مہاتیر چین کے لیے خطرے کی گھنٹی
مہاتیر کی آمد ملائیشیا کے اندر اور باہر بسنے والے چینیوں کے لیے ایک بڑا جھٹکا ہے۔
اچنبھا کیسا جو مہاتیر ملائیشیا کے پھر سربراہ منتخب ہوگئے۔ وہ عمر رسیدہ ہیں تو بھلا حیرت کس بات کی؟ عوام کا حق ہے کہ وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے جسے چاہیں سرکا تاج بنالیں اور جسے چاہیں سو اسے مسترد کردیں۔ ملائیشیا کے عوام نے اپنے اختیارکا بہ خوبی استعمال کرتے ہوئے نجیب رزاق سے منہ پھیرا اور مہاتیر سے پھر ناتا جوڑا۔ ایسا صرف اس لیے ہوا کہ نجیب نے وعدوں کو وفا کیا اور نہ اپنے کہے کا بھرم رکھا۔
مہاتیر محمد نے گزشتہ سالوں میں رزاق کے طرز حکومت پر با رہا انگلی اٹھائی اور اس کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اسی بنا پر ملائیشیا کے عوام ایک بار پھر مہاتیر کو ہی قومی بقا کا ضامن سمجھنے لگے۔ دنیا کی نظریں اس وقت مہاتیر کے اٹھنے والے ہر قدم پر جمی ہوئی ہیں۔ مہاتیر کا عمومی تاثر ایک سخت گیر اور بے خوف حکمراں کا ہے۔
یہ تاثر وقت کے ساتھ ساتھ مزید توانا ہوا۔ دنیا کو حیرت کا جھٹکا اس وقت لگا جب مہاتیر نے چین کی، ملائیشیا میں بے دریغ سرمایہ کاری پرکڑی تنقید کی۔ چین، جس کی ملائیشیا سے تعلقات کی تاریخ چھ سو سال پرانی ہے، اب مہاتیرکو اس کے بڑھتے قدم بری طرح کھٹکنے لگے ہیں۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ چین مہاتیرکی آمد کے بعد ایک انجانے خوف کا شکار ہوچکا ہے۔ اسے فی الوقت بس یہی فکرکھائے جا رہی ہے کہ ملائیشیا کا نیا حکمراں کس حد تک چین سے روابط برقرار رکھے گا۔
ملائیشیا کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی نسلی طور پر چینی ہے۔ چینی تاجر عرصۂ دراز سے ملاکا کی بندرگاہ پرکپڑے، چائے، خشک میوہ جات اور دارچینی فروخت کرتے چلے آئے ہیں۔ یہاں تک تو ملائیشیا کے عوام انھیں اپنے اندر ضم کرنے کو تیار ہیں لیکن اس سے آگے صرف پریشانیاں اور خدشات ہیں۔ چین کے ساتھ انتہائی قربت پر ملائیشیا کے اقتصادی ماہرین نے آواز بلند کی کہ ہم چین کی بنائی ہوئی اقتصادی قبر میں آہستہ آہستہ دفن ہو رہے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے لاطینی امریکا، امریکا کی تیار کی گئی معاشی قبر میں دفن ہوگیا۔
رفتہ رفتہ چین کی معاشی گرفت ملائیشیا کی اندرونی سیاست پر بھی اثرانداز ہونے لگی اور چین کی معاشی گرفت سے لاتعداد نسلی تنازعوں نے جنم لیا، جس سے ملائیشیا میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا اور پڑوسیوں کے ساتھ ملائیشیائی تعلقات کشیدہ ہوئے۔ نجیب کی چائنا پالیسی کو دیکھتے ہوئے مہاتیر محمد نے کہا کہ ہمیں چین کے اثر سے باہر آنا ہوگا، ورنہ لوکل بزنس سرے سے ہی ختم ہو جائے گا۔ رواں سال جنوری میں مہاتیر محمد نے ایک بلاگ میں لکھا کہ ہماری زمین پر غیرملکیوں کا قبضہ ہے، یہ زمین اب ان کی ملکیت بن چکی ہے۔ ملائیشیا بہت جلد غیرملکیوں ہی کی سرزمین بن جائے گا۔
ملائیشیا کی ریاست ملاکا، چین کے لیے جنوب مشرقی ایشیا میں داخلے کا ایک بڑا دروازہ ہے۔ نجیب کے دورِحکومت میں یہ جگہ بطور خاص چینی سرمایہ کاروں کے لیے ایک جنت بن گئی۔ ایک چینی گروپ کی طرف سے 380 ملین امریکی ڈالر کی لاگت سے لگائی جانے والی گلاس فیکٹری نہ صرف اہم چینی منصوبوں میں سے ایک ہے بلکہ رواں دہائی کی سب سے بڑی سرمایہ کاری بھی ہے۔
اس فیکٹری میں اس وقت آٹھ سو ملازمین کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ چین نے9.8 بلین ڈالر ملاکا کی بندرگاہ کی تعمیر نو میں لگائے ہیں۔ دیگر منصوبوں کے ساتھ ساتھ چین نے ملائیشیا کی حکومت کو بھاری مقدار میں قرضے بھی فراہم کیے اور کئی منصوبوں میں مجموعی طور پر150 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کی۔
چین نے نجیب رزاق کو جانے کون سے سبز باغ دکھائے کہ رزاق نے چین کو ملائیشیا کی حدود میں مکمل آزادی فراہم کردی۔ بین الاقوامی مبصرین کہتے ہیں کہ اکثر یہ گمان گزرتا تھا کہ رزاق چین کے ہاتھوں گویا بِک ہی چکے ہیں۔ لہٰذا یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ رزاق کی حکومت کو چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات ہی لے ڈوبے ۔ نجیب تو چین کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے کی دھن میں اپنے ہوش ہی کھو چکے تھے، لیکن خوش قسمتی سے ملائیشیا کے عوام کے حواس سلامت تھے کہ نجیب سے نجات کا سفر آسانی سے طے ہو گیا۔
2012ء میں چین میں، ژی جن پنگ اقتدار میں آنے کے بعد سے ملائیشیا میں چین، رگوں میں خون کی طرح سرائیت کر گیا اور چین اور ملائیشیا کے دوستانہ تعلقات اپنے عروج کو پہنچ گئے۔ چین نے ملائیشیا سے دو ٹریلین امریکی ڈالر کی درآمدات کا وعدہ کیا جو گزشتہ سال کے مقابلے میں آٹھ گنا زیادہ تھی۔ حزبِ مخالف نے اسی چائنا کارڈ کو نجیب کے خلاف استعمال کیا اور عوام کو یہ باور کروایا کہ نجیب نے چین کے ہاتھوں ملائیشیا کی قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
اس پورے تناظر میں مہاتیر محمد کی انتخابی مہم کا بنیادی نکتہ یہی تھا کہ اگر وہ اقتدار میں آئیں گے تو چین کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پالیسیوں میں قابلِ قدر تبدیلیاں لائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ چین کی اس سرمایہ کاری سے ہمیں کچھ حاصل نہیں ہو رہا، الٹا ہم اس کے مقروض ہوتے جا رہے ہیں۔ یوں مہاتیر کی آمد کے ساتھ ہی چین کا وہ اطمینان رخصت ہوا جس کی چھاؤں میں وہ ملائیشیا کو اپنا دوسرا وطن سمجھ چکا تھا۔
اقتصادی اور سیاسی تجزیہ کاروں کی نگاہ میں مہاتیر چین کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا چکے ہیں۔ اقتدار میں آتے ہی مہاتیر محمد نے بیان دیا کہ ہم ان تمام اقدامات اور معاملات کو زیرغور لائیں گے جو گزشتہ دورِحکومت میں کیے گئے اور ان معاہدوں کو مسترد کردیا جائے گا جو ملائیشیا کے مفاد میں نہیں ہوں گے۔
اس بیان سے چین کے وہ کروڑوں ملین ڈالر خطرے کی نوک پر آگئے ہیں جو اس نے ملائیشیا میں سرمایہ کاری کے نام پر لگائے ہیں۔ خاص طور پر نجیب رزاق کے دور میں شروع ہونے والے گیارہ ہائی پروفائل پروجیکٹ، جن میں چین نے 134بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ ان منصوبوں میں تیرہ چینی کمپنیوں کا حصہ ہے جن کا دائرہ کار رئیل اسٹیٹ سے لے کر صنعتی پارکوں کے قیام تک ہے۔ یہ تمام منصوبے اپنے آغاز میں ہیں۔
ان میں سے ایک منصوبہ ''ایسٹ کاسٹ ریل لنک'' کے نام سے ہے جو خطے میں چین کے لیے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اب مہاتیر ان تمام منصوبوں پر نظرثانی کا ارادہ کر چکے ہیں۔ رہ گیا بیجنگ، جو کل تک رزاق کے ساتھ دوستی کا راگ الاپ رہا تھا، اب مہاتیر محمد کی سیاسی بصیرت کی شان میں رطب اللسان ہے۔ اس کی نظریں مہاتیر کے اٹھنے والے ایک ایک قدم پر گڑی ہوئی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مہاتیر کا جھکاؤ جاپان کی طرف ہے اور وہ چین کے ساتھ تعلقات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔
مہاتیر کی آمد ملائیشیا کے اندر اور باہر بسنے والے چینیوں کے لیے ایک بڑا جھٹکا ہے۔ دنیا کو تو اب دیکھنا فقط یہ ہے کہ مہاتیر کا موجودہ دورحکومت بھی گزشتہ ادوار کی طرح برگ وبار لائے گا یا نجیب رزاق کا پھیلایا ہوا بکھیڑا سمیٹتے سمیٹتے ہی یہ بوڑھا شیر ہانپ کر گر جائے گا۔
مہاتیر محمد نے گزشتہ سالوں میں رزاق کے طرز حکومت پر با رہا انگلی اٹھائی اور اس کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اسی بنا پر ملائیشیا کے عوام ایک بار پھر مہاتیر کو ہی قومی بقا کا ضامن سمجھنے لگے۔ دنیا کی نظریں اس وقت مہاتیر کے اٹھنے والے ہر قدم پر جمی ہوئی ہیں۔ مہاتیر کا عمومی تاثر ایک سخت گیر اور بے خوف حکمراں کا ہے۔
یہ تاثر وقت کے ساتھ ساتھ مزید توانا ہوا۔ دنیا کو حیرت کا جھٹکا اس وقت لگا جب مہاتیر نے چین کی، ملائیشیا میں بے دریغ سرمایہ کاری پرکڑی تنقید کی۔ چین، جس کی ملائیشیا سے تعلقات کی تاریخ چھ سو سال پرانی ہے، اب مہاتیرکو اس کے بڑھتے قدم بری طرح کھٹکنے لگے ہیں۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ چین مہاتیرکی آمد کے بعد ایک انجانے خوف کا شکار ہوچکا ہے۔ اسے فی الوقت بس یہی فکرکھائے جا رہی ہے کہ ملائیشیا کا نیا حکمراں کس حد تک چین سے روابط برقرار رکھے گا۔
ملائیشیا کی تقریباً ایک چوتھائی آبادی نسلی طور پر چینی ہے۔ چینی تاجر عرصۂ دراز سے ملاکا کی بندرگاہ پرکپڑے، چائے، خشک میوہ جات اور دارچینی فروخت کرتے چلے آئے ہیں۔ یہاں تک تو ملائیشیا کے عوام انھیں اپنے اندر ضم کرنے کو تیار ہیں لیکن اس سے آگے صرف پریشانیاں اور خدشات ہیں۔ چین کے ساتھ انتہائی قربت پر ملائیشیا کے اقتصادی ماہرین نے آواز بلند کی کہ ہم چین کی بنائی ہوئی اقتصادی قبر میں آہستہ آہستہ دفن ہو رہے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے لاطینی امریکا، امریکا کی تیار کی گئی معاشی قبر میں دفن ہوگیا۔
رفتہ رفتہ چین کی معاشی گرفت ملائیشیا کی اندرونی سیاست پر بھی اثرانداز ہونے لگی اور چین کی معاشی گرفت سے لاتعداد نسلی تنازعوں نے جنم لیا، جس سے ملائیشیا میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا اور پڑوسیوں کے ساتھ ملائیشیائی تعلقات کشیدہ ہوئے۔ نجیب کی چائنا پالیسی کو دیکھتے ہوئے مہاتیر محمد نے کہا کہ ہمیں چین کے اثر سے باہر آنا ہوگا، ورنہ لوکل بزنس سرے سے ہی ختم ہو جائے گا۔ رواں سال جنوری میں مہاتیر محمد نے ایک بلاگ میں لکھا کہ ہماری زمین پر غیرملکیوں کا قبضہ ہے، یہ زمین اب ان کی ملکیت بن چکی ہے۔ ملائیشیا بہت جلد غیرملکیوں ہی کی سرزمین بن جائے گا۔
ملائیشیا کی ریاست ملاکا، چین کے لیے جنوب مشرقی ایشیا میں داخلے کا ایک بڑا دروازہ ہے۔ نجیب کے دورِحکومت میں یہ جگہ بطور خاص چینی سرمایہ کاروں کے لیے ایک جنت بن گئی۔ ایک چینی گروپ کی طرف سے 380 ملین امریکی ڈالر کی لاگت سے لگائی جانے والی گلاس فیکٹری نہ صرف اہم چینی منصوبوں میں سے ایک ہے بلکہ رواں دہائی کی سب سے بڑی سرمایہ کاری بھی ہے۔
اس فیکٹری میں اس وقت آٹھ سو ملازمین کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ چین نے9.8 بلین ڈالر ملاکا کی بندرگاہ کی تعمیر نو میں لگائے ہیں۔ دیگر منصوبوں کے ساتھ ساتھ چین نے ملائیشیا کی حکومت کو بھاری مقدار میں قرضے بھی فراہم کیے اور کئی منصوبوں میں مجموعی طور پر150 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کی۔
چین نے نجیب رزاق کو جانے کون سے سبز باغ دکھائے کہ رزاق نے چین کو ملائیشیا کی حدود میں مکمل آزادی فراہم کردی۔ بین الاقوامی مبصرین کہتے ہیں کہ اکثر یہ گمان گزرتا تھا کہ رزاق چین کے ہاتھوں گویا بِک ہی چکے ہیں۔ لہٰذا یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ رزاق کی حکومت کو چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات ہی لے ڈوبے ۔ نجیب تو چین کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھانے کی دھن میں اپنے ہوش ہی کھو چکے تھے، لیکن خوش قسمتی سے ملائیشیا کے عوام کے حواس سلامت تھے کہ نجیب سے نجات کا سفر آسانی سے طے ہو گیا۔
2012ء میں چین میں، ژی جن پنگ اقتدار میں آنے کے بعد سے ملائیشیا میں چین، رگوں میں خون کی طرح سرائیت کر گیا اور چین اور ملائیشیا کے دوستانہ تعلقات اپنے عروج کو پہنچ گئے۔ چین نے ملائیشیا سے دو ٹریلین امریکی ڈالر کی درآمدات کا وعدہ کیا جو گزشتہ سال کے مقابلے میں آٹھ گنا زیادہ تھی۔ حزبِ مخالف نے اسی چائنا کارڈ کو نجیب کے خلاف استعمال کیا اور عوام کو یہ باور کروایا کہ نجیب نے چین کے ہاتھوں ملائیشیا کی قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
اس پورے تناظر میں مہاتیر محمد کی انتخابی مہم کا بنیادی نکتہ یہی تھا کہ اگر وہ اقتدار میں آئیں گے تو چین کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پالیسیوں میں قابلِ قدر تبدیلیاں لائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ چین کی اس سرمایہ کاری سے ہمیں کچھ حاصل نہیں ہو رہا، الٹا ہم اس کے مقروض ہوتے جا رہے ہیں۔ یوں مہاتیر کی آمد کے ساتھ ہی چین کا وہ اطمینان رخصت ہوا جس کی چھاؤں میں وہ ملائیشیا کو اپنا دوسرا وطن سمجھ چکا تھا۔
اقتصادی اور سیاسی تجزیہ کاروں کی نگاہ میں مہاتیر چین کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا چکے ہیں۔ اقتدار میں آتے ہی مہاتیر محمد نے بیان دیا کہ ہم ان تمام اقدامات اور معاملات کو زیرغور لائیں گے جو گزشتہ دورِحکومت میں کیے گئے اور ان معاہدوں کو مسترد کردیا جائے گا جو ملائیشیا کے مفاد میں نہیں ہوں گے۔
اس بیان سے چین کے وہ کروڑوں ملین ڈالر خطرے کی نوک پر آگئے ہیں جو اس نے ملائیشیا میں سرمایہ کاری کے نام پر لگائے ہیں۔ خاص طور پر نجیب رزاق کے دور میں شروع ہونے والے گیارہ ہائی پروفائل پروجیکٹ، جن میں چین نے 134بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ ان منصوبوں میں تیرہ چینی کمپنیوں کا حصہ ہے جن کا دائرہ کار رئیل اسٹیٹ سے لے کر صنعتی پارکوں کے قیام تک ہے۔ یہ تمام منصوبے اپنے آغاز میں ہیں۔
ان میں سے ایک منصوبہ ''ایسٹ کاسٹ ریل لنک'' کے نام سے ہے جو خطے میں چین کے لیے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اب مہاتیر ان تمام منصوبوں پر نظرثانی کا ارادہ کر چکے ہیں۔ رہ گیا بیجنگ، جو کل تک رزاق کے ساتھ دوستی کا راگ الاپ رہا تھا، اب مہاتیر محمد کی سیاسی بصیرت کی شان میں رطب اللسان ہے۔ اس کی نظریں مہاتیر کے اٹھنے والے ایک ایک قدم پر گڑی ہوئی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مہاتیر کا جھکاؤ جاپان کی طرف ہے اور وہ چین کے ساتھ تعلقات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔
مہاتیر کی آمد ملائیشیا کے اندر اور باہر بسنے والے چینیوں کے لیے ایک بڑا جھٹکا ہے۔ دنیا کو تو اب دیکھنا فقط یہ ہے کہ مہاتیر کا موجودہ دورحکومت بھی گزشتہ ادوار کی طرح برگ وبار لائے گا یا نجیب رزاق کا پھیلایا ہوا بکھیڑا سمیٹتے سمیٹتے ہی یہ بوڑھا شیر ہانپ کر گر جائے گا۔