رمضان المبارک انقلاب کی نوید
کاش ہم ویسے ہوجائیں جیسا قرآن ہمیں بنانا چاہتا ہے
رمضان المبارک اور قرآن کریم کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کو ہدایت دینے اور روشن دلیلیں دینے والا اور حق و باطل میں فیصلہ کرنے والا ہے۔
رمضان المبارک کی آمد اور اِس کے روزے زندگی میں ایک انقلابی عمل برپا کرکے اُسے تقوے کی اعلیٰ منازل پر فائز کرنے کا وسیلہ اور ذریعہ ہیں۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ایمان والو! ہم نے تم پر رمضان کے روزے فرض کیے جیسے تم سے پچھلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تمہیں تقویٰ اور پرہیزگاری حاصل ہو۔
قرآن کریم اﷲ تعالیٰ کا کلام اور انوار و تجلیّاتِ الٰہیہ کا منبع و سرچشمہ ہے۔ قرآن ہدایت اور روشنی ہے، یہ تو اقوام میں انقلاب برپا کرنے کے لیے نازل کیا گیا تھا، اس پر عمل کرنے والوں کو سارے جہاں پر فضیلت بخشی گئی۔
ہماری سوچ کیوں کہ محدود ہوگئی کہ ہم نے اِسے اتنے معمولی کاموں کے لیے سمجھ لیا اور اتنے پر اکتفا کرلیا کہ بس کسی پریشانی یا موت، میت کے وقت قرآن پڑھوا دیا جائے، آسیب زَدہ یا بیمار پر اِس سے ہوا کردی، بیٹی رخصت کرتے وقت اُس کے سر پر سائبان کردیا جائے، کہیں اپنا کردار داؤ پر لگا ہو تو اپنی ذات بچانے کے لیے یا اپنی سچائی یا جھوٹ کے تصفیے کے لیے، ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے بہ طور قسم اٹھا لیا جائے، کیا ہمارا قرآن سے بس اتنا ہی تعلق ہے۔ جب کہ اﷲ تعالیٰ واضح طور پر قرآن مجید میں غور کرنے کا حکم فرما رہا ہے کہ توکیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے یا اُن کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں۔ ایک مقام پر اپنے اِس کلام کی عظمت کو بیان فرمایا کہ پہاڑ بھی خوف سے ریزہ ریزہ ہوجاتے، اگر یہ قرآن اُس پر نازل ہوجاتا۔
انسان کے قلب کو اﷲ تعالیٰ نے قرآن سے مُزیّن فرمایا اور پھر یہ ارشاد فرمایا کہ بے شک ہم نے آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں پر اپنی امانت پیش کی، تو وہ اِس کے اٹھانے پر آمادہ نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھالیا، بے شک وہ بڑا زیادتی کرنے والا، نادان تھا۔ ظلم کی تعریف یہ ہے کہ کسی شے کو اُس کی جگہ سے ہٹا دینا ظلم ہے۔ آیت میں ظلم بہ معنیٰ قوتِ برداشت ہے۔ یعنی انسان نے خود کو اس بوجھ کے اٹھانے کے قابل سمجھا۔
رسول اﷲ ﷺ رمضان اور قرآن کے باہمی ربط کو اِس حدیث پاک میں یوں بیان فرماتے ہیں، مفہوم : '' حضرت عبداﷲ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ( روزِ قیامت) روزے اور قرآن (دونوں) بندے کی رب کے حضور شفاعت کریں گے، روزے عرض کریں گے : اے رب العزت میں نے اِسے دن کے وقت کھانے، پینے اور لذّتِ شہوات سے روکے رکھا، پس میری شفاعت اِس کے حق میں قبول فرما، اور قرآن یہ عرض کرے گا کہ مولیٰ! میں نے اِسے رات کی بھرپور نیند سے محروم رکھا (کہ راتوں کو اٹھ کر تلاوت کرتا تھا ) پس میری شفاعت اِس کے حق میں قبول فرما۔ اﷲ تعالیٰ ان دونوں کی شفاعت کو قبول فرمائے گا۔'' ( بیہقی)
رمضان المبارک کے آخری عشرے میں رسول اﷲ ﷺ شب بیداری فرماتے یوں تو سال بھر، آٹھوں پہر، صبح و شا م زندگی کا ہر لمحہ یادِ خدا میں بسر ہوتا تھا، لیکن رمضان المبارک میں خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔ حدیث پاک میں ہے: ''جب رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو رسول اﷲ ﷺ کمر ہمت باندھ لیتے، شب بیداری فرماتے اور اہل و عیال کو بھی بیدار فرماتے۔ ( صحیح بخاری)
اُسوۂ رسولؐ یہ درس دیتا ہے کہ ہم اِن ساعات کو غنیمت جانتے ہوئے اپنی بخشش کا ساماں کریں، غفلت کی دبیز چادر کو اتار پھینکیں اور عبادات پر کمربستہ نہیں ہوسکتے تو کم از کم اَخلاق و کردار تو سنوار سکتے ہیں۔ رمضان المبارک انسانی زندگی میں حقیقی انقلاب کی نوید سناتا ہے۔ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی جس طرح بڑے پیمانے پر ہمارے معمولات و مشغولات میں تبدیلی آتی ہے، لوگوں میں نیکی کا جذبہ بڑھ جاتا ہے، مساجد میں نمازیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ سڑکوں، بازاروں، محلوں، گلی کوچوں میں ایک مسرت کا سماں بندھ جاتا ہے۔ آج اعتکاف کرنے والوں کی بڑی تعداد ہر محلے میں موجود ہے، خوش آیند بات یہ ہے کہ اکثریت نوجوانوں کی ہے لیکن ضروری یہ ہے کہ اعتکاف کے نفسِ روح کو سمجھا جائے اور شرعی تقاضوں کے مطابق ادا کیا جائے۔
اِن حقائق کی روشنی میں ہونا تو یہ چاہیے کہ رمضان کے بعد بھی رمضان المبارک کے روحانی اَثرات ہم پر قائم رہیں اور رمضان کے بعد بھی ہمارے شب و روز کے معمولات اور اَطوار میں تبدیلی آئے، لیکن نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے۔ شوال المکرم کا چاند نظر آتے ہی سارے بندھن کھل جاتے ہیں اور لوگ رمضان کی کیفیات سے باہر نکل آتے ہیں۔ جب کہ حدیثِ پاک میں شبِ عید کے قیام کا اجر بیان ہوا ہے۔ عیدالفطر اور عیدالاضحی کی دونوں راتوں کی فضیلت بیان اور اس میں عبادت کے بے بہا ثواب اور اجر کا بتایا گیا ہے۔
کاش ہم ویسے ہوجائیں جیسا کہ قرآن ہمیں دیکھنا اور بنانا چاہتا ہے۔ ہمارے اَعمال سے جھوٹ، دھوکا، بے ایمانی، خودنمائی اور خود فریبی جیسے افعال رذیلہ دور ہوجائیں۔ نیکی کا جذبہ سارے جذبوں پر غالب آجائے، حسنِ سلوک ہماری عادت بن جائے، امن و محبت ہمارا شِعار بن جائے۔
رمضان المبارک کی آمد اور اِس کے روزے زندگی میں ایک انقلابی عمل برپا کرکے اُسے تقوے کی اعلیٰ منازل پر فائز کرنے کا وسیلہ اور ذریعہ ہیں۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ایمان والو! ہم نے تم پر رمضان کے روزے فرض کیے جیسے تم سے پچھلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تمہیں تقویٰ اور پرہیزگاری حاصل ہو۔
قرآن کریم اﷲ تعالیٰ کا کلام اور انوار و تجلیّاتِ الٰہیہ کا منبع و سرچشمہ ہے۔ قرآن ہدایت اور روشنی ہے، یہ تو اقوام میں انقلاب برپا کرنے کے لیے نازل کیا گیا تھا، اس پر عمل کرنے والوں کو سارے جہاں پر فضیلت بخشی گئی۔
ہماری سوچ کیوں کہ محدود ہوگئی کہ ہم نے اِسے اتنے معمولی کاموں کے لیے سمجھ لیا اور اتنے پر اکتفا کرلیا کہ بس کسی پریشانی یا موت، میت کے وقت قرآن پڑھوا دیا جائے، آسیب زَدہ یا بیمار پر اِس سے ہوا کردی، بیٹی رخصت کرتے وقت اُس کے سر پر سائبان کردیا جائے، کہیں اپنا کردار داؤ پر لگا ہو تو اپنی ذات بچانے کے لیے یا اپنی سچائی یا جھوٹ کے تصفیے کے لیے، ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے بہ طور قسم اٹھا لیا جائے، کیا ہمارا قرآن سے بس اتنا ہی تعلق ہے۔ جب کہ اﷲ تعالیٰ واضح طور پر قرآن مجید میں غور کرنے کا حکم فرما رہا ہے کہ توکیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے یا اُن کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں۔ ایک مقام پر اپنے اِس کلام کی عظمت کو بیان فرمایا کہ پہاڑ بھی خوف سے ریزہ ریزہ ہوجاتے، اگر یہ قرآن اُس پر نازل ہوجاتا۔
انسان کے قلب کو اﷲ تعالیٰ نے قرآن سے مُزیّن فرمایا اور پھر یہ ارشاد فرمایا کہ بے شک ہم نے آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں پر اپنی امانت پیش کی، تو وہ اِس کے اٹھانے پر آمادہ نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھالیا، بے شک وہ بڑا زیادتی کرنے والا، نادان تھا۔ ظلم کی تعریف یہ ہے کہ کسی شے کو اُس کی جگہ سے ہٹا دینا ظلم ہے۔ آیت میں ظلم بہ معنیٰ قوتِ برداشت ہے۔ یعنی انسان نے خود کو اس بوجھ کے اٹھانے کے قابل سمجھا۔
رسول اﷲ ﷺ رمضان اور قرآن کے باہمی ربط کو اِس حدیث پاک میں یوں بیان فرماتے ہیں، مفہوم : '' حضرت عبداﷲ بن عمروؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ( روزِ قیامت) روزے اور قرآن (دونوں) بندے کی رب کے حضور شفاعت کریں گے، روزے عرض کریں گے : اے رب العزت میں نے اِسے دن کے وقت کھانے، پینے اور لذّتِ شہوات سے روکے رکھا، پس میری شفاعت اِس کے حق میں قبول فرما، اور قرآن یہ عرض کرے گا کہ مولیٰ! میں نے اِسے رات کی بھرپور نیند سے محروم رکھا (کہ راتوں کو اٹھ کر تلاوت کرتا تھا ) پس میری شفاعت اِس کے حق میں قبول فرما۔ اﷲ تعالیٰ ان دونوں کی شفاعت کو قبول فرمائے گا۔'' ( بیہقی)
رمضان المبارک کے آخری عشرے میں رسول اﷲ ﷺ شب بیداری فرماتے یوں تو سال بھر، آٹھوں پہر، صبح و شا م زندگی کا ہر لمحہ یادِ خدا میں بسر ہوتا تھا، لیکن رمضان المبارک میں خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔ حدیث پاک میں ہے: ''جب رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو رسول اﷲ ﷺ کمر ہمت باندھ لیتے، شب بیداری فرماتے اور اہل و عیال کو بھی بیدار فرماتے۔ ( صحیح بخاری)
اُسوۂ رسولؐ یہ درس دیتا ہے کہ ہم اِن ساعات کو غنیمت جانتے ہوئے اپنی بخشش کا ساماں کریں، غفلت کی دبیز چادر کو اتار پھینکیں اور عبادات پر کمربستہ نہیں ہوسکتے تو کم از کم اَخلاق و کردار تو سنوار سکتے ہیں۔ رمضان المبارک انسانی زندگی میں حقیقی انقلاب کی نوید سناتا ہے۔ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی جس طرح بڑے پیمانے پر ہمارے معمولات و مشغولات میں تبدیلی آتی ہے، لوگوں میں نیکی کا جذبہ بڑھ جاتا ہے، مساجد میں نمازیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ سڑکوں، بازاروں، محلوں، گلی کوچوں میں ایک مسرت کا سماں بندھ جاتا ہے۔ آج اعتکاف کرنے والوں کی بڑی تعداد ہر محلے میں موجود ہے، خوش آیند بات یہ ہے کہ اکثریت نوجوانوں کی ہے لیکن ضروری یہ ہے کہ اعتکاف کے نفسِ روح کو سمجھا جائے اور شرعی تقاضوں کے مطابق ادا کیا جائے۔
اِن حقائق کی روشنی میں ہونا تو یہ چاہیے کہ رمضان کے بعد بھی رمضان المبارک کے روحانی اَثرات ہم پر قائم رہیں اور رمضان کے بعد بھی ہمارے شب و روز کے معمولات اور اَطوار میں تبدیلی آئے، لیکن نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہت کم ایسا ہوتا ہے۔ شوال المکرم کا چاند نظر آتے ہی سارے بندھن کھل جاتے ہیں اور لوگ رمضان کی کیفیات سے باہر نکل آتے ہیں۔ جب کہ حدیثِ پاک میں شبِ عید کے قیام کا اجر بیان ہوا ہے۔ عیدالفطر اور عیدالاضحی کی دونوں راتوں کی فضیلت بیان اور اس میں عبادت کے بے بہا ثواب اور اجر کا بتایا گیا ہے۔
کاش ہم ویسے ہوجائیں جیسا کہ قرآن ہمیں دیکھنا اور بنانا چاہتا ہے۔ ہمارے اَعمال سے جھوٹ، دھوکا، بے ایمانی، خودنمائی اور خود فریبی جیسے افعال رذیلہ دور ہوجائیں۔ نیکی کا جذبہ سارے جذبوں پر غالب آجائے، حسنِ سلوک ہماری عادت بن جائے، امن و محبت ہمارا شِعار بن جائے۔