روزہ مظہرِ ضبطِ نفس و صبر و استقامت

روزہ ایک مسلمان کے جذبۂ خیر سگالی، رواداری، بردباری اور صبر و استقامت کو درجۂ کمال تک پہنچا دیتا ہے۔


روزہ خوش خوراک، خوش لباس اور فارغ البال آسودہ لوگوں کو غربت کے تھپیڑوں کا شکار رہنے والوں سے محبّت و مروّت کی ترغیب دیتا ہے

اہلِ ایمان و اسلام پر اُن کے خالق و مالک کی طرف سے جتنی بھی عبادات فرض کی گئی ہیں وہ تمام کی تمام فوز و فلاح اور نجاتِ اُخروی ہونے کے ساتھ کسی نہ کسی اعتبار سے انسان کی روحانی تسکین کے ساتھ اُس کی جسمانی ساخت کی نمو کے فروغ میں بھی زبردست ممد و معاون ثابت ہوتی ہیں۔

یہ الگ بات ہے کہ ہم رہین ستم ہائے روزگار رہنے اور اندیشہ ہائے دور دراز میں کھوئے رہنے کی وجہ سے اس حقیقت پر غور و فکر نہیں کرتے ۔ مثال کے طور پر ان عبادات میں ایک عبادت بہ ہر صورت ادا کرنا ہوتی ہے خواہ شدت ِ علالت ہو یا عالم مسافرت، دن کا اجالا ہو یا ظلمتِ شب ِ تاب اپنے وقت پر اس کا ادا کرنا ازبس ضروری ہے اور اس کی ادائی میں اگر دانستہ کوتاہی کا تسلسل آ جائے تو ایمان تک خطرے میں پڑ جاتا ہے۔

نماز آتش جہنم کے دہکتے ہوئے شعلوں سے نجات کے علاوہ انسانی قویٰ کو مضمحل ہونے سے بچاتی ہے، رکوع و سجود خود بہ خود دوران خون کو مہمیز لگاتے ہیں۔ اسی طرح حج بھی قربت خداوندی کا بے مثال مظہر ہونے کے ساتھ انسان کو محنت و مشقت سے آشنائی کا شرف بخشتا ہے بعینہ روزہ بھی (اگر اُس میں خلوص و ایثار شامل ہو ) مسلمان کو اقلیم روحانیت کا تاج ور بنا دینے کے ساتھ اُس کو پیکرِ صبر و استقامت اور کمال ضبط ِ نفس کی معراج پر متمکن کر دینے کے علاوہ طبی اعتبار سے بھی اس کی تطہیر کر دیتا ہے۔

جب سے اہل ایمان پر روزہ فرض کیا گیا ہے اُس وقت سے لے کر آج تک ماہرین طب اس کے فیوض و برکات کا تجزیہ کرتے چلے آ رہے ہیں اور جوں جوں میدان طب میں جدید تحقیق فروغ پاتی جا رہی ہے روزے کی اہمیت اتنی ہی واضح تر ہوتی جا رہی ہے۔ سال میں گیارہ ماہ تک انسان لذات و لطافتِ نعائم ِ فطرت سے حَظ اٹھاتا رہتا ہے، لذت کام و دہن کا تواتر سے اہتمام اُس کا جزو لاینفک بنا رہتا ہے، اُس کا دستر خوان تین وقت متنوع خور و نوش سے مزین رہتا ہے، نرم و گرم اور ثقیل و شحیم غذا حلاوت ِ زبان کا باعث بنی رہتی ہے۔

رسولِ خدا ﷺ کے فرمانِ مبارک کا مفہوم ہے: '' اﷲ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے جو چاہو کھاؤ، مگر اُس میں اسراف اور تکبر نہیں ہونا چاہیے۔'' مگر ہم بدنصیب اس سنہری قولِ رسول ؐ پر بھی عمل نہیں کرتے اور رطب و یابس سے لُطف اٹھانے میں محو رہتے ہیں، ان وقت اور بے وقت مرغن کھانوں کی وجہ سے معدہ و جگر متاثر ہوتے رہتے ہیں۔

اس دوران ہمارے عالم بے خبری کی وجہ سے مختلف موذی امراض جنم لینا شروع کر دیتے ہیں اور وہ آہستہ آہستہ پورے نظام انہضام کو اپنی گرفت میں لیتے ہیں اور ہمیں پتا اُس وقت چلتا ہے جب (خدا نہ خواستہ) ہمارے قصر جسمانی کی دیواروں میں دراڑ آنا شروع ہوجاتی ہے اور ایک وقت ایسا بھی آجاتا ہے کہ دنیا کا بڑے سے بڑا مسیحا بھی بے بس نظر آتا ہے اور پھر ہمیں اپنی آنکھوں کے سامنے موت رقص کرتی نظر آتی ہے۔ حکمت خداوندی نے ہمارے اندر کے تمام آرگنز بیماریوں کے حملوں سے بچانے کے لیے روزے کی صورت میں ایک ایسی نعمتِ غیر مترقبہ مرحمت فرمائی ہے جس کی اہمیت کا ہمیں پوری طرح ادراک نہیں ہوتا۔ بحر علالت میں ہمارے سفینۂ صحت کو ہچکولوں سے بچانے کے لیے حکیم کائنات نے روزہ فرض کیا کہ میرے بندے آخرت میں میرے دیدار جیسی عدیم النظیر نعمت سے بہرہ یاب ہو جائیں اور اُن کے اجسام امراضِ معدہ سے بھی محفوظ رہ سکیں۔

یہ تو ہوئی حفظانِ صحت کے اعتبار سے روزے کی برکات و اہمیت۔ اس کے انوار و تجلیات کا ایک دوسرا پرَتو بھی ہے جو کارگہہ ِ حیات میں ایک مسلمان کو صبر و استقامت اور کمال ضبطِ نفس کے بام تک پہنچاتا ہے، وہ ہے صبر و استقامت اور ضبطِ نفس کا گوہر نایاب جس کی تابش سے انسان کا ظلمت کدہ حیات جگمگا اٹھتا ہے۔ روزہ خوش خوراک، خوش لباس اور فارغ البال آسودہ حال لوگوں کو غربت کے تھپیڑوں کا شکار رہنے والوں سے محبت و مروت کی ترغیب دیتا ہے۔ بہ وقت افطار انواع و اقسام کے کھانوں سے لطف اٹھاتے وقت فطری طور پر خیال اُن افلاس زدہ لوگوں کی طرف چلا جاتا ہے جو فقط پانی کے ایک گھونٹ سے افطار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ روزے کا یہی وہ بنیادی فلسفہ ہے جو امراء کے احساسات میں مخلوق خدا سے محبت کی بجلیاں دوڑا دیتا ہے۔

روزہ ایک مسلمان کے جذبۂ خیر سگالی، رواداری، بردباری اور صبر و استقامت کو درجۂ کمال تک پہنچا دیتا ہے۔ ماہ رمضان المبارک کے علاوہ اگر کبھی پیمانۂ امروز و فردا کو ماپتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے جاوداں، پیہم رواں ہونا پڑے تو یہ رمضان کے ریفریشر کورس کا ہی تصدق ہوتا ہے کہ مصائب و آلام کی آندھیوں کا رُخ آسانی سے پھیرا جا سکتا ہے۔

روزہ مسلمان میں جلال و کبریا کا خوف پیدا کرتا ہے۔ روزہ رکھنے کے بعد دنیاوی لذات و شہوات کی طرف بڑھتے ہوئے قدم از خود رُک جاتے ہیں۔ ذہن پر یہ احساس و ادراک غالب آنے لگتا ہے کہ اب اگر حیا کی حدیں ہی عبور کرنی ہیں یا لذائذِ دینوی کا تعاقب کرنا ہے تو پھر بھوکا پیاسا رہنے کا کیا فائدہ۔ لہذا یہ سب کچھ کر گزرنے کے حوصلے اور ولولے ماند پڑ جاتے ہیں، رکوع اور سجود کے لیے جبینیں بے تاب ہونے لگتی ہیں، قرآن حکیم میں پائی جانے والی فطری جاذبیت و سحر طرازی روزہ داروں کو اپنی طرف کھینچنے لگتی ہیں، روزے کے ساتھ تلاوت قرآن پاک کا لطف دوبالا ہونے لگتا ہے، قدوم انسانیت مساجد کی طرف خود بہ خود اٹھنے لگتے ہیں، ذوق سحر خیزی فروغ پانے لگتا ہے، روزے کی برکت کی وجہ سے صاحبان ثروت خزائن کے منہ کھول دیتے ہیں، دل محبتوں کی آماج گاہ بن جاتے ہیں اور اﷲ کا سحابِ کرم ہر جگہ خوب کُھل کر برستا ہے، ہر خاطی و عاصی پکار اٹھتا ہے :

آتے نہیں انداز مجھے حُسنِ طلب کے

اے رحمتِ یزداں یہ میرا دستِ دعا ہے

گویا روزہ نام ہے اﷲ سے قربت کی منازل طے کرنے کا، روزہ نام ہے حضورؐ کی سنتوں کے احیا کا، روزہ نام ہے رموزِ صبر و استقامت سیکھنے کا، روزہ نام ہے قرینہ ہائے ضبط نفس سے آگہی کا، روزہ نام ہے خوفِ خدا سے معاصی پر اشک ہائے ندامت بہانے کا، روزہ نام ہے منازل مہر و وفا طے کرنے کا، روزہ نام ہے رات کی تاریکی میں مفلوک الحال لوگوں کی استعانت کا، روزہ نام ہے طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک بے مثال نعائم خدا وندی کو جزو بدن نہ بنانے کا، روزہ نام ہے احترام آدمیت کے گُر سیکھنے اور سکھانے کا، روزہ نام ہے دولت عجز و انکسار سمیٹنے کا، روزہ نام ہے نخل تصنع و ریا کی بیخ کنی کا۔ یوں پورا رمضان المبارک صبر و رضا اور بندگی رب کا عکاس ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں