ماہ صیام
اس مقدس مہینے کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے آزادی کا ہے
روزہ اللہ رب العزت کے لیے ہے اور وہی اس کا اجر دے گا۔
اللہ رب العالمین نے قرآن حکیم میں روزے کا حکم دیتے ہوئے بیان فرمایا ہے: ''مومنو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم پرہیز گار بنو۔''
اس آیۂ مبارکہ سے صاف واضح ہورہا ہے کہ روزہ رکھنے کا مقصد تقوے کا حصول ہے۔ تقویٰ کا مطلب ہے، اللہ کا ڈر اپنے دل میں بسانا، یعنی کسی بھی کام کو کرنے سے قبل انسان کے دل میں یہ خیال شدت کے ساتھ پیدا ہوجائے کہ میں جو کام کرنے جارہا ہوں وہ جائز بھی ہے یا نہیں؟ حلال ہے یا حرام ہے؟ ایسا کرنے سے اللہ کی ناراضی کا اندیشہ تو نہیں؟
روزے سے تقویٰ کیسے حاصل ہوتا ہے؟ جب ایک مسلمان روزے کی حالت میں اپنے ہی گھر کی چار دیواری میں قید ہوتا ہے جہاں اسے کوئی دیکھنے والا بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی اس کا مواخذہ کرنے والا ہوتا ہے، اب نہ وہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے اور نہ ہی دیگر جسمانی خواہشات پوری کرتا ہے۔
وہ ایسا کیوں نہیں کرتا؟
محض اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے روزے کی حالت میں اسے ان امور سے روک دیا ہے اور وہ بھی پورے ایک مہینے کے لیے! اس ایک مہینے کی تربیت سے مومنوں کے دلوں پر فطری اثرات مرتب ہوتے ہیں بہ شرطے کہ انسان خلوص دل اور شعور سے کوشش کرے۔ اس کے بعد اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف جم جاتا ہے اور یہ بات اس کے ذہن پر نقش ہوجاتی ہے کہ جب روزے کی حالت میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے حلال چیزوں سے بھی اجتناب کرتا رہا ہوں تو جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے حرام قرار دی ہیں، ان کا ارتکاب میرے لیے کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ یا اگر مجھے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہے تو میں اس خالق کائنات کی نافرمانی کیوں کروں؟
چناں چہ یہ ماہ مبارک صرف روزہ رکھنے ہی کی ترغیب نہیں دیتا، بلکہ انسانی کردار کو نکھارنے کے لیے بعض کاموں سے انکار کروا کے اعمال صالحہ کی جانب راغب کرتا ہے۔ مثلاً روزے کی حالت میں جھوٹ بولنا نہیں چھوڑا تو اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ ایسا شخص کھانا پینا چھوڑ کر بھوکا رہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے روزے کی کوئی اہمیت یا قدر نہیں۔
روزہ صرف کھانا، پینا چھوڑنے کا نام نہیں، بلکہ روزہ تو ہر اس غلط سے روکتا ہے جو عام دنوں میں بھی جائز نہیں۔ اس لیے اگر کوئی شخص کسی روزہ دار کے ساتھ جھگڑا اور فساد کرنے کی کوشش کرے تو اس سے بڑی نرمی سے کہہ دیا جائے کہ بھئی، مجھے معاف کرو، میں روزے سے ہوں۔
اکثر نوجوان اپنی کم علمی کی وجہ سے بہت سے ایسے کاموں میں مبتلا نظر آتے ہیں جو روزے دار کے لیے جائز نہیں، مثلاً وہ اپنا وقت گزارنے یا روزہ بہلانے کے لیے ریڈیو پر گانے سنتے ہیں، ٹی وی پر عجیب عجیب پروگرام دیکھتے ہیں، فلمیں اور ڈرامے دیکھتے ہیں، یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔ روزے کی حالت میں تو ہماری اسلامی و اخلاقی تربیت ہوتی ہے، مگر ہم اسے حاصل کرنے کے بہ جائے دوست احباب کے ساتھ تاش یا شطرنج کھیل کر وقت گزارتے ہیں۔ حالت روزہ میں چغل خور ی کرنا، جھوٹ بولنا اور مذاق کے نام پر بے ہودہ حرکات کرنا سب ناجائز ہے اور یہ ساری بری باتیں تو ویسے بھی قابل مذمت اور قابل وعید ہیں۔ اس سب کی اسلام میں قطعی گنجائش نہیں ہے۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ ایک دوسرے پر روزے کی حالت میں بھی طنز کرتے ہیں، تاکہ روزے دار کو جوش آجائے اور وہ کسی طرح غیر اخلاقی عمل کا مرتکب ہوجائے۔ یہی وقت روزے دار کے لیے ہوش کا ہے۔ ایسے موقع پر درگزر کا رویہ اختیار کیا جائے۔ اسلام نے روزے کی حالت میں قوت برداشت سے کام لینے کی تلقین کی ہے۔
روزہ دار کے لیے ایک اہم نکتے کی بات یہ بھی ہے کہ جہاں اسے جھوٹ بولنے سے منع کیا جارہا ہے، وہاں یہ بھی تعلیم دی جارہی ہے کہ دھوکے اور فریب سے گریز کرے۔ مثلاً اگر وہ تاجر ہے تو جھوٹ بول کر اپنی اشیاء فروخت نہ کرے، اپنے ناقص مال کو چھپا کر نہ بیچے، بلکہ اس شے کا نقص گاہک پر واضح کردے۔ کاروبار میں اس قسم کی حرکات ویسے تو پورے سال ممنوع ہیں، مگر رمضان المبارک میں اور روزے کی حالت میں اس قسم کی حرکات کا ارتکاب دین سے غفلت ہی ہے۔ ایسے لوگوں کی بابت نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: '' کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں جنھیں روزہ رکھنے سے سوائے پیاس اور بھوک کے اور کچھ نہیں ملتا، اور کتنے ہی شب بیدار ایسے ہیں جنھیں بے خوابی کے سوا شب بیداری سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔''
سال بھر کے مہینوں میں ماہ رمضان بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اسے تین عشروں میں تقسیم کیا جاتا ہے: پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی کا ہے۔ اس مہینے کے روزے مسلمانوں پر فرض کیے گئے جس کی خصوصیت یہ ہے کہ ہر روزے کا ثواب عام دنوں سے دس گنا زیادہ رکھا گیا، بلکہ ایک نیکی کا اجر دس سے ستر گنا اور ایک مقام پر سات سو گنا بتایا گیا ہے۔ اور پھر جنت کے سات دروازوں میں سے ہر عمل کرنے والا گزارا جائے گا۔ روزہ داروں کے لیے ایک مخصوص دروازہ رکھا گیا ہے جس کا نام باب الریان ہے، اس میں سے صرف روزہ دار گزریں گے۔ اس ماہ کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اس میں شیاطین قید کردیے جاتے ہیں اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔
یہ مہینہ غریبوں اور مسکینوں سے ہم دردی اور غم گساری کا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اور برکتیں بارش کی طرح برستی ہیں۔ اب یہ مہینہ آچکا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس کا شایان شان استقبال اس انداز سے کریں کہ اس مہینے میں اپنے معمولات سے ہٹ کر زیادہ سے زیادہ عبادت میں مصروف رہیں، آخرت کی فکر کریں۔ آج ہی سے تمام برائیوں سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے نیک اعمال کی جانب متوجہ ہوکر دنیا و آخرت کی کام یابی حاصل کریں۔
اللہ رب العالمین نے قرآن حکیم میں روزے کا حکم دیتے ہوئے بیان فرمایا ہے: ''مومنو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم پرہیز گار بنو۔''
اس آیۂ مبارکہ سے صاف واضح ہورہا ہے کہ روزہ رکھنے کا مقصد تقوے کا حصول ہے۔ تقویٰ کا مطلب ہے، اللہ کا ڈر اپنے دل میں بسانا، یعنی کسی بھی کام کو کرنے سے قبل انسان کے دل میں یہ خیال شدت کے ساتھ پیدا ہوجائے کہ میں جو کام کرنے جارہا ہوں وہ جائز بھی ہے یا نہیں؟ حلال ہے یا حرام ہے؟ ایسا کرنے سے اللہ کی ناراضی کا اندیشہ تو نہیں؟
روزے سے تقویٰ کیسے حاصل ہوتا ہے؟ جب ایک مسلمان روزے کی حالت میں اپنے ہی گھر کی چار دیواری میں قید ہوتا ہے جہاں اسے کوئی دیکھنے والا بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی اس کا مواخذہ کرنے والا ہوتا ہے، اب نہ وہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے اور نہ ہی دیگر جسمانی خواہشات پوری کرتا ہے۔
وہ ایسا کیوں نہیں کرتا؟
محض اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے روزے کی حالت میں اسے ان امور سے روک دیا ہے اور وہ بھی پورے ایک مہینے کے لیے! اس ایک مہینے کی تربیت سے مومنوں کے دلوں پر فطری اثرات مرتب ہوتے ہیں بہ شرطے کہ انسان خلوص دل اور شعور سے کوشش کرے۔ اس کے بعد اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف جم جاتا ہے اور یہ بات اس کے ذہن پر نقش ہوجاتی ہے کہ جب روزے کی حالت میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے حلال چیزوں سے بھی اجتناب کرتا رہا ہوں تو جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے حرام قرار دی ہیں، ان کا ارتکاب میرے لیے کیسے جائز ہوسکتا ہے؟ یا اگر مجھے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہے تو میں اس خالق کائنات کی نافرمانی کیوں کروں؟
چناں چہ یہ ماہ مبارک صرف روزہ رکھنے ہی کی ترغیب نہیں دیتا، بلکہ انسانی کردار کو نکھارنے کے لیے بعض کاموں سے انکار کروا کے اعمال صالحہ کی جانب راغب کرتا ہے۔ مثلاً روزے کی حالت میں جھوٹ بولنا نہیں چھوڑا تو اللہ تعالیٰ کو اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ ایسا شخص کھانا پینا چھوڑ کر بھوکا رہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے روزے کی کوئی اہمیت یا قدر نہیں۔
روزہ صرف کھانا، پینا چھوڑنے کا نام نہیں، بلکہ روزہ تو ہر اس غلط سے روکتا ہے جو عام دنوں میں بھی جائز نہیں۔ اس لیے اگر کوئی شخص کسی روزہ دار کے ساتھ جھگڑا اور فساد کرنے کی کوشش کرے تو اس سے بڑی نرمی سے کہہ دیا جائے کہ بھئی، مجھے معاف کرو، میں روزے سے ہوں۔
اکثر نوجوان اپنی کم علمی کی وجہ سے بہت سے ایسے کاموں میں مبتلا نظر آتے ہیں جو روزے دار کے لیے جائز نہیں، مثلاً وہ اپنا وقت گزارنے یا روزہ بہلانے کے لیے ریڈیو پر گانے سنتے ہیں، ٹی وی پر عجیب عجیب پروگرام دیکھتے ہیں، فلمیں اور ڈرامے دیکھتے ہیں، یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔ روزے کی حالت میں تو ہماری اسلامی و اخلاقی تربیت ہوتی ہے، مگر ہم اسے حاصل کرنے کے بہ جائے دوست احباب کے ساتھ تاش یا شطرنج کھیل کر وقت گزارتے ہیں۔ حالت روزہ میں چغل خور ی کرنا، جھوٹ بولنا اور مذاق کے نام پر بے ہودہ حرکات کرنا سب ناجائز ہے اور یہ ساری بری باتیں تو ویسے بھی قابل مذمت اور قابل وعید ہیں۔ اس سب کی اسلام میں قطعی گنجائش نہیں ہے۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ ایک دوسرے پر روزے کی حالت میں بھی طنز کرتے ہیں، تاکہ روزے دار کو جوش آجائے اور وہ کسی طرح غیر اخلاقی عمل کا مرتکب ہوجائے۔ یہی وقت روزے دار کے لیے ہوش کا ہے۔ ایسے موقع پر درگزر کا رویہ اختیار کیا جائے۔ اسلام نے روزے کی حالت میں قوت برداشت سے کام لینے کی تلقین کی ہے۔
روزہ دار کے لیے ایک اہم نکتے کی بات یہ بھی ہے کہ جہاں اسے جھوٹ بولنے سے منع کیا جارہا ہے، وہاں یہ بھی تعلیم دی جارہی ہے کہ دھوکے اور فریب سے گریز کرے۔ مثلاً اگر وہ تاجر ہے تو جھوٹ بول کر اپنی اشیاء فروخت نہ کرے، اپنے ناقص مال کو چھپا کر نہ بیچے، بلکہ اس شے کا نقص گاہک پر واضح کردے۔ کاروبار میں اس قسم کی حرکات ویسے تو پورے سال ممنوع ہیں، مگر رمضان المبارک میں اور روزے کی حالت میں اس قسم کی حرکات کا ارتکاب دین سے غفلت ہی ہے۔ ایسے لوگوں کی بابت نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: '' کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں جنھیں روزہ رکھنے سے سوائے پیاس اور بھوک کے اور کچھ نہیں ملتا، اور کتنے ہی شب بیدار ایسے ہیں جنھیں بے خوابی کے سوا شب بیداری سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔''
سال بھر کے مہینوں میں ماہ رمضان بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اسے تین عشروں میں تقسیم کیا جاتا ہے: پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی کا ہے۔ اس مہینے کے روزے مسلمانوں پر فرض کیے گئے جس کی خصوصیت یہ ہے کہ ہر روزے کا ثواب عام دنوں سے دس گنا زیادہ رکھا گیا، بلکہ ایک نیکی کا اجر دس سے ستر گنا اور ایک مقام پر سات سو گنا بتایا گیا ہے۔ اور پھر جنت کے سات دروازوں میں سے ہر عمل کرنے والا گزارا جائے گا۔ روزہ داروں کے لیے ایک مخصوص دروازہ رکھا گیا ہے جس کا نام باب الریان ہے، اس میں سے صرف روزہ دار گزریں گے۔ اس ماہ کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اس میں شیاطین قید کردیے جاتے ہیں اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔
یہ مہینہ غریبوں اور مسکینوں سے ہم دردی اور غم گساری کا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اور برکتیں بارش کی طرح برستی ہیں۔ اب یہ مہینہ آچکا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اس کا شایان شان استقبال اس انداز سے کریں کہ اس مہینے میں اپنے معمولات سے ہٹ کر زیادہ سے زیادہ عبادت میں مصروف رہیں، آخرت کی فکر کریں۔ آج ہی سے تمام برائیوں سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے نیک اعمال کی جانب متوجہ ہوکر دنیا و آخرت کی کام یابی حاصل کریں۔