پارلیمانی کمیشن کی ضرورت
میاں نواز شریف کے سانحہ ممبئی سے متعلق بیان پر سیاسی منظرنامے پر ایک ہلچل مچی ہوئی ہے۔
''مزہ تب آئے گا جب جھنڈا سری نگر پر لگائیں گے'' فوج کے سابق سربراہ پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کارگل پر حملے سے پہلے بریفنگ میں یہ الفاظ کہے تھے ۔ ان کا کہنا ہے کہ کارگل جنگ میں ہم پانچ مقامات پر بھارتی فوج پر حاوی تھے اس وقت حکومت پر بھارت نے امریکا کے ذریعے دباؤ ڈلوایا۔ کارگل سے فوج کی واپسی پر راجہ ظفر الحق اور چوہدری شجاعت حسین نے مخالفت کی ۔ نواز شریف امریکا گئے اور وہاں سے فوج کا انخلاء کروا کر غلط قدم اٹھایا تھا۔
میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ کچھ بھی سہنا پڑے حق بات کروں گا۔ کون غدار ہے اس کا فیصلہ قومی کمیشن بنا کر ہوجائے گا، جو مجرم ہے اسے سرعام پھانسی دی جائے۔ مجھے غدار کہنے والے سب سے بڑے غدار ہیں۔ میاں صاحب کا کہنا ہے کہ اب پتہ کرنا ہوگا کہ ملک میں دہشت گردی کی بنیاد کس نے رکھی اور ذمے دارکون ہے۔
ہمارا کتنا پیارا ملک تھا، اب اسے دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے۔ میاں نواز شریف سوال اٹھاتے ہیں کہ ہمارے 5 ہزار فوجی اور ہزاروں سویلین دہشت گردی کی جنگ میں شہید ہوئے مگر دنیا ہمارے بیانیے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے ۔
میاں نواز شریف کے سانحہ ممبئی سے متعلق بیان پر سیاسی منظرنامے پر ایک ہلچل مچی ہوئی ہے۔ عمران خان نیازی کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف عالمی اسٹیبلشمنٹ سے اپیل کر رہے ہیں ، ان کا نام ای سی ایل میں ڈال کر غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔ کچھ اینکر پرسن میاں نواز شریف کو غدار قرار دے رہے ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیر اعظم کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کے الزام میں مقدمہ چلانے کی عرض داشت دائر کی ہے۔
ایک سینئر صحافی نے لکھا ہے کہ ممبئی کے معاملے پر حتمی نتیجہ نکالنے سے قبل ایک بھارتی پولیس افسر ایس ایم اشرف کی کتاب "Who Killed Karkare" ضرور پڑھی جائے۔ اسی طرح ایک جرمن مصنف کی کتاب کا بھی ذکر ہو رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کے سوشل میڈیا گروپ نے سابق صدر پرویز مشرف ، محمود درانی اور سابق وزیر داخلہ رحمن ملک کے ٹی وی چینلز پر بیانات اور پریس کانفرنسوں کے فوٹیج وائرل کردیے ہیں۔ ان رہنماؤں نے ممبئی میں ہونے والی دہشت گردی میں غیر ریاستی کرداروں کے ملوث ہونے کی تصدیق کی ہے۔
جمہوری ممالک میں اس طرح کے تنازعات ابھرتے ہیں تو منتخب ادارے فوری طور پر تحقیقات کا آغاز کرتے ہیں ۔ جب 70ء کی دہائی میں نیو یارک ٹائمز کے دو رپورٹروں نے یہ رپورٹ فائل کی کہ منتخب صدر نکسن نے اپنی مخالف ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی دفتر واٹرگیٹ ہاؤس میں جاسوسی کے آلات نصب کرائے تھے تاکہ ڈیموکریٹک پارٹی کی انتخابی حکمت عملی کا علم ہوسکے تو نیویارک ٹائمز میں اس خبر کی اشاعت کے بعد صدر نکسن کے میڈیا مینیجر نے تردید جاری کی مگر یہ الزام عائد نہیں کیا کہ نیویارک ٹائمز کے دو رپورٹر دشمن سوویت یونین کے ایجنٹ ہیں۔
ان خبروں کا امریکا کے منتخب ادارہ کانگریس کی اہم ستون سینیٹ نے نوٹس لیا، یوں اس معاملے کی تحقیقات شروع ہوئیں۔ یہ تحقیقات مہینوں جاری رہیں ۔ وائٹ ہاؤس کے افسروں کو منتخب اراکین کی جرح کو برداشت کرنا پڑا، یوں افسروں اور سیاسی معاونین کے بیانات کے تضادات رونما ہوئے اور اخبارات اور ٹی وی چینلز نے سینیٹ کی کارروائی کو مکمل طور پر شایع کیا ۔ تحقیقات سے ثابت ہوا کہ صدر نکسن اس معاملے میں ملوث ہیں ۔ پھر وہ وقت آیا کہ یہ بات یقینی ہوگئی کہ اب سینیٹ اور ایوان نمایندگان پر مشتمل کانگریس میں صدر نکسن کے مواخذے کی قرارداد پیش ہوگئی۔ صدر نکسن مواخذہ کی کارروائی سے پہلے ہی مستعفیٰ ہوگئے۔
برطانیہ جب عراق کی جنگ میں ملوث ہوا تو ایک سائنس دان ڈاکٹر کیری نے اس وقت کے وزیر اعظم ٹونی بلیئر پر جعلی دستاویزات پیش کرنے کا الزام لگایا ۔ بی بی سی نے اس بارے میں تفصیلی خبریں نشرکیں جس پر تحقیقات شروع ہوئی اور تحقیقاتی رپورٹ سے ثابت ہوا کہ ڈاکٹرکیری کے الزامات غلط تھے۔
بی بی سی کی غلط خبر نشر کرنے کی ذمے داری اس کے چیئرمین پر عائد ہوئی اور چیئرمین اپنے عہدے سے مستعفی ہوئے۔ ڈاکٹر کیری نے ندامت سے بچنے کے لیے خودکشی کرلی۔ بھارت اور چین کے درمیان 60ء کی دہائی میں تبت کے مسئلے پر محدود جنگ ہوئی۔
اس وقت پنڈت جواہر لعل نہرو وزیر اعظم ، کرشنا وزیر دفاع اور جنرل کری اپہ فوج کے کمانڈر انچیف تھے۔ اس جنگ میں بھارت کو شکست ہوئی۔ جنگ کے نتائج کی بناء پر وزیر دفاع کو مستعفی ہونا پڑا۔ کارگل جنگ کے نتائج اگرچہ بھارت کے خلاف نہیں تھے مگر بھارتی فوج کی ناقص کارکردگی اور فوجی جوانوں کی بڑی تعداد میں ہلاکت حتیٰ کہ کفن بکس کے ناقص ہونے جیسے معاملات کے بارے میں تحقیقات ہوئیں اور تحقیقاتی رپورٹیں ذرایع ابلاغ کے ذریعے عوام تک پہنچیں۔
امریکا میں نائن الیون دہشت گردی کا بد ترین واقعہ ہے۔ نائن الیون کے واقعے کی کانگریس نے بھی تحقیقات کی اور ایف بی آئی نے بھی تحقیقات کیں۔ کئی صحافیوں نے اس موقعے پر ڈاکومینٹری تیارکیں۔ نائن الیون سے متعلق تحقیقات کتابوں اور انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ ولیم مور نے اپنی ڈاکومینٹری فلم میں امریکا کے سرکاری مؤقف کو مسترد کیا مگر ولیم مور غدار قرار نہ پائے۔
پاکستان کی عجیب سی تاریخ ہے۔ دو صدی پہلے انگریزی کا اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ ہندوستان کے مختلف شہروں سے شایع ہوتا تھا ۔ اس کا لاہور کا ایڈیشن بہت مقبول تھا ۔ 1948ء میں کشمیر میں جنگ بندی کے بعد، دہلی کے نمایندے نے خبر بھیجی کہ بھارت اور پاکستان اس پر متفق ہوگئے ہیں کہ کشمیر میں جس کا قبضہ ہے وہ برقرار رہے گا ۔
حکومت پاکستان نے اس خبرکی تردید کی جو اخبار نے اپنے صفحہ اول پر شایع کی اور اپنے نئی دہلی کے نمایندے کو برطرف کردیا مگر اخبار پر غداری کا الزام نہیں لگایا گیا۔ ایڈیٹروں کی تنظیم کے ذریعے یہ مطالبہ کرایا گیا کہ ملک دشمن اخبار کو بند کردیا جائے، یوں سول اینڈ ملٹری گزٹ بند ہوگیا مگر اس اخبار میں شایع ہونے والی خبر کو تاریخ نے درست ثابت کردیا ۔
1965ء کی جنگ کیوں شروع ہوئی، آپریشن جیرالڈ کے مقاصد کیا تھے اور یہ آپریشن کیوں ناکام ہوا اس بارے میں کبھی تحقیقات نہ ہوئیں ۔ دسمبر 1971ء میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا ۔ اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس حمود الرحمن کی قیادت میں کمیشن قائم کیا۔ اس کمیشن نے ایک سال سے زائد عرصہ تحقیقات میں صرف کیا اور سیکڑوں صفحات پر مشتمل رپورٹ تیار کی مگر برسوں یہ رپورٹ شایع نہ ہوئی۔ بھارت کے ایک اخبار نے اس رپورٹ کے اقتباسات شایع کیے۔ 90ء کی دہائی میں یہ رپورٹ منظر عام پر آئی مگر اس رپورٹ پر کوئی حتمی کارروائی نہ ہوئی۔
90 ہزار فوجیوں کو بھارت کی قید میں دینے کے ذمے دار فوج کے اس وقت کے کمانڈر انچیف اور سابق صدر جنرل آغا محمد یحییٰ خان کو فوجی اعزازکے ساتھ دفن کیا گیا ۔ کارگل قبضے کے بارے میں صورتحال عجیب سی رہی۔ پہلے کہا گیا کہ حریت پسند کارگل پر قبضے کی لڑائی لڑ رہے ہیں ، پھر کہا گیا کہ بری فوج لڑائی میں حصہ لے رہی ہے۔ بھارت نے کارپیٹ بمباری اور کراچی کی بندرگاہ کو بند کرنے کی دھمکی دی ۔ وزیر اعظم نواز شریف کو واشنگٹن جانا پڑا ۔ صدر کلنٹن نے بھارت کے وزیر اعظم واجپائی کو بھی واشنگٹن مدعو کیا مگر انھوں نے امریکا جانے سے انکار کیا ۔
صدرکلنٹن نے جنگ بندی کا معاہدہ واجپائی کو ٹیلیفون پر پڑھ کر سنایا۔ کارگل جنگ بھارتی وزیر اعظم واجپائی کے لاہور میں یادگار پاکستان پر حاضری اور دوستی بس شروع کرنے کے بعد شروع ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ فوج کے سربراہ جنرل مشرف نے وزیر اعظم واجپائی کو اس وقت سلیوٹ کرنے سے انکار کیا تھا۔ جب مشرف اقتدار پر قابض ہوئے تو واجپائی سے ملاقات کے لیے آگرہ گئے اورکشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے 6نکاتی تجاویز پیش کیں جو ماضی کی پالیسی سے مختلف تھی اور بھارت پارلیمنٹ پر حملے کے بعد نیپال میںہونے والی سارک سربراہی کانفرنس میں خود واجپائی سے مصافحہ کیا تھا۔ اس جنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت اور امریکا ایک دوسرے کے قریب آگئے تھے۔
میاں نواز شریف نے ہمیشہ یہ مؤقف اختیار کیا کہ اس معاملے میں انھیں اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا ۔ کارگل جنگ کے کچھ عرصہ بعد جب یہ مطالبہ کیا گیا کہ اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیے تو جنرل پرویز مشرف نے کسی بھی قسم کی تحقیقات سے انکار کیا۔ ایبٹ آباد کے ایک مکان پر امریکی میرین دستوں نے حملہ کیا اور اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا اعلان کیا ۔ احتساب بیورو کے موجودہ سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی قیادت میں اس واقعے کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کمیشن بنا مگر اس کمیشن کی رپورٹ کبھی منظر عام پر نہیں آئی۔
بمبئی کے واقعے کے بعد وزیر اعظم کے قومی سلامتی کے مشیر جنرل محمود درانی نے غیر ریاستی کرداروں کے اس معاملے میں ملوث ہونے کی تصدیق کی تھی ۔ وزیر داخلہ رحمن ملک نے بھی یہ بات دھرائی ۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا اور اس وقت کے سی آئی اے کے سربراہ کی ملاقات میں بھی کچھ اسی طرح کی بات ہوئی۔ اب میاں نواز شریف نے اس بات کو دھرایا ہے۔
میاں نواز شریف کی یہ بات درست ہے کہ دنیا ہمارے مؤقف کو ماننے کو تیار نہیں۔ پریس میں اقتصادی دہشتگردی میں ملوث رپورٹ تیار کرنے والے ادارے کے ایجنڈے میں شامل بلیک لسٹ میں پاکستان کا نام شامل ہونے کا معاملہ ہنوز موجود ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پارلیمنٹ کارگل اور بمبئی جیسے اہم معاملات پر تحقیقات کرے۔ نواز شریف کا ایک تاریخی حقیقت دہرانے پر احتساب نہ کیا جائے۔ پارلیمنٹ کی تحقیقات صورتحال کو واضح کردے گی۔