میڈیا کا کام حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹنا نہیں
گزارش ہے کہ ریاست کی جانب سے جتنی نرمی ملتی ہے آپ اس سے دو قدم آگے جائیں۔فرط جذبات میں متنازعہ نعرے بازی سے گریز کریں
غلط ریاستی پالیسی کے نتائج کیا ہوتے ہیں، یہ پی ٹی ایم کے جلسوں سے سامنے آرہے ہیں۔
جب یہ تحریک اپنے مطالبات کے ساتھ قدرے کرخت لہجے میں سراپا احتجاج ہوئی تو ریاست یا (کچھ ریاستی اداروں) نے بجائے ان کے احتجاج کو سنجیدہ لینے اور ٹیبل ٹاک کےلیے بیٹھ جانے، اس مسئلے کو پراکسی طریقوں سے حل کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔
پی ٹی ایم کا مسئلہ جُزوقتی نہیں۔ اس تحریک کے مظاہرین ملکی سلامتی کی ایک اہم پالیسی میں ترامیم چاہتے ہیں، مگر بدقسمتی سے اسے جزوی طور پر غیرمتحرک کرنے کی کوششوں میں پاکستانی پرچم کی توقیر، حب الوطنی، آزادی اظہار رائے اور دوسرے اہم پہلوؤں پر پڑنے والے منفی اثرات کا ادراک نہیں رکھا گیا۔
تضادات کے ماحول نے تب جنم لیا جب اس تحریک کی مخالفت میں "پاکستان زندہ باد موومنٹ" کے نام سے ایک اور تحریک بنی۔ اور پاکستان زندہ باد موومنٹ کے کارکنان خود کو خالص پاکستانیت کا سند یافتہ شہری سمجھنے لگے ہیں، جبکہ پشتون تحفظ موومنٹ کےکارکنان کو ریاست مخالف، اور یوں ایک دوسرے پر غدار، غیرملکی ایجنٹس اور بھانت بھانت کے ٹھپے ثبت ہونے لگے۔ پاکستان زندہ باد موومنٹ کے کارکنان اپنے ہر جلسے میں پاکستانی پرچم تھامنا اور پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کرنا یقینی سمجھتے ہیں۔ جبکہ پی ٹی ایم کارکنان سفید جھنڈے کو امن کی نشانی اور کالے جھنڈے کو سوگ کے اظہار کےلیے اپنے جلسوں میں لے کےجاتے ہیں، اورہر جلسے میں بار بار دُھرایا جاتا ہے کہ وہ ریاستی آئین کے دائرے میں رہ کر اپنے حقوق مانگ رہے ہیں۔ وہ ریاست کے خلاف نہیں، بلکہ ریاستی جبر کے خلاف ہیں، وہ ایجنٹ نہیں، بلکہ مظلوم ہیں۔
لیکن اس حقیقت سے منہ نہیں پھیرا جاسکتا ہے کہ ان کا انداز بیان سرپھروں جیسا ہے، جس کی وجوہات یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پی ٹی ایم کارکنان زیادہ تر نوجوانی کے گرم خون سے سرشار ہیں اور یونیورسٹیز کے لاڈ پیار والے ماحول میں پلنے والے ہیں۔ اس لیے فرطِ جذبات میں نعرے بلند کرتے ہوئے بعض اوقات حد سے تجاوز کرجاتے ہیں۔ مگر وہ تو بھلا ہو کور کمانڈر پشاور کا جو معاملے کو اچھی طرح بھانپ گئے اور اپنی جانب سے نرم اور شیریں بیان جاری کرتے ہوئے بتایا کہ یہ اپنے بچے ہیں، ان کی بات سنیں گے اور تمام جائز مطالبات پورے کریں گے۔ مگر باوجود اس کے پی ٹی ایم کارکنان کے لہجے میں نرمی دیکھنے کو نہیں ملی۔
مگر شومئی قسمت کہ میڈیا جس کی ذمہ داری ملک میں پھیلی بے اعتمادی اور افراتفری کے ماحول میں عوام اور حکومت کے مابین پُل کا کردار ادا کرنا ہوتا ہے، ہمارے میڈیا نے ایسے جذبات کو بھڑکانے میں تیل کا کردار ادا کیا۔ مظاہرین جہاں بھی جمع ہوں، ان کا بنیادی مقصد مختلف نعروں کے ذریعے اپنا مدعا یا مطالبات متعلقہ حکام یا ذمہ داران تک پہنچانا ہوتا ہے؛ اور اس پیغام رسانی کی ذمہ داری ابلاغ عامہ کے اداروں کی ہوتی ہے۔ مگر نام نہاد پاکستانی آزاد میڈیا نے شروع سے ہی اس تحریک کے مطالبات مثبت انداز میں رائے عامہ تک پہنچانے کی بجائے نہ صرف کانوں میں روئی ٹھونس رکھی ہے، بلکہ حسب روایت اختلافی پروپیگنڈوں سے کام چلا رہا ہے۔ ایسے میں جب ان کی آواز دبائی جاتی ہے تو عالمی نشریاتی اداروں کی جانب سے ان کو سننے پر شکوک و شبہات میں پڑنے کا مثال ایسا ہی ہے جس طرح سماعت سے محروم دوسروں کو بھی بہرے اور گونگے تصور کرتا ہے۔
پھر دلچسپ اور مضحکہ خیز معاملہ تو یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا ایک طرف پی ٹی ایم کو خواہ مخواہ کسی ایجنٹ کی طرح پیش کرتا ہے اور دشمن میڈیائی اداروں یا میڈیائی دہشت گردوں کےلیے بھی خود راہ ہموار کرتا ہے۔ ایسے میں جب پاکستان مخالف میڈیا، بالخصوص بھارتی میڈیا پی ٹی ایم کے حوالے سے پاکستانی میڈیا کے گھڑے گئے بیانیے کا سہارا لے کر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ پاکستان میں بغاوت شروع ہوگئی ہے، اور ہمارے ریاستی اداروں کے خلاف خوب جی ہلکا کرنے لگتا ہے۔ تب واویلا مچایا جاتا ہے کہ دیکھو ہم جو کہہ کررہے ہیں، وہ بصورت آئینہ صاف ہوکر سامنے آرہا ہے۔
قارئین کرام! انہی خدشات اور ممکنہ پروپیگنڈوں کو راقم پہلے ہی بھانپ چکا تھا۔ اس لیے سوات جلسے سے قبل ایک ذاتی تجویز بذریعہ سوشل میڈیا (پی ٹی ایم کےلیے اطلاع رسانی کا سب سے بڑا ذریعہ) ان کے کارکنان کو بھیجی تھی کہ تمام کارکنان اپنے ساتھ پاکستانی پرچم تھامے جلسہ گاہ میں پہنچ جائیں تاکہ ملک دشمنوں کے سینوں پر سانپ لوٹنے لگیں اور ان کے تمام ہتھکنڈے اکارت جائیں۔ مگر ہم کون ہوتے ہیں اور کس شمار و قطار میں ہیں کہ کسی کو ہمارے مفت کے مشورے سننے کی فرصت ہو اور حسب توقع سب نے سنی ان سنی کردی؛ پھر "وہی ہوا جس کا ڈر تھا''
جس دن سوات میں پی ٹی ایم کا جلسہ منعقد ہورہا تھا، کچھ مصروفیات کی بناء پر پورا دن سوشل میڈیا سے دور رہا اور پاکستانی ٹی وی چینلوں سے تو ویسے ہی دوری میں عافیت سمجھتا ہوں، کیونکہ ایک تو تھوڑا بہت اینگزائٹی بھی ہے۔ اس کے اوپر یہ اعصاب شکن میڈیا برداشت کرنے کی سکت نہیں۔ شام کو انٹرنیٹ کھولتے ہی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ پاکستانی ٹی وی چینلوں کی بریک شدہ خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکی تھی جس میں بتایا جا رہا تھا کہ پختون تحفظ موومنٹ کا پاکستانی پرچم سے بغض کھل کر سامنے آگیا، پاکستانی پرچم تھامے نوجوان کو جلسے میں جانے سے روک دیا گیا۔"
خبر دیکھ کر انتہائی سکتے میں پڑ گیا۔ کچھ سمجھنے سے قاصر تھا، سمجھایا جائے بھی تو کسے اور کیسے؟
پاکستانی الیکٹرانک میڈیا کی مثال تو اب محلے کی اس خالہ جیسی ہے جو روز کوئی ڈھنڈورا پیٹ کر ہنگامہ کھڑا کردیتی ہے۔ اس لئے کسی اعتبار کے قابل نہیں رہا۔ دوسری طرف پی ٹی ایم سوشل میڈیا پر بھی کوئی وضاحتی بیان دیکھنے کو نہیں مل رہا تھا، شاید ان کی سوشل میڈیا ٹیم جلسے میں موجود ماتم کناں لوگوں کے بیانات ریکارڈ کرنے میں مصروف تھی۔ پھر خود معاملے کے حقائق تک پہنچنے کےلیے ہر ممکن ذرائع کی مدد لینے کی کوشش شروع کردی تاکہ جمع کردہ معلومات کو بلاگ کی صورت میں اپنے قارئین تک پہنچا سکوں۔
میں نے فوری طور پر مبینہ طور پر جلسے سے نکالنے والے نوجوان کا نمبر حاصل کیا اور اس کا موقف جاننا چاہا۔ اس نوجوان کا نام درون خان ہے، اب بے چارے کو اس واقعہ کے بعد پی ٹی ایم کارکنان طنزاً "ڈرون خان" کہتے ہیں، درون خان نے بتایا کہ وہ بذات خود پی ٹی ایم کا سرگرم کارکن ہے، اور جلسے میں شرکت کےلیے جارہا تھا کہ اپنے کچھ تحفظات بھی ریاست کے سامنے پیش کرسکوں، مگر وہ جنونی حد تک ملکی سالمیت اور قومی یک جہتی کا پابند ہے۔ اس لئے پاکستانی پرچم تھامے جلسے میں جا رہا تھا کہ داخلی گیٹ پر سیکیورٹی پر مامور پی ٹی ایم کارکنان نے ہاتھ میں جھنڈا دیکھ کر یہ تاثر لیا کہ وہ ان کی مخالف تحریک "پاکستان زندہ باد موومنٹ" سے ہے اور جلسے میں کوئی انتشار پھیلانا چاہتا ہے، اس لئے یہ کہتے ہوئے روک لیا گیا کہ آپ نے اپنی قوت کا مظاہرہ کل کے جلسے میں کیا ہے اور انہیں روکنے کی کوشش کی۔ یہاں پر تھوڑی وضاحت ضروری ہے کہ پی ٹی ایم مخالف تحریک "پی زیڈ ایم" کا جلسہ بھی ایک دن قبل سوات ہی میں منعقد ہوا تھا۔ جیسا کہ پہلے سطور میں بیان کرچکا ہوں کہ ان کے جلسوں میں سبز ہلالی پرچموں کی بہار ہوتی ہے اور جلسہ گاہ پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھتا ہے۔
بہرحال درون خان کے مطابق اسی دوران پی ٹی ایم کے دیگر بڑے بھی آگئے اور معاملے کو سمجھنے کے بعد انہیں جلسے میں جانے کی اجازت دی گئی، بلکہ پی ٹی ایم کے سوشل میڈیا پیج پر اس نوجوان کا انٹرویو بھی موجود ہے، جس میں وہ بیان کررہا ہے کہ وہ پاکستانی پرچم صرف قومی یکجہتی کے طور پر لایا ہے اور اپنے مطالبات کو بجا سمجھتا ہے۔ اسی طرح پی ٹی ایم کے ذرائع سے بات ہوئی تو ان کا بھی یہی موقف تھا کہ ان کی مخالف تحریک اپنے علاوہ کسی کی شہریت کو تسلیم نہیں کرتی اور حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ لئے پھرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری سیکیورٹی پر مامور نوجوانوں کو مخالف تحریک کے کارکن ہونے کا شک ہوا اور نوجوان کو روک دیا گیا۔
جبکہ پی ٹی ایم کے بعض راہنما یہ دعوی کرتے ہیں کہ نوجوان نے پہلے پی ٹی ایم سوشل میڈیا سے بات کی، مگر بعد میں جان بوجھ کر گیٹ پر گیا اور جھنڈے کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی۔ پی ٹی ایم سوشل میڈیا کے ساتھ دران خان کے انٹرویو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پی ٹی ایم کے ایک راہنما نور وزیر بتاتے ہیں کہ ہم اسی جھنڈے کے نیچے آئین کے پابند ہیں، اور بحیثیت پاکستانی شہری آئین کے دائرے میں اپنے مطالبات پیش کررہے ہیں۔ اور ایسے نوجوانوں کو داد دیتے ہیں جو پاکستانی جھنڈے کے نیچے اپنے حقوق کا مطالبہ کررہے ہیں۔
اب اس میں الجھنے کا کوئی جواز پیدا نہیں ہوتا کہ درون خان کو اس انٹرویو سے پہلے جلسے سے نکالنے کی کوشش کی گئی ہے یا بعد میں۔ اس کا دونوں فریقین نے مشترکہ موقف اختیار کیا ہے کہ وہ پاکستانی شہری ہیں اور پاکستانی پرچم کی توقیر کا پاس رکھتے ہیں۔ مگر سارے مسائل کی جڑیں گھوم پھر کر پاکستانی میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ کردار سے ملتی ہیں۔ یہاں پر پاکستانی میڈیا کا نیچ کردار ننگا ہوکر سامنے آتا ہے کہ وقوعہ کے دوران کسی نے موبائل فون سے ویڈیو کلپ بنائی اور تمام ٹی وی چینلوں پر بغیر تصدیق کے ذاتی عناد پر دھڑا دھڑ خبر بریک ہونے لگی کہ پاکستانی پرچم کو مسترد کردیا گیا۔ بتایا جانے لگا کہ پی ٹی ایم کی ملک دشمنی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ پلک چھپکتے ہی نام نہاد ٹی وی تجزیہ نگاران شیشوں پر نمودار ہوئے اور اپنی دانشمندی جھاڑنے لگے۔ اب تو ٹی وی چینلوں نے "بریکنگ تجزیہ نگار" پال رکھے ہیں جو ہر بریک شدہ خبر پر کال پر موجود ہوتے ہیں اور تیز رفتار تجزیہ جھاڑنا شروع کردیتے ہیں۔ وہ خود کو کسی سقراط بقراط سے کم نہیں۔ مگر ان ممتاز تجزیہ نگاروں کو اس بات کا علم تک نہیں کہ تجزیہ معلومات اکھٹا کئے بغیر ممکن نہیں، اور وہ بریکنگ خبر کی پٹی چلے اور آپ اس پر تجزیے جھاڑیں۔
گزارش یہ ہے کہ اس طرح کی صورت حال کو باریک بینی سے دیکھا جائے۔ زمینی حقائق کو جانچا جائے۔ بے لگام پاکستانی میڈیا کےلیے کوئی دور رس ضابطہ اخلاق ترتیب دیاجائے اور صحافت کےلیے بھی کوئی معیار اور اصول وضع کیے جائیں، ورنہ حب الوطنی اور پرچم توقیری پر دستخط کرنے کا اختیار اسی طرح میڈیا کے ان کے پالے ہوئے تجزیہ نگاروں کے ہاتھوں میں رہا تو یہ سلجھاؤ میں مدد کی بجائے مسائل کو کسی بھیانک موڑ کی طرف لے جائیں گے؛ اور بعد میں کفِ افسوس ملنے سے کچھ نہیں ہوگا۔
پی ٹی ایم کے راہنماؤں سے بھی ایک بار پھر گزارش ہے کہ ریاست کی جانب سے جتنی نرمی ملتی ہے، آپ اس سے دو قدم آگے جائیں۔ فرطِ جذبات میں متنازعہ نعرے بازی سے اجتناب کریں۔ اپنے مطالبات کو جائز بنانے کے بجائے متنازعہ نہ بنایا جائے، بلکہ ایک بار پھر بحیثیت شہری اپنی تجویز پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ تمام جلسوں میں پاکستانی پرچم سمیت جائیں۔ ٹھیک ہے، اگر آپ اسے بزور طاقت پرچم سے محبت سمجھتے ہیں تو بھی اس طاقت کو مان لیں۔ کسی فریق کی نہیں، بلکہ اس پرچم کی طاقت سمجھ کر قبول کریں۔ یہ ملک ہم سب کا ہے۔ اس کا دستور ہم سب کےلیے ہے۔ یہ پرچم بھی ہم سب کا ہے۔ اس کے وقار کا پاس بھی ہم سب نے رکھنا ہے۔ یہ ہم سب کا پاکستان ہے جہاں ہم اس کے آئینی معاہدوں کے تحت مساوی طور پر اپنے حقوق مانگ سکتے ہیں اور اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کرسکتے ہیں۔ تو پھر ایسے مباحثوں کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
جب یہ تحریک اپنے مطالبات کے ساتھ قدرے کرخت لہجے میں سراپا احتجاج ہوئی تو ریاست یا (کچھ ریاستی اداروں) نے بجائے ان کے احتجاج کو سنجیدہ لینے اور ٹیبل ٹاک کےلیے بیٹھ جانے، اس مسئلے کو پراکسی طریقوں سے حل کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔
پی ٹی ایم کا مسئلہ جُزوقتی نہیں۔ اس تحریک کے مظاہرین ملکی سلامتی کی ایک اہم پالیسی میں ترامیم چاہتے ہیں، مگر بدقسمتی سے اسے جزوی طور پر غیرمتحرک کرنے کی کوششوں میں پاکستانی پرچم کی توقیر، حب الوطنی، آزادی اظہار رائے اور دوسرے اہم پہلوؤں پر پڑنے والے منفی اثرات کا ادراک نہیں رکھا گیا۔
تضادات کے ماحول نے تب جنم لیا جب اس تحریک کی مخالفت میں "پاکستان زندہ باد موومنٹ" کے نام سے ایک اور تحریک بنی۔ اور پاکستان زندہ باد موومنٹ کے کارکنان خود کو خالص پاکستانیت کا سند یافتہ شہری سمجھنے لگے ہیں، جبکہ پشتون تحفظ موومنٹ کےکارکنان کو ریاست مخالف، اور یوں ایک دوسرے پر غدار، غیرملکی ایجنٹس اور بھانت بھانت کے ٹھپے ثبت ہونے لگے۔ پاکستان زندہ باد موومنٹ کے کارکنان اپنے ہر جلسے میں پاکستانی پرچم تھامنا اور پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کرنا یقینی سمجھتے ہیں۔ جبکہ پی ٹی ایم کارکنان سفید جھنڈے کو امن کی نشانی اور کالے جھنڈے کو سوگ کے اظہار کےلیے اپنے جلسوں میں لے کےجاتے ہیں، اورہر جلسے میں بار بار دُھرایا جاتا ہے کہ وہ ریاستی آئین کے دائرے میں رہ کر اپنے حقوق مانگ رہے ہیں۔ وہ ریاست کے خلاف نہیں، بلکہ ریاستی جبر کے خلاف ہیں، وہ ایجنٹ نہیں، بلکہ مظلوم ہیں۔
لیکن اس حقیقت سے منہ نہیں پھیرا جاسکتا ہے کہ ان کا انداز بیان سرپھروں جیسا ہے، جس کی وجوہات یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پی ٹی ایم کارکنان زیادہ تر نوجوانی کے گرم خون سے سرشار ہیں اور یونیورسٹیز کے لاڈ پیار والے ماحول میں پلنے والے ہیں۔ اس لیے فرطِ جذبات میں نعرے بلند کرتے ہوئے بعض اوقات حد سے تجاوز کرجاتے ہیں۔ مگر وہ تو بھلا ہو کور کمانڈر پشاور کا جو معاملے کو اچھی طرح بھانپ گئے اور اپنی جانب سے نرم اور شیریں بیان جاری کرتے ہوئے بتایا کہ یہ اپنے بچے ہیں، ان کی بات سنیں گے اور تمام جائز مطالبات پورے کریں گے۔ مگر باوجود اس کے پی ٹی ایم کارکنان کے لہجے میں نرمی دیکھنے کو نہیں ملی۔
مگر شومئی قسمت کہ میڈیا جس کی ذمہ داری ملک میں پھیلی بے اعتمادی اور افراتفری کے ماحول میں عوام اور حکومت کے مابین پُل کا کردار ادا کرنا ہوتا ہے، ہمارے میڈیا نے ایسے جذبات کو بھڑکانے میں تیل کا کردار ادا کیا۔ مظاہرین جہاں بھی جمع ہوں، ان کا بنیادی مقصد مختلف نعروں کے ذریعے اپنا مدعا یا مطالبات متعلقہ حکام یا ذمہ داران تک پہنچانا ہوتا ہے؛ اور اس پیغام رسانی کی ذمہ داری ابلاغ عامہ کے اداروں کی ہوتی ہے۔ مگر نام نہاد پاکستانی آزاد میڈیا نے شروع سے ہی اس تحریک کے مطالبات مثبت انداز میں رائے عامہ تک پہنچانے کی بجائے نہ صرف کانوں میں روئی ٹھونس رکھی ہے، بلکہ حسب روایت اختلافی پروپیگنڈوں سے کام چلا رہا ہے۔ ایسے میں جب ان کی آواز دبائی جاتی ہے تو عالمی نشریاتی اداروں کی جانب سے ان کو سننے پر شکوک و شبہات میں پڑنے کا مثال ایسا ہی ہے جس طرح سماعت سے محروم دوسروں کو بھی بہرے اور گونگے تصور کرتا ہے۔
پھر دلچسپ اور مضحکہ خیز معاملہ تو یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا ایک طرف پی ٹی ایم کو خواہ مخواہ کسی ایجنٹ کی طرح پیش کرتا ہے اور دشمن میڈیائی اداروں یا میڈیائی دہشت گردوں کےلیے بھی خود راہ ہموار کرتا ہے۔ ایسے میں جب پاکستان مخالف میڈیا، بالخصوص بھارتی میڈیا پی ٹی ایم کے حوالے سے پاکستانی میڈیا کے گھڑے گئے بیانیے کا سہارا لے کر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ پاکستان میں بغاوت شروع ہوگئی ہے، اور ہمارے ریاستی اداروں کے خلاف خوب جی ہلکا کرنے لگتا ہے۔ تب واویلا مچایا جاتا ہے کہ دیکھو ہم جو کہہ کررہے ہیں، وہ بصورت آئینہ صاف ہوکر سامنے آرہا ہے۔
قارئین کرام! انہی خدشات اور ممکنہ پروپیگنڈوں کو راقم پہلے ہی بھانپ چکا تھا۔ اس لیے سوات جلسے سے قبل ایک ذاتی تجویز بذریعہ سوشل میڈیا (پی ٹی ایم کےلیے اطلاع رسانی کا سب سے بڑا ذریعہ) ان کے کارکنان کو بھیجی تھی کہ تمام کارکنان اپنے ساتھ پاکستانی پرچم تھامے جلسہ گاہ میں پہنچ جائیں تاکہ ملک دشمنوں کے سینوں پر سانپ لوٹنے لگیں اور ان کے تمام ہتھکنڈے اکارت جائیں۔ مگر ہم کون ہوتے ہیں اور کس شمار و قطار میں ہیں کہ کسی کو ہمارے مفت کے مشورے سننے کی فرصت ہو اور حسب توقع سب نے سنی ان سنی کردی؛ پھر "وہی ہوا جس کا ڈر تھا''
جس دن سوات میں پی ٹی ایم کا جلسہ منعقد ہورہا تھا، کچھ مصروفیات کی بناء پر پورا دن سوشل میڈیا سے دور رہا اور پاکستانی ٹی وی چینلوں سے تو ویسے ہی دوری میں عافیت سمجھتا ہوں، کیونکہ ایک تو تھوڑا بہت اینگزائٹی بھی ہے۔ اس کے اوپر یہ اعصاب شکن میڈیا برداشت کرنے کی سکت نہیں۔ شام کو انٹرنیٹ کھولتے ہی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ پاکستانی ٹی وی چینلوں کی بریک شدہ خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوچکی تھی جس میں بتایا جا رہا تھا کہ پختون تحفظ موومنٹ کا پاکستانی پرچم سے بغض کھل کر سامنے آگیا، پاکستانی پرچم تھامے نوجوان کو جلسے میں جانے سے روک دیا گیا۔"
خبر دیکھ کر انتہائی سکتے میں پڑ گیا۔ کچھ سمجھنے سے قاصر تھا، سمجھایا جائے بھی تو کسے اور کیسے؟
پاکستانی الیکٹرانک میڈیا کی مثال تو اب محلے کی اس خالہ جیسی ہے جو روز کوئی ڈھنڈورا پیٹ کر ہنگامہ کھڑا کردیتی ہے۔ اس لئے کسی اعتبار کے قابل نہیں رہا۔ دوسری طرف پی ٹی ایم سوشل میڈیا پر بھی کوئی وضاحتی بیان دیکھنے کو نہیں مل رہا تھا، شاید ان کی سوشل میڈیا ٹیم جلسے میں موجود ماتم کناں لوگوں کے بیانات ریکارڈ کرنے میں مصروف تھی۔ پھر خود معاملے کے حقائق تک پہنچنے کےلیے ہر ممکن ذرائع کی مدد لینے کی کوشش شروع کردی تاکہ جمع کردہ معلومات کو بلاگ کی صورت میں اپنے قارئین تک پہنچا سکوں۔
میں نے فوری طور پر مبینہ طور پر جلسے سے نکالنے والے نوجوان کا نمبر حاصل کیا اور اس کا موقف جاننا چاہا۔ اس نوجوان کا نام درون خان ہے، اب بے چارے کو اس واقعہ کے بعد پی ٹی ایم کارکنان طنزاً "ڈرون خان" کہتے ہیں، درون خان نے بتایا کہ وہ بذات خود پی ٹی ایم کا سرگرم کارکن ہے، اور جلسے میں شرکت کےلیے جارہا تھا کہ اپنے کچھ تحفظات بھی ریاست کے سامنے پیش کرسکوں، مگر وہ جنونی حد تک ملکی سالمیت اور قومی یک جہتی کا پابند ہے۔ اس لئے پاکستانی پرچم تھامے جلسے میں جا رہا تھا کہ داخلی گیٹ پر سیکیورٹی پر مامور پی ٹی ایم کارکنان نے ہاتھ میں جھنڈا دیکھ کر یہ تاثر لیا کہ وہ ان کی مخالف تحریک "پاکستان زندہ باد موومنٹ" سے ہے اور جلسے میں کوئی انتشار پھیلانا چاہتا ہے، اس لئے یہ کہتے ہوئے روک لیا گیا کہ آپ نے اپنی قوت کا مظاہرہ کل کے جلسے میں کیا ہے اور انہیں روکنے کی کوشش کی۔ یہاں پر تھوڑی وضاحت ضروری ہے کہ پی ٹی ایم مخالف تحریک "پی زیڈ ایم" کا جلسہ بھی ایک دن قبل سوات ہی میں منعقد ہوا تھا۔ جیسا کہ پہلے سطور میں بیان کرچکا ہوں کہ ان کے جلسوں میں سبز ہلالی پرچموں کی بہار ہوتی ہے اور جلسہ گاہ پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھتا ہے۔
بہرحال درون خان کے مطابق اسی دوران پی ٹی ایم کے دیگر بڑے بھی آگئے اور معاملے کو سمجھنے کے بعد انہیں جلسے میں جانے کی اجازت دی گئی، بلکہ پی ٹی ایم کے سوشل میڈیا پیج پر اس نوجوان کا انٹرویو بھی موجود ہے، جس میں وہ بیان کررہا ہے کہ وہ پاکستانی پرچم صرف قومی یکجہتی کے طور پر لایا ہے اور اپنے مطالبات کو بجا سمجھتا ہے۔ اسی طرح پی ٹی ایم کے ذرائع سے بات ہوئی تو ان کا بھی یہی موقف تھا کہ ان کی مخالف تحریک اپنے علاوہ کسی کی شہریت کو تسلیم نہیں کرتی اور حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ لئے پھرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری سیکیورٹی پر مامور نوجوانوں کو مخالف تحریک کے کارکن ہونے کا شک ہوا اور نوجوان کو روک دیا گیا۔
جبکہ پی ٹی ایم کے بعض راہنما یہ دعوی کرتے ہیں کہ نوجوان نے پہلے پی ٹی ایم سوشل میڈیا سے بات کی، مگر بعد میں جان بوجھ کر گیٹ پر گیا اور جھنڈے کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی۔ پی ٹی ایم سوشل میڈیا کے ساتھ دران خان کے انٹرویو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پی ٹی ایم کے ایک راہنما نور وزیر بتاتے ہیں کہ ہم اسی جھنڈے کے نیچے آئین کے پابند ہیں، اور بحیثیت پاکستانی شہری آئین کے دائرے میں اپنے مطالبات پیش کررہے ہیں۔ اور ایسے نوجوانوں کو داد دیتے ہیں جو پاکستانی جھنڈے کے نیچے اپنے حقوق کا مطالبہ کررہے ہیں۔
اب اس میں الجھنے کا کوئی جواز پیدا نہیں ہوتا کہ درون خان کو اس انٹرویو سے پہلے جلسے سے نکالنے کی کوشش کی گئی ہے یا بعد میں۔ اس کا دونوں فریقین نے مشترکہ موقف اختیار کیا ہے کہ وہ پاکستانی شہری ہیں اور پاکستانی پرچم کی توقیر کا پاس رکھتے ہیں۔ مگر سارے مسائل کی جڑیں گھوم پھر کر پاکستانی میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ کردار سے ملتی ہیں۔ یہاں پر پاکستانی میڈیا کا نیچ کردار ننگا ہوکر سامنے آتا ہے کہ وقوعہ کے دوران کسی نے موبائل فون سے ویڈیو کلپ بنائی اور تمام ٹی وی چینلوں پر بغیر تصدیق کے ذاتی عناد پر دھڑا دھڑ خبر بریک ہونے لگی کہ پاکستانی پرچم کو مسترد کردیا گیا۔ بتایا جانے لگا کہ پی ٹی ایم کی ملک دشمنی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ پلک چھپکتے ہی نام نہاد ٹی وی تجزیہ نگاران شیشوں پر نمودار ہوئے اور اپنی دانشمندی جھاڑنے لگے۔ اب تو ٹی وی چینلوں نے "بریکنگ تجزیہ نگار" پال رکھے ہیں جو ہر بریک شدہ خبر پر کال پر موجود ہوتے ہیں اور تیز رفتار تجزیہ جھاڑنا شروع کردیتے ہیں۔ وہ خود کو کسی سقراط بقراط سے کم نہیں۔ مگر ان ممتاز تجزیہ نگاروں کو اس بات کا علم تک نہیں کہ تجزیہ معلومات اکھٹا کئے بغیر ممکن نہیں، اور وہ بریکنگ خبر کی پٹی چلے اور آپ اس پر تجزیے جھاڑیں۔
گزارش یہ ہے کہ اس طرح کی صورت حال کو باریک بینی سے دیکھا جائے۔ زمینی حقائق کو جانچا جائے۔ بے لگام پاکستانی میڈیا کےلیے کوئی دور رس ضابطہ اخلاق ترتیب دیاجائے اور صحافت کےلیے بھی کوئی معیار اور اصول وضع کیے جائیں، ورنہ حب الوطنی اور پرچم توقیری پر دستخط کرنے کا اختیار اسی طرح میڈیا کے ان کے پالے ہوئے تجزیہ نگاروں کے ہاتھوں میں رہا تو یہ سلجھاؤ میں مدد کی بجائے مسائل کو کسی بھیانک موڑ کی طرف لے جائیں گے؛ اور بعد میں کفِ افسوس ملنے سے کچھ نہیں ہوگا۔
پی ٹی ایم کے راہنماؤں سے بھی ایک بار پھر گزارش ہے کہ ریاست کی جانب سے جتنی نرمی ملتی ہے، آپ اس سے دو قدم آگے جائیں۔ فرطِ جذبات میں متنازعہ نعرے بازی سے اجتناب کریں۔ اپنے مطالبات کو جائز بنانے کے بجائے متنازعہ نہ بنایا جائے، بلکہ ایک بار پھر بحیثیت شہری اپنی تجویز پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ تمام جلسوں میں پاکستانی پرچم سمیت جائیں۔ ٹھیک ہے، اگر آپ اسے بزور طاقت پرچم سے محبت سمجھتے ہیں تو بھی اس طاقت کو مان لیں۔ کسی فریق کی نہیں، بلکہ اس پرچم کی طاقت سمجھ کر قبول کریں۔ یہ ملک ہم سب کا ہے۔ اس کا دستور ہم سب کےلیے ہے۔ یہ پرچم بھی ہم سب کا ہے۔ اس کے وقار کا پاس بھی ہم سب نے رکھنا ہے۔ یہ ہم سب کا پاکستان ہے جہاں ہم اس کے آئینی معاہدوں کے تحت مساوی طور پر اپنے حقوق مانگ سکتے ہیں اور اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کرسکتے ہیں۔ تو پھر ایسے مباحثوں کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔