تصور پاکستان…
اقبال ایک ایسی ریاست چاہتے تھے جہاں مسلمان بالکل آزاد ہوں، اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی زندگی بسر کرسکیںَ
میں بعد مرگ بھی بزم وفا میں زندہ ہوں
تلاش کر مری محفل، مرا مزار نہ پوچھ
علامہ اقبال ایک اعلیٰ درجے کے شاعر اور فلاسفر ہونے کے ساتھ ایک اچھے اور باکردار سیاست دان بھی تھے۔ بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں برصغیر کی تاریخ میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جو آج بھی تاریخ کا حصہ ہیں اور انھی میں سے ایک واقعہ ایسا ہے جو دسمبر 1930 میں رونما ہوا۔ جس میں برصغیر کے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا گیا تاکہ وہ اس کو حاصل کرنے کے لیے محنت اور جدوجہد کریں۔ اقبال برصغیر میں ایک اسلامی ریاست کے حامی تھے۔
اقبال کہتے تھے کہ ہندوستان میں ایک ''اسلامی ہندوستان'' ہونا چاہیے جہاں تمام مسلمان اپنی زندگیوں کو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے احکامات کے مطابق گزار سکیں۔ ہندوستان میں ایک ''اسلامی ہند'' کا تصور اسی موقع پر اقبال کے ذہن میں پیدا ہوا۔ شروع میں اس کا مذاق اڑایا گیا لیکن بہت جلد یہ مسلمانان ہند کی موت و زیست کا سوال بن گیا۔ اور مسلمانوں نے طے کرلیا کہ ہر قیمت پر وہ علیحدہ ریاست حاصل کرکے رہیں گے۔
اگر جواں ہوں میری قوم کے جسور و غیور
قلندری مری کچھ کم، سکندری سے نہیں
الٰہ آباد کے اجلاس کی صدارت علامہ اقبال نے کی۔ اس اجلاس میں اقبال نے خطبہ صدارت ارشاد فرمایا وہ خطبہ افادیت، اہمیت، بالغ نظر، وسعت خیال اور جدت افکار کا مظہر ہے، وہ خطبہ نہ صرف مسلم لیگ کی تاریخ میں بلکہ سیاست ہند کی تاریخ میں ایک امتیاز خاص کا حامل ہے۔
اس خطے میں اقبال نے فرمایا کہ ''مسلمان اور اس کا مذہب دوسری قوموں اور ان کے مذہب سے بالکل مختلف ہے۔ مغربی ممالک کی طرح ہندوستان کی یہ حالت نہیں کہ اس میں صرف ایک ہی قوم آباد ہے، ہندوستان مختلف اقوام کا ملک ہے جن کی نسل، زبان اور مذہب ایک دوسرے سے الگ ہیں، ان میں وہ احساسات پیدا نہیں ہوسکتے جو ایک ہی نسل کے مختلف افراد میں ہوتے ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کا مطالبہ ہے کہ ہندوستان میں اسلامی ہندوستان قائم کیا جائے۔''
اقبال نے اپنے خطبے میں فرمایا کہ ''میری ذاتی رائے ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) سندھ اور بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملادیا جائے خواہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر ہو یا باہر۔ مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو آخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنی پڑے گی۔'' مفکر پاکستان نے کہا کہ ''اس تجویز کو سن کر نہ انگریزوں کو پریشان ہونا چاہیے نہ ہندوؤں کو۔ ہندوستان دنیا میں سب سے بڑا اسلامی ملک ہے اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک مخصوص علاقے میں مرکزیت قائم کرسکیں۔
اس طرح نہ صرف ہندوستان کا مسئلہ حل ہوجائے گا بلکہ اس سے مسلمانوں کے احساسات ذمے داری قوی ہوجائیں گے اور ان کا جذبہ حب الوطنی بڑھ جائے گا۔''اقبال صرف اسلامی ریاست کے محرک نہیں تھے وہ ہندوستان کے صوبوں کی ازسرنو تقسیم بھی چاہتے تھے۔ اقبال کا خیال تھا کہ صوبوں کی تقسیم سے جو مسائل تھے وہ خود بخود حل ہوجائیں گے۔ اس وقت فتنہ و فساد اور خون ریزی جیسے مسائل صوبوں میں تھے، وہ اس لیے کہ جن علاقوں میں مسلمان اقلیت میں تھے وہاں آئے دن طرح طرح کے فسادات ہوتے رہتے تھے۔ اقبال نے کہا کہ صوبوں کی نئے سرے سے تقسیم سے اکثریت اور اقلیت کا سوال ختم ہوجائے گا۔ اقبال نے مزید فرمایا کہ
''ہندوستان کے لسانی اور عقائد و معاشرت کے بے شمار اختلافات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مستقل حکومت قائم کرنے کی یہی صورت ہے کہ یہاں ایسی آزاد ریاستیں قائم کردی جائیں جو زبان، نسل، تاریخ، مذہب اور اقتصادی مفاد کے اشتراک پر مبنی ہوں۔''اقبال نے دسمبر 1930 میں اسلامی ریاست کا جو تصور دیا اس کو حاصل کرنے کے لیے برصغیر کے مسلم رہنماؤں نے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ تقریباً 17 سال مسلسل کوشش کرنے کے بعد مسلمان اپنے لیے ایک علیحدہ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
اقبال ایک ایسی ریاست چاہتے تھے جہاں مسلمان بالکل آزاد ہوں، اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی زندگی بسر کرسکیں، جہاں صرف امن ہو، کسی قسم کا تشدد نہ ہو۔ فرقہ بازی، رنگ و نسل، ذات برادری سے پاک ہوں۔ لیکن افسوس کہ آج یہ ساری برائیاں ہم میں ہیں۔ اگر ہم اس ملک کو اقبال اور قائداعظم کا پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان برائیوں سے چھٹکارا پانا ہوگا تاکہ ہم اس ملک کو اقبال کے خواب جیسا ملک بناسکیں۔ میری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ پاکستان سے دہشت گردی، فرقہ پرستی اور رنگ و نسل کو ختم کرکے ہم سب کو مسلمان اور پاکستانی بنائے تاکہ ہمارا ملک اقبال کے نظریات کے مطابق ہوسکے۔