ابن مہاجر
آج پاکستان میں کوئی مہاجر نہیں ہے لیکن ابن مہاجر ہیں۔
SEOUL:
پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے71سال ہو رہے ہیں ، جو لوگ 1947میں پاکستان آئے ان کی عمریں کم سے کم71سال ہے ۔ جنھیں ہم مہاجر کہتے ہیں ان میں 80 فیصد لوگ تو اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ جو بچے ہیں ، ان کی عمریں71 سال سے زیادہ ہیں وہ طبعی طور پر کسی کام کے نہیں بلکہ اس وطن کے بزرگ ترین شہری ہیں ۔اس لیے اب پاکستان میں کوئی مہاجر نہیں ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جنہیں نہ پنجابی کہا جاتا ہے نہ سندھی نہ بلوچی نہ پختون انھیں مہاجر کہا بھی جاتا ہے اور مانا بھی جاتا ہے۔
آج پاکستان میں کوئی مہاجر نہیں ہے لیکن ابن مہاجر ہیں جس طرح کسی پنجابی کوکسی سندھی کو کسی بلوچی کوکسی پختون کو اپنی شناخت کے لیے صوبائی پہچان ہے، اسی طرح ان ابن مہاجر کو بھی کوئی پہچان چاہیے۔ یوں تو پورے پاکستان میں40 فیصد لوگوں کے آباو اجداد ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے لیکن ان میں اکثریت سندھ کے شہری علاقوں میں آباد ہوئی۔ جیسے کراچی ، حیدر آباد ، میر پورخاص ، نواب شاہ ، سکھر وغیرہ ہیں۔
ان کی اکثریت اتنی ہے کہ کوئی بھی جماعت جو انتخابات سے جیت کر آتی ہے وہ ان ابن مہاجر کی حمایت کے بغیر کوئی حکومت نہیں بنا سکتی ۔ اس لیے ابن مہاجر کے ووٹ کوکسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ یہی ابن مہاجر جب متحد ہوئے تو ایم کیو ایم وجود میں آئی۔
اس ایم کیو ایم نے ان ہی ابن مہاجر کے نام پر خوب سیاست کی، خوب سیاسی قوت بھی حاصل کی مگر جب اس جماعت کے قائد نے حب الوطنی کی حدود کو پارکیا تو معتدل مزاج ابن مہاجر بے چین ہوگئے اور نتیجہ یہی نکلا کہ انھیں ابن مہاجر قوت نے اپنے قائدکو غدار وطن سمجھ کر علیحدہ کردیا ۔اس کے بعد ایم کیو ایم میں سنبھلنے کی صلاحیت نہ رہی، ان کی سیاسی قوت کمزور ہوگئی ۔ پارلیمنٹ میں ان کی وقعت ختم ہوگئی ۔
ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے جب اپنے قائد سے علیحدگی اختیارکی تو اسی وقت چاہیے تھا کہ رابطہ کمیٹی فوراً پارٹی کو اس طرح منظم کرتی جس طرح عموماً سیاسی پارٹی ہوتی ہے ۔ان کے لیے مشکل یہ تھا کہ ایم کیو ایم کی تنظیم سیاسی پارٹی کے طور پر نہیں تھی بلکہ ایک تحریک کے طور پر تھی، اسی لیے ایم کیوایم قومی سیاست میں بحیثیت سیاسی پارٹی اپنے آپ کو نہیں منوایا بلکہ وہ پریشرگروپ کے طور پر کام کرتے رہے، آج بھی ایم کیو ایم میں جو دھڑے بازی ہے، وہ اسی وجہ سے ہے کہ وہ اب بھی اسے سیاسی جماعت نہ بناسکے، بلکہ اسی طرح رابطہ کمیٹی سے سیاست کر رہے ہیں۔
اس سے بہتر سیٹ اپ تو مصطفیٰ کمال اور ان ساتھیوں نے پی ایس پی کی شکل میں دیا ۔ان کی سیاست مہاجرکارڈ پر نہیں ہے بلکہ سندھ کے شہری حقوق پر ہے، اس لیے جب اس شہرکو حقوق ملیں گے تو ہر شہری کو فائدہ ہوگا خواہ وہ پنجابی ہو یا سندھی، بلوچی ہو یا پختون یا ابن مہاجر ۔ ایم کیو ایم سے وابستہ افراد کے ہمدرد ان کے خیر خواہ ان کے ووٹر اس وقت بہت بے چین ہیں اورکنفیوژ بھی اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ اب ایم کیو ایم کو تحریک کے بجائے سیاسی پارٹی بننا ہوگا اور بہتر یہ ہے کہ ایم کیو ایم بہادر آباد ہو یا پی آئی بی یا ایم کیو ایم حقیقی ان سب کو شہری حقوق کی جدوجہد کی خاطر اپنا انداز سیاست بدلنا ہوگا ۔
انا پرستی کے خول سے نکلنا ہوگا ، اگر اس ایم کیو ایم کے تمام دھڑے پی ایس پی کے سیٹ اپ میں شامل ہوجائیں اور پھر لیڈر شپ کے لیے پارٹی انتخابات کرلیں تو یہ ملک اور قوم کے لیے بہتر ہوگا،کیونکہ یہ بات ذہن نشین کرلیں قومی سیاست کرنے کے لیے اب کسی طور مہاجر کارڈ نہیں چلنے دیا جائے گا۔
ایم کیو ایم میں بہت قابل لوگ ہیں ۔ان میں فاروق ستار،خالد مقبول صدیقی، عامر خان، جیسے تجربہ کار ذہین لوگ ہیں، اگر یہ شہری حقوق کی خاطر پی ایس پی میں ضم ہوجائیں تو یہ ملت کے لیے بہترین شگون ہوگا، ورنہ اسی انداز کی سیاست جس میں پریشر گروپ کا انداز نظر آئے توکبھی کامیابی نہیں ملے گی ۔ حال ہی میں پی پی پی نے ایم کیو ایم کے گڑھ میں لیاقت آباد میں جلسہ کیا توایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کو احساس ہوا اور انھوں نے اس کے جواب میں پانچ مئی کو جلسہ کیا ۔یعنی پھر وہی پریشر گروپ والی سیاست کی۔
پی پی پی کا لیاقت آباد میں جلسہ ایک اچھا شگون ہے نوگوز ایریا کا تصور ختم ہوگیا ۔ایم کیو ایم کو چاہیے کہ وہ اب لیاری میں جا کر جلسہ کرے اور سیاسی جماعتوں کا مقابلہ سیاسی انداز میں کرے۔ یہ سندھ کے شہری علاقوں کی بڑی بدقسمتی ہے کہ یہاں نہ ایم کیو ایم نے ترقی کے لیے کام کیا نہ ہی پی پی پی کی حکومت نے کراچی میں کوئی کام کیا، بلکہ اس میں گندگی سے لے کر پینے کے پانی تک، بجلی سے لے کر ٹرانسپورٹ تک کوئی کام نہیں کیا مجھے حیرت یہ لوگ کس منہ سے ووٹ مانگنے کی جرات کر رہے ہیں ۔
اہل کراچی کا مزاج بدل رہا ہے اگر ایم کیو ایم نے پی ایس پی جیسی جماعت نہ بنائی اور اپنے ماضی کی کوتاہیوں پر معافی نہ مانگی اور پریشر گروپ والی سیاست کو خیرباد نہ کیا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس شہر کے لوگ پی ٹی آئی یا مسلم لیگ (نواز) کو ووٹ دے دیں۔
سندھ حکومت اس خام خیالی میں نہ رہے کہ انہیں اب کراچی سے پہلے جیسے ووٹ ملیں گے اور اہل کراچی کو بھی بڑا سوچ سمجھ کرووٹ دینا ہوگا اور ووٹ اہلیت کی بنیاد پر دیں۔اب وہ زمانہ نہیں کہ ووٹ شخصیت کی بنیاد پر ملے گا ۔ہر دفعہ بھٹو کا نعرہ لگاتے ہیں حالانکہ بھٹو کے نظام کو پارٹی نے بالائے طاق رکھ دیا ہے وہ ایک عوامی مزاج کے مقبول رہنما تھے جنہوں نے پاکستان کو بچایا بھی اور جوہری قوت بھی بنایا ۔
انھوں نے اسی شہرکراچی میں اسٹیل مل لگائی ،عباسی شہید اسپتال بنایا،شناختی کارڈ بنایا ، تعلیم کو عام کیا، مزدوروں کو حق دیا ۔ ان کی پی پی پی نے آج تک کوئی کام نہ کیا سوائے محترمہ بے نظیر بھٹوکا کچھ دور بہتر رہا۔اہل لیاری بھی اس بات کو جان لیں گے ووٹ اب شخصیت کے نام پر نہیں اہلیت کی بنیاد پر دیں۔
کراچی کا پس ماندہ ترین علاقے لیاری اورکھارادر ہیں جہاں ترقی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔اس لیے اہل کراچی چاہے مشرقی ہوں یا مغربی جنوبی ہوں یا شمالی یا وسطی اب ووٹ صرف اور صرف اہلیت کی بنیاد پر دیں اور آزمائے ہوؤں کو ہرگز نہ دیں۔
کسی نئے امیدوارکو دیں یہ دیکھ کر اس میں وعدہ نبھانے کی کتنی صلاحیت ہے ۔ بس ایک بات اس شہر کراچی کے لوگوں کوکرنی ہے کہ جو اس شہرمیں ٹرانسپورٹ ، سڑکیں ، پینے کا پانی ، بجلی کی روانی، گیس کی دستیابی جیسے مسائل کا حل آپ کے سامنے لائے اسی کو ووٹ دیں ۔
پی ایس پی میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ کراچی کو ترقی یافتہ بنا سکتی ہے اس جماعت کے سربراہ اور ان کے ہمرائیوں نے اپنے ماضی پر ندامت کے آنسو بہا کرکفارہ ادا کر دیا ہے، اس لیے اب لوگ ان پر یقین کررہے ہیں اورآیندہ عام انتخابات اگر مدت مقررہ میں ہوئے تو پی ایس پی بہت کامیابی حاصل کرے گی کیونکہ ایم کیو ایم لوٹ کر اسی آشیانے میں آئے گی ۔
پاکستان کو وجود میں آئے ہوئے71سال ہو رہے ہیں ، جو لوگ 1947میں پاکستان آئے ان کی عمریں کم سے کم71سال ہے ۔ جنھیں ہم مہاجر کہتے ہیں ان میں 80 فیصد لوگ تو اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ جو بچے ہیں ، ان کی عمریں71 سال سے زیادہ ہیں وہ طبعی طور پر کسی کام کے نہیں بلکہ اس وطن کے بزرگ ترین شہری ہیں ۔اس لیے اب پاکستان میں کوئی مہاجر نہیں ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جنہیں نہ پنجابی کہا جاتا ہے نہ سندھی نہ بلوچی نہ پختون انھیں مہاجر کہا بھی جاتا ہے اور مانا بھی جاتا ہے۔
آج پاکستان میں کوئی مہاجر نہیں ہے لیکن ابن مہاجر ہیں جس طرح کسی پنجابی کوکسی سندھی کو کسی بلوچی کوکسی پختون کو اپنی شناخت کے لیے صوبائی پہچان ہے، اسی طرح ان ابن مہاجر کو بھی کوئی پہچان چاہیے۔ یوں تو پورے پاکستان میں40 فیصد لوگوں کے آباو اجداد ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے لیکن ان میں اکثریت سندھ کے شہری علاقوں میں آباد ہوئی۔ جیسے کراچی ، حیدر آباد ، میر پورخاص ، نواب شاہ ، سکھر وغیرہ ہیں۔
ان کی اکثریت اتنی ہے کہ کوئی بھی جماعت جو انتخابات سے جیت کر آتی ہے وہ ان ابن مہاجر کی حمایت کے بغیر کوئی حکومت نہیں بنا سکتی ۔ اس لیے ابن مہاجر کے ووٹ کوکسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ یہی ابن مہاجر جب متحد ہوئے تو ایم کیو ایم وجود میں آئی۔
اس ایم کیو ایم نے ان ہی ابن مہاجر کے نام پر خوب سیاست کی، خوب سیاسی قوت بھی حاصل کی مگر جب اس جماعت کے قائد نے حب الوطنی کی حدود کو پارکیا تو معتدل مزاج ابن مہاجر بے چین ہوگئے اور نتیجہ یہی نکلا کہ انھیں ابن مہاجر قوت نے اپنے قائدکو غدار وطن سمجھ کر علیحدہ کردیا ۔اس کے بعد ایم کیو ایم میں سنبھلنے کی صلاحیت نہ رہی، ان کی سیاسی قوت کمزور ہوگئی ۔ پارلیمنٹ میں ان کی وقعت ختم ہوگئی ۔
ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے جب اپنے قائد سے علیحدگی اختیارکی تو اسی وقت چاہیے تھا کہ رابطہ کمیٹی فوراً پارٹی کو اس طرح منظم کرتی جس طرح عموماً سیاسی پارٹی ہوتی ہے ۔ان کے لیے مشکل یہ تھا کہ ایم کیو ایم کی تنظیم سیاسی پارٹی کے طور پر نہیں تھی بلکہ ایک تحریک کے طور پر تھی، اسی لیے ایم کیوایم قومی سیاست میں بحیثیت سیاسی پارٹی اپنے آپ کو نہیں منوایا بلکہ وہ پریشرگروپ کے طور پر کام کرتے رہے، آج بھی ایم کیو ایم میں جو دھڑے بازی ہے، وہ اسی وجہ سے ہے کہ وہ اب بھی اسے سیاسی جماعت نہ بناسکے، بلکہ اسی طرح رابطہ کمیٹی سے سیاست کر رہے ہیں۔
اس سے بہتر سیٹ اپ تو مصطفیٰ کمال اور ان ساتھیوں نے پی ایس پی کی شکل میں دیا ۔ان کی سیاست مہاجرکارڈ پر نہیں ہے بلکہ سندھ کے شہری حقوق پر ہے، اس لیے جب اس شہرکو حقوق ملیں گے تو ہر شہری کو فائدہ ہوگا خواہ وہ پنجابی ہو یا سندھی، بلوچی ہو یا پختون یا ابن مہاجر ۔ ایم کیو ایم سے وابستہ افراد کے ہمدرد ان کے خیر خواہ ان کے ووٹر اس وقت بہت بے چین ہیں اورکنفیوژ بھی اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ اب ایم کیو ایم کو تحریک کے بجائے سیاسی پارٹی بننا ہوگا اور بہتر یہ ہے کہ ایم کیو ایم بہادر آباد ہو یا پی آئی بی یا ایم کیو ایم حقیقی ان سب کو شہری حقوق کی جدوجہد کی خاطر اپنا انداز سیاست بدلنا ہوگا ۔
انا پرستی کے خول سے نکلنا ہوگا ، اگر اس ایم کیو ایم کے تمام دھڑے پی ایس پی کے سیٹ اپ میں شامل ہوجائیں اور پھر لیڈر شپ کے لیے پارٹی انتخابات کرلیں تو یہ ملک اور قوم کے لیے بہتر ہوگا،کیونکہ یہ بات ذہن نشین کرلیں قومی سیاست کرنے کے لیے اب کسی طور مہاجر کارڈ نہیں چلنے دیا جائے گا۔
ایم کیو ایم میں بہت قابل لوگ ہیں ۔ان میں فاروق ستار،خالد مقبول صدیقی، عامر خان، جیسے تجربہ کار ذہین لوگ ہیں، اگر یہ شہری حقوق کی خاطر پی ایس پی میں ضم ہوجائیں تو یہ ملت کے لیے بہترین شگون ہوگا، ورنہ اسی انداز کی سیاست جس میں پریشر گروپ کا انداز نظر آئے توکبھی کامیابی نہیں ملے گی ۔ حال ہی میں پی پی پی نے ایم کیو ایم کے گڑھ میں لیاقت آباد میں جلسہ کیا توایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کو احساس ہوا اور انھوں نے اس کے جواب میں پانچ مئی کو جلسہ کیا ۔یعنی پھر وہی پریشر گروپ والی سیاست کی۔
پی پی پی کا لیاقت آباد میں جلسہ ایک اچھا شگون ہے نوگوز ایریا کا تصور ختم ہوگیا ۔ایم کیو ایم کو چاہیے کہ وہ اب لیاری میں جا کر جلسہ کرے اور سیاسی جماعتوں کا مقابلہ سیاسی انداز میں کرے۔ یہ سندھ کے شہری علاقوں کی بڑی بدقسمتی ہے کہ یہاں نہ ایم کیو ایم نے ترقی کے لیے کام کیا نہ ہی پی پی پی کی حکومت نے کراچی میں کوئی کام کیا، بلکہ اس میں گندگی سے لے کر پینے کے پانی تک، بجلی سے لے کر ٹرانسپورٹ تک کوئی کام نہیں کیا مجھے حیرت یہ لوگ کس منہ سے ووٹ مانگنے کی جرات کر رہے ہیں ۔
اہل کراچی کا مزاج بدل رہا ہے اگر ایم کیو ایم نے پی ایس پی جیسی جماعت نہ بنائی اور اپنے ماضی کی کوتاہیوں پر معافی نہ مانگی اور پریشر گروپ والی سیاست کو خیرباد نہ کیا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس شہر کے لوگ پی ٹی آئی یا مسلم لیگ (نواز) کو ووٹ دے دیں۔
سندھ حکومت اس خام خیالی میں نہ رہے کہ انہیں اب کراچی سے پہلے جیسے ووٹ ملیں گے اور اہل کراچی کو بھی بڑا سوچ سمجھ کرووٹ دینا ہوگا اور ووٹ اہلیت کی بنیاد پر دیں۔اب وہ زمانہ نہیں کہ ووٹ شخصیت کی بنیاد پر ملے گا ۔ہر دفعہ بھٹو کا نعرہ لگاتے ہیں حالانکہ بھٹو کے نظام کو پارٹی نے بالائے طاق رکھ دیا ہے وہ ایک عوامی مزاج کے مقبول رہنما تھے جنہوں نے پاکستان کو بچایا بھی اور جوہری قوت بھی بنایا ۔
انھوں نے اسی شہرکراچی میں اسٹیل مل لگائی ،عباسی شہید اسپتال بنایا،شناختی کارڈ بنایا ، تعلیم کو عام کیا، مزدوروں کو حق دیا ۔ ان کی پی پی پی نے آج تک کوئی کام نہ کیا سوائے محترمہ بے نظیر بھٹوکا کچھ دور بہتر رہا۔اہل لیاری بھی اس بات کو جان لیں گے ووٹ اب شخصیت کے نام پر نہیں اہلیت کی بنیاد پر دیں۔
کراچی کا پس ماندہ ترین علاقے لیاری اورکھارادر ہیں جہاں ترقی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔اس لیے اہل کراچی چاہے مشرقی ہوں یا مغربی جنوبی ہوں یا شمالی یا وسطی اب ووٹ صرف اور صرف اہلیت کی بنیاد پر دیں اور آزمائے ہوؤں کو ہرگز نہ دیں۔
کسی نئے امیدوارکو دیں یہ دیکھ کر اس میں وعدہ نبھانے کی کتنی صلاحیت ہے ۔ بس ایک بات اس شہر کراچی کے لوگوں کوکرنی ہے کہ جو اس شہرمیں ٹرانسپورٹ ، سڑکیں ، پینے کا پانی ، بجلی کی روانی، گیس کی دستیابی جیسے مسائل کا حل آپ کے سامنے لائے اسی کو ووٹ دیں ۔
پی ایس پی میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ کراچی کو ترقی یافتہ بنا سکتی ہے اس جماعت کے سربراہ اور ان کے ہمرائیوں نے اپنے ماضی پر ندامت کے آنسو بہا کرکفارہ ادا کر دیا ہے، اس لیے اب لوگ ان پر یقین کررہے ہیں اورآیندہ عام انتخابات اگر مدت مقررہ میں ہوئے تو پی ایس پی بہت کامیابی حاصل کرے گی کیونکہ ایم کیو ایم لوٹ کر اسی آشیانے میں آئے گی ۔