری'' کا کہنا تھا کہ الیکشن کے دوران قائم مقام صدر کا عہدہ رکھتے ہوئے گڈلک جوناتھن کا انتخابات میں حصہ لینا ہی غیرمناسب اور الیکشن کے عمل کو متنازعہ بنانے کے لیے کافی ہے، لہٰذا اس صورت حال میں محمد بوہاری اور ان کی جماعت نے بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کیے، جو جلد ہی پُرتشدد واقعات میں تبدیل ہوگئے اور ایک ہزار کے قریب انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بنے، جب کہ چالیس ہزار سے زاید افراد گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ لاکھوںکی مالیت کی املاک نذرآتش کی گئیں۔
اس تمام تر خوں ریزی کے باوجود19اپریل کو الیکشن کمیشن نے گڈلک جوناتھن کے نائیجیریا کے صدر منتخب ہونے کا اعلان کردیا۔

٭آر مینیا، 2008کے الیکشن:
یورپ اور ایشیا کی سرحدی سنگم پر واقع ملک آرمینیا کے شہری2008کے صدارتی الیکشن میں اس وقت سراپا احتجاج بن گئے تھے جب انہوں نے اس وقت کے آرمینیا کے صدرRobert Kocharyan اور وزیر اعظمSerzh Sargsyan پر الیکشن میں دھاندلی سے فتح حاصل کرنے کا الزام لگاتے ہوئے احتجاج شروع کیا۔ اس احتجاج میں عوام کو آرمینیا کے اولین سابق صدر ''لیون ٹر پیٹرسن'' (1991-98) کی حمایت بھی حاصل تھی، جو خود الیکشن میں صدارتی امیدوار کی حیثیت سے حصہ لے رہے تھے۔

واضح رہے کہ ''رابرٹ کوشریان'' جو دو مرتبہ آرمینیا کے صدر بن چکے تھے اور آئین کی رو سے تیسری مرتبہ صدر کے لیے الیکشن نہیں لڑ سکتے تھے، انہوں نے خود کو پس منظر میں رکھتے ہوئے اپنے وزیراعظم ''سرز سرگسیان'' کو صدر منتخب کروایا تھا۔ تاہم سابق صدر ''لیون ٹیر پیٹرسن'' اور ان کی ''پان آرمینیائی نیشنل موومنٹ'' کے حامیوں نے انتخابات میں کام یابی کو دھاندلی اور کرپشن کے ذریعے بنائے گئے پیسوں کا مرہون منت قرار دیا تھا، جس کے بعد انیس فروری2008کو ملک کے دارالحکومت Yerevanکے فریڈم اسکوائر میں ہزاروں افراد احتجاجی مظاہروں کے لیے جمع ہوئے احتجاجی مظاہروں کی شدت کو دیکھتے ہوئے حکومت نے سخت جوابی اقدامات کیے، جس کے دوران مظاہرین پر بے دریغ تشدد کیا گیا۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے بجلی کے جھٹکوں والے آلات کا بھی استعمال کیا گیا۔

ایک ہفتے تک جاری رہنے والے ان احتجاجی مظاہروں میں دس افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے بگڑتے ہوئے حالات پر قابو پانے کے لیے آرمینیائی فوج کے سربراہ Seyran Oganyan بیس دن تک ملک بھر میں ایمرجینسی نافذ کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ واضح رہے کہ پُرتشدد واقعات کے دوران حکومت کی جانب سے موبائل فون سروس اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل کردی گئی تھی، جب کہ خبر رساں اداروں پر سنسر کی پابندیاں عاید کردی گئیں تھیں۔

٭ ملائیشیا، 1969کے الیکشن:
دس مئی1969کو ملائیشیا میں ہونے والے انتخابات کا رائے شماری کا دن تو خیریت سے گزر گیا، تاہم دو دن بعد13مئی کو مقامی ملائیشین (ملائی) آبادی اور تارک وطن چینیوں کے درمیان نسل کی بنیاد پر جھگڑے شروع ہوگئے، جس کی بنیادی وجہ چینی شہریوں کی جانب سے کوالالمپور کے بعض علاقوں میں انتخابات میں دخل اندازی قرار دی گئی۔ قومی سطح پر ایمرجینسی لگانے کا باعث بننے والے ان خوں ریز ہنگاموں میں سرکاری اعلان کے مطابق 196افراد ہلاک ہوئے، جب کہ آزاد ذرائع کا کہنا تھا کہ ہلاک شدگان کی تعداد دوہزار سے زاید تھی۔

ہنگاموں کی شدت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم تنکو عبدالرحمان کو استعفی دے کر نہ صرف حکومت ختم کرنی پڑی بل کہ 1969سے1971تک عبوری حکومت نے کارِمملکت سرانجام دیے۔

عینی شاہدین کے مطابق ہنگامے اس وقت پھوٹے تھے جب ''یونائٹیڈ ملایا نیشنل آرگنائزیشن'' اور ''لیبرپارٹی آف ملایا'' کے دو دو ارکان کو چینی اکثریتی علاقے Penang اور Selangorمیں قتل کردیا گیا۔ بعدازاں اپوزیشن پارٹی، جسے چینی باشندوں کی حمایت حاصل تھی، نے الیکشن میں مقامی سطح پر فتح کا جشن منانے کے لیے ملائی باشندوں کے علاقوں میں جلوس نکالنے کی کوشش کی۔ اس عمل نے شکست خوردہ ملائی باشندوں کے جذبات پر جلتی پر تیل کا کام کیا اور جلوس کے راستے میں کھڑے ملائی نوجوانوں اور تارک وطن چینیوں کے درمیان جھگڑا شروع ہوگیا۔

واضح رہے کہ ہلاکت شدگان میں سے بیشتر افراد چینی باشندے تھے دوسری جانب وزیراعظم تنکو عبدالرحمٰن نے ہنگامہ آرائی کی بنیادی وجہ سنگاپور سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعت ''پیپلز ایکشن پارٹی'' کے راہ نماؤں کے ان بیانات کو قرار دیا جن میں وہ سرحد پار سے بیٹھ کر چینی باشندوں کے نسلی جذبات ابھار رہے تھے تھا۔ واضح رہے کہ 1964میں جب سنگاپور ملائیشیا فیڈریشن کا حصہ تھا تو پیپلز ایکشن پارٹی نے ملک میں ''ملایا'' زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے پر بھی احتجاج کیا تھا اور اس پارٹی کا شمار ملائیشیا مخالف جماعتوں میں کیا جاتا ہے۔

٭منگولیا، 2008 کے الیکشن:
چاروں جانب خشکی سے گھرے ملک منگولیا میں29جون 2008کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات لڑائی جھگڑوں کے باعث یاد رکھے جاتے ہیں۔ ان انتخابات میں ''منگولین پیپلز انقلابی پارٹی'' نے واضح اکثریت حاصل کی، لیکن نتائج کو قریبی حریف ''جمہوری پارٹی'' کے چیئرمین Tsakhiagiin Elbegdorjنے قبول نہیں کیا اور انتخابات کے نتائج کو دھاندلی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے اپنے ہزاروں حامیوں سمیت منگولیا کے دارالحکومتUlan Batorمیں جمع ہوگئے۔ بپھرے ہوئے عوام نے ابتدا میں تو صبر و سکون کا مظاہرہ کیا۔

تاہم پولیس کی پکڑ دھکڑ کے بعد ہجوم ہنگامہ آرائی پر اتر آیا جس کے نتیجے میں چار افراد موقع ہی پر دم توڑگئے، جب کہ متعدد زخمی ہوئے ہنگاموں کو پھیلنے سے روکنے کے لیے حکومت نے ایمرجینسی نافذ کردی اور مختلف شہروں میں کرفیو لگادیا۔ تقریباً ایک ماہ تک جاری رہنے والے ان ہنگاموں میں آزاد ذرائع کے مطابق حکومتی دعوؤں کے برعکس بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری ہوئی جب کہ بھاری تعداد میں املاک اور گاڑیوں کو بھی نذر آتش کیا گیا۔ غیرجانب دار مبصرین کا اس حوالے سے یہ بھی کہنا تھا کہ ایمرجینسی کے دوران ذرائع ابلاغ پر پابندی کے باعث عالمی سطح پر ہنگاموں کی شدت کا درست اندازہ نہیں لگایا گیا۔

٭انڈیا، 1957کے الیکشن:
انڈیا کے انتہائی جنوب میں واقع صوبے تامل ناڈو کے جنوبی علاقے رامناڈ(Ramnad) میں1957میں ہونے والے خوں ریز واقعات انتخابی جھگڑوں کا نتیجہ تھے۔ یہ پُرتشدد واقعات ''تہیوار برادری'' جسے ''ماروار'' بھی کہا جاتا ہے اور ''دیوندرار'' برادری کے مسلح جتھوں کے مابین ضمنی الیکشن کے موقع پر پیش آئے تھے۔

یکم جولائی1957کو ہونے والے یہ ضمنی الیکشن تامل ناڈو میں قائم کیے گئے ''آل انڈیا فارورڈ بلاک'' کے چیئر مین Ukkirapandi MuthuramalingaThevar کے اپنی سیٹ سے دست بردار ہونے کے بعد منعقد ہوئے تھے۔ نتائج کے مطابق فارورڈ بلاک کے D.V. Sasivarna Thevar کام یاب ہوگئے، جس پر ان کے مخالفین، جنہیں کانگریس پارٹی کی حمایت حاصل تھی، نے نتائج ماننے سے انکار کردیا اور احتجاج مظاہرے شروع کردیے۔

مظاہرین جن کی اکثریت ''دیواندرار'' برادری کے لوگوں پر مشتمل تھی، سڑکوں پر آگئے اور نظامِ زندگی معطل کردیا۔ اسی دوران کانگریس کے ایک اہم مقامی راہ نما اور دیوندرار برادری کی اہم شخصیتEmmanuel sekaran Devendrar قتل کردیے گئے۔

دیواندرار برادری نے ان کے قتل کا الزام تہیوار برادری سے تعلق رکھنے والے راہ نما U.MuthuramalingaThevar پر لگایا گیا، جس کے نتیجے میں دیواندرار برادری اور تہیوار برادری کے درمیان سخت فساد برپا ہوا جو تقریباً دوماہ تک پورے ضلع میں جاری رہا۔ انتخابات میں دھاندلی کے باعث شروع ہونے والی اس خونیں ہنگامہ آرائی میں نوے سے زاید افراد جان سے ہاتھ دھوبیٹھے، ہزاروں افراد بے گھر ہوئے سیکڑوں گھروں کو نذرآتش کیا گیا اور لاتعداد افراد زخمی ہوئے۔
Load Next Story