گراس نیشنل ہیپی نیس
خوشی کیا ہے؟ گزشتہ ادوار میں اس کے کیا تصورات تھے۔ تاریخ دان ’’ڈیرن میک ماہن‘‘ نے اس پر بڑا وقیع کام کیا ہے۔
یہ ایک چھوٹے ملک کا بڑا خیال ہے، جب بھی کسی ملک کی ترقی اور وہاں کے افراد کے معیار زندگی کی بات کی جاتی ہے تمام تر گفتگو صرف اور صرف معاشی اصطلاحات اور وضع کردہ پیمانوں میں ہوتی ہے، شہریوں کے معیار زندگی کے جانچ کے لیے دیکھا جاتا ہے کہ اس ملک کا جی ڈی پی، گراس ڈومیسٹک، پراڈکٹ کیا ہے، یعنی اس ملک میں اشیاء کی ایک معینہ مدت میں تیاری، صرف اور خدمات کی فراہمی کیا اور کتنی رہی، بھوٹان جیسے چھوٹے ملک نے گزشتہ چند دہائیوں سے یہ فارمولا رد کردیا۔
اس نے معیار زندگی جانچنے کا ایک نیا فارمولا پیش کیا اور وہ ہے''گراس نیشنل ہیپی نیس'' یعنی ایک معینہ مدت کے دوران آپ کے عوام کتنے آسودہ اور خوش ہیں، ہمارے سامنے جی ڈی پی اور جی این پی وغیرہ جیسی اصطلاحات میں اتنی زیادہ بات کی جاتی ہے کہ ہم نہ صرف اس کے عادی ہوگئے ہیں بلکہ ہم نے شعوری اور لا شعوری طور پر طے کرلیا ہے کہ معیار زندگی اور ترقی کی بات ان اصطلاحات کے بغیر ممکن نہیں۔ ایسے میں گراس نیشنل ہیپی نیس کا خیال تازہ ہوا کا جھونکا معلوم ہوتاہے، یہ باور کروادیا گیا ہے کہ عمدہ معیار زندگی روپے پیسے کے بغیر ممکن نہیں، انسانی آرزوئوں اور خواہشات کو بے لگام کردینا، ان میں مسلسل اضافہ کیے چلے جانا اور ان کی تکمیل میں انسان کو جھونک دینا ہی آج کی معاشرت، معیشت اور سیاست ہے۔
یہ سوال دلچسپی کا حامل رہا ہے کہ کیا خوشی اور دولت کا کوئی تعلق ہے؟ یقیناً اگر ہمارے پاس پیسہ ہو تو ہم بہت سی چیزیں خرید سکتے ہیں، یہ بھی سچ ہے کہ افراد کو چیزیں خرید کر، جمع کرکے، بڑی خوشی ہوتی ہے، اس سال کے آغاز میں''اسپیکٹرم گروپ'' نے امیر اور بااثر امریکیوں کا سروے کیا۔ نتائج کے مطابق امریکا کے محض بیس فیصد صاحب ثروت اور بااثر سرمایہ کار اس خیال کے حامی ہیں کہ دولت مسرت خرید سکتی ہے۔ یہ بھی بڑی دلچسپی سے دیکھا گیا کہ عمر کا بھی بڑا عمل دخل ہے، سروے کے مطابق جوں جوں عمر ڈھلتی جاتی ہے، افراد کی سوچ بدلتی جاتی ہے، بوڑھے افراد اس طرح نہیں سوچتے کہ دولت سے خوشی، مسرت یا شادمانی کا حصول ممکن ہے۔
یہ امیر امریکیوں کی باتیں ہیں، عوامی سطح پر ہم دیکھتے ہیں کہ اگر جیب میں پیسے نہ ہوں یا غلطی سے کوئی اپنا ''والٹ'' ہی گھر بھول آئے تو وہ متوحش ہوجاتا ہے، پاس پیسے نہ ہوں تو موڈ خوش گوار ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، خواہ کوئی کتنے ہی فلسفے کیوں نہ بھگارتا رہے۔ اس کے جواب میں کچھ افراد کا خیال ہے کہ ایسا معاشی اور معاشرتی دبائو کی بنا پر ہے۔ اس کا خوشی یا مسرت سے کوئی تعلق نہیں۔ چوںکہ ہمیں ایک ایسے طرز زندگی پر مجبور کردیا گیا ہے کہ جہاں روپیہ پاس نہ ہونے کی صورت میں انسان شدید مشکلات کا شکار ہوجاتا ہے، لہٰذا وہ نقصان کے خوف سے متوحش ہوتا ہے، نہ کہ اس لیے کہ روپیہ اس کے لیے کسی حقیقی مسرت کا سبب بن رہا ہے۔
نیویارک کی راچسٹر یونیورسٹی کے نفسیات دانوں نے چند برس قبل ایک بہت ہی اہم تحقیق کی، انھوں نے گریجویشن کرلینے والے 147 طلبا کا تجزیہ کیا، مطالعہ یہ تھا کہ دو برس کے دوران طلبا کی خوشی کی سطح کیا رہی، اس مقصد کے لیے لوگوں کے اہداف کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا، خارجی مقاصد مثلاً دولت، شہرت اور ذات، داخلی اہداف مثلاً بامعنی تعلق، صحت اور تعمیر ذات، اعداد وشمار کے تجزیے کے بعد جو نتائج سامنے آئے وہ حیرت انگیز تھے، دیکھا یہ گیا کہ داخلی اہداف کے حصول کے بعد افراد کو ایک عظیم یافت، بہتری اور سکون کا احساس تھا، لیکن امریکی خواب کے حصول کے خواہش مند افراد جو دولت اور شہرت کے خواہش مند تھے وہ تشویش، اندیشوں، الجھنوں اور غیر مطمئن زندگی میں گھر گئے۔
تحقیق کے مطابق خارجی اہداف کے حصول کے ساتھ ساتھ افراد کے اس احساس میں اضافہ ہوتا گیا کہ وہ غلام ہیں، وہ ایک دوڑنے والے ہٹے پر دوڑے چلے جارہے ہیں، شدید تھکادینے والی بے معنی دوڑ جس سے مفر ممکن نہیں۔ ایڈورڈ ڈیس جو اس مطالعے کے شریک ہیں انھوں نے لکھا کہ ''ایسے افراد زندگی کی اہم ترین اشیاء کو فراموش کردیتے ہیں'' یونیورسٹی آف کولوراڈو کے ماہر نفسیات لیف وان بووین کا تحقیق کے حوالے سے کہنا ہے کہ زندگی میں درست اہداف کا تعین خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ آپ نے زور دیا کہ یہ نتائج بہت اہم ہیں اور دعوت فکر دیتے ہیں کہ آپ اپنی زندگی کے اہداف اور مسرت کے تعلق کو سمجھیں، بنجامن فرینکلن نے ایک موقع پر امیر آدمی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ امیر وہ ہے جو قانع ہے، سوال کیاگیا کہ ایسا کون ہے؟ کہا کوئی نہیں۔
اور اب ایک سروے کا ''تذکرہ'' جس کا تاریخ اور مقام حافظے سے محو ہونے کے باوجود چند باتیں یاد رہ گئیں۔ غالباً کشمیر کے کسی علاقے یا ہمالیہ کی ترائیوں کی بات ہے۔ وہاں کا کوئی قصبہ کہ جہاں روڈ، بجلی اور ریڈیو ابھی نہیں پہنچے تھے، وہاں غربت کے حوالے سے سروے کیا گیا، قصبے کے افراد کے لیے غربت اور خط غربت کی اصطلاحات نئی اور نامانوس تھیں، بہرحال بتایا گیا کہ یہاں کوئی غریب نہیں رہتا، چند دہائیوں کے بعد جب وہاں پکی سڑک، بجلی اور ریڈیو وغیرہ آگیا تھا پھر وہی سروے کیا گیا، ویسے ہی سوال پوچھے گئے، رپورٹ مرتب کرنے والوں نے کہاکہ اگرچہ وہاں کے افراد کے طرز زندگی اور معیار زندگی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی تھی لیکن اب وہاں بہت سارے غریب پیدا ہوگئے تھے۔
کچھ سوچنے والوں کا کہنا ہے کہ خوشی اور خوشی کا حصول وغیرہ یہ سب گورکھ دہندہ ابھی کی پیداوار ہے۔ گزشتہ صدی تک انسان کے لیے خوشی اور خوشی کا حصول جیسے کوئی تصورات نہیں تھے، اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ پہلے کے لوگ خوش نہیں رہتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ محض خوشی کا حصول انسانی تاریخ میں کبھی بھی کسی کا بھی ہدف نہ تھا۔ یہ تو اسکاٹش انلائمنٹ کے بعد لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ ہر فرد کو خوش ہونے اور خوش رہنے کا حق حاصل ہے، 1776 کے امریکی اعلان آزادی میں یہ تحریر کیا گیا ہے کہ ''حصول مسرت کا حق ایک ناقابل انتقال، لاینفک حق ہے جو خالق کی عطا ہے، واضح رہے کہ یہ یونانی فکر وفلسفے کے متضاد رائے تھی۔
خوشی کیا ہے؟ گزشتہ ادوار میں اس کے کیا تصورات تھے۔ تاریخ دان ''ڈیرن میک ماہن'' نے اس پر بڑا وقیع کام کیا ہے۔ آپ نے اپنی کتاب میں گزشتہ ہزاروں سال کی خوشی کی تاریخ کو یکجا کردیا ہے، مثلاً بومریانہ دور میں خوشی کو قسمت کے مساوی مانا جاتا تھا۔ ارسطو اور دیگر کلاسکی فلسفی اسے نیکی کے ہم منعی قرار دیتے تھے، مقولہ مشہور ہے ''نیکی مسرت کی ماں ہے'' قرون وسطیٰ میں اسے جنت قرار دیا گیا، اسکاٹش انلائٹمنٹ نے اسے مسرت کا حق قرار دیا، آج کل اسے ''وارم ہیپی'' سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ تفصیل اس اجمال کی بہت ہے ''ڈیرن'' نے اسے یکجا کردیا ہے، وہاں دیکھا جاسکتا ہے۔
سائنس دانوں کاخیال ہے کہ ہر وقت خوشی کے جذبے سے معمور رہنا ممکن نہیں۔ انسانی آسودگی، مسرت اور طمانیت کو بنیاد بنا کر 1971-72 سے بھوٹان نے گراس نیشنل ہیپی نیس کو معیار زندگی جانچنے کی بنیاد بنایا۔ انھوں نے حوصلے سے کام لیتے ہوئے جی ڈی پی کے عالمی پیمانے کو رد کردیا، اس پیمانے کو بھوٹان کے چوتھے ''ڈریگن بادشاہ'' جنگ سے سنجائے وینچک نے ترتیب دیا اور عام کیا۔ جک مے کا یہ نظریہ اب عالمی سطح پر پذیرائی حاصل کررہا ہے، مختلف افراد، ادارے اور اقوام اس جانب متوجہ ہورہے ہیں، معیار زندگی کی جانچ کا یہ طریقہ بھوٹان میں تو رائج ہو ہی چکا ہے، جی این ایچ میں اضافے کے لیے مختلف طریقے بھی وضع کرلیے گئے ہیں اور وہ بار آور ثابت ہورہے ہیں، خیال کیا جارہا ہے کہ یہ ترتیب نہ صرف یہ کہ اثر پذیر ہے بلکہ علاقائی تہذیب، روایات اور روحانیت کے زیادہ قریب ہے۔
اس دنیا میں آنے والا اور رہنے والا ہر فرد کامیاب ہونا اور خوش رہنا چاہتا ہے، آج کے انسان نے کامیابی اور مسرت کی تلاش خارج میں شروع کررکھی ہے، وہ چیزوں پر محنت کرتا ہے، انھیں نئی نئی شکلیں دیتا ہے اور خوش ہونے کی کوشش کرتا ہے، خود پر محنت کرنے کے بجائے خارج پر محنت کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی مچھلی پانی سے باہر خارج میں اپنی مسرت کی تلاش کی فکر میں لگ جائے۔
اس نے معیار زندگی جانچنے کا ایک نیا فارمولا پیش کیا اور وہ ہے''گراس نیشنل ہیپی نیس'' یعنی ایک معینہ مدت کے دوران آپ کے عوام کتنے آسودہ اور خوش ہیں، ہمارے سامنے جی ڈی پی اور جی این پی وغیرہ جیسی اصطلاحات میں اتنی زیادہ بات کی جاتی ہے کہ ہم نہ صرف اس کے عادی ہوگئے ہیں بلکہ ہم نے شعوری اور لا شعوری طور پر طے کرلیا ہے کہ معیار زندگی اور ترقی کی بات ان اصطلاحات کے بغیر ممکن نہیں۔ ایسے میں گراس نیشنل ہیپی نیس کا خیال تازہ ہوا کا جھونکا معلوم ہوتاہے، یہ باور کروادیا گیا ہے کہ عمدہ معیار زندگی روپے پیسے کے بغیر ممکن نہیں، انسانی آرزوئوں اور خواہشات کو بے لگام کردینا، ان میں مسلسل اضافہ کیے چلے جانا اور ان کی تکمیل میں انسان کو جھونک دینا ہی آج کی معاشرت، معیشت اور سیاست ہے۔
یہ سوال دلچسپی کا حامل رہا ہے کہ کیا خوشی اور دولت کا کوئی تعلق ہے؟ یقیناً اگر ہمارے پاس پیسہ ہو تو ہم بہت سی چیزیں خرید سکتے ہیں، یہ بھی سچ ہے کہ افراد کو چیزیں خرید کر، جمع کرکے، بڑی خوشی ہوتی ہے، اس سال کے آغاز میں''اسپیکٹرم گروپ'' نے امیر اور بااثر امریکیوں کا سروے کیا۔ نتائج کے مطابق امریکا کے محض بیس فیصد صاحب ثروت اور بااثر سرمایہ کار اس خیال کے حامی ہیں کہ دولت مسرت خرید سکتی ہے۔ یہ بھی بڑی دلچسپی سے دیکھا گیا کہ عمر کا بھی بڑا عمل دخل ہے، سروے کے مطابق جوں جوں عمر ڈھلتی جاتی ہے، افراد کی سوچ بدلتی جاتی ہے، بوڑھے افراد اس طرح نہیں سوچتے کہ دولت سے خوشی، مسرت یا شادمانی کا حصول ممکن ہے۔
یہ امیر امریکیوں کی باتیں ہیں، عوامی سطح پر ہم دیکھتے ہیں کہ اگر جیب میں پیسے نہ ہوں یا غلطی سے کوئی اپنا ''والٹ'' ہی گھر بھول آئے تو وہ متوحش ہوجاتا ہے، پاس پیسے نہ ہوں تو موڈ خوش گوار ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، خواہ کوئی کتنے ہی فلسفے کیوں نہ بھگارتا رہے۔ اس کے جواب میں کچھ افراد کا خیال ہے کہ ایسا معاشی اور معاشرتی دبائو کی بنا پر ہے۔ اس کا خوشی یا مسرت سے کوئی تعلق نہیں۔ چوںکہ ہمیں ایک ایسے طرز زندگی پر مجبور کردیا گیا ہے کہ جہاں روپیہ پاس نہ ہونے کی صورت میں انسان شدید مشکلات کا شکار ہوجاتا ہے، لہٰذا وہ نقصان کے خوف سے متوحش ہوتا ہے، نہ کہ اس لیے کہ روپیہ اس کے لیے کسی حقیقی مسرت کا سبب بن رہا ہے۔
نیویارک کی راچسٹر یونیورسٹی کے نفسیات دانوں نے چند برس قبل ایک بہت ہی اہم تحقیق کی، انھوں نے گریجویشن کرلینے والے 147 طلبا کا تجزیہ کیا، مطالعہ یہ تھا کہ دو برس کے دوران طلبا کی خوشی کی سطح کیا رہی، اس مقصد کے لیے لوگوں کے اہداف کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا، خارجی مقاصد مثلاً دولت، شہرت اور ذات، داخلی اہداف مثلاً بامعنی تعلق، صحت اور تعمیر ذات، اعداد وشمار کے تجزیے کے بعد جو نتائج سامنے آئے وہ حیرت انگیز تھے، دیکھا یہ گیا کہ داخلی اہداف کے حصول کے بعد افراد کو ایک عظیم یافت، بہتری اور سکون کا احساس تھا، لیکن امریکی خواب کے حصول کے خواہش مند افراد جو دولت اور شہرت کے خواہش مند تھے وہ تشویش، اندیشوں، الجھنوں اور غیر مطمئن زندگی میں گھر گئے۔
تحقیق کے مطابق خارجی اہداف کے حصول کے ساتھ ساتھ افراد کے اس احساس میں اضافہ ہوتا گیا کہ وہ غلام ہیں، وہ ایک دوڑنے والے ہٹے پر دوڑے چلے جارہے ہیں، شدید تھکادینے والی بے معنی دوڑ جس سے مفر ممکن نہیں۔ ایڈورڈ ڈیس جو اس مطالعے کے شریک ہیں انھوں نے لکھا کہ ''ایسے افراد زندگی کی اہم ترین اشیاء کو فراموش کردیتے ہیں'' یونیورسٹی آف کولوراڈو کے ماہر نفسیات لیف وان بووین کا تحقیق کے حوالے سے کہنا ہے کہ زندگی میں درست اہداف کا تعین خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ آپ نے زور دیا کہ یہ نتائج بہت اہم ہیں اور دعوت فکر دیتے ہیں کہ آپ اپنی زندگی کے اہداف اور مسرت کے تعلق کو سمجھیں، بنجامن فرینکلن نے ایک موقع پر امیر آدمی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ امیر وہ ہے جو قانع ہے، سوال کیاگیا کہ ایسا کون ہے؟ کہا کوئی نہیں۔
اور اب ایک سروے کا ''تذکرہ'' جس کا تاریخ اور مقام حافظے سے محو ہونے کے باوجود چند باتیں یاد رہ گئیں۔ غالباً کشمیر کے کسی علاقے یا ہمالیہ کی ترائیوں کی بات ہے۔ وہاں کا کوئی قصبہ کہ جہاں روڈ، بجلی اور ریڈیو ابھی نہیں پہنچے تھے، وہاں غربت کے حوالے سے سروے کیا گیا، قصبے کے افراد کے لیے غربت اور خط غربت کی اصطلاحات نئی اور نامانوس تھیں، بہرحال بتایا گیا کہ یہاں کوئی غریب نہیں رہتا، چند دہائیوں کے بعد جب وہاں پکی سڑک، بجلی اور ریڈیو وغیرہ آگیا تھا پھر وہی سروے کیا گیا، ویسے ہی سوال پوچھے گئے، رپورٹ مرتب کرنے والوں نے کہاکہ اگرچہ وہاں کے افراد کے طرز زندگی اور معیار زندگی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی تھی لیکن اب وہاں بہت سارے غریب پیدا ہوگئے تھے۔
کچھ سوچنے والوں کا کہنا ہے کہ خوشی اور خوشی کا حصول وغیرہ یہ سب گورکھ دہندہ ابھی کی پیداوار ہے۔ گزشتہ صدی تک انسان کے لیے خوشی اور خوشی کا حصول جیسے کوئی تصورات نہیں تھے، اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ پہلے کے لوگ خوش نہیں رہتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ محض خوشی کا حصول انسانی تاریخ میں کبھی بھی کسی کا بھی ہدف نہ تھا۔ یہ تو اسکاٹش انلائمنٹ کے بعد لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ ہر فرد کو خوش ہونے اور خوش رہنے کا حق حاصل ہے، 1776 کے امریکی اعلان آزادی میں یہ تحریر کیا گیا ہے کہ ''حصول مسرت کا حق ایک ناقابل انتقال، لاینفک حق ہے جو خالق کی عطا ہے، واضح رہے کہ یہ یونانی فکر وفلسفے کے متضاد رائے تھی۔
خوشی کیا ہے؟ گزشتہ ادوار میں اس کے کیا تصورات تھے۔ تاریخ دان ''ڈیرن میک ماہن'' نے اس پر بڑا وقیع کام کیا ہے۔ آپ نے اپنی کتاب میں گزشتہ ہزاروں سال کی خوشی کی تاریخ کو یکجا کردیا ہے، مثلاً بومریانہ دور میں خوشی کو قسمت کے مساوی مانا جاتا تھا۔ ارسطو اور دیگر کلاسکی فلسفی اسے نیکی کے ہم منعی قرار دیتے تھے، مقولہ مشہور ہے ''نیکی مسرت کی ماں ہے'' قرون وسطیٰ میں اسے جنت قرار دیا گیا، اسکاٹش انلائٹمنٹ نے اسے مسرت کا حق قرار دیا، آج کل اسے ''وارم ہیپی'' سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ تفصیل اس اجمال کی بہت ہے ''ڈیرن'' نے اسے یکجا کردیا ہے، وہاں دیکھا جاسکتا ہے۔
سائنس دانوں کاخیال ہے کہ ہر وقت خوشی کے جذبے سے معمور رہنا ممکن نہیں۔ انسانی آسودگی، مسرت اور طمانیت کو بنیاد بنا کر 1971-72 سے بھوٹان نے گراس نیشنل ہیپی نیس کو معیار زندگی جانچنے کی بنیاد بنایا۔ انھوں نے حوصلے سے کام لیتے ہوئے جی ڈی پی کے عالمی پیمانے کو رد کردیا، اس پیمانے کو بھوٹان کے چوتھے ''ڈریگن بادشاہ'' جنگ سے سنجائے وینچک نے ترتیب دیا اور عام کیا۔ جک مے کا یہ نظریہ اب عالمی سطح پر پذیرائی حاصل کررہا ہے، مختلف افراد، ادارے اور اقوام اس جانب متوجہ ہورہے ہیں، معیار زندگی کی جانچ کا یہ طریقہ بھوٹان میں تو رائج ہو ہی چکا ہے، جی این ایچ میں اضافے کے لیے مختلف طریقے بھی وضع کرلیے گئے ہیں اور وہ بار آور ثابت ہورہے ہیں، خیال کیا جارہا ہے کہ یہ ترتیب نہ صرف یہ کہ اثر پذیر ہے بلکہ علاقائی تہذیب، روایات اور روحانیت کے زیادہ قریب ہے۔
اس دنیا میں آنے والا اور رہنے والا ہر فرد کامیاب ہونا اور خوش رہنا چاہتا ہے، آج کے انسان نے کامیابی اور مسرت کی تلاش خارج میں شروع کررکھی ہے، وہ چیزوں پر محنت کرتا ہے، انھیں نئی نئی شکلیں دیتا ہے اور خوش ہونے کی کوشش کرتا ہے، خود پر محنت کرنے کے بجائے خارج پر محنت کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی مچھلی پانی سے باہر خارج میں اپنی مسرت کی تلاش کی فکر میں لگ جائے۔