پرویز مشرف کا14روزہ عدالتی ریمانڈ سب جیل قرار دیے گئے گھر منتقل

مشرف کے حامیوں پر تشدد،سیکیورٹی خدشات پر انتظامیہ نے چک شہزاد کے گھر کو سب جیل قرار دے دیا، 4مئی کو طلب۔

اسلام آباد:سابق صدر پرویز مشرف سخت سیکیورٹی میں عدالت میں پیش ہونے کے لیے آرہے ہی ۔ فوٹو : ایکسپریس

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ججز نظر بندی کیس میں سابق صدرجنرل(ر)پرویزمشرف کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کاحکم دیتے ہوئے 4 مئی کودوبارہ عدالت کے سامنے پیش کرنے کاحکم دیا ہے۔

سابق صدرجنرل پرویزمشرف کو پولیس لائنزسے چک شہزادمیں سب جیل قراردی گئی ان کی رہائش گاہ پرمنتقل کردیاگیا۔ ہفتے کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج کوثر عباس زیدی کے روبرو پیشی کے موقع پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں کی بھاری نفری نے سابق صدرکو چاروں اطراف سے حفاظت میں لیاہواتھا ۔اس موقع پر وکلاکی بڑی تعداد بھی پرویز مشرف کے خلاف نعرے بازی کرتے رہی، دوران سماعت بغیر ہتھکڑی لگائے پرویزمشرف کو پیش کرنے پر وکلا نے شدید احتجاج کیا اور نعرے بازی بھی کی۔

عدالت میں سابق صدر پرویز مشرف کے وکیل قمر افضل نے ان کا جوڈیشل ریمانڈ جبکہ اسلم گھمن کے وکیل نے ان کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جس پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔ بعد ازاں جج کوثر عباس زیدی نے محفوظ کیاگیا فیصلہ سناتے ہوئے سابق صدرکاججزنظر کیس میں 14 روزہ عبوری ریمانڈ دیا۔کارروائی کے بعدپولیس انھیں ہیڈکوارٹر لے گئی، اس موقع پربھی وکلا نے سابق صدرکے خلاف شدید نعرے بازی کی ۔ دریںاثنا چیف کمشیر آفس اسلام آباد میں ایک اہم اجلاس ہوا جس کی سربراہی کشمنر اسلام آباد نے کی ۔

اجلاس میں آئی جی پولیس اسلام ،اسسٹنٹ کشمنر سیکریٹریٹ اور ایس پی سٹی نے بھی شرکت کی، اجلاس میں سابق صدرپرویزمشرف کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دینے کے لیے پولیس کی درخواست پر غور کیاگیا۔ اسلام آباد پولیس نے سابق صدر کو لاحق سیکیورٹی خدشات کے بارے میں تفصیلی طور پر آگاہ کیاگیا جس پر ضلعی انتظامیہ نے سابق صدر کی چک شہزاد میں واقع رہائش گاہ کو سب جیل قراردے دیا،سب جیل قرار دینے کے بعد علاقے کی سیکیورٹی مزید سخت کردی گئی ہے ۔ آن لائن نے بتایا کہ اڈیالہ جیل غیر محفوظ ہونے، دہشت گردوں کی جانب سے دھمکیوں اور سیکیورٹی خدشات کے باعث مشرف کے فارم ہاؤس کو سب جیل قراردیا گیا ہے اور اس ضمن میں چیف کمشنر اسلام آباد نے نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔

قبل ازیں مقدمے کی سماعت شروع ہوتے ہی تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ انھیں ملزم جسمانی ریمانڈ کیلیے مطلوب نہیں، اس کیس میں کوئی ایسا نکتہ نہیں ہے جو پولیس کے علم میں نہ ہو اور اس کی ملزم پرویز مشرف سے تفتیش کی جائے، اس لیے ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جائے۔ مقدمے کے مدعی اسلم گھمن کے وکیل اشرف گجر نے دلائل دیے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پولیس ملزم کے ساتھ ملی ہوئی ہے، اس لیے وہ مشرف کا جسمانی ریمانڈ نہیں لینا چاہتی۔ اشرف گجر کا کہنا تھا کہ ابھی تو ان حقائق سے بھی پردہ اٹھنا ہے کہ 2007میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس کو آرمی ہاؤس میں طلب کرکے استعفٰی کیوں مانگا تھا اور اس میں دیگر کون سے فوجی حکام ملوث ہیں۔

مشرف کے وکیل قمر ابراہیم نے کہا کہ چونکہ یہ ایک دستاویزی مقدمہ ہے اور ملزم سے کوئی برآمدگی ہونا نہیں ہے، اس لیے انھیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا جائے۔ اس طرح مشرف کو کئی گھنٹے پولیس ہیڈکوارٹرز میں رکھنے کے بعد ان کے فارم ہاؤس میں دوبارہ منتقل کردیا گیا تاہم اس کا انتظام اب پولیس حکام کے حوالے کردیا گیا ہے اور کسی کو سیکیورٹی حکام کی اجازت کے بغیر سابق صدر سے ملنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ عدالت میں پیشی کے موقع پر وکلا نے مشرف پر حملے کی کوشش کی تاہم مشرف کو حصار میں لیے درجنوں رینجرز اہلکاروں نے انھیں بچائے رکھا۔ مشرف کے عدالت چھوڑتے ہی مشرف کے حامیوں کی شامت آگئی ، پہلے وکلا نے نعروں سے مشرف کے حامیوں کا مقابلہ کیا اور پھر ایک دو حامیوں کی پٹائی کردی ۔




دوسری طرف سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل6کے تحت کارروائی کے مقدمے کی سماعت کیلیے جناب جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں3رکنی بینچ تشکیل دیدیا ہے۔ بینچ میں جسٹس خلجی عارف حسین اورجسٹس اعجاز افضل شامل ہونگے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق سردار محمد صدیق نے جنرل(ر) مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کی سماعت کیلیے فل کورٹ یا لارجر بنچ تشکیل دینے کی استدعا کی تھی۔ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ چیف کمشنر نے پرویز مشرف سے ججز نظربندی کیس میںتفتیش کیلیے تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی ہے۔ کیپٹن (ر) الیاس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ہوںگے۔ اسلام آباد پولیس کے ساتھ آئی بی، ایم آئی اور آئی ایس آئی کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔

جبکہ چک شہزاد فارم ہاؤس کو سب جیل قرار دینے کے بعد اب وہاں جیل قواعد نافذ ہوں گے۔ حوالات میں بند ہونے کے بعد پرویزمشرف کی ملاقاتوں اور نقل وحرکت پر پابندی ہوگی، اس کے علاوہ کوئی بھی شخص چیف کمشنر اسلام آباد کی تحریری اجازت کے بغیر مشرف سے ملاقات نہیں کرسکے گا۔ وفاقی دارالحکومت کے چک شہزاد کے فارم ہاؤس کو سب جیل قرار دیے جانے کے باوجود سابق صدر پرویز مشرف کی مشکلات کا خاتمہ نہیں ہوا۔

بلوچستان کے بزرگ سیاسی رہنما نواب اکبربگٹی کے مقدمہ قتل میں سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے سابق صدر پرویز مشرف کی منظور کردہ حفاظتی ضمانت کی مدت ختم ہوگئی ہے اور بلوچستان پولیس کسی بھی وقت ان کی گرفتاری کیلیے اسلام آباد پولیس سے رابطہ کرسکتی ہے کیونکہ پرویز مشرف اس مقدمے میں مرکزی ملزم کی حیثیت سے نامزد ہیں۔ اکبر بگٹی قتل کیس کے مدعی جمیل بگٹی کے وکیل سہیل راجپوت پہلے ہی مقدمے کی سماعت کرنیوالی خصوصی عدالت میں یہ معاملہ اٹھاچکے ہیں کہ مرکزی ملزم پاکستان میں موجود ہے، خصوصی عدالت ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کرچکی ہے مگر اس کے باوجود پولیس انھیں گرفتارنہیں کررہی۔ مقدمے کے تفتیشی افسر نے موقف اختیار کیاتھاکہ سندھ ہائیکورٹ نے ملزم کو حفاظتی ضمانت دی ہوئی ہے۔

اس لیے ملزم کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ کسی بھی ہائیکورٹ کے احکام پورے ملک کی ماتحت عدالتوں سے بالاتر ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے جمعہ 29مارچ کو پرویز مشرف کی 3ہفتے کے لیے عبوری حفاظتی ضمانت منظورکرتے ہوئے پولیس کو انھیں اس مقدمے میں گرفتار نہ کرنے کی ہدایت کی تھی ، ہفتہ 20اپریل کو یہ مدت بھی ختم ہوچکی۔ اس کے علاوہ ججوں کو حبس بے جا میں رکھنے کے مقدمے میں بھی عبوری ضمانت کی توثیق نہ ہونے کے باعث پرویز مشرف کی گرفتاری عمل میں آچکی ہے۔ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ کچھ طاقتور عناصر جنرل (ر) پرویز مشرف کو ابھی تک سہولتیں فراہم کررہے ہیں اور اسی وجہ سے چک شہزاد میں واقع ان کی اپنی رہائش گاہ کو سب جیل قراردیا گیا ہے۔

ایک روز پولیس ہیڈکوارٹر میں رکھنے کے بعد پولیس نے یہ رپورٹ بھی دیدی ہے کہ ملزم کا پولیس تحویل میں رہنا ضروری نہیں اوران سے تفتیش مکمل کی جاچکی ہے۔ اسلام آباد پولیس کی یہ سخاوت اب پرویز مشرف کے لیے زیادہ مشکل کا سبب بن گئی ہے کیونکہ اب سابق صدر کو بلوچستان پولیس کے حوالے کرنے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں رہی۔ واضح رہے کہ نواب اکبر بگٹی کے صاحبزادے طلال بگٹی پرویز مشرف کے سر کی قیمت بھی مقرر کرچکے ہیں ،سندھ ہائیکورٹ نے بے نظیربھٹو اور نواب اکبربگٹی قتل کیس میںحفاظتی ضمانت میں3 ہفتے کی توسیع کرتے ہوئے اجازت کے بغیر پرویز مشرف کے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کی تھی۔

عدالت نے وزارت داخلہ اور ڈائریکٹر جنرل ایمیگریشن اینڈ پاسپورٹس کو نو ٹس جاری کرتے ہوئے عدالتی حکم پر سختی سے عمل درآمد کرانے کی ہدایت کی تھی ۔عدالت نے قراردیا تھا کہ مقررہ مدت میں پرویز مشرف متعلقہ عدالت میں پیش نہ ہوئے تو ضمانت منسوخ کردی جائے گی۔ واضح رہے کہ نواب اکبربگٹی کے صاحبزادے جمیل اکبر بگٹی نے مقدمہ درج کروانے کیلیے عدالت سے رجوع کیا تھا مگر ماتحت عدالت نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ22-Aکے تحت دائر درخواست مسترد کردی تھی تاہم بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 7اکتوبر2010کو درخواست منظور کرتے ہوئے مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا جس پر تھانہ ڈیرہ بگٹی میں13اکتوبر2010کوجام محمد یوسف اور دیگر ملزمان سابق صدر پرویزمشرف،سابق وزیراعظم شوکت عزیز،سابق وزیر داخلہ آفتاب احمدخان شیرپاؤ،سابق گورنربلوچستان اویس غنی اور سابق صوبائی وزیرداخلہ شعیب نوشیروانی کے خلاف نواب اکبر بگٹی کے قتل کے الزام میں مقدمہ 26/2009درج کیا گیا۔
Load Next Story