عوام کب تک بے وقوف بنائے جائیں گے
عوام پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ان دھوکے باز سیاستدانوں کو مسترد کر دیں جنھوں نے انھیں سبز باغ دکھائے۔
KARACHI:
وزیراعظم بننے کی جلدی میں مشہور عمران خان نے بھی اپنے اعلان کردہ دس کی بجائے گیارہ نکات کا اعلان کرکے اپنی انتخابی مہم کا اعلان لاہور کے مینار پاکستان پر کردیا ہے۔ یہی وہ جگہ ہے کہ جہاں 1940 میں قیام پاکستان کی قرارداد منظور ہوئی تھی جس نے 1947 میں حقیقت کا روپ دھار لیا تھا مگر ماضی سے اب تک مینار پاکستان یا لاہور میں منعقد جتنے بھی جلسوں میں ہمارے رہنماؤں نے جتنے بھی اعلانات کیے ان میں کسی پر بھی عمل نہیں ہوا، کیوں نہیں ہوا اس کی حقیقت کا عوام کو بھی علم ہے۔
لاہور ہی میں پیپلزپارٹی کے قیام کے وقت 50 سال قبل غریبوں کی قسمت بدلنے کا سیاسی نعرہ لگا تھا جس میں روٹی کپڑا اور مکان دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ مانگ رہا ہے ہر انسان، روٹی کپڑا اور مکان مگر یہ نعرہ بلند کرنے والی پیپلزپارٹی کی وفاق میں چار اور سندھ میں 5 حکومتوں میں وعدہ پورا نہیں ہوا۔ کسی کو مکان تو کیا ملنا تھا کھانے کو روٹی اور پہننے کو کپڑے کا حصول بھی آسان نہیں بلکہ مشکل ترین بنا دیا گیا ہے۔
سیاسی جماعتوں کے قائدین اور رہنماؤں نے ہر دم عوام کو یقین دلایا کہ وہ ان کے مسائل حل کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہیں اور اس سلسلے میں وہ کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے مگر حقائق ان کے ان دعوؤں کا منہ چڑاتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ان سیاسی رہنماؤں نے روٹی،کپڑا اور مکان کے حوالے سے اپنے مسائل حل کر لیے،وہ اربوں پتی ہوگئے،ان کے مکان نہ صرف اندرون ملک محلوں کی صورت میں وجود میں آئے بلکہ بیرون ملک بھی انھوں نے شاندار محل تعمیر کیے۔ ان کا ہر دن عید اور رات شب برات ٹھہری اور عوام جن کو روٹی،کپڑا اور مکان ملنا تھا وہ اس سے محروم رہے۔
حالانکہ پاکستان زرعی ملک ہے جہاں گندم اور آٹا اور چاول مہنگائی کا ریکارڈ توڑ چکے ہیں اور ملک میں ٹیکسٹائل سیکٹر بہت وسیع ہونے کے باوجود ملک میں کپڑا اس قدر مہنگا ہے کہ لاکھوں افراد کو عید پر بھی نیا کپڑا پہننا نصیب نہیں ہوتا ۔ باقی رہ گیا مکان تو وہ تو خوش نصیبوں ہی کو میسر ہے ۔ اب ملک میں مکان کی تعمیر سستی اور پلاٹ خریدنا انتہائی مہنگا ہوکر ناممکن بنا دیا گیا ہے اور ملک کی اکثریت کو مکان تو کیا ایک چھوٹا پلاٹ بھی میسر نہیں جہاں وہ کچا گھر ہی بنا سکے۔
ملک میں لاکھوں افراد جھونپڑیوں اور ندی نالوں کے اطراف گندگی کے ڈھیروں پر رہنے پر مجبور ہیں اور یہ نعرہ دینے والی پیپلزپارٹی کے غیر حقیقی سربراہوں کے ملک کے مختلف شہروں میں اپنے ہاؤسز بڑھ رہے ہیں اور جنھوں نے طویل عرصہ اقتدار میں گزارا عوام کوکچھ نہ دیا اب اپنے بانی کے نعرے کو بھول کر عوام کو نت نئے خواب دکھا رہے ہیں۔
مسلم لیگی ن کے رہنما عشروں اقتدار میں رہے اور انھوں نے مبینہ طور پر مال بھی بنایا ہے ۔ مال بنانے کے مختلف طریقے ہیں مگر یہ صنعت کار تھے، زمیندار اور جاگیردار نہیں اس لیے اب اپنے مال کی منی ٹریل نہیں دے پا رہے اور مقدمے بھگت رہے ہیں جب کہ سوئٹزر لینڈ میں جن کا مال تھا انھوں نے اپنا ایک وزیراعظم قربان کرا کر مال بچا لیا اور سرے محل جس سے پہلے اپنا تعلق ظاہر نہیں کرتے تھے اب ان ہی کا مال بن چکا ہے اور قوم بھی سرے محل بھول چکی ہے۔
اس پارٹی نے اگر مال بنایا ہے تو ملک اور خاص کر پنجاب میں کام بھی کرکے دکھایا ہے جب کہ پی پی پی سندھ سے تعلق رکھنے والی قیادت سندھ نہ سہی لاڑکانہ اور نوابشاہ کو لاہور جیسا بنادیتی تو ان کے پاس بھی عوام کو بتانے اور دکھانے کے لیے کچھ ہوتا۔
ملک کا بڑا شہر کراچی اب شہباز شریف کو تو یاد آگیا مگر آصف زرداری کو یاد نہیں آتا ۔کراچی سے دونوں بڑی پارٹیوں کو ووٹ نہیں ملتا تو وہ کراچی کو کیوں اپنائیں کراچی نے جن کو ووٹ دیا وہ کراچی کو تو نہ بناسکے مگر خود ضرور بن گئے ہیں۔
لوڈ شیڈنگ کا جن شریفوں کی کوشش کے باوجود قابو میں نہیں آیا مگر انھوں نے ملک کو سڑکیں، پل، انڈر پاس، موٹروے، میٹرو اور اورنج ٹرین ضرور دی ہیں اور وہ اب اپنی اسی کارکردگی کی بنیاد پر انتخابات لڑنے کی تیاریوں میں ہیں۔ شریفوں کے پاس دکھانے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور ہے مگر سندھ میں پی پی پی اور کے پی کے میں پی ٹی آئی کے پاس جو کچھ ہوگا وہ بھی ضرور دکھائیں گے۔
عام انتخابات سر پر ہیں ۔ پی پی اور ن لیگ قوم سے جو وعدے کرتی رہیں ان سے عوام کو بے وقوف ضرور بنایاگیا۔ پی ٹی آئی اور متحدہ مجلس عمل کو کے پی کے میں پانچ پانچ سال اقتدار میں رہنے کا موقع ملا اور اب یہ چاروں نئے دعوؤں کے ساتھ انتخابی عمل شروع کرچکے ہیں اور چاروں ملکی سطح پر اپنی اپنی سیاست چمکانے کے لیے میدان میں آچکے ہیں۔ دو کو ملک کا اقتدار ملا اور دو کو کے پی کے کا مگر کوئی بھی عوام کی حالت تبدیل نہ کرا سکا البتہ وعدوں سے عوام کو بہلایا جائے گا۔
موجودہ قومی رہنماؤں میں عمران خان واحد رہنما ہیں جن پر جھوٹ بولنے، دوسروں پر الزامات لگانے اور یوٹرن لینے کے سب سے زیادہ الزامات اور مقدمات ہیں جو عدالتوں میں آکر ثبوت بھی نہیں دے رہے اور حیرت انگیز طور پر صادق و امین قرار پائے ہیں جس سے سیاست میں جھوٹ کو مزید فروغ ہی ملے گا۔
حکومتیں دوسروں کے جلسوں کو جلسی اور اپوزیشن بھی اپنی مخالف جماعتوں کے ساتھ یہی رویہ رکھتی ہیں اور جھوٹ بولنے میں کوئی بھی شرم محسوس نہیں کی جاتی جس کی تازہ مثال پیپلزپارٹی کی طرف سے متحدہ کے ٹنکی گراؤنڈ کے جلسے کے متعلق یہ کہنا ہے کہ متحدہ بلاول کے جلسے کا چالیس فی صد گراؤنڈ بھی نہ بھرسکی۔
سپریم کورٹ جب اقامے چھپانے پر نا اہلی کی سزا دے رہی ہے تو معمولی اقامہ ظاہر نہ کرنے کے مقابلے میں سیاسی جماعتوں کا جھوٹے منشور پیش کرنا، قومی رہنماؤں کا ڈھٹائی سے جھوٹے دعوے کرنا، دوسروں پر بے بنیاد الزامات لگانا اپنے جلسوں کو بڑا اور دوسروں کے جلسوں کو جلسی قرار دینا بہت بڑا جھوٹ، سیاسی و اخلاقی جرم اور بہتان تراشی ہے جس کی سزا پارلیمنٹ کبھی مقرر نہیں کرے گی کیونکہ یہ غلط کام پارلیمنٹ میں آنے ہی کے لیے کیے جاتے ہیں۔ ان جھوٹوں اور جھوٹے منشوروں پرعدلیہ ہی کو ایکشن لینا چاہیے۔
عوام پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ان دھوکے باز سیاستدانوں کو مسترد کر دیں جنھوں نے انھیں سبز باغ دکھائے۔ملک کو جاگیرداروں سے نجات دلانے میں عوام ہی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جب تک صحیح اور ایماندار قیادت نہیں آئے گی تب تک عوام کی قسمت نہیں بدلے گی اور وہ اسی طرح مسائل کی چکی میں پستے رہیں گے۔اس لیے عوام کو روایتی سیاستدانوں کو مسترد کر کے مخلص لوگوں کو آگے لانا چاہیے۔