قائمہ کمیٹی کا میڈاس پنجاب حکومت تنازع کی رپورٹ نہ دینے پر اظہار برہمی

،ڈمی اخبارات کو اشتہار دینا حکومت پر فرض نہیں، پرویز رشید،سعید غنی سے تلخ کلامی

اشتہاری کمپنیوں کا کارٹیل ختم ہونا چاہیے، روبینہ خالد،ڈمی اخبارات کو اشتہار دینا حکومت پر فرض نہیں، پرویز رشید،سعید غنی سے تلخ کلامی , ٹی ایم این فائل

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات نے وزارت سے گذشتہ تین سال کے دوران اخبارات و جرائد کو دیے گئے اشتہارات کی تفصیلات اور طریقہ کار کی تفصیلات طلب کر لیں۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کااجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر کامل علی آغا کی صدارت میں ہوا۔

اجلاس میں پی ٹی وی کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا، کمیٹی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جب پی ٹی وی ریاست کے وسائل استعمال کر رہا ہے تو پھر یہ ادارہ خسارے میں کیوں ہے،کمیٹی نے پی ٹی وی حکام سے گذشتہ دو سال میں بھرتی کیے گئے ملازمین کی تعداد، ان کی تنخواہیں اور مراعات کی تفصیلات بھی طلب کر لیں، کمیٹی کو ایم ڈی پی ٹی وی یوسف بیگ مرزا نے بتایا کہ خسارے کی وجہ سے ایکسپریس کا انگریزی چینل اور ڈان کا انگریزی چینل بند ہوچکا ہے لیکن اس کے باوجود قومی سطح پر ایک انگریزی چینل نہ ہونے کی وجہ سے پی ٹی وی یہ منصوبہ شروع کررہا ہے کہ ایک انگریزی چینل لانچ کیا جاسکے۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ علاقائی پروگراموں کی وجہ سے خسارہ ہورہا ہے جس پر کمیٹی کے رکن پرویز رشید نے کہا کہ پہلے پی ٹی وی ملتان کھولا گیا جو اب خسارے میں چل رہا ہے، لگتا ہے کہ پی ٹی وی اب جلد پی ٹی وی گوجر خان بھی شروع کرے گا، پی ٹی وی کے پرانے اینکروں کو کوئی برداشت نہیں کرتا شاید عوام مہمانو ں کو تو برداشت کرلیں لیکن اینکروں کو نہیں، سینیٹر روبینہ خالد نے کہاکہ اب تو ٹی وی چینلوں پر ٹاک شو کی شکل میں لو کاسٹ ڈرامے دکھائے جاتے ہیں جس میں ایکٹرکوئی تنخواہ ہی نہیں لیتے۔

کمیٹی نے اشتہارات کی کمپنی میڈاس پرائیویٹ لیمٹڈ اور حکومت پنجاب کے درمیان تنازع کے بارے میں وضاحت طلب کی تھی کمیٹی کو تحریری جواب میں وزارت اطلاعات نے بتایا کہ معاملہ عدالت میں ہے اور وہ اس پر رپورٹ نہیں دے سکتے جس پر کمیٹی نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا کہ وزارت نے یہ جواب جان بوجھ کر دیا جس سے کمیٹی مطمن نہیں، یہ مذاق ہے، اس معاملے کے بارے میں روزانہ اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر خبریں چل رہی ہیں۔


چیئرمین کمیٹی کامل علی آغا نے سیکریٹری وزارت اطلاعات و نشریات چوہدری رشید پر سخت برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کو صحیح صورتحال بتائی جائے اب پارلیمنٹ کی کمیٹیاں بے اختیار نہیں، غلط بیانی پر ہتھکڑیاں بھی لگ سکتی ہیں اور جیل بھی جا سکتے ہیں، چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ یہ میڈاس کوئی سپر نیچرل چیز ہے جس پر کوئی بات نہیں کرسکتا، چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ آئندہ اجلاس میں کمیٹی کواس تنازع کی تفصیلات دی جائیں،کمیٹی کی رکن روبینہ خالد نے کہا کہ اشتہاری کمپنیوں نے مناپلی بنائی ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ ان کی مناپلی ختم کی جائے۔

انھوں نے کہا کہ وزارت اطلاعات کا کہنا ہے کہ ایک سو بیس اشتہارات کی کمپنیاں ہیں لیکن مارکیٹ میں صرف دو تین کمپنیوں کی اجارہ داری ہے اور یہ کارٹیل ختم ہونا چاہیے، سیکریٹری اطلاعات چوہدری رشید نے کہا کہ سابق وزیر اطلاعات مشاہد حسین نے پالیسی بنائی تھی اور کلاسیفائیڈ اشتہارات کا بزنس بھی اشتہاری کمپنیوں کو دے دیا گیا تھا جس پر پرویز رشید نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ وزارت اطلاعات کیلیے نجی ادارہ اشتہارات تقسیم کرنے کے حوالے سے پالیسی بناتا ہے، ماضی میں اگرکوئی غلطی ہوئی ہے تو اب وقت ہے کہ اس غلطی کو درست کیا جائے۔

اجلاس میں وزارت اطلاعات و نشریات سے سینیٹر ظفر علی شاہ نے سوال کیا کہ کمیٹی کو بتایا جائے کہ وزارت کے کتنے سیکریٹ فنڈز ہیں اور آیا وزارت کا کسی اشتہارات کی کمپنی سے کوئی تنازع چل رہا ہے جس پر سیکریٹری چوہدری رشید نے بتایا کہ وزارت کا کوئی سیکرٹ فنڈ نہیں اور وزارت کا کسی بھی اشتہاری کمپنی کے ساتھ کوئی تنازع نہیں، سیکریٹری اطلاعات نے بتایا کہ کچھ وزارتیں اور محکمے اپنے طور پر براہ راست اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو اشتہارات دے رہے ہیں جو کہ قواعد کی خلاف ورزی ہے۔

پرویز رشید نے مطالبہ کیا کہ کمیٹی کو وزارت اطلاعات و نشریات تین سو اکتالیس ملین روپے کے سالانہ بجٹ کی تفصیلات دے اور بتائے کہ کتنی رقم کس مد میں استعمال ہو رہی ہے، کمیٹی کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے اب تک ٹی وی اور اخبارات کو دیے گئے اشتہارات کی تفصیل بھی دی جائے، سیکریٹری اطلاعات نے بتایا کہ وزارت ایک میکیزیم کے تحت قومی اور علاقائی اخبارات میں اشتہارات تقسیم کرتی ہے اور اگر چھوٹے اخبارات کو حکومت اشتہار نہ دے تو علاقائی اخبارات بند ہو جائیںگے۔

پرویز رشید نے کہا کہ جو اخبار مارکیٹ کا مقابلہ نہیں کر سکتا تو اس کو بند ہو جانا چاہیے اور یہ حکومت کا فرض نہیں کہ وہ ڈمی اخبارات کو اشتہارات دے ۔ سینیٹر پرویز رشید اور پیپلزپارٹی کے سینیٹر سعید غنی میں تیز جملوں کا تبادلہ بھی ہوا جب اجلاس میں پرویز رشید نے مطالبہ کیا کہ پی ٹی وی کا ایک آزاد بورڈ آف ڈائریکٹر بنایا جائے جو اپنا سربراہ خود منتخب کرے، سعید غنی نے کہا کہ یہ ممکن نہیں اور جب آپ کی حکومت آجائے تو آپ بنالیں ،کمیٹی کو دوردراز علاقوں میں ٹی وی بوسٹر لگانے کے حوالے سے پالیسی پر سینیٹر پرویز رشید نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کو جب اپنی شکل دور دراز کے علاقوں میں دکھانی ہوتی ہے تو وہاں پر بوسٹر لگا دیے جاتے ہیں اور یہ بوسٹر سیاسی بنیادوں پر لگائے جاتے ہیں۔
Load Next Story