بڑے موذی کو مارا نفسِ امارہ کو گر مارا
اشرف المخلوقات اگر نفس امارہ پر قابو نہ پائے تو پھر وہ تذلیل انسانیت کا مرتکب ہوگا۔
جمہوریت کے دور میں ہم جس نفسا نفسی سے دوچار ہیں وہ ہمیں ماضی کی یاد دلا رہی ہے کہ جب منتخب وزیر اعظم کو دھاندلی کا شور مچا کر نہ صرف ہٹایا گیا بلکہ گرفتار کرکے تخت دار تک پہنچا دیا گیا۔ اور اب پھر منتخب وزیر اعظم نا اہل، وزیر خارجہ نااہل وجہ بے شک کچھ بھی سہی۔ سیاسی افق پر اس قدر گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں کہ تمام چہرے اس کی سیاہی میں دھندلا گئے ہیں ۔
کئی کئی بار آزمائے ہوئے اور ہر بار رد کردیے گئے ازسر نو بازی گری میں مصروف ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ لوگ ان کے گزشتہ کارناموں کو فراموش کرچکے ہیں اگر پھر ایسی ہی کارکردگی دکھانی ہے تو برائے خدا ملک و قوم پر رحم فرمائیں۔ کبھی اپنے بجائے قوم اور ملک کے بارے میں سوچا ہوتا تو آج عالمی سطح پر ہمارے حالات ایسے نہ ہوتے۔ کوئی ملکی مستقبل کے بارے میں سنجیدہ نہیں۔
تمام تر صورتحال پر ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا کر خود مطمئن ہیں کہ ان سے بڑھ کر ملک و قوم کا کوئی خیر خواہ نہیں۔ بنظر غائب دیکھا جائے تو وہ خود اپنے بھی خیر خواہ نہیں ہیں۔ بات واضح ہے کہ جو ملک کے لیے مخلص نہیں وہ بھلا کس جگہ اور کہاں خود کو منوائے گا؟
ادھر انتہا پسند پارلیمنٹ پر قبضے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ جو آج یکجا ہوئے ہیں یہی سب کل بھی یکجا و متحد ہوئے تھے، مگر وہ نظام لانے میں تو کامیاب نہ ہوئے البتہ امیر المومنین (معاذ اللہ) ضیا الحق کو ہم پر مسلط کرنے میں ضرور کامیاب ہوکر اپنی اپنی خوابگاہوں میں جا سوئے اور لمبی تان کر سوئے۔
یہ خوب واقف ہیں کہ پاکستانی عوام نے انھیں کبھی دو چار سے زیادہ نشستیں دینا پسند نہیں کیا مگر اس لمبی تان کے دوران اپنی دانست میں انھوں نے ماحول کو خاصی حد تک اپنے حق میں کرلیا ہے، مگر یہ محض خوش فہمی ہے کہ اب اسلام کے نام پر لوگ متحد سے زیادہ منتشر ہوکے ہیں کیونکہ اب وہ مسلمان کی بجائے مختلف فرقوں اور نا جانے کس کس حلقے میں تقسیم ہوچکے ہیں، بے شک ان تمام فرقوں کے جید علما مع اپنی دستار فضیلت یکجا ہوئے ہیں گر دل سے اب بھی ایک دوسرے کو گمراہ سمجھتے ہیں۔ جو حشر اس قسم کے اتحاد کا پہلے ہوا تھا اس سے کچھ مختلف اب بھی ہوتا نظر نہیں آرہا، علم کے نام پر جہالت پھیلانے میں تو ان کا جواب نہیں۔
اسلام سے زیادہ ترقی پسند، ہر دور، ہر زمانے کے ساتھ چلنے والا، روشن خیال، عظمت انسانیت، خدمت خلق اور مساوات کا داعی اور کوئی دین نہیں، مگر انھوں نے انسانوں کو طبقات اور فرقوں میں تقسیم کردیا، ایک خدا، ایک رسولؐ، ایک دین و شریعت اور مساوات انسانی کا درس کوئی نہیں دیتا، اپنے اپنے نقطہ نظر کے لیے بڑے بڑے مجمع لگا کر ایک ہی گھرکے افراد میں پھوٹ ڈلوانے کا کام بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔
لفظ سیکولر کا مطلب فحاشی، عریانی، بے راہ روی اور جانے کیا کیا بتائے جا رہے ہیں جب کہ اس کا مطلب روشن خیالی، مساوات انسانی، رواداری، بھائی چارہ اور احترام انسانیت بھی تو ہوسکتے ہیں، مگر اس طرح تو سب ایک سطح پر آجائیں گے، اور ان کی دکانیں ویران۔ خدمت دین کرنا ہو تو تمام اختلافات پس پشت ڈالنا ہوں گے یعنی اپنی اپنی چوہدراہٹ سے ہٹنا پڑے گا تو یہ کون کرے؟
اسلام کو ہنود و یہود سے خطرہ نہیں اگر ہے تو ان ابن الوقتوں سے ہے۔ ویسے تو اسلام کو سرے سے کوئی خطرہ تھا نہ ہے کیونکہ اس دین کا محافظ خود رب اللعالمین ہیں۔ بھلا انسان (چاہے وہ کسی دین، کسی ملک سے ہو) اسلام کو کیا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اور نہ ہی مقامات مقدسہ کو خطرہ ہے ہاں بادشاہت کو خطرہ ہوسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے گھر کی حفاظت قبل ازظہور اسلام ہی کرکے بتا چکا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کو فنا نہیں کرسکتی۔ اب اگر کوئی شور مچائے کہ اسلام خطرے میں ہے، خانہ خدا غیر محفوظ ہے تو اس کا ایمان دراصل کمزور ہے۔ اپنے رب کے بجائے ایٹمی ہتھیاروں اور عسکری طاقتوں پر اس کا ایمان زیادہ ہوسکتا ہے کوئی صاحب ایمان ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے تو اپنی کتاب ہدایت تک کے محافظ مقرر فرمائے ہیںکوئی ایک زیر یا زبر کی تبدیلی نہیں کرسکتا۔
اس تناظر میں ملکی صورتحال پر نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ ہم کس مقام پر کھڑے ہیں۔ اپنی عاقبت نااندیشی، غلط فیصلوں، ذاتی مفادات نے صورتحال کو گمبھیر بنا دیا اور اس کے ذمے دار عوام نہیں، حکمران، سیاستدان اور بڑی حد تک علما ہیں جنھوں نے اپنے اپنے منصوبوں کو کامیاب بنانے کے لیے عوام کا چین و سکون چھین لینا انھیں تقسیم در تقسیم کرکے ملکی اتحاد کو پارہ پارہ کردیا۔
مگر اس کی لاٹھی بے آواز ہے کیسے کیسے طرم خان کس کس صورتحال سے دوچار ہوئے اور ہو رہے ہیں اور جو طالع آزما خود کو پھر آزمانے میں لگے ہوئے ہیں وہ شاید نہیں جانتے کہ منصوبے انسان کے نہیں اللہ تعالیٰ کے مکمل و کامیاب ہوتے ہیں۔ سورۃ یوسف غور سے پڑھ لیجیے کہ برادران یوسفؑ اپنے منصوبے میں کامیاب ہوئے یا اللہ تعالیٰ جو فرماتا ہے کہ یہ ہمارا منصوبہ تھا کہ یوسفؑ کو کس طرح تخت مصر تک پہنچائے۔
رمضان المبارک رحمتوں، برکتوں اور مغفرتوں کے مہینے کا آغاز ہوچکا ہے، اس ماہ مبارک میں شیاطین مقید کر دیے جاتے ہیں۔ مگر انسان آزاد ہے کہ وہ اپنے لیے کون سا مقام منتخب کرے اشرف المخلوقات اگر نفس امارہ پر قابو نہ پائے تو پھر وہ تذلیل انسانیت کا مرتکب ہوگا۔
کئی کئی بار آزمائے ہوئے اور ہر بار رد کردیے گئے ازسر نو بازی گری میں مصروف ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ لوگ ان کے گزشتہ کارناموں کو فراموش کرچکے ہیں اگر پھر ایسی ہی کارکردگی دکھانی ہے تو برائے خدا ملک و قوم پر رحم فرمائیں۔ کبھی اپنے بجائے قوم اور ملک کے بارے میں سوچا ہوتا تو آج عالمی سطح پر ہمارے حالات ایسے نہ ہوتے۔ کوئی ملکی مستقبل کے بارے میں سنجیدہ نہیں۔
تمام تر صورتحال پر ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا کر خود مطمئن ہیں کہ ان سے بڑھ کر ملک و قوم کا کوئی خیر خواہ نہیں۔ بنظر غائب دیکھا جائے تو وہ خود اپنے بھی خیر خواہ نہیں ہیں۔ بات واضح ہے کہ جو ملک کے لیے مخلص نہیں وہ بھلا کس جگہ اور کہاں خود کو منوائے گا؟
ادھر انتہا پسند پارلیمنٹ پر قبضے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ جو آج یکجا ہوئے ہیں یہی سب کل بھی یکجا و متحد ہوئے تھے، مگر وہ نظام لانے میں تو کامیاب نہ ہوئے البتہ امیر المومنین (معاذ اللہ) ضیا الحق کو ہم پر مسلط کرنے میں ضرور کامیاب ہوکر اپنی اپنی خوابگاہوں میں جا سوئے اور لمبی تان کر سوئے۔
یہ خوب واقف ہیں کہ پاکستانی عوام نے انھیں کبھی دو چار سے زیادہ نشستیں دینا پسند نہیں کیا مگر اس لمبی تان کے دوران اپنی دانست میں انھوں نے ماحول کو خاصی حد تک اپنے حق میں کرلیا ہے، مگر یہ محض خوش فہمی ہے کہ اب اسلام کے نام پر لوگ متحد سے زیادہ منتشر ہوکے ہیں کیونکہ اب وہ مسلمان کی بجائے مختلف فرقوں اور نا جانے کس کس حلقے میں تقسیم ہوچکے ہیں، بے شک ان تمام فرقوں کے جید علما مع اپنی دستار فضیلت یکجا ہوئے ہیں گر دل سے اب بھی ایک دوسرے کو گمراہ سمجھتے ہیں۔ جو حشر اس قسم کے اتحاد کا پہلے ہوا تھا اس سے کچھ مختلف اب بھی ہوتا نظر نہیں آرہا، علم کے نام پر جہالت پھیلانے میں تو ان کا جواب نہیں۔
اسلام سے زیادہ ترقی پسند، ہر دور، ہر زمانے کے ساتھ چلنے والا، روشن خیال، عظمت انسانیت، خدمت خلق اور مساوات کا داعی اور کوئی دین نہیں، مگر انھوں نے انسانوں کو طبقات اور فرقوں میں تقسیم کردیا، ایک خدا، ایک رسولؐ، ایک دین و شریعت اور مساوات انسانی کا درس کوئی نہیں دیتا، اپنے اپنے نقطہ نظر کے لیے بڑے بڑے مجمع لگا کر ایک ہی گھرکے افراد میں پھوٹ ڈلوانے کا کام بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں۔
لفظ سیکولر کا مطلب فحاشی، عریانی، بے راہ روی اور جانے کیا کیا بتائے جا رہے ہیں جب کہ اس کا مطلب روشن خیالی، مساوات انسانی، رواداری، بھائی چارہ اور احترام انسانیت بھی تو ہوسکتے ہیں، مگر اس طرح تو سب ایک سطح پر آجائیں گے، اور ان کی دکانیں ویران۔ خدمت دین کرنا ہو تو تمام اختلافات پس پشت ڈالنا ہوں گے یعنی اپنی اپنی چوہدراہٹ سے ہٹنا پڑے گا تو یہ کون کرے؟
اسلام کو ہنود و یہود سے خطرہ نہیں اگر ہے تو ان ابن الوقتوں سے ہے۔ ویسے تو اسلام کو سرے سے کوئی خطرہ تھا نہ ہے کیونکہ اس دین کا محافظ خود رب اللعالمین ہیں۔ بھلا انسان (چاہے وہ کسی دین، کسی ملک سے ہو) اسلام کو کیا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اور نہ ہی مقامات مقدسہ کو خطرہ ہے ہاں بادشاہت کو خطرہ ہوسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے گھر کی حفاظت قبل ازظہور اسلام ہی کرکے بتا چکا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کو فنا نہیں کرسکتی۔ اب اگر کوئی شور مچائے کہ اسلام خطرے میں ہے، خانہ خدا غیر محفوظ ہے تو اس کا ایمان دراصل کمزور ہے۔ اپنے رب کے بجائے ایٹمی ہتھیاروں اور عسکری طاقتوں پر اس کا ایمان زیادہ ہوسکتا ہے کوئی صاحب ایمان ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے تو اپنی کتاب ہدایت تک کے محافظ مقرر فرمائے ہیںکوئی ایک زیر یا زبر کی تبدیلی نہیں کرسکتا۔
اس تناظر میں ملکی صورتحال پر نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ ہم کس مقام پر کھڑے ہیں۔ اپنی عاقبت نااندیشی، غلط فیصلوں، ذاتی مفادات نے صورتحال کو گمبھیر بنا دیا اور اس کے ذمے دار عوام نہیں، حکمران، سیاستدان اور بڑی حد تک علما ہیں جنھوں نے اپنے اپنے منصوبوں کو کامیاب بنانے کے لیے عوام کا چین و سکون چھین لینا انھیں تقسیم در تقسیم کرکے ملکی اتحاد کو پارہ پارہ کردیا۔
مگر اس کی لاٹھی بے آواز ہے کیسے کیسے طرم خان کس کس صورتحال سے دوچار ہوئے اور ہو رہے ہیں اور جو طالع آزما خود کو پھر آزمانے میں لگے ہوئے ہیں وہ شاید نہیں جانتے کہ منصوبے انسان کے نہیں اللہ تعالیٰ کے مکمل و کامیاب ہوتے ہیں۔ سورۃ یوسف غور سے پڑھ لیجیے کہ برادران یوسفؑ اپنے منصوبے میں کامیاب ہوئے یا اللہ تعالیٰ جو فرماتا ہے کہ یہ ہمارا منصوبہ تھا کہ یوسفؑ کو کس طرح تخت مصر تک پہنچائے۔
رمضان المبارک رحمتوں، برکتوں اور مغفرتوں کے مہینے کا آغاز ہوچکا ہے، اس ماہ مبارک میں شیاطین مقید کر دیے جاتے ہیں۔ مگر انسان آزاد ہے کہ وہ اپنے لیے کون سا مقام منتخب کرے اشرف المخلوقات اگر نفس امارہ پر قابو نہ پائے تو پھر وہ تذلیل انسانیت کا مرتکب ہوگا۔