آنجہانی ویٹو سالیئرنو

یورپی دنیا کے ماہر اقبالیات اور ممتاز دانشور جنہوں نے مغرب کو پاکستان کے مثبت چہرے سے روشناس کرایا


توحید احمد April 21, 2013
یورپی دنیا کے ماہر اقبالیات اور ممتاز دانشور جنہوں نے مغرب کو پاکستان کے مثبت چہرے سے روشناس کرایا فوٹو : فائل

KARACHI: سابق اطالوی سفارتکار' محقق' استاد اور اقبال فائونڈیشن یورپ کے صدر پروفیسر ڈاکٹر ویٹو سالیئرنو (1935-2013)' جن کا اس سال 24فروری کو انتقال ہوا ہے' ماہراقبالیات و پاکستانیات اور ا ردو زبان کے شیدائی تھے۔

انہیں اردو کی کلیات اقبالؒ کا اطالوی زبان میں ترجمہ کرنے کا اعزاز حاصل ہے' اس کے علاوہ تحریر و تقریر کے ذریعے مختلف فورمز پر انہوں نے پاکستان اور مغرب کے درمیان پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی اور پاکستان کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ زمانہ طالب علمی میں انہوں نے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پانی کے مسئلے اور سندھ طاس معاہدے پر تفصیلی مقالہ بھی لکھا تھا۔

وہ سمجھتے تھے کہ پاکستان اور ہندوستان کو مسائل کے حل کے لیے اور خطے میں امن کے قیام کے لیے مذاکرات کرنے چاہئیں لیکن انہیں اس بات کا بھی ادراک تھا کہ مستقبل قریب میں ایسا ہونے کا امکان نہیں ہے' کیونکہ وہ نسل جو مسئلے کو جانتی تھی اب دنیا میں نہیں رہی۔

اسلام اور یورپ کے درمیان حالیہ تنازعات کو وہ ''مقامی حکمرانوں کا سیاسی سٹنٹ'' قرار دیتے تھے' جو سیاسی فائدے کے لیے مسلمانوں کو قربانی کے بکرے کے طور پر استعمال کررہے ہیں جیسا کہ مغربی قوتوں نے دوسرے کمزور ممالک پر اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے مختلف حربے استعمال کئے۔ حکومت پاکستان نے پروفیسر ویٹو کی ناقابل فراموش خدمات پر انہیں ستارۂ قائداعظم سے نوازا۔

(مضمون نگار سابق سفیر پاکستان ہیں)
آج کل اسلامی دنیا اور عالم غرب کے درمیان کشمکش کا چرچا ہے۔ کہا جاتا ہے کے1991میں سو یٹ یو نین کے سقوط کے بعد سے امریکہ کسی نئے دشمن کی تلاش میں ہے۔ امریکی صدر رچرڈ نکسن نے اپنی موت سے قبل 1994ء میں شائع ہونے والی کتاب "Beyond Peace" میں لکھا کہ ''بیسویں صدی غرب اور عالم اسلام کے درمیان معر کہ کی صدی تھی'' اور تجویز کیا کہ آگے چل کر دونوں تہذیبوں کو باہمی بقا کے لیے تعاون کرنا ہو گا۔ (بیسویں صدی میں مجھے تو کوئی ایسا معرکہ ہوا نظر نہیں آتا)۔ البتہ اس تصادم کی ایک شکل یورپ میں پھیلتے ہوئے مرض ''اسلامو فو بیا'' میں دیکھی جا سکتی ہے، جس کی علامات میں مسلمان ہموطنوں سے بیزاری، اسلام سے تنفر، اور عیسائیت میں روزافزوں دلچسپی شامل ہیں۔

ہمارے ہاں اس تصادم میں مناظراتی نعروں والے جلسے جلوس کے انعقاد اورگرما گرم مقالات و کتب کی اشاعت سے شمولیت کا رواج ہے، جن میں اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے عزائم دہرائے جاتے ہیں۔ معاصر مغرب میں پاکستان کے چند دوست ایسے ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی اس آگ کو بجھانے میں زندگیاں لگا دیں۔ انہوں نے روایتی مستشرقیت سے ہٹ کر پاکستان اور دوسرے مسلمان ممالک کی جدید تاریخ کا باقاعد ہ مطالعہ کیا، ان کی زبانیں سیکھیں، ان کا ادب پڑھا، وہاں کے متعدد دورے کئے اور پھر ڈھیر ساری کتب اور مقالات تحریر کئے، مشرقی ادب پاروں کے ترجمے کئے، ملکوں ملکوں کانفرنسوں اور جامعات میں شمولیت کی اور لیکچر دیئے۔ ہمارے ان دوستوں میں سرفہرست تھے پروفیسر ویٹو سالیئرنو جو اس سال فروری کی 24 تاریخ کو مختصر علالت کے بعد شمالی اٹلی کے شہر میلانو میں واقع اپنے گھر میں انتقال کر گئے۔ ان کی عمر 78 برس تھی۔

پروفیسر ویٹو اطالیہ (اٹلی) کے چوٹی کے ماہرِپاکستانیات ہونے کے ساتھ اقبال کے شیدائی اور اردو زبان پر فریفتہ تھے۔ انہوں نے جوانی کے پانچ سال کراچی میں گزارے جہاں وہ 1960ء سے 1964ء کے درمیان اطالوی سفارتخانہ میں ثقافتی اتاشی متعین رہے، اطالوی ثقافتی مرکز کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دیں، اور جامعہ کراچی میں اطالوی زبان کے پروفیسر رہے۔ اس دوران انہوں نے اردو زبان و ادب پر عبور حاصل کیا، اور ایک پاکستانی خاتون سے شادی کرلی، جس کے بطن سے ایک بیٹا پیدا ہوا جس کے کچھ دیر بعد ہی بیگم انتقال کر گئیں۔ اس بیگم سے ان کا فرزند کبھی لوٹ کر پاکستان نہیں آیا۔ چند سال بعد ویٹو نے ایک اطالوی خاتون سے بیاہ کر کے دوبارہ گھر بسا لیا۔ وہ مجھے بتایا کرتے کہ انہوں نے مطالعہ اور تصنیف کی غرض سے میلان سے کوئی 70 کلو میٹر کے فاصلہ پر پہاڑوں میں واقع ایک گائوں میں ایک کٹیا خرید لی ہے، جس میں ضرورت کی اشیاء موجود رہتیں۔ موسم گرما میں ویٹو کافی وقت وہاں صرف کرتے۔ مجھے کئی بار دعوت دی پر میں کبھی ان کی اس جنت کے مزے نہ لوٹ سکا۔

پاکستان میں ان کا شوق زمانہِ طالب علمی میں ابھرا تھا جب وہ میلان یونیورسٹی میں سفارتی تاریخ کے میدان میں پی اِیچ ڈی کر رہے تھے۔ پاکستان میں ویٹو کو جاننے والوں میں سے بھی چند ایک ہی یہ جانتے ہوں گے کہ انہوں نے اس دور میں اپنی یونیورسٹی کیلئے پاک و ہند کے درمیان دریائے سندھ کے پانی پر تنازع کے موضوع پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا تھا۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ میلان شہر کے انسٹیٹیوٹ برائے مشرقِ ِوسطیٰ ومشرقِ بعید میں تاریخِ پاکستان پڑھاتے رہے جس دوران اطالوی حکومت نے ان کو کراچی بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ 1964ء میں اٹلی واپس لوٹ کر وہ چند سال میلان یونیورسٹی میں انگریزی ادب کی تدریس میں مصروف رہے۔ اس کے علاوہ میلان کے قریب ٹورین کے صنعتی شہر کے ایشیائی مطالعات کے اعلیٰ انسٹیٹیوٹ سے بھی منسلک رہے۔

پروفیسر ویٹو سے میری پہلی ملاقات نومبر1991ء میں مسجد قرطبہ کی دیوار کے سائے میں ہوئی جہاں ہم علامہ اقبال پر ایک عالمی کانفرنس میں شریک تھے۔ اس دن کی میری ڈائری میں یہ درج ہے: ''ویٹو نے مجھے بتایا کہ 1964ء میں اس نے پاکستان سے قطع تعلق کر لیا تھا۔ میرے خطوط کے پاکستان سے جواب نہ آتے۔ میں جو کتابیں منگواتا وہ کبھی نہ پہنچتیں۔ اب اگر آپ مجھے صدا نہ دیتے تو میں پاکستان کی طرف لوٹ کے کبھی نہ دیکھتا۔'' خدا ہم گنہگار سفارتکاروں سے کیسے کیسے کام لیتا ہے!

اس ملاقات کے بعد ویٹو صاحب نے اردو کی کلیات اقبال کا اطالوی زبان میں ترجمہ کیا اور یوں وہ واحد مغربی سکالر بن گئے جس نے علامہ کی مکمل اردو شاعری کو کسی یورپی زبان میں منتقل کیا۔ اگلی ملاقات میں انہوں نے مجھے پروفیسر احمد علی کے مختصر ناول ''موت سے پہلے'' کا خوبصورت اطالوی ترجمہ پیش کیا، جس میں آذر زوبی کی پانچ شاندار ڈرائنگ شامل تھیں۔ پھر انہوں نے ''اٹلی کے مسلمان'' اور ''اقبال اور اٹلی'' تحریر کیں۔ ان کی کل 150کتابیں ہیں۔ اپنے آخری ایام میں وہ 'اسلام کی ڈکشنری' اور منٹو کے افسانوں کی کلیات کا ترجمہ کر رہے تھے۔

پروفیسر مو صوف سے میرا تعارف ڈاکٹر این میری شمل کی وساطت سے ہوا تھا۔1987ء سے1991ء تک میں بیلجیئم میں پاکستانی سفارتخانہ میں متعین تھا۔ برسلز یورپ کا دارالخلافہ مانا جاتا تھا جہاں اس وقت بارہ سو سے زیادہ بین الاقوامی اور یورپی تنظیموں کے صدر دفاتر موجود تھے(جن میں سے ایک ہاکی کی بین الاقوامی تنظیم FIH تھی)۔ ان تنظیموں کی بھی ایک یونین تھی جس کے دفتر سے میں نے تین جلدوں پر مشتمل ان کے ممبران کے کوائف کی فہرست حاصل کر لی۔ بغور مطالعہ پر معلوم پڑا کہ ان میں سے ایک کا تعلق بھی پاکستان سے نہ تھا۔ میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ اس خلا کو کیسے پُر کیا جائے؟ اس سوچ میں ڈیڑھ سال بیت گیا۔ ایک دن نیندمیں حکم ہوا کہ علامہ اقبال کے نام سے اقبال فائونڈیشن یورپ قائم کرو۔ میں اٹھ بیٹھا اور اس کام میں جت گیا۔ اپنے خرچ پر قریبی ملکوں کے دورے کئے، جن میں ایک بار جرمنی کے شہر بون پہنچا اور ڈاکٹر شمل کے گھر حاضری دی اور ان کی مدد اور رہنمائی چاہی۔ یہ ان کی عظمت ہے کہ انہوں نے ہامی بھر لی اور بعد میں اس فائونڈیشن کی پہلی صدر بننے کو بھی راضی ہو گئیں۔ اگلی دو ملاقاتوں اور چند فون کالوں میں ڈاکٹر شمل نے مجھے یورپ بھر کے متعدد ماہرین اقبال کے مکمل ڈاک کے پتے اور فون نمبر عطا کئے۔ ان کے گھر ملاقاتوں میں، میں کاغذ پنسل ہاتھ میں رکھتا اور وہ آنکھیں بند کئے پہلے نام لیتیں، مثلاً ویٹو سالیئرنو، اور چند سیکنڈ کے بعد وہ اس شخص کا مکمل ڈاک کا پتہ بولتیں اور میں لکھتا جاتا۔ یوں مجھے یورپ میں مختلف زبانوں اور مختلف ممالک کے ماہرین اقبال کے خاطر خواہ کوائف حاصل ہوئے۔ میں نے ان سب سے ڈاکٹر شمل کے حوالے سے خط کتابت کی اور یوں ویٹو سے میرا تعارف ہوا۔

ویٹو نے ہمیشہ میرے خطوط کا بروقت جواب دیا اور فائونڈیشن کے قیام اور کام میں بھرپور حصہ ڈالا۔ 2003ء میں ڈاکٹر شمل کے انتقال پر اقبال فائونڈیشن یتیم ہو گئی تو ان کے جانشین کی تلاش شروع کی گئی۔ ایسی بڑی شخصیت کی جگہ لینے والے کم ہی تھے۔ اس تلاش میں برمنگھم یونیورسٹی کے ڈاکٹر سعید اختر درانی نے، جو کہ فائونڈیشن کے نائب صدر بھی تھے، بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور آخر2008ء میں پروفیسرویٹو کو راضی کر لیا۔ یوں وہ فائونڈیشن کے صدر رہے۔ ان کی وفات کے بعد فائونڈیشن اب پھر یتیم ہوگئی ہے۔

پروفیسر ویٹو سے رابطے کا یہ سلسلہ ان کی موت سے چند ہفتے قبل تک قائم رہا۔ دسمبر 2012ء کے آخری ہفتے میں مجھے ان کی طرف سے یہ ای میل ملی، جس کا اردو ترجمہ یوں ہے: ''میں ''جاوید نامہ'' اور "The Divine Comedy" پر ایک تقابلی مضمون لکھ رہا ہوں۔ مجھے 1932ء میں لکھے گئے مضمون کی ضرورت ہے، جو یورپ میں دستیاب نہیں ہے۔ یہ ''جاوید نامہ'' پر لکھے جانا والا پہلا تبصرہ ہے جو لاہور کے جریدہ "The Muslim Revival" کے دوسرے شمارے میں 1932ء میں شائع ہوا تھا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس مضمون کا خلاصہ 1932ء میں اٹلی کے ایک جریدہ Moderno" "Oriento میں چھپا تھا۔امید ہے کہ آپ میرے لئے یہ مضمون ڈھونڈ نکالیں گے۔'' میں لاہور کے کئی قدیم کتب خانوں میں گیا اور چند ماہرین کتب خانہ جات سے رابطہ بھی کیا مگر افسوس وہ مضمون نہ مل سکا۔

ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں ستارۂ قائد اعظم کے اعزاز سے نوازا۔ ان کے انتقال پر صدر، وزیراعظم پاکستان اور وزیر خارجہ نے تعزیتی پیغامات جاری کئے، جن میں ان کی پاکستان کیلئے خدمات کو سراہا گیا اور ان کی اقبال فائونڈیشن یورپ کی سربراہی کا خاص طور پر ذکر کیا۔

مغرب اور پاکستان کے درمیان اس مکدر فضا میں پروفیسر ویٹو ایک پل کا کردار ادا کررہے تھے۔ وہ اطالیہ میں خاص طور سے اور یورپ میں عموی طور پر پاکستان کی تاریخ اور ثقافت کے بارے میں مستند معلومات بہم پہنچا رہے تھے۔مغرب اور ہمارے درمیان فضا میں کدورت کا بڑا عنصر لاعلمی ہے۔ مغرب سے آنے والے سبھی بہ یک زبان کہتے ہیں کہ پاکستان وہ نہیں جو انہوں نے یہاں آنے سے پہلے سنا تھا۔ ماہرین نفسیات جانتے ہیں کہ انسانی خوف کی ایک بڑی وجہ معلومات کی کمی ہوتی ہے، مثلاً اندھیرے میں ہر شخص ڈرتا ہے کیونکہ وہ دیکھ نہیں پاتا کہ اس کے آگے یا پیچھے کیا ہے اور وہ قسم قسم کی ڈرائونی چیزوں کا سوچتا ہے، جن کا وجود ہو یا نہ ہو۔ ویٹو کی تصانیف اور تقاریر پاکستا ن کے بارے انہی اندھیروں کو کم کرتی ہیں۔

مغربی فلسفہ میں ''استرے'' Razor کی ایک دلچسپ اصطلاح رائج ہے، جس کا قریبی تعلق ہماری روایت میں مرّوج ''قاطع'' کی اصطلاح سے ہے،مثلاً ''قاطع برہان'' اور ''برہان قاطع''۔ Hanlon's Razor سے مراد ہے کہ ''جس روّیے کے محرک کو بآسانی حماقت سے منسوب کیا جا سکے، اس کی وجہ کینہ یا بدنیتی کبھی نہیں بتانا چاہیے۔'' اس ضمن میں گوئٹے کا یہ قول ہے،''اس جہان میں بدنیتی اور کینہ پروری کی نسبت غلط فہمی اور نظر انداز کرنے کی روش سے زیادہ الجھنیں پیدا ہوتی ہیں'' اور نپولین نے ایک بار کہا تھا کہ ''جن حوادث کو نا اہلی سے خاطر خواہ نسبت دی جا سکے ان کا ذمہ کبھی کینہ پروری کو نہیں دینا چاہیے۔'' اس 'استرے' کا اطلاق کرتے ہوئے ہمیں بھی شاید مغرب سے آنے والے ہر جملے کو بغض یا عناد سے تعبیر کرنے کے بجائے غلط فہمی، کم فہمی، نا اہلی اور نظر اندازکرنے کی روش کیلئے گنجائش چھوڑنا ہو گی۔ مکالمہ اسی فضا میں جنم لیتا ہے۔ اس فضا کو شفاف بنانے میں ویٹو ایسے عالم ہمارے سفیر ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔