گرمیوں کے تعمیری دن
اگر ہم سماجی زندگی میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں اگر تو ہمیں اپنے بچوں کو وقت دینا پڑے گا۔
گرمیوں کے دن ! یہ خوبصورت دن دھیرے دھیرے گزرتے ہیں، ہر موسم کے اپنے رنگ اور لوازمات ہیں، مگر گرمی کے موسم کا اپنا ایک اثر دکھائی دیتا ہے۔ آپ اسے آزادی کا موسم بھی کہہ سکتے ہیں۔ ایک بے باک روح فطرت کی، ہر سمت رواں دواں دکھائی دینے لگتی ہے، منظرگہرے اور بامعنی۔
آپ کا تعلق خوبصورت آوازوں سے جڑ جاتا ہے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ،کوئل کی کوک، بہتے پانی کا شور اور ہواؤں کی سرسراہٹ منتشر ذہن کو تھپتھپانے لگتی ہے۔ آپ کے ذہن کے اندر ایک اسپیس ہے، جہاں ایک گہری خاموشی اور سکون ہم کلام ہونے لگتا ہے ۔ اس کا تعلق زندگی کے مسائل سے نہیں ۔ سمجھ لیجیے ایک وقفہ دن بھر میں ذہن کو ملنا چاہیے ۔ جب ذہن و جسم کے خلیے بھر پور اور گہری سانس لے سکیں۔
سانس لینا بھی فن ہے۔ ماحول کی توانائی اور مہک کو سمیٹ کر اپنے اندر اتارنے کا ہنر ہر ایک کو نہیں آتا۔ یہ خوف میں لپٹی، ڈری اور سہمی سانسیں ہماری زندگی کا دورانیہ کم کر دیتی ہیں۔ سانسوں کو بھی ذہن و ماحول کی ہم آہنگی چاہیے۔ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔ ذہنی دباؤ ہو یا کوئی پریشانی مگر سانس لیتے رہیے روانی سے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سانس لینا ایک میکنزم ہے۔ فقط مشینی انداز میں سانس لیتے رہیں اور سانسیں وجود پر بوجھ بنی رہیں ۔ پورے سال کی تھکن ایک طرف مگر گرمیوں کی تعطیلات کا نیا پن، مہم جوئی اور دریافتیں بھی تو منتظر ہیں ہماری۔ ہر موسم اپنے ساتھ اپنی ترتیب اور منصوبہ بندی لے کر آتا ہے ۔ موسم کی تبدیلیوں کا سامنا کس طرح کرنا چاہیے تاکہ اپنے تھکے ماندے احساس کو خوشگوار تبدیلی سے بہرہ ور کرسکیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ہر کوئی سفر افورڈ نہیں کرسکتا ، مگر تبدیلی کا تعلق سہولیات، پیسے یا مواقعے سے نہیں ہے۔ ایک اندرونی سفر بھی ہوسکتا ہے۔ فرصت کے لمحات میں آپ اندر کے غیر دریافت شدہ خطے دریافت کرنے لگیں! Self Discovery یعنی خود دریافت کرنے کا جوہر یا Self Awareness خود آگہی کا سلیقہ خداداد صلاحیتیں نہیں ہیں ۔ ان کا تعلق ارتکاز، مشاہدے اور تجربے سے ہے، یہ دھیان کا ثمر ہے۔
ایک پورا دن اپنے اندر مختلف محرکات کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ مثال پھول کا کھلنا روز مرہ کے معمولات کا حصہ کیوں نہ ہو مگر یہ ایک غیر معمولی تبدیلی ہے۔ ہر تخلیقی عمل ایک انوکھا اظہار ہے لمحوں کا ! فطرت کے پاس غیر معمولی تبدیلی کا پورا جہان آباد ہے۔ پھول کا کھلنا اور ہوا کا اس کے قریب سرسرانا، خوشبو کا پھلنا اور احساس تک رسائی اور اس کا ردعمل ایک پرکیف اثر ہے۔ پھول کے قریب شہد کی مکھیوں، بھنوروں و تتلیوں کا ایک جہان آباد ہوتا ہے۔ یہ سب روز مرہ کے معمول کا حصہ ہونے کے باوجود نیا پن ہے۔
دیکھ لیجیے یہ نیا پن کس قدر آپ کے اندر ہے اورکس حد تک آپ موسموں کے اثر سے واقف ہیں ۔ اس سوال کا جواب ذہنی استطاعت و کارکردگی کا تعین کرسکتا ہے۔ جو روزمرہ کے ذاتی مشاہدے و تجربات کے بغیر نامکمل ہیں۔ کتاب یا مشینیں اس کا نعم البدل ہرگز نہیں بن سکتے۔
لیکن اس سال ہم بہت کچھ نیا کرسکتے ہیں۔ ایک ایسا لائحہ عمل جو بچوں و نوجوانوں کے لیے حسیاتی طور پر فائدہ مند ثابت ہو۔ والدین بچوں کو سمر کیمپس میں داخلہ دلواتے ہیں یا پھر انتظار کرتے ہیں کہ کب تعلیمی ادارے کھلیں گے۔ بچوں کے شور و شرارتوں میں زندگی ہے۔ انھیں معیاری وقت چاہیے والدین سے۔
درحقیقت یہ گرمیوں کے دن بہت سے ذہنی فاصلے کم کرسکتے ہیں، اگر والدین چاہیں تو یکسانیت سے ہٹ کر ایک نیا اور مثبت مکالمہ ترتیب دے سکتے ہیں جو ستائشی جملوں سے مزین ہو ! جنریشن گیپ ہو یا رابطے کا فقدان اس کا سبب اچھی اور مثبت شیئرنگ کی کمی ہے۔ مثبت باہمی گفتگو اور دکھ سکھ بانٹنے کا سلیقہ یا تو سرے سے تھا ہی نہیں یا پھر دن بہ دن کم ہوتا جا رہا ہے۔ ڈائیلاگ، گفتگو یا مکالمہ ازحد ضروری ہیں ۔ یہ اس لیے بے اثر ہوچکے ہیں کہ ہم نے ذہن پر مختلف نظریات کے چشمے چڑھا دیے ہیں۔ ذہن کی آنکھ کو غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب ہم اپنے نقطہ نگاہ سے دوسروں کو پرکھنے کی کوشش نہ کریں۔
خاص طور پر بچے جنگلی پھولوں کی طرح ہوتے ہیں اور ہم انھیں اپنے مطلب یا مقصد کے گلدان میں سجانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ فطرت کا فطری پن اس وقت برقرار رہ سکتا ہے، جب ہم انھیں مواقعے دیں کہ وہ اپنی مرضی سے سانس لے سکیں! اوور پروٹیکٹیو نہ بنیے۔ بچے یا ٹین ایجرز کو ہر وقت سجانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ وہ تنگ آجاتے ہیں ان رویوں سے۔ یا تو ان کے ساتھ باہمی مثبت مکالمہ تخلیق کرنے کا سلیقہ سیکھیے، خود پر ضابطہ رکھتے ہوئے یا پھر انھیں تخلیقی کاموں میں انوالو کرنے کی کوشش کریں جیسے:
کتاب پڑھنا : گھر میں کتاب کو متعارف کروائیے اچھے دوست کی طرح ۔ یہ ایسا دوست ہے جو جلنے کڑھنے یا حسد کرنے کے بجائے آپ کو اچھے مشورے دے گا ۔ اسٹڈی سرکلز قائم کیجیے گھر میں۔ آپ کوکہانی سنانے کا فن نہیں آتا کوئی بات نہیں۔آپ بچوں کو خود کہانی پڑھ کر سنائیے۔ لوک کہانیوں کو فوقیت دیجیے۔ یہ کردار میں مثبت تبدیلی لے کر آتی ہیں۔
باغبانی کرنا: یہ بھی کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ بچوں کو بتائیے کہ زمین میں بیج کیسے بویا جاتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے گملے لے کر دیجیے۔ گرمی کے پھولوں کی بہار ہے ہر طرف۔ وہ خود ان پھولوں کا بیج لگائیں اور اپنی اگائی ہوئی فصل کی بہار کا خود مشاہدہ کریں۔
ماحولیاتی معلومات: گرمیوں کے ان دنوں میں انھیں موسم کے بارے میں بتائیے۔ بچوں کو ماحولیات کا شعور ہونا چاہیے۔ جیسے گرمی سے بچاؤ کے طریقے۔ انھیں ساتھ لے کر جائیے بازار اور چھتریاں، کیپس، سن گلاسز اور سن بلاک لے کر دیجیے اور ان چیزوں کے استعمال کی افادیت بتائیے۔
پانی کی اہمیت: گرمیوں کے دنوں میں اگر بچے دریا، سمندر یا بہتے پانی کے نزدیک نہیں جاسکتے تو آپ کے پاس دوسرا متبادل ذریعہ موجود ہے۔ یعنی پلاسٹک کے سوئمنگ پولز۔ آپ فون یا دوسری مصروفیت ترک کرکے انھیں وقت دیجیے۔ خاص طور پر والدکو بہت ہی مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔
کھلی فضا کا اثر : والدین بچوں کو روز باہر لے کر جا سکتے ہیں ۔ قریب ہی کسی باغ یا کھلی جگہ ۔ آپ پورا سال سفر کے لیے بچت پلان بنائیے اور گرمیوں کی چھٹیوں میں ملکی و غیر ملکی سفرکے پروگرام بنائیے، لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہم جن شہروں میں رہائش پذیر ہیں، ان کے بارے میں بھی کم جانتے ہیں۔ سب سے پہلے اپنے شہرکو دریافت کیجیے۔ جیسے شہر کے باغات، میوزیم، تاریخی مقامات و کتب خانے وغیرہ۔ مالز یا بولیوارڈ وغیرہ تفریحی مراکز نہیں ہوسکتے۔ تفریح کے لیے کھلی جگہ، تازہ ہوا اور باغات کی اہمیت ہر دور میں رہی ہے۔ جہاں بھی جائیں اپنا اور اہل خانہ کا موبائل آف کروا دیجیے۔
اگر ہم سماجی زندگی میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں اگر تو ہمیں اپنے بچوں کو وقت دینا پڑے گا۔ ان کے لیے تخلیقی سرگرمیاں ترتیب دینی پڑیں گی۔ یہ حقیقت ہے کہ بڑے تبدیل نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا موجودہ حالات سے کوئی بڑی توقع نہیں رکھی جاسکتی البتہ یہ بچے ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں۔ انھیں تعمیری سرگرمیوں کے بہترین مواقعے مہیا کرکے ان کی بہترین ذہنی و روحانی تربیت کی جاسکتی ہے۔
آپ کا تعلق خوبصورت آوازوں سے جڑ جاتا ہے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ،کوئل کی کوک، بہتے پانی کا شور اور ہواؤں کی سرسراہٹ منتشر ذہن کو تھپتھپانے لگتی ہے۔ آپ کے ذہن کے اندر ایک اسپیس ہے، جہاں ایک گہری خاموشی اور سکون ہم کلام ہونے لگتا ہے ۔ اس کا تعلق زندگی کے مسائل سے نہیں ۔ سمجھ لیجیے ایک وقفہ دن بھر میں ذہن کو ملنا چاہیے ۔ جب ذہن و جسم کے خلیے بھر پور اور گہری سانس لے سکیں۔
سانس لینا بھی فن ہے۔ ماحول کی توانائی اور مہک کو سمیٹ کر اپنے اندر اتارنے کا ہنر ہر ایک کو نہیں آتا۔ یہ خوف میں لپٹی، ڈری اور سہمی سانسیں ہماری زندگی کا دورانیہ کم کر دیتی ہیں۔ سانسوں کو بھی ذہن و ماحول کی ہم آہنگی چاہیے۔ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔ ذہنی دباؤ ہو یا کوئی پریشانی مگر سانس لیتے رہیے روانی سے۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سانس لینا ایک میکنزم ہے۔ فقط مشینی انداز میں سانس لیتے رہیں اور سانسیں وجود پر بوجھ بنی رہیں ۔ پورے سال کی تھکن ایک طرف مگر گرمیوں کی تعطیلات کا نیا پن، مہم جوئی اور دریافتیں بھی تو منتظر ہیں ہماری۔ ہر موسم اپنے ساتھ اپنی ترتیب اور منصوبہ بندی لے کر آتا ہے ۔ موسم کی تبدیلیوں کا سامنا کس طرح کرنا چاہیے تاکہ اپنے تھکے ماندے احساس کو خوشگوار تبدیلی سے بہرہ ور کرسکیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ہر کوئی سفر افورڈ نہیں کرسکتا ، مگر تبدیلی کا تعلق سہولیات، پیسے یا مواقعے سے نہیں ہے۔ ایک اندرونی سفر بھی ہوسکتا ہے۔ فرصت کے لمحات میں آپ اندر کے غیر دریافت شدہ خطے دریافت کرنے لگیں! Self Discovery یعنی خود دریافت کرنے کا جوہر یا Self Awareness خود آگہی کا سلیقہ خداداد صلاحیتیں نہیں ہیں ۔ ان کا تعلق ارتکاز، مشاہدے اور تجربے سے ہے، یہ دھیان کا ثمر ہے۔
ایک پورا دن اپنے اندر مختلف محرکات کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ مثال پھول کا کھلنا روز مرہ کے معمولات کا حصہ کیوں نہ ہو مگر یہ ایک غیر معمولی تبدیلی ہے۔ ہر تخلیقی عمل ایک انوکھا اظہار ہے لمحوں کا ! فطرت کے پاس غیر معمولی تبدیلی کا پورا جہان آباد ہے۔ پھول کا کھلنا اور ہوا کا اس کے قریب سرسرانا، خوشبو کا پھلنا اور احساس تک رسائی اور اس کا ردعمل ایک پرکیف اثر ہے۔ پھول کے قریب شہد کی مکھیوں، بھنوروں و تتلیوں کا ایک جہان آباد ہوتا ہے۔ یہ سب روز مرہ کے معمول کا حصہ ہونے کے باوجود نیا پن ہے۔
دیکھ لیجیے یہ نیا پن کس قدر آپ کے اندر ہے اورکس حد تک آپ موسموں کے اثر سے واقف ہیں ۔ اس سوال کا جواب ذہنی استطاعت و کارکردگی کا تعین کرسکتا ہے۔ جو روزمرہ کے ذاتی مشاہدے و تجربات کے بغیر نامکمل ہیں۔ کتاب یا مشینیں اس کا نعم البدل ہرگز نہیں بن سکتے۔
لیکن اس سال ہم بہت کچھ نیا کرسکتے ہیں۔ ایک ایسا لائحہ عمل جو بچوں و نوجوانوں کے لیے حسیاتی طور پر فائدہ مند ثابت ہو۔ والدین بچوں کو سمر کیمپس میں داخلہ دلواتے ہیں یا پھر انتظار کرتے ہیں کہ کب تعلیمی ادارے کھلیں گے۔ بچوں کے شور و شرارتوں میں زندگی ہے۔ انھیں معیاری وقت چاہیے والدین سے۔
درحقیقت یہ گرمیوں کے دن بہت سے ذہنی فاصلے کم کرسکتے ہیں، اگر والدین چاہیں تو یکسانیت سے ہٹ کر ایک نیا اور مثبت مکالمہ ترتیب دے سکتے ہیں جو ستائشی جملوں سے مزین ہو ! جنریشن گیپ ہو یا رابطے کا فقدان اس کا سبب اچھی اور مثبت شیئرنگ کی کمی ہے۔ مثبت باہمی گفتگو اور دکھ سکھ بانٹنے کا سلیقہ یا تو سرے سے تھا ہی نہیں یا پھر دن بہ دن کم ہوتا جا رہا ہے۔ ڈائیلاگ، گفتگو یا مکالمہ ازحد ضروری ہیں ۔ یہ اس لیے بے اثر ہوچکے ہیں کہ ہم نے ذہن پر مختلف نظریات کے چشمے چڑھا دیے ہیں۔ ذہن کی آنکھ کو غیر جانبدار ہونا چاہیے۔ یہ اس وقت ممکن ہے جب ہم اپنے نقطہ نگاہ سے دوسروں کو پرکھنے کی کوشش نہ کریں۔
خاص طور پر بچے جنگلی پھولوں کی طرح ہوتے ہیں اور ہم انھیں اپنے مطلب یا مقصد کے گلدان میں سجانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ فطرت کا فطری پن اس وقت برقرار رہ سکتا ہے، جب ہم انھیں مواقعے دیں کہ وہ اپنی مرضی سے سانس لے سکیں! اوور پروٹیکٹیو نہ بنیے۔ بچے یا ٹین ایجرز کو ہر وقت سجانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ وہ تنگ آجاتے ہیں ان رویوں سے۔ یا تو ان کے ساتھ باہمی مثبت مکالمہ تخلیق کرنے کا سلیقہ سیکھیے، خود پر ضابطہ رکھتے ہوئے یا پھر انھیں تخلیقی کاموں میں انوالو کرنے کی کوشش کریں جیسے:
کتاب پڑھنا : گھر میں کتاب کو متعارف کروائیے اچھے دوست کی طرح ۔ یہ ایسا دوست ہے جو جلنے کڑھنے یا حسد کرنے کے بجائے آپ کو اچھے مشورے دے گا ۔ اسٹڈی سرکلز قائم کیجیے گھر میں۔ آپ کوکہانی سنانے کا فن نہیں آتا کوئی بات نہیں۔آپ بچوں کو خود کہانی پڑھ کر سنائیے۔ لوک کہانیوں کو فوقیت دیجیے۔ یہ کردار میں مثبت تبدیلی لے کر آتی ہیں۔
باغبانی کرنا: یہ بھی کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ بچوں کو بتائیے کہ زمین میں بیج کیسے بویا جاتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے گملے لے کر دیجیے۔ گرمی کے پھولوں کی بہار ہے ہر طرف۔ وہ خود ان پھولوں کا بیج لگائیں اور اپنی اگائی ہوئی فصل کی بہار کا خود مشاہدہ کریں۔
ماحولیاتی معلومات: گرمیوں کے ان دنوں میں انھیں موسم کے بارے میں بتائیے۔ بچوں کو ماحولیات کا شعور ہونا چاہیے۔ جیسے گرمی سے بچاؤ کے طریقے۔ انھیں ساتھ لے کر جائیے بازار اور چھتریاں، کیپس، سن گلاسز اور سن بلاک لے کر دیجیے اور ان چیزوں کے استعمال کی افادیت بتائیے۔
پانی کی اہمیت: گرمیوں کے دنوں میں اگر بچے دریا، سمندر یا بہتے پانی کے نزدیک نہیں جاسکتے تو آپ کے پاس دوسرا متبادل ذریعہ موجود ہے۔ یعنی پلاسٹک کے سوئمنگ پولز۔ آپ فون یا دوسری مصروفیت ترک کرکے انھیں وقت دیجیے۔ خاص طور پر والدکو بہت ہی مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔
کھلی فضا کا اثر : والدین بچوں کو روز باہر لے کر جا سکتے ہیں ۔ قریب ہی کسی باغ یا کھلی جگہ ۔ آپ پورا سال سفر کے لیے بچت پلان بنائیے اور گرمیوں کی چھٹیوں میں ملکی و غیر ملکی سفرکے پروگرام بنائیے، لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہم جن شہروں میں رہائش پذیر ہیں، ان کے بارے میں بھی کم جانتے ہیں۔ سب سے پہلے اپنے شہرکو دریافت کیجیے۔ جیسے شہر کے باغات، میوزیم، تاریخی مقامات و کتب خانے وغیرہ۔ مالز یا بولیوارڈ وغیرہ تفریحی مراکز نہیں ہوسکتے۔ تفریح کے لیے کھلی جگہ، تازہ ہوا اور باغات کی اہمیت ہر دور میں رہی ہے۔ جہاں بھی جائیں اپنا اور اہل خانہ کا موبائل آف کروا دیجیے۔
اگر ہم سماجی زندگی میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں اگر تو ہمیں اپنے بچوں کو وقت دینا پڑے گا۔ ان کے لیے تخلیقی سرگرمیاں ترتیب دینی پڑیں گی۔ یہ حقیقت ہے کہ بڑے تبدیل نہیں ہوسکتے۔ لہٰذا موجودہ حالات سے کوئی بڑی توقع نہیں رکھی جاسکتی البتہ یہ بچے ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں۔ انھیں تعمیری سرگرمیوں کے بہترین مواقعے مہیا کرکے ان کی بہترین ذہنی و روحانی تربیت کی جاسکتی ہے۔